Headlines
Loading...
Tu Jo Zindgi He Meri Part 2

Tu Jo Zindgi He Meri Part 2





حنا تو آپ بڑے ابو اور بڑی امی کو بلا کر لائیں مجھے ضروری بات کرنی ہے ان سے اسنے گہرہ سانس لیتے ہوۓ کہا وہ

 زندگی میں پہلی بار اپنے کسی عمل سے ڈر رہا تھا وہ نہیں جانتا تھا کے بی جان کا ری ایکشن غصے میں ہوگا اور آج تک وہ بی جان کی کسی بات کو رد نہیں کرتا آیا تھا لیکن اس بار اسکی غلطی بہت بڑی تھی خاص کر بی جان کے سامنے لیکن وہ کب تک بی جان کو دھوکے میں رکھتا
جی میں بلا کر لاتی ہوں حنا اَحمد صاحب اور نصرت بیگم کو بلانے چلی گئی
کیا بات ہے حسنین کیا کِیا ہے تُم نے بی جان اسکے چہرے کو پڑھنا جانتی تھی اس لیے انہیں پہلے سے ہی کسی اَن ہونی کا خدشہ محسوس ہونے لگا
بی جان ابھی پتا لگ جائے گا آپکو حسنین نے بی جان کاہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیا
آگئے برخودار کہاں غائب تھے کل سے اَحمد صاحب لاٶنج میں داخل ہوے تو اسے ڈپتے ہوۓ کہا
اور حسنین کے سامنے والے صوفے پر بیٹھ گئے نصرت بیگم اور حنا بھی انکے ساتھ تھیں
بی جان اور بڑے ابو میں نے اپنا بدلا لے لیا حسن جیلانی سے
بی جان نے اس کے ہاتھ میں اپنے ہاتھ کو دیکھا اور انہوں نے اپنے ہاتھ کو اسکی گرفت سے آزاد کرنا چاہا
حسنین نے ان کا ہاتھ چھوڑ دیا
کیا کِیا ہے تم نے شاہ تم نے میری بات کو اہمیت نہیں دی بی جان اسے غصے بھری نظروں سے دکھا جو اپنا سر جھکائے ہوۓ بیٹھا تھا
بی جان میں نے حسن جیلانی کی بیٹی سے نکاح کیا ہے یہ کہہ کر وہ خود کو بی جان کے رد عمل کے لے تیار کرنے لگا
یہ کیا بکواس ہے شاہ تم نے کب نکاح کر لیا اور ہمیں بتانا تک گوارا نہیں کیا بی جان نے اس کے چہرے پر اتار چڑھاٶ کو دیکھتے ہوۓ کہا
ہاں بی جان میں نے نکاح کر لیا اور میں نے حسن جیلانی کی بیٹی سے زبردستی نکاح کیا ہے وہ بولنا شروع ہوا تو سب کچھ بولتا چلا گیا
اسکی چلتی ہوٸی زبان بی جان کے تھپڑ سے بند ہوٸی زندگی میں پہلی بار بی جان نے اس پر ہاتھ اٹھایا تھا
وہ اپنے چہرے پر ہاتھ رکھے بی جان کو دکھ سے دیکھنے لگا
کیا دیکھ رہے ہو یہ تھپڑ تو مجھے تبھی لگا دینا چاہیے تھا جب تم نے انتقام بدلے کی رٹ لگائی ہوٸی تھی لیکن افسوس میں نے آج تک پر ہاتھ نہیں اٹھایا اگر پہلے اٹھاتی تو آج یہ نوبت نا آتی
تم نے میرے پرورش پر سوالیہ نشان اٹھا دیا ہے آج۔۔ یہ سب تو میں نے تمہیں نہیں سکھایا تھا
کس منہ سے میرے پاس آئے ہو اب میں مر جاتی پھر آتے تم اور تب بھی میں تمہیں اپنا چہرہ نا دکھاتی سچ کہتے ہیں ماں کوئی نہیں بن سکتا اسی طرح آج مجھے سبق ملا ہے کے میں کبھی تمہاری ماں کی طرح نہیں بن سکی
بی جان نے روتے ہوۓ کہا
tu%2Bjo%2Bzindgi%2Bho%2Bmeri
بی جان ایسا نہیں ہے وہ تڑپ اٹھا تھا
نہیں کہو مجھے بی جان مر گئی تمہارے لیے آج سے بی جان جاٶ چلے جاٶ یہاں سے
جاؤ شاہ میں ابھی تمہارا چہرہ تک نہیں دیکھنا چاہتی بی جان کا سانس پُھولنے لگا
بھی جان آپ میری بات تو سن لیں وہ بی جان كے قدموں میں بیٹھ گیا
مجھے کچھ نہیں سننا چلے جاؤ یہاں سے نہیں تو میرا مرا ہوا منہ دیکھو گے بھی جان نے کانپتی آواز میں کہا
حسنین اٹھ کھڑا ہوا اور اَحمد صاحب كے پاس گیا بڑے ابو آپ تو میری بات سمجھیں حسنین نے آخری کوشش کی
حسنین بہت غلط کیا ہے تُم نے میں نے تمہیں کہا بھی تھا تمہیں ابھی آدھا سچ پتا ہے لیکن تُم نے جلد بازی کر كے سب کچھ تباہ کر دیا اَحمَد صاحب نے حسنین کو دیکھنے سے گوریز کیا
اور بی جان کے پاس گئے جنکی طبیعت خراب ہونا شروع ہوگئی تھی
اَحمَد اسے کہو وہ بچی مجھے آج شام تک اس گھر میں چاہیے سہی سلامت اس بچی کا کیا قصور ہے یہ تو سب رشتے بھول بیٹھا ہے جس کو بیوی بنایا ہے اس کا پہلے سے اس گھر میں اک رشتہ تھا لیکن اسے کب پرواہ تھی بی جان نے اسے دکھ سے دیکھتے ہوئے کہا اور حنا کا سہارا لے کر اپنے کمرے میں چلی گئی
حسنین نے اپنے ہاتھوں کو مٹھی کی صورت بند کیے اور باہر کی جانِب قدم بڑھا دیے
کیوں کے اب اسے بی جان کو اور تکلیف نہیں دینی تھی وہ ماہ رخ کو لے آنے کے لیے روانہ ہوا
. . . . . . . . .
حسن کہاں جا رہے ہیں آپ فرزانہ بیگم نے حسن شاہ کو گاڑی کی چابی اُٹھاتے ہوئے دیکھا تو مخاطب کیا
شاہ ہاؤس جا رہا ہوں اَحمَد جیلانی نے مختصر جواب دیا اور کمرے سے باہر قدم بڑھائے
. . . . . .
ماہ رخ پورے گھر کا کام کر كے کمرے میں آرام کرنے كے غرض سے آئی تو اے. سی کی کولنگ کمرے میں بہت تھی اسے نیند آنے لگی اسنے ٹائم دیکھا تو پانچھ کا ٹائم ہو رہا تھا وہ سونے کا سوچتے ہوۓ اپنا دوپٹہ صوفے پر رکھ کر خود بیڈ پر لیٹ گئی

حسنین گھر پہنچا تو لاٶنج میں چند ملازمین اسے نظر آئے وہ خود کو ریلیکس کرنے کے غرض سےلاٶنج میں بیٹھ گیا ابھی اس کا دِل ماہ رخ کو دیکھنے کا نہیں کر رہا تھا اسے لگ رہا تھا وہ اپنا سارا غصہ ماہ رخ پر نکال دیگا
لیکن کب تک وہ ایسے ہی بیٹھا رہتا بی جان کا حکم تھا کے وہ ماہ رخ کو بی جان کے پاس لے کر جائے گا
وہ آرام سے چلتا ہوا اپنے کمرے میں آیا تو وہ سوئی ہوی نظر آئی وہ اسکے وجود کو نظرانداز کرتا ہوا فریش ہونے چلا گیا واپس آیا تو ماہ رخ ابھی بھی دُنیا جہاں سے بے خبر نیند میں گم تھی
حسنین کی نظر اسكے جلے ہوئے ہاتھ پر پڑی تو نا جانے کیوں اسکی نظریں جھک گئیں وہ کچھ دیر تک ڈریسنگ ٹیبل پر اپنے ہاتھ رکھے جھکا کھڑا رہا اور پھر وہ ماہ رخ كے پاس آکر بیٹھ گیا اسكے جلے ہوئے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لینے لگا لیکن وہ ایسا نہیں کر سکا وہ خود کو گناہ گار تصور کر رہا تھا وہ اسکے اوپر اچھے سے چادر ڈال کر جلدی . سے اٹھ کر کمرے سے باہر نکلتا چلا گیا
ایک آنسُو چُپکے سے ماہ رخ كے گال پر پھسلتا چلا گیا اس نے اپنی آنکھیں کھولی تو وہ کمرے میں نہیں تھا وہ جاگ رہی تھی لیکن اس کا دِل نہیں کر رہا تھا حسنین کو دیکھنے کا
تم اب کیوں اتنی ہمدردی دکھا رہے ہو آخر کیوں حسنین شاہ کیوں کیا آپ نے میرے ساتھ ایسا وہ خود سے باتیں کر رہی تھی وہ صرف روئی تھی ان دو دنوں میں اور ابھی بھی وہ اپنا چہرہ تکیےمیں چھپا کر رونے لگی
وہ نیچے لاٶنج میں آیا تو سگریٹ کے کش لینے لگا جب وہ پریشان ہوتا تھا تو اسکی عادت تھی وہ سگریٹس زیادہ پیتا تھا
حسنین نے پیر ٹیبل پر رکھے اور صوفے پر آنکھیں بند کیے سگریٹ پی رہا تھا جب اسکے موبائل پر کال آئی
اس نے بے زاری سے فون اٹھایا
ہاں بولو جنید اسے پتا تھا جنید کی کال ہوگی
حسنین کیسے ہو اور تم نے بتایا بی جان کو جنید فکرمند لہجے میں پوچھنے لگا
ہاں بتا دیا اور بی جان کا حکم ہے انکی بہو کو گھر لے کر آٶں حسنین کی آنکھیں درد کر رہی تھیں
تو کیا کہا تُم نے اور بھابھی کو لے کر جا رہے ہو پِھر جنید کی جانِب سے اگلا سوال ہوا
ہاں آج شام لے کر جاؤں گا اور ابھی میں کال کاٹ رہا ہوں سَر میں دَرد ہے حسنین نے کہہ کر فون ٹیبل پر پھینکا اور پِھر صوفے سے ٹیک لگا کر لیٹ گیا
ابھی صرف وہ خود کو نارمل رکھنا چاہتا تھا
حسن جیلانی شاھ ہاٶس پہنچے تو گارڈ نے انہیں باہر گیٹ پر روک لیا
سَر آپ اندر نہیں جاسکتے آپکو جس سے ملنا ہے بتا دیں گارڈ نے کہا
اندر جاؤ اور کہو حسن جیلانی آیا ہے حسن جیلانی نے غصے میں کہا
گارڈ نے اندر فون کر كے حسن جیلانی کے آنے کی اطلاع احمد صاحب کو دی
اَحمَد صاحب کچھ دیر میں خود باہر گھر سے باہر نکل آئے اور حسن جیلانی کی گاڑی کی طرف آئے
آجاؤ حسن اَحمد صاحب نے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا
حسن جیلانی اَحمد صاحب کی ہمراہی میں چلتے ہوئے گھر كے اندر داخل ہوئے اس دوران دونوں خاموش رہے
بی جان حسن جیلانی آیا ہے اَحْمد صاحب نے بی جان کو مخاطب کیا
بی جان تخت سے اٹھی اور گرم جوشی سے حسن صاحب سے ملیں کیسے ہو حسن بی جان نے ان سے خیر خیریت دریافت کی
اور انہیں اپنے سامنے رکھے صوفےپر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔۔۔
میں ٹھیک ہوں لیکن میری بیٹی کہاں ہے بی جان حسن صاحب نے لہجے کو ذرا دھیمہ رکھا
بی جان اور اَحمد صاحب نے اک دوسری کو دیکھا
حسن تمہاری بیٹی محفوظ ہے بی جان نے اتنا سا جواب دیا اور اپنی نظریں چورانے لگیں
تو میرا شک سہی نکلا میری بیٹی آپ لوگوں کو پاس ہے کیوں کیا یہ سب کیا قصور تھا میری بچی کا بی جان اور کہاں ہے میری ماہ رخ مجھے اپنی بچی سے ملنا ہے حسن جیلانی زخمی شیر کی طرح لگ رہے تھے انہیں دھچکا لگا تھا
تمہارے بھانجے كے پاس ہے تمہاری بیٹی بی جان نے تحمل سے جواب دیا
بی جان میں سمجھا نہیں بات کو حسن صاحب نے سوالیہ نظروں سے بی جان کو دیکھا
مطلب ہانیہ كے بیٹے نے شادی کر لی ہے تمہاری بیٹی سے ہانیہ کو تو جانتے ہوگے نا
۔ بی جان نے اپنے لہجے کو سر سری سا رکھا لیکن انکی بات میں ایسا بہت کچھ تھا جس سے حسن صاحب کے آنکھوں میں پانی آگیا ہانیہ جیلانی کا خوبصورت چہرہ انکی آنکھوں کے سامنے چھن سے اکڑ کر غائب ہو گیا
بی جان یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں میری ہانیہ کو میں کیسے بھول سکتا ہوں لیکن ہانیہ کا بیٹا کیسے کر سکتا ہے سب میں نے تو سنا تھا وہ بھی ہانیہ اور حماد کے ساتھ تھا اس ہادثے میں اور اس نے میری بیٹی کو کیوں اْٹھایا حسن صاحب کا سَر گھوم رہا تھا سوچ سوچ کر وہ تو آج تک یہی سمجھتے آئے تھے کے حسنیں بھی نہیں رہا اس دنیا میں لیکن یہ سب کیا تھا جو وہ ابھی سن رہے تھے
حسن حسنین اس رات میرے ساتھ وہ حماد لوگوں کے ساتھ نہیں تھا اور حسنین کو لگتا ہے اس كے باپ کو تم نے مروایا ہے وہ تب 8 سال کا بچہ تھا جب یہ سب ہوا اسے ہم نے پوری سچائی نہیں بتائی تھی لیکن وہ اپنے وعدے کا پکا نکلا اور تم سے بدلہ لینے كے لیے تمہاری بیٹی سے نکاح کیا
بی جان وہ سب اک حادثہ تھا اور میں نے نہیں مارا حماد اور ہانیہ کو میں کیوں ماروں گا اپنی بہن اور اسکے سہاگ کو حسن صاحب کا غصہ اب جھاگ کی طرح بیٹھ گیا تھا بہت سال پہلے میری بہن نے پسند سے شادی کی تھی حماد سے لیکن میری بیٹی تو پسند نہیں کرتی تھی حسنین کو پِھر اس نے میری بیٹی سے کس گناہ کا بدلہ لیا وہ مجھ سے لے لیتا بدلا لیکن اس نے کیوں کیا ماہ رخ کے ساتھ ایسا حسن صاحب نے اپنی آنکھوں میں آئی نمی کو صاف کرتے ہوئے کہا
حسن ماہ رخ ویسے بھی ہماری امانت تھی ہانیہ ہمیشہ کہتی تھی میں اپنے حسنین كے لیے ماہ رخ لوں گی تو اب اس کی خواہش پوری ہو گئی ہوگی بی جان نے اسے حسن سے ہانیہ کی سالوں پرانی خواہش کا اظہار کیا
بہت سے آنسو بی جان کی آنکھوں سے نکل آئے
لیکن بی جان اس طرح سے رشتے نہیں بنتے ہانیہ نے ہماری عزت کا نہیں سوچا وہ حماد کو پسند کرتی تھی اس نے ہمیں دھوکا دے کر بھاک کر شادی کر لی لیکن میری بچی معصوم ہے میں یہ فریاد لے کر اب کہاں جاؤں حسن صاحب رونے لگے انکی نازوں سے پلی بیٹی ان کے گناہ كی سزا کاٹ رہی تھی جو گناہ حسن سے سر زد ہوا ہی نہیں تھا
بی جان آپ حسنین کو بلائیں میں بات کروں گا اس سے آج سب صاف کھل کر آنا چاہیئے حسن صاحب نے سنجیدگی سے کہا
حسن آج اک بڑھی دادی تم سے اپنے پوتے کی خوشیوں کی بھیک میں مانگ رہی ہے ابھی حسنین کچھ نہیں سمجھے گا اسے سب جھوٹے لگیں گے تم کچھ ٹائم دے دو پِھر آنا یا میں خود بلا لوں گی تمہیں
لیکن ابھی کچھ بھی مت کرو جو جیسا چل رہا ہے چلنے دو بی جان نے حسن صاحب کے سامنے ہاتھ جوڑ لیے
یہ کیا کر رہی ہیں آپ بی جان حسن صاحب اٹھ کر بی جان کے پاس آئے اور ان كے ہاتھ پکڑ لیئے
بی جان لیکن میری ماہ رخ اس کا کیا ہو گا حسن صاحب نے پریشانی سے کہا
میں وعدہ کرتی ہوں تمہاری بیٹی خُوش رہے گے یہاں اور حسنین کو تمہاری ماہ رخ سمجھا سکتی ہے میاں بیوی كے رشتے میں بہت طاقت ہوتی ہے وہ سدھار لے گی حسنین کو بی جان نے مسکراتی آواز میں کہا
لیکن بی جان اگر اس نے میری بچی کو کچھ کیا تو حسن صاحب فکرمند سے کہنے لگے
کچھ نہیں کرے گا حسنین ایسا نہیں ہے وہ صرف دکھ اور تکلیف میں ہے لیکن
مجھے اس پر یقین ہے وہ کسی عورت پر کبھی ہاتھ نہیں اُٹھائے گا اور جو غلطی اس نے کی ہے اس کا احساس بھی بہت جلد اسے ہوگا بی جان نے حسن صاحب کو یقین دہانی کرائی
ٹھیک ہے بی جان لیکن صرف دو ماہ انتظار کروں گا
اس كے بعد میں پِھر سے واپس آؤں گا حسنین میری ہانیہ کا بیٹا ہے پورے گھر کی جان تھی ہانیہ كے اندر لیکن کون جانتا تھا اتنی جلدی وہ سب کچھ ختم کر جائے گی
لیکن اب میں چلتا ہوں میری بچی کا خیال رکھیے گا آپ سب

بہت معصوم ہے وہ موم کا دِل ہے اس کا اور ان شاء اللہ،، اللہ نے چاہا تو وہ حسنین کو سیدھی راہ پر لے آئے گی حسن صاحب کہہ کر اٹھ کھڑے ہوئے اور بی جان سے مل کر اَحمد صاحب كے ساتھ باہر آئے
اَچّھا اَحمد اب میں چلتا ہوں میری بچی کا خیال رکھنا حسن صاحب اَحمَد صاحب سے ملتے ہوئے کہنے لگے
تم ٹینشن نہیں لو میرے لیے وہ حنا جسی ہوگی ہم تمہاری بچی کا اچھے سے خیال رکھیں گے اور آج حسنین ماہ رخ کو گھر لے آئے گا
میں تمہاری بات کرا دوں گا فون پر ماہ رخ سے احمد صاحب نے ان کی پریشانی بھانپتے ہوۓ کہا
اچھا میں انتظار کروںگا پھر تمہارےفون کا اب اجازت دو حسن اور احمد صاحب نے آپس میں مصافہ کیا اور حسن صاحب اپنی گاڑی میں بیٹھ کر گھر کے لیے روانہ ہوئے
. . . . . . . . . . . . .
حسنین ماہ رخ کو نیند سے اٹھانے کی غرض سے کمرے میں آیا تو وہ پہلے سے نیند سے جاگ چکی تھی
جلدی سے اچھی طرح تیار ہو جاٶ
میں آج تمہیں اپنے گھر والوں کے پاس لےجا رہا ہوں یہاں تمہاری وجہ سے رہنا پڑ رہا تھا اور وہاں جا کر تم سب سے کہو گی تم میری ساتھ خُوش ہو حسنین نے اسے دھیمے لہجے میں کہا
ماہ رخ نے کوئی جواب نہ دیا اور فریش ہونے چلی گئی واپس آئی تو حسنین لیپ ٹاپ پر کام کر رہا تھا
وہ گھبرا رہی تھی یوں حسنین کے سامنے تیا ر ہونا اسے عجیب لگ رہا تھا
لیکن وہ اپنے قدم اُٹھاتی آئینے كے سامنے کھڑی ہوئی لائٹ پنک ڈریس میں وہ بہت نکھری ہوئی لگ رہی تھی
وہ اس کمرے سے بھاگ جانا چاہتی تھی لیکن یہ بھی حسنین کا حکم تھا کے وہ اسی کمرے میں تیار ہوگی اور اسکی ہر بات مانے گی تو وہ کیسے ٹال سکتی تھی
وہ ڈریسنگ ٹیبل سے برش اٹھا کر اپنے سلکی بالوں میں پھیرنے لگی
ماہ رخ کو اپنے اتنے لمبے بال پسند نہیں تھے وہ کبھی کبھی اپنے بالوں سے تنگ آجاتی تھی
لیکن سب کو اس كے بال پسند تھے تو وہ کٹنگ نہیں کرواتی تھی
حسنین یہ سب غور سے دیکھ رہا تھا كے ماہ رخ کو بالوں میں برش کرنے سے مشکل ہو رہی ہے لیکن اسے ماہ رخ کو غصے میں دیکھنا اَچّھا لگ رہا تھا آخر تھک ہار کر ماہ رخ نے اپنے بالوں کو سلجھا لیا اور انکا جُوڑا کیا
پھر سَر پر اچھے سے حجاب کرنے لگی حسنین کی اک ہارٹ بیٹ مس ہوئی اسکا دل عجیب ہی دہن گا رہا تھا وہ سَر جھٹک کر خود ڈپتا ہوا کمرے سے باہر چلا گیا
۔۔۔۔۔۔
ماہ رخ اسکی نظریں اپنے وجود پر محسوس کر رہی تھی لیکن اسکے کمرے سے جاتے ہی اسنے سکون کا سانس لیا
وہ حجاب کر کے ابھی کمرے سے نلکنے والی تھی کے نور کمرے میں آئی
ماہ رخ بی بی آپ کو حسنین صاحب بلا رہے ہیں نور نے اپنی آنکھیں اس پر سے ہٹا دی وہ نہیں چاہتی تھی کے ماہ رخ کو اسکی نظر لگ جائے
اچھا بس میں آرہی ہوں اور آپ بھی آتی رہنا نا حسنین کے گھر ۔۔ پھر ہم مل لیا کریں گے اسنے نور کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوۓ کہا
جی میں آٶں گی وہاں ابھی آپ جلدی سے چلیں صاحب غصے کے تیز ہیں کہیں آپ پر غصہ نا کریں نور نے ڈرتے ہوۓ کہا
وہ نور سے مل کر باہر پارکنگ کی طرف آئی اور گاڑی میں بیٹھی
حسنین پہلے سے ہی ڈرائیونگ سیٹ پر موجود تھا وہ فرنٹ سیٹ پہ بیٹھ گئی ماہ رخ کو حسن صاحب اور فرزانہ بیگم شدت سے یاد آنے لگے
وہ پھر سے وہی سب یاد کرنے لگی کے کیسے حسنین نے اس سے زبردستی نکاح کیا تھا
بہت سے آنسو اس كے گال پر آئے اسنے بے دردی سے اپنے آنسوں صاف کیے وہ نہیں چاہتی تھے حسنین اسے روتا ہوا یا کمزور پڑتا دیکھے

وہ شاہ ہاؤس پہنچے تو حسنین نے اسے بھی گاڑی سے اترنے کا کہا
وہ اپنا بھاری ڈریس سنبھالتی ہوئی گاڑی سے نکلی یہ بھی حسنین کاحکم تھا کے اسے اتنا بھاری ڈریس پہن کر شاہ ہاؤس چلنا ہوگا
وہ آرام سے چلتی ہوئی اسکے پیچھے پیچھے شاہ ہاؤس میں داخل ہوی اسے وہ گھر نہیں محل لگ رہا تھا محل سے کم تو جیلانی ہاؤس بھی نہیں تھا جہاں وہ پلی بڑھی تھی وہ اپنے انسوں پیتی اسکے پچھے ہی چل رہی تھی
اسے ڈر تھا کے پتا نہیں حسنین کے گھر والے اس سے کیسا سلوک کریں گے لیکن اسکی سب سوچوں کو بریک تب لگا جب اسکے اوپر گلاب کی پتیوں کی بارش ہوی وہ حیران و پریشان اپنے سامنے ہنستے ہوے لوگوں کو دیکھنے لگی جو اس کے آنے کا بے چینی سے انتظار کر رہے تھے
سب سے پہلے بی جان نے آگے بڑھ کر اسے اپنے سینے سے لگایا
وہ بی جان کی گرم جوشی سے ملنے پر بہت خوش ہوی تھی
پھر باری باری سب نے اسے اپنا تعارف کرایا
بی جان اسے اپنے حصار میں لیے لاونج میں لے کر آئی
حسنین تب تک اس سب میل جول سے اکتا چکا تھا اس لیے وہ اپنے کمرے میں چلا گیا
ماہ رخ آہستہ آہستہ سب کے ساتھ گھل مل رہی تھی اسے حسنین کے گھر والے بہت پیارے لگے تھے
وہ دل سے مشکور تھی اتنی پیار اور عزت کا جو بس کچھ ہی گھنٹوں میں اسےملا تھا
حنا حسنین اپنے کمرے میں ہوگا اسے وہیں کھانا دے کر آو بی جان کو حسنین کی فکر ستا رہی تھی
جی بی جان میں دے کر آتی ہوں انہیں کھانا اور باقی سب نے ایک ساتھ کھانا کھایا
حنا بہو کو حسنین کے کمرے تک چھوڑ کر آؤ بی جان کو جب نیند آنے لگی تو وہ حنا سے کہنے لگی
جی بی جان اسنے صرف مختصر جواب دیا اور ماہ رخ کو لیے حسنین کے کمرے کے جانب قدم بڑھائے
وہ اسے کمرے کے باہر ہی چھوڑ کر جب پیچھے مڑی تو اسکی نظر ماہ رخ کے چہرے پر پڑی اسکا ضبط کے مارے منہ لال ہو گیا تھا
حنا نے اسکے شانے پر ہاتھ رکھا تو اسنے چونک کر اسے دیکھا
کچھ نہیں اتنی ٹینشن نہیں لو اورحسنین دل کے برے نہیں ہیں اللہ نے چاہا تو بہت جلد سب ٹھیک ہو جائے گا اب تم جاؤ اندر حنا نے اسے اندر بھیجا اور خود واپس مڑ گئی
اسنے جیسے ہی کمرے میں قدم رکھا تو حسنین اسے کھڑکی کے سامنے کھڑا کسی سے فون پربات کرتانظر آیا وہ وہیں اس خوبصورت بلیک اور وائیٹ کومبینشن میں اچھے سے ڈیکوریٹ اس کمرے کو دیکھنے لگی
حسنین فون کال سے فارغ ہوا تو اس کی
نظر ڈری سہمی سی ماہ رخ پر گئی جو سر جھکائے کسی مجرم کی طرح کھڑی تھی
حسنین کو اب خود غصہ آرہا تھا کے وہ کچھ بولتی کیوں نہیں اپنے دفاع میں بات کیوں نہیں کرتی لیکن ابھی کے لیے وہ اپنے ذہن سے باقی ساری سوچوں جھٹک کر فریش ہونے چلا گیا
واپس آیا تو ماہ رخ کی غیر دماغی دیکھ کر اسے غصہ تو بہت آیا لیکن وہ چپ رہا
سو جاؤ ایسے کیا کھڑی ہو نیند نہیں آرہی وہ دھیمے لہجے میں بات کرنے لگا
آرہی ہے لیکن میں کہاں پر سوؤں؟ اسنے عجیب سوال کیا لیکن حسنین نے اگے سے جواب دیا
کہیں بھی سو جاو بس بیڈ پر نہیں سو سکتی اب جلدی سے سو جاو مجھے بھی نیند آرہی ہے وہ اسے کہہ کر خود سونے کے لیے بیڈ پر لیٹ گیا
جب کے ماہ رخ نے جلدی سے فریش ہو کر پہلے نماز ادا کی پھر سونے کے لیے لیٹی اور خود کو سر سے لے کر پیر تک چادر میں چھپا لیا
حسنین رات کے کسی پہر آنکھ کھلی تو وہ خود نئ کو اچھے سے چھپائے نیند میں گم تھی
حسنین کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی
اور وہ پھر سے سونے کی کوشش کرنے لگا
۔۔۔۔۔۔
حسنین کی آنکھ کھلی تو ماہ رخ نماز پڑھ رہی تھی حسنین بنا پلک جھپکائےاسے دیکھنے لگا
وہ نماز پڑھ کر دعا کرنے لگی بہت سے آنسو اس كے گال بھگو گئے
وہ دِل ہی دِل میں دعا کرنے لگی ماہ رخ کو حسنین کی آنکھوں كی تپش اپنے اوپر محسوس ہوئی لیکن وہ دعا میں مصروف رہی اور اٹھ کر جائےنماز کو تہہ لگا کر رکھا پِھر قرآن پاک کی تلاوت کرنے لگی
حسنین کا دِل نہیں کر رہا تھا کہ وہ اپنی نظریں ماہ رخ سے ہٹائے
ماہ رخ کو اب حسنین سے کوئی دشمنی نہیں تھی ناجانے کیوں لیکن ماہ رخ کو حسنین دِل کا برا نہیں لگتا تھا
وہ بھی سَر جھٹک کر بستر سے اٹھا اور فریش ہونے چلا گیا
آج نماز نہیں پڑھ سکا لیکن قضہ پڑھ لی اور موبائل فون اٹھا کر کمرے سے باہر چلا گیا
. . . . . .
حسن آپ نے میری بچی وہاں اکیلی چھوڑ دی ہے نا جانے کس حال میں ہوگی میری بچی فرزانہ بیگم کو جب سے حسن صاحب نے بتایا تھا وہ بن پانی كی مچھلی کی طرح تڑپ رہیں تھیں
کچھ نہیں ھوگا آپ خوامخواہ میں ٹینشن لے رہی ہَیں اور بی جان نے وعدہ کیا ہے وہ ہماری ماہ رخ کا خیال رکھے گیں حسن صاحب نے فرزانہ بیگم کو تحمل سے سمجھایا
حسن میری جان جا رہی ہے آپ بول رہے ہیں ٹینشن نہ لوں بس مجھے اپنی بچی کو ایک بار دیکھنا ہے صِرف ایک بار فرزانہ بیگم ماں تھی ماں کو تو تب تک سکون نہیں ملتا جب تک وہ اپنے بچے کو اپنے آنکھوں سے نہ دیکھ لے
فرزانہ بیگم صِرف دو مہینوں کی بات ہے پِھر آپ کی بیٹی آپ كے پاس ھوگی میں لے کر آؤنگا اپنی ماہ رخ کو آپ مجھ پر اعتبار کر لیں میں نہیں چاہتا یہ دشمنی اب بھی ہم دونوں خاندانوں كے بیچ رہے اور میرا تو کوئی قصور بھی نہیں لیکن ہانیہ کا بیٹا مجھے قصوروار ٹھرا رہا ہے حسن صاحب کی آنکھوں میں آنسو تھے کیوں كے ہانیہ جیلانی انکی لاڈلی اور بہت خوبصورت بہن تھیں حنیہ جیلانی کو حماد شاہ نے کالج میں دیکھا تھا اور پِھر وہ اپنا دِل ہار بیٹھے کچھ ٹائم بَعْد حماد نے اپنی محبت کا اظہار حنیہ سے کیا
حنیہ جیلانی بھی حماد شاہ کو دِل دے بیٹھی تھیں لیکن اُنہیں پتہ تھا ان كے والد مہراب شاہ کبھی اس رشتے كے لیے رازی نہیں ہونگے اور یوں حنیہ جیلانی نے بھاگ کر شادی کر لی جس كے بَعْد سے جیلانی اور شاہ خاندان دونوں کی آپس میں دشمنی ہو گئی
حسنین آٹھ سال کا تھا جب حماد صاحب اور حنیہ کی روڈ حادثے میں موت ہوگئی لیکن سب کا یہی کہنا تھا كے یہ روڈ حادثہ نہیں تھا حماد شاہ کو حسن شاہ نے مروایا ہے اور تب سے لے کر آج تک حسنین کو حسن جیلانی سے نفرت تھی اس ٹائم حسنین کا کچا دماغ تھا بی جان حسنین کو لے کر کچھ سالوں كے لیے لندن شفٹ ہو گئیں تھیں انھیں بھی کہیں نہ کہیں شق تھا كے حماد شاہ کو حسن جیلانی نےمروایا ہے لیکن اَحْمَد صاحب نے جب معاملے کی تفتیش کرائی تو حسن جیلانی بے قصور نکلے اور یوں بی جان اور اَحْمَد شاہ نے اپنے دِل صاف کر لیئے تھے لیکن حسنین کو اب بھی لگتا تھا كے اس كے بابا کو حسن شاہ نے مروایا ہے جب كے حسنین کو یہ بھی پتہ تھا كے حسن شاہ اس كے ماموں ہَیں لیکن اسے اس سب سے کوئی غرض نہیں تھی
ماہ رخ حنیہ بیگم کی کاپی تھی ماہ رخ نے حنیہ کی خوبصورتی چرائی تھی
. . . . . . . . .
نصرت میں حیران رہ گئی تھی اس بچی کو دیکھ کر مجھے تو ہانیہ کی کاپی لگی ہے اک اک نین نقش ہانیہ سے چرایا ہے اسنے بی جان اور نصرت بیگم لائنج میں بیٹھیں ماہ رخ کی باتیں کر رہی تھیں جب ماہ رخ بھی ان کی ساتھ اکر بیٹھ گئی

اور بی جان كے سامنے اپنا سَر جھکایا بی جان نے محبت سے اسے گلے سے لگایا اور ماتھا چوما
میں بھی کب سے تمہارا انتظار کر رہی تھی ادھر بیٹھو میری ساتھ بھی جان نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ بیٹھا لیا
ماہ رخ ہلکا سہ مسکرا کر چُپ ہو گئی کیوں كے سامنے سے حسنین آتا ہوا دکھائی دیا وہ آفس جانے كے لیے تیار تھا وائٹ شرٹ بلو کوٹ اور بلو پینٹ میں ملبوص اچھے سے بال سیٹ کیئے اک ہاتھ میں گاڑی کی چابی دوسرے ہاتھ میں اپنا قیمتی موبائل لیئے وہ بی جان كے پاس آیا
بی جان میں چلتا ہوں حسنین نے جھک کر بی جان كے سر پر بوسَہ دیا
ناشتہ تو کر لو پِھر چلے جانا اتنی جلدی کیا ہے بی جان نے اسے ڈانٹا
بھوک نہیں ہے اور آفس میں کھا لوں گا آپ اپنا خیال رکھیئے گا حسنین نے اک نظر ماہ رخ کو دیکھا جو لائٹ پنک ڈریس میں بالوں میں کیچر لگائے حسنین کو نظر انداز کرنے میں مصروف تھی
ماہ رخ نے حسنین کو دیکھا جو اسے ہی دیکھنے میں مصروف تھا ماہ رخ نے نظر جھکا کر سَر پر دوپٹہ لے لیا
حسنین ماہ رخ کا غصے سے لال ہوتا چہرہ دیکھ کر محظوظ ہو رہا تھا لیکن پِھر اک جاندار مسکراہٹ اس کے چہرے پر آئی جو اس نے بڑی مہارت سے چھپا لی اور گھر سے باہر نکل گیا
توبہ ہے دیکھتے ایسے ہَیں جیسی پہلے کبھی کوئی لڑکی دیکھی نہ ہو میں بھی تو نا جانے کیوں اتنی کنفیوژ ہو جاتی ہوں کھا تھوڑی جائیں گے وہ مجھے ماہ رخ اپنی ہی سوچ میں گم تھی
کیا ہوا بیٹا کہاں گم ہو چلو آؤ آج ایک ساتھ ناشتہ کرتے ہَیں بی جان نے اسے اپنے ساتھ لیا اور اندر کی جانب بڑھیں
حنا کو ماہ رخ پر رَشْک آرہا تھا اللہ ان دونوں کو ہمیشہ خوش رکھے حنا نے دِل سے دعا دی اور ماہ رخ اور بی جان کے پیچھے اندر چکی گئی

کچھ تو بات ہے اس لڑکی میں حسنین شاہ تُم نے بہت غلط کیا ہے
لیکن اب کیا ہو سکتا ہے اب وہ میری عزت ہے میری بیوی ہے اور میں اسے نہیں چھوڑ سکتا وہ اپنے سوچوں میں گم تھا
تبھی اس كے کیبن کا دروازہ نوک ہوا
یس آجاؤ اس نے اجازت دی
مونا کیبن میں داخل ہوئی
سر آج شام آپ کی میٹنگ ہےارسلان صاحب كے ساتھ مونا نے اسے آج کی میٹیگ سے آگاہ کیا
اور فائلز حسنین كے سامنے رکھ دیں
مس مونا میری طبیعت آج کچھ ٹھیک نہیں اس لیے آپ آج کی میٹنگ کینسل کر دیں اس نے بے زاری سے جواب دیا
لیکن سر مونا ابھی کچھ کہنا چاہ رہی تھی كہ حسنین نے اسے بیچ میں ٹوکا
آپ یہ فائلز جنید سر كے کیبن میں لے جائیں آج کی میٹنگ وہ اٹینڈ کرلیں گے اب آپ جاسکتی ہیں حسنین نے سنجیدگی سے کہا
پِھر لیپ ٹاپ میں سر دیئے بیٹھ گیا
جی سر مونا فائل لے کے کیبن سے چلی گئی
وہ اپنے کام میں مصروف تھا جب گھر كے نمبر سے فون کال آئےاس نے کال اٹھائی تو آگے سے خاموشی تھی
جی کون بات کر رہا ہے حسنین کو جب زیادہ دیر سامنے سے کوئی آواز نہیں آئی تو اس نےخود بات کرنے کا آغاز کیا
جی وہ میں ماہ رُخ بات کر رہی ہوں
بی جان کہہ رہے ہیں آپ نے ناشتہ کیا وہ جلدی جلدی کہنے لگی
حسنین كے چہرے پر دلکش مسکراہٹ آئی
ارے ارے آرام سے سانس تو لے لیں آپ كے پیچھے کوئی جن بھوت لگا ہے کیا
اتنی جلدی جلدی بات کرنے کا مطلب وہ سنجیدگی سے کہنے لگا لیکن اصل میں اسے پتا نہیں کیوں عجیب سی خوشی ہو رہی تھی ماہ رُخ کا یوں اس کے لیئے فکر کرنا اور اسے فون کرنا
مجھے بی جان نے کہا آپ سے پوچھ لوں ماہ رُخ نے اسکی خوش فہمی دور کرنی چاہی کہ بی جان نے کہا تبھی اس نے فون کیا۔
تو میں نے کب کہا كے آپ نے مجھ سے پیار بھری باتیں کرنے كے لئے فون کیا ہے وہ ماہ رُخ کی باتوں سے محظوظ ہوتے ہوئے کہنے لگا
اچھا میں فون رکھ رہی ہوں اللہ حافظ ماہ رُخ نے کال کاٹ دی
عجیب لڑکی ہے حسنین نے اپنے موبائل فون کو ایسے گھورا جیسے ماہ رُخ نظر آ رہی ہو
حسنین نے مونا کو اپنے کیبن میں بلوایا
مس مونا میں گھر جا رہا ہوں آپ جنید سر کو میٹنگ کی ٹائیمنگ سے آگاہ کر دیں
میں چلتا ہوں اک ہاتھ میں کوٹ دوسری ہاتھ میں گاڑی کی چابی شرٹ كے بازو فولڈ کیئے وہ اپنے مغرور انداز سے چلتا ہوا گاڑی تک آیا
ڈرائیور گھر چلو یار ڈرائیور نے بیک سیٹ کا ڈور کھولا اور وہ گاڑی میں بیٹھا
. . . . .
ماہ رُخ بی جان كے ساتھ باتیں کر کے واپس اپنے کمرے میں آئی اور اپنے رُکے ہوئے آنسوؤں کو نہیں روک سکی
کیسے گزرے گی میری زندگی بابا امی كے بغیر
۔میں وہ بدنصیب بیٹی ہوں جس کو اپنے ماں باپ نے رخصت تک نہیں کیا نہ جانے کس حال میں ہوں گے سب وہ تکیہ منہ پر رکھے اپنے آواز کو دبانے کی کوشش کر رہی تھی وہ نہیں چاہتی تھی کوئی اسے روتے ہوئے دیکھ لے
. . . .
حسنین گھر پہنچا تو بی جان لاٶنج میں بیٹھی نصرت بیگم اور حِنا سے باتیں کر رہی تھیں
حسنین آپ کب آئے حِنا جو بی جان کی کسی بات پر مسکرا رہی تھی حسنین کو دیکھ کر حیرانگی سے کہنے لگی
ہاں بس طبیعت ٹھیک نہیں تھی
اس لیئے گھر واپس آگیا وہ بی جان كے ساتھ بیٹھ گیا
جب خود کو اتنا ہلکان کرو گے تو ایسا ہی ہوگا
میں تو کہتی ہوں نئی نئی شادی ہوئی ہے بہو كے ساتھ کہیں گھوم پھر کر آؤ بی جان نے اسےسنجیدگی سے کہا
اور سَر پر ہاتھ پھیرا تو وہ کانپ گئیں حسنین کو تیز بخار تھا اور اسے پرواہ تک نہیں تھی
شاہ تمہیں تو بہت تیز بخار ہے ناشتہ بھی نہیں کیا ہوگا تُم نے
جلدی جاؤ اب اپنے کمرے میں
میں ڈاکٹر کو فون کرواتی ہوں جان نکال دو گے کسی دن تُم میری
کیا ضرورت ہے اتنا کام کرنے کی چلو جاؤ اب کمرے میں بی جان پریشانی کے عالم میں کہنے لگی
حسنین چُپ چاپ چلتا ہوا اپنے کمرے میں آیا تو ماہ رُخ کو منہ پر تکیہ رکھے ہوئے دیکھا
اس نے کمرے میں ہلکا سا شور کیا جس سے ماہ رُخ کو پتا چلے كے اس كے علاوہ بھی کمرے میں کوئی موجود ہے
ماہ رُخ نے تکیہ آنکھوں سے ہٹایا تو وہ ہڑ بڑا کر بیڈ سے اٹھ کھڑی ہوئی
آ....آپ کب آئے اس نے جھجھکتے ہوئے سوال کیا
ابھی آیا جب آپ رونے کا شغل فرما رہی تھیں اس نے جتاتی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا
آپ واپس کیسے آگئے اتنی جلدی ماہ رُخ کو نہیں پتا تھا كے وہ کیا بول رہی ہے اس کا تو رونے کی وجہ سے سَر درد سے پھٹا جا رہا تھا
کیا مطلب کیوں آگیا یہ کیسا فضول سوال ہے اور اب آپ جائیں یہاں سے مجھے سونا ہے اس کا چہرہ بخار کی وجہ سے لال ہو چکا تھا
بال ماتھے پر بکھرے ہوئے مغرور کھڑی ہوئی ناک لال تھی وہ چلتا ہوا بیڈ تک آیا اور گرنے كے اندازِ میں لیٹ گیا
ماہ رُخ پریشان کھڑی رہی اسے دیکھنے لگی
شاید انکی طبیعت خراب ہے
مجھے کیا میں کیوں پریشان ہو رہی ہوں انہوں نےکون سا میرے ساتھ ٹھیک کیا ہے وہ یہ سوچتی ہوئی کمرے سے باہر چلی گئی
شاید آج اسے گھر والے بہت یاد آرہے تھے اسکے زخم پھر سے تازہ ہو گئے
. . . . . .
بہو اب کیسی طبیعت ہے حسنین کی۔ میں نے ڈاکٹر کو بلوایا ہے وہ آتا ہی ہوگا بی جان نے اسے کمرے سے باہر نکلتے ہوئے دیکھا تو پوچھنے لگی
بی جان ابھی وہ سو رہے ہیں آپ ٹینشن نہ لیں ٹھیک ہو جائیں گے اس نے بی جان کو تسلی دیتے ہوئے کہا
میری بچی اسے جب بخار آتا ہے تو کسی کو سکون نہیں ہوتا
بہت تنگ کرتا ہے وہ بخار میں بلکل بچہ بن جاتا ہے تُم اس کا خیال رکھنا بی جان نے اس كے نرم و نازک ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے
بی جان آپ پریشان نا ہوں میں خیال رکھوں گی انکا
بی جان ڈاکٹر صاحب آگئے ہیں ملازمہ نے آکر کہا
اچھا اسے لے کر آؤ حسنین كے کمرے میں ماہ رُخ نے اپنا دوپٹہ سر پر ٹکا کر حِنا كے کمرے کا رُخ کیا
بی جان حسنین كے کمرے میں گئی ڈاکٹر نے اس کا چیک اپ کیا اور دوائی لکھ کر اسے آرام کرنے کی تلقین کرتے ہوئے چلے گئے
حسنین آرام والی دوا كے زیر اثر سو رہا تھا
ماہ رُخ کمرے میں آئی تو بی جان کوئی سورت پڑھتے ہوئے حسنین پر دم کر رہی تھی
وہ بی جان كے ساتھ بیٹھی تو بی جان نے اسے مسکرا کر دیکھا
اب میں چلتی ہوں خیال رکھنا اس کا بی جان نے اس كے سَر پر ہاتھ رکھا اور کمرے سے چلی گئی
ماہ رُخ کی نظریں اب حسنین کو دیکھنے لگی
وہ اک دن میں ہی اتنا بیمار لگنے لگا تھا دُنیا جہاں سے بے خبر پڑا تھا
ماہ رُخ نے ڈرتے ہوئے اسکے چہرے کو چھوا لیکن اب بخار کم تھا وہ اطمینان کر كے سوفے پر سونے چلی گئی
کمرے میں اندھیرا تھا
آدھی رات کو اسے کمرے میں کسی کے کراہنے کی آواز آئی تو وہ اٹھ بیٹھی حسنین نیند میں باتیں کر رہا تھا وہ جلدی سے اٹھ کر اسکے پاس جا کر بیٹھ گئی اور اس کا بخار چیک کرنے لگی لیکن حسنین نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا
بابا . . . . . . . حسن جیلانی نے آپکو کیوں مارا . . . . . . میری دُنیا تباہ کر دی اسنے ماما تو انکی بہن تھیں نہ پِھر . . . . . . پِھر کیوں . . . . . . ایسا . . . . . . . . وہ اور بھی کچھ بولنا چاہتا تھا لیکن خاموش ہو گیا وہ نیند میں بُڑبُڑا رہا تھا

ماہ رُخ کو لگ رہا تھا کے جیسے کمرے کی چھت اسکے اوپر گری ہو
اگر وہ تھوڑی دیر اور ایسے ہی بیٹھی رہی تو پتھر کی ہو جائے گی وہ اپنے سر پر ہاتھ رکھے
جلدی سے کمرے سے بھاگ آئی
میرے بابا نے کسی کو مارا ہے یہ کیسے ہو سکتا ہے اور حسنین کی امی بابا کی بہن تھیں یعنی ہانیہ پھپھو یا میرے خدا یہ سب کیا ہے
لیکن بابا نے تو کہا تھا پھپھو کی ڈیتھ روڈ حادثے میں ہوئی تھی پِھر وہ یہ سب کیوں کہہ رہے ہیں وہ پوری رات کشمکش کا شکار رہی

وہ حسنین كے ساتھ اس طرح اکیلے جانے سے گھبرا رہی تھی لیکن اسے حسنین کو سمجھنا تھا اسے پرکھنا تھا
سچ بتانہ تھا وہ باقی ساری سوچوں کو خد سے دور رکھ کر پیکنگ کرنے لگی
حسنین کمرے میں آیا تو اسے نظر انداز کرتا ہوا فریش ہونے چلا گیا
ماہ رُخ جلدی جلدی میں دونوں کی پیکنگ کر كے فارغ ہوئی
ابھی اسے اپنے کپڑے نیکالنے تھے اور تیار بھی ہونا تھا
وہ بے خیالی میں پیچھے مڑی تو اسے لگا جیسے اس کا سَر کیسی دیوار سے ٹکرایا گیا ہو
وہ اپنا سر تھامے کچھ ٹائیم تک اپنے حواس بہال کرنے لگی
اور پھر سر اٹھا کر سامنے کھڑے لمبی چوڑے مَردانہ وجاہت سے بھرپور حسنین کو دیکھنے لگی جو اپنے ہاتھ سینے پر باندھے اسے غصے سے دیکھ رہا تھا
وہ اپنا دَرْد بھول کر کرنٹ کھا کر دو قدم پیچھے ہٹی حسنین اسی پوز میں کھڑا اس کی بچکانہ حرکتیں دیکھنے میں مصروف تھا
میرے خیال میں یہ جو اتنی بڑی بڑی آنکھیں ہیں صرف چہرے پر سجانے کے لیئے نہیں دی اللہ نے ان کا استعمال کرنا سیکھو
وہ آنکھوں میں شرارت لیئے اپنے مغرور سے انداز میں کہنے لگا
نہ جانے کیوں وہ جتنا اس لڑکی سے دور جانا چاہ رہا تھا اتنا ہی اسکے قریب ہو رہا تھا
وہ ماہ رُخ کی سادگی اور خوبصورتی کی جانِب کھینچا چلا جا رہا تھا
وہ . . . . . وہ میں نے . . . . آپکو دیکھا نہیں سوری وہ اپنے آنکھوں کو زور سے میچ کر کھڑی ہوئی تھی
گویا اگر اسنے آنکھیں کھولی تو حسنین اسے کھا جائے گا
حسنین اسکی آواز کی لڑ کھڑاہٹ سے سمجھ گیا تھا كے ماہ رُخ اس سے کتنا ڈرتی ہے
او کے اوكے کوئی بات نہیں اسکے دِل نے اس پر ملامت کی
حسنین شاھ تُم ایک بے قصو لڑکی کو اپنے انتقام کا نشانہ بنا رہے ہو کیا یے سہی فیصلا ہے کیا تمہارا رب تمہیں معاف کر دیگا وہ خد کی عدالت لگائے کھڑا تھا
وہ خد کو کوستا ہوا کمرے سے باہر چلا گیا
دروازے کو اتنا زور سے بند کیا کہ ماہ رُخ نے اپنے کانو پر ہاتھ رکھ لیئے
اللہ جی یہ تو اتنی غصے والے ہیں کیسے سمجھا سکوں گی میں انہیں
یہ تو مجھے مارنے میں اک منٹ بھی نہیں لگائیں گے
لیکن میں پیچھے نہیں ہٹنے والی
میں بی جان کو مایوس نہیں کر سکتی وہ خد سے عہد کرتی ہوی وارڈوب سے اپنی ڈریس نکالنے لگی کچھ دیر میں اُنہیں لندن كے لئے نکلنا تھا وہ فریش ہونی چلی گئی
. . . . . . . .
وہ کمرے سے نکل کر باہر لان چہل قدمی کرنے لگا یہ اسکی بچپن سے عادت تھی جب بھی وہ پریشان ہوتا تھا یوں ہی لان میں آکر چہل قدمی کرتا تھا
حِنا اپنے کمرے کی کھڑکی سے اسے دیکھنے لگی
اور پھر اپنے سر پر دوپٹا رکھ کے باہر لان میں آگئی
کیا پروبلم ہے آپ کچھ پریشان لگ رہے ہیں وہ حسنین كے چہرے پر تناؤ اور غصہ دیکھنے لگی
کچھ نہیں ہے بس ایسے ہی اور آپ کب آئی وہ نارمل سے لہجے میں پوچھنے لگا
ابھی ابھی آئی جب آپ کیسی گہری سوچ میں گم تھے اور اب بتا نہیں رہے وہ اسے جتاتے ہوے کہنے لگی
کچھ بھی نہیں ہے آپکو غلط فہمی ہوئی ہے شاید
وہ آرام سے چلتا ہوا چیئر پر بیٹھ گیا
حسنین کو حِنا كے دِل میں اپنے لیئے چھپے ہوئے جذبات کا پتہ تھا
لیکن اس نے کبھی بھی حِنا کو اس نظر سے نہیں دیکھا تھا حِنا صرف اس كے لئے اک اچھی دوست اور کزن تھی
اب میں چلتا ہوں کچھ دیر میں فلائٹ ہے ہماری میں دیکھ لوں ماہ رُخ تیار ہوگئی
وہ عام سے لہجے میں کہتا ہوا
گھر كے اندرونی حصے کی جانِب بڑھا حِنا اسے اپنے سے دور جاتا ہوا دیکھ رہی تھی لیکن اب یہ انسان کیسی اور کا ہم سفر اور محرم تھا وہ یہ سب اور نہیں سوچنا چاہتی تھی
اپنے ہونٹوں پر اک تلخ سے مسکراہٹ سجائے وہاں سے چلی گئی
. . . . . .
ماہ رُخ بلیک پیرو تک آتی فروک میں ملبوس اپنے لمبے اور سلکی بالوں کو برش کر رہی تھی
جب وہ کمرے میں داخل ہوا
وہ بنا کیسی ڈر و خوف كے اپنے کام میں مصروف رہی
حسنین کبرڈ کا دروازہ کھول کر اپنا پاسپورٹ وغیرہ نکالنے لگا
اتنی دیر میں ماہ رُخ خود کو تیار کر چکی تھی اور عبایہ پہننے لگی
وہ خد پر حسنین کی نظر با آسانی محسوس کر سکتی
تھی لیکن وہ اپنے آپ کو مصروف دیکھانے کی کوشش کر رہی تھی جس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی رہی تھی
اگر تمہاری تیاری مکمل ہوگئی ہو تو چلیں وہ ماہ رُخ کی نیقاب میں سے جھانکتی آنکھوں کو دیکھ کر کہنے لگا
جی چلیں اس نے آنکھیں جھکا کر کہا جب كے لہجہ مظبوط تھا
. . . . . .
جنید اُنہیں ایئر پورٹ تک سی اوف کرنے آیا
فلائٹ کا ٹائم ہوا وہ دونوں آکر اپنی اپنی سیٹس پر بیٹھے
ماہ رُخ تھوڑا سا گھبرا رہی تھی وہ جہاز میں سفر کرنے سے ڈرتی تھی
جب بھی حسن صاحب اسے کہیں لے جاتے تھے تو وہ اپنی امی یا کسی کا ہاتھ پکڑ لیتی تھی
جب كے حسنین كے لئے یہ عام سی بات تھی وہ کام كے سلسلے میں اکثر ملک سے باہر ٹریولنگ کرتا رہتا تھا
جہاز نے ٹیک اوف کیا
تو ماہ رُخ نے حسنین كے ہاتھ کو مضبوطی سی پکڑ لیا اور آنکھیں زور سے بند کر لیں
وہ سمجھ گیا تھا كے وہ ڈر رہی ہے اس نے ہلکا سا حصار کھینچا جسے ماہ رُخ زیادہ نہ ڈرے
یہ عمل اس سے کیسے اور کب ہوا وہ نہیں جانتا تھا
ماہ رُخ اپنی آنکھوں میں حیرت لئے اسے تکنے لگی
وہ اپنا ڈر بھول گئی تھی
حسنین دُنیا جہاں سے بے خبر اس کی شہد رنگ آنکھوں میں کھویا ہوا تھا
جہاز ٹیک اوف کر چکا تھا
سنے میں ٹھیک ہوں اب ماہ رُخ نے جھجکتے ہوئے کہا
وہ پِھر بھی ویسے ہے کھویا رہا
میں آپ سے بات کر رہی ہوں ٹھیک ہوں میں
اب کی بار ماہ رُخ نے اس کی بازو پر اپنا ہاتھ رکھا
وہ ہوش میں آیا تو آہستہ سے اپنا ہاتھ پیچھے کر لیا اور اپنے جلد بازی پر ملامت کرنے لگا
ماہ رخ نے بھی اپنے گھنی پلکیں جھکا لیں

ماہ رخ ابھی بھی اسی سحر میں کھوئی ہوئی تھی
جب كے حسنین اسے نظرانداز کئے اپنی کسی فائل میں سَر دیئے بیٹھا تھا
ماہ رخ کو نیند آنے لگی لیکن وہ زبردستی اپنی آنکھیں کھولے بیٹھی تھی
کہیں پِھر سے حسنین کچھ کہہ نہ دے
آہستہ آہستہ اس کی آنکھیں بند ہونے لگی وہ سیٹ پر اپنے سَر کو ٹیک لگائے سو گئی
حسنین کو جب ماہ رخ کی خاموشی محسوس ہوئی
تو اس نے اپنے برابر بیٹھی ماہ رخ کو دیکھا جو نیند میں تھی
حجاب کی وجہ سے حسنین کو اسکی بند آنکھیں نظر آرہی تھی
اب وہ اسے غور سے دیکھنے لگا
وہ ہر قدم پر اسے حیران کر رہی تھی
حسنیں نے کسی لڑکی کوکبھی خود کو اس طرح سے چھپائے نہیں دیکھا تھا جتنی بھی لڑکیاں اسنے دیکھی تھیں سب ہی ایک دوسرے کو ٹکر دینے کے چکر میں خودکے لباس کو خراب کرتی جا رہیں تھیں
لیکن ماہ رخ نے اسے سوچنے پر مجبور کر دیا تھا کے ہر انساں کو ہم ایک ہی ترازو میں نہیں تول سکتے
وہ اسے دیکھنے لگا اسکے سر کا اک بال تک نظر نہیں آرہا تھا
اسے ماہ رخ کی سادگی اور معصومیت کہیں نا کہیں دِل کو چھو رہی تھی لیکن ابھی وہ اس سچ کو ماننے کے لیے تیار نہیں تھا
جب كے وہ اب کہیں نہ کہیں خود کو قصوروار سمجھ رہا تھا
كے ماہ رخ سے زبردستی شادی کرنا اسکی غلطی تھی لیکن حسنین شاہ یہ بات کیسے مان لیتا وہ نہیں چاہتا تھا كے وہ خود کو اک لڑکی كے سامنے جھکائے جب كے یہ اک لڑکی اسکی بیوی تھی کسی کی بہن بیٹی اور کسی كے گھر کی عزت تھی اگر وہ یہ سب سوچتا تو آج یہ نوبت ہی نہ آتی
اس کا ضمیر اسے ہر وقت ملامت کرتا رہتا تھا لیکن وہ تھا كے اپنے کان دِل دماغ سب بند کیئے ہوئے تھا
وہ ان سب خیالوں سے تب چونکا جب ماہ رخ کا سَر اسکے شانو سے لگا
وہ نیند میں تھی لیکن اب وہ اسکے شانے پر سَر رکھے سو رہی تھی
حسنین كے چہرے پر عجیب سے رنگ تھے جن رنگوں سے شاید وہ ابھی تک نہ واقف تھا
یا پِھر وہ اپنے دِل کی ابھی سننا نہیں چاہتا تھا
وہ یوں ہی کتنی دیر تک اسے دیکھتا رہا
لندن پہنچے تو حسنین نے اسے اٹھانا چاہا لیکن ماہ رخ کی آنکھ پہلے ہی کھل گئی
وہ شرم سے اپنی نظریں جھکائے ہوئے تھی حسنین اسکی جھجھک اور شرم کو اچھے سے سجھ رہا تھا
کوئی بات نہیں آپ نیند میں تھیں اور اب پلیز شرمانا بند کرو محرم ہوں آپکا چلیں اب
وہ خود نہیں جانتا تھا یہ سب کیسے اور کیوں کہا اس نے شاید محبت اپنے قدم جما رہی تھی . . . . .
ماہ رخ سیٹ سے اٹھی تو حسنین نے اس کا ہاتھ پکڑا
ماہ رخ منہ کھولے یہ سب دیکھ رہی تھی
حسنین نے گاڑی ہائیر کی اور اس میں پہلے ماہ رخ کو بیٹھایا پِھر خود ڈرائیونگ سیٹ پر آیا
وہ اکثر لندن کام كے سلسلے میں آتا رہتا تھا
ماہ رخ کو پیاس لگی تھی لیکن وہ حسنین سے کہہ نہیں پا رہی تھی
جب اُنہیں سفر میں دو گھنٹے سے اوپر ہو گئے تو اس نے حسنین کو مخاطب کیا
مجھے پیاس لگی ہے اس نے اتنے ہلکی آواز میں کہا شاید ہی حسنین سن پایا ہو لیکن اس نے سن لیا تھا
کچھ آگے جاکر اسے ریسٹورنٹ وغیرہ نظر آئے وہ گاڑی سے اتر گیا
واپس آیا تو اس كے ہاتھ میں پانی کی بوتل چپس اور کچھ کھانے کی چیزیں تھیں
وہ ساری چیزیں اس نے ماہ رخ کو تھما دیں
ماہ رخ نے پہلے پانی پیا پِھر حسنین کی جانب چپس کا پیکٹ بڑھایا تا کے وہ بھی کچھ کھا لے
حسنین نے اک نظر اسے دیکھا اور ڈرائیونگ کرتے ہوئے دوسرے ہاتھ سے چپس لے لی
یوں ہی خاموشی میں سفر گزرا حسنین نے بہت بڑے اور خوبصورت ہوٹل كے باہر گاڑی روکی اور ماہ رخ کو اترنے کا کہا
وہ دونوں باہر آئے تو حسنین جلدی میں آگے بڑھ گیا وہاں پر تھوڑا رش تھا
ماہ رخ کو عادت نہیں تھی اتنے سارے لوگوں میں اکیلے چلنے کی تو وہ ڈَر كے مارے جلدی چلنے لگی
اسے جب یاد آیا كے وہ اکیلا نہیں بلکہ اک اور جیتا جاگتا انسان اسکے رحم و کرم پر اسکے ساتھ ہے تو وہ فورن رکا اور پیچھے مڑ کر ماہ رخ کو دیکھنے لگا
ابھی بھی وہ اس سے بہت دور تھی
اب اسے خود پر غصہ آ رہا تھا ایک عجیب سی کشش تھی ماہ رخ میں وہ کشش حسنین کو اپنے جانب کھینچتی تھی
شاید ماہ رخ کا ہانیہ جیسا دِکھنا تھا
وہ واپس گیا اور ماہ رخ کا ہاتھ پکڑ کر ہوٹل میں داخل ہوا
اپنے کمرے کی چابیاں لے کر وہ لفٹ کی جانب بڑھا
ماہ رخ کسی بچے کی طرح اس كے پیچھے پیچھے چل رہی تھی
کمرے میں پہنچ کر اس نے ماہ رخ کا ہاتھ چھوڑا
تم آرام کر لو میں کام سے جا رہا ہوں پہلے ہی میٹنگ سے لیٹ ہو چکا ہوں جب تک میں نہ آٶں کہیں نہیں جانا
اور ہاں وہ اپنی پاکٹ سے موبائل فون نکال کر اسکے ہاتھ میں تھمایا
پھر اس کی سوالیہ نظروں کو دیکھنے لگا
یہ موبائل اپنے پاس رکھنا اس موبائل میں میرا اور گھر کا نمبر سیو ہے
کوئی بھی بات ہو مجھے فون کرنا یا اگر زیادہ بور ہو تو گھر پر بی جان سے بات کر لینا
بھوک وغیرہ لگے تو فون کر كے آرڈر کر دینا یا میں تمہارا كھانا خود ہی آرڈر کر كے جا رہا ہوں کھا لینا وہ سب کچھ سمجھا کر
اپنا فون اور گاڑی کی چابی اٹھا کر اور روم سے باہر چلا گیا
وہ کیوں اتنے فکرمندی اور پریشانی اس لڑکی كے لئے دکھا رہا تھا
جس سے اس نے شادی صرف بدلے كے لئے کی تھی وہ خود سے جتنا سوال جواب کر رہا تھا اتنا الجھ رہا تھا.....
ماہ رخ کو یقین نہیں آرہا تھا كے یہ وہی حسنین ہے جس سے وہ پہلی بار ملی تھی وہ حسنین شاہ تو کوئی اور ہی تھا وہ خود سے باتیں کرنے لگی اور اس كے دیئے گئے قیمتی فون میں خود کو مصروف کر لیا
کیوں کے وہ ابھی سے خود کو بور نہیں کرنا چاہتی تھے ناجانے حسنین کی واپسی کب تک ہوتی
. . . . . . . .
حسن مجھے میری بچی کا چہرہ اک بار تو دکھا دیں ماں ہوں میں
نہیں ہو رہا اب برداشت میرے دل سکون میں تب تک نہیں رہ سکتا جب تک
میں اپنی بچی کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لوں فرزانہ بیگم نے روتے ہوئے حسن صاحب سے کہا جو كے ابھی بی جان سے فون پر بات کر كے فارغ ہوئے تھے
فرزانہ بس کچھ دن اور میں آپ کے جذبات سمجھ سکتا ہوں لیکن میں بھی تو اتنے دن سے برداشت کر رہا ہوں کچھ دن اور سہی
وہ میرا بھانجا ہے میری ہانیہ کا بیٹا ہے
اگر ہماری ماہ رخ اسے سہی غلط سمجھا سکتی ہے تو ہمیں اور کیا چاہئے آپ بس کچھ دن اور صبر کر لیں
پِھر ہم دونوں چلیں گے اپنے بچی سے ملنے حسن صاحب کہہ کر کمرے سے چلے گئے
جب كے فرزانہ بیگم . ماہ رخ کی خوشیوں سے بھری زندگی کی دعا کرنے لگی
. . . . . . . . . . . . .
وہ رات گئے واپس لوٹا تو ماہ رخ تب تک سو چکی تھی شاید سفر کی تھکن کی وجہ سے
وہ تھکا ہوا تھا لیکن پہلے فریش ہونے چلا گیا واپس آکر صوفے پر بیٹھا اس کا سَر درد کر رہا تھا
وہ سگریٹ نکال کر اسکے کش لینے لگا
ماہ رخ کچی نیند میں تھی سگریٹ کی سمیل اسے بالکل بھی اچھی نہیں لگتی تھی وہ اٹھ بیٹھی تو سامنے حسنین اسے سگریٹ پیتے ہوئے نظر آیا
وہ بستر سے اتر کر اس كے پاس آئی
یہ کیا ہے آپ سگریٹ کیوں پی رہے ہیں چھوڑیں اسے وہ نارقضگی سےاس کے ہاتھ سے سگریٹ چیھننے لگی
حسنین اس سے سگریٹ کو دور کر رہا تھا

اور ماہ رخ جلد بازی كے چکر میں اپنا ہاتھ جلا بیٹھی
حسنین نے فوراً سگریٹ کو مسلحہ اور ایش ٹرے میں پھینکا
اسنے اسکا ہاتھ پکڑ لیا
تم پاگل ہو کیا دیکھو اب جل گیا نہ ہاتھ وہ اسے ڈانٹ رہا تھا
اچانک وہ رونا شروع ہوگئی
اس كے آنسو حسنین كے ہاتھ پر گر رہے تھے وہ اسے دیکھنے لگا

کیا ہُوا زیادہ دَرْد ہو رہا ہے وہ اسے کیسی چھوٹی بچی کی طرح ٹریٹ کر رہا تھا
وہ اپنا سَر نہ میں ہلانے لگی
لیکن آنسو تھے کے رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے
تو پِھر رُو کیوں رہی ہَیں آپ کس نے کہا تھا سگریٹ چھیننے کو وہ اپنے غصے پر قابو کرنے لگا
جس چیز سے آپکو نقصان ہوگا اس چیز سے میں آپکو دور رکھنے کی ہر کوشش کروں گی
وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہہ رہی تھی جب كے اس کا ہاتھ ابھی بھی حسنین کی گرفت میں تھا
وہ کتنی ہی دیر اس پاگل سی لڑکی کو دیکھنے لگا
جیسے یہ تک یاد نہیں تھا كے حسنین نے اس كے ساتھ نہ جانے کتنا غلط کیا ہے
اسے اٹھا کر لایا پِھر زبردستی شادی کی پِھر اس كے گھر سے اسے دور کر دیا
اسے ماہ رُخ کی آنکھوں میں ویرانی مایوسی اپنوں سے جدا ہونے کا دَرْد نظر آرہا تھا
ماہ رُخ اپنا ہاتھ اسکی گرفت سے چھڑانے لگی لیکن سامنے والے کی گرفت اس کی کوشش سے زیادہ مظبوط تھی
اہاں . . . . حسنین نے اسے پیار سے دیکھتے ہوئے صوفے سے اٹھنے سے منع کیا
جس کا ماہ رُخ پر کوئی اثر نہیں ہوا
وہ اپنے دوسرے ہاتھ کی مدد سے حسنین سے ہاتھ چھڑوانے لگی
جب كے حسنین نے اس کا دوسرا ہاتھ بھی اپنے گرفت میں لیا
اب وہ شکایتی نظروں سے اپنے سامنے خوبصورت اور ضدی شوہر کو دیکھنے لگی جس کی آنکھوں میں شرارت ناچ رہی تھی
وہ اپنے پلکییں جھکا گئی اب دونوں كے بیچ میں خاموشی تھی
لیکن اس خاموشی كے پیچھے بھی دونوں میں جنگ جاری تھی
اس خاموشی کو ماہ رُخ کی پیاری سی آواز نے توڑا
چھوڑیں میرا ہاتھ مجھے نیند آرہی ہے وہ اس کی جانب اپنے منہ موڑ کر کہنے لگی جب كے حسنین کی آنکھوں میں دیکھنے سے گریز کر رہی تھی
اگر یہ ہاتھ نہ چھوڑوں تو اس كے اک سوال میں ماہ رُخ کو بہَت کچھ محسوس ہوا تھا محبت جنون ضد اور بھی نہ جانے کیا کیا لیکن وہ خود کو کیسی خُوش فہمی میں مبتلا نہیں کرنا چاہتی تھی
اسی لئے چُپ رہی
بتاؤ نہ اگر یہ ہاتھ نہ چھوڑوں تو وہ پِھر سے وہی بات دہرانے لگا
تو میں ساری رات یہیں بیٹھے بیٹھے گزار دوں گی اور کیا
وہ کیسی بھی تاثر كے بغیر عام سے لہجے میں جواب دے کر خاموش ہوگئی
ماہ رُخ میں تمہاری نظروں میں کتنا گر چکا ہوں
مجھے پتہ ہے میں نے تمہارے ساتھ برا کیا ہے نہ جانے کن جذبات میں بہتے ہوئے وہ سب کہہ رہا تھا
کس نے کہا آپ سے كے آپ میری نظروں سے گر چکے ہَیں
اور ہاں میرے خیال میں جوڑیاں اوپر والا بناتا ہے
میرے نصیب میں انہوں نے آپکو لکھا تھا پِھر چاہے جس طریقے سے آپ مجھ سے شادی کرتے یہ اک دن ہونا تھا
یہ کہتے ہوئے اسے عجیب سا دَرْد محسوس ہوا ماہ رُخ کی آواز میں وہ یے سب کہہ کر اپنے امڑ آنے واکے انسوں کو رکنے کی ناکام کوشش کرنے لگی
حسنین بے ساختہ ماہ رُخ کو اپنے سینے سے لگا لیا اور نہ جانے کتنی ہی دیر وہ اس كے سینے پر سَر رکھے روتی رہی
جب وہ رونے کے بَعْد خود کو ہلکا محسوس کرنے لگی تو آہستہ سے حسنین سے دور ہوگئی
سر اب بھی جھکا ہوا تھا حسنین نے اس کا ہاتھ ابھی بھی اپنی گرفت میں لیا ہوا تھا
میں مانتا ہوں میں نے تمھارے ساتھ غلط کیا
لیکن جو میرے ساتھ ہوا اس کا کیا میں نے تُو حسن جیلانی کا کوئی قصور نہیں کیا تھا
پِھر کیوں انہوں نے میرے ماں باپ کو مروا دیا وہ رُو رہا تھا حسنین شاھ مغرور اور انا والا مرد آج رُو رہا تھا وہ بھی اک لڑکی كے سامنے
حسنین میں اگر آپ سے کوئی بات کروں تو کیا آپ میری بات کا اعتبار کر لیں گے ماہ رُخ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لئے اسے جواب طلب نظروں سے دیکھنے لگی
ہاں ہو سکتا ہے میں اعتبار کر لوں کیوں كے اِتْنا تو مجھے معلوم ہو گیا ہے
کے تم کم اَز کم مجھ سے جھوٹ نہیں بولو گی
بولو وہ اپنے سُرْخ آنکھوں سے اسے دیکھنے لگا
میرے بابا نے آپ كے ماں باپ کو نہیں مروایا
وہ صِرف ایک روڈ حادثہ تھا
اور ہانیہ پھوپھو کا نام میں نے اپنے گھر میں بہَت کم سنا ہے
پر جب جب سنا ہے بابا كے منہ سے سنا ہے وہ ہانیہ پھوپھو سے بہَت محبت کرتے تھے بابا کبھی بھی ان کو نہیں مروا سکتے اگر آپکومیری بات کا یقین نہ آئے تو آپ اَحْمَد انکل سے پوچھ لیں
وہ آپکو بتا دیں گے یہ صِرف اک حادثہ تھا اور کچھ نہیں
وہ اپنے بات ختم کر كے اسکی آنکھوں میں دیکھنے لگی جو ابھی بند تھیں
وہ اپنی آنکھیں نہیں کھولنا چاہتا تھا بہَت سالوں بَعْد اس نے اپنے ماں باپ کی موت کا ذکر چھیڑا تھا
وہ مظبوط مرد اس ٹائِم مکمل طور پر بکھرا ہوا تھا
وہ خاموش رہا کچھ نہیں بولا ماہ رُخ اس كے لیے پانی لائی
یے لیں پانی پی لیں وہ اسکی كے بھاری مظبوط ہاتھ پر اپنا نازک ہاتھ رکھ کر اسے اپنی جانب متوجہ کرنے لگی
ہم . . . . . . وہ اپنے آنکھیں کھول کر خالی خالی نظروں سے اسے دیکھنے لگا
پِھر اس کے ہاتھ سے پانی کا گلاس لے کر ہونٹوں سے لگایا
ماہ رُخ نے خالی گلاس اس كے ہاتھ سے لے کر ٹیبل پر رکھ دیا
اور اسے دیکھنے لگی
وہ اپنا فون نکال کر اَحْمَد صاحب کو کال کرنے لگا
دوسری جانب کال جا رہی تھی آخر اَحْمَد صاحب کی آواز اس تک آئی
سلام دعا کیئے بغیر وہ کام کی بات پر آیا
بڑے ابو پولیس نے ماما اور بابا کا کیس انویسٹکیٹ کرنے كے بَعْد کیا رپورٹ دی تھی
وہ بے چینی سے پوچنے لگا
حسنین بیٹا وہ صِرف اک روڈ حادثہ تھا اس میں حسن کا کوئی تعلق نہیں تھا
میں جب واپس آیا تھا تو تمہیں بتانے کی کوشش کی تھی لیکن تم میری سننے کو تیار نہیں تھے
اَحْمَد صاحب نے افسوس سے کہا
وہ خدا حافظ کہہ کر جلدی سے موبائل فون بند کیا
اور سَر ہاتھوں میں گرائے بیٹھ گیا
ماہ رُخ اسے دیکھنے لگئی

حسنین۔۔ ماہ رخ نے اس كے شانے پر ہاتھ رکھا
وہ اپنا سَر جھکائے ہاتھوں کو آپس میں جوڑے بیٹھا تھا
سنیں۔۔ اس نے پِھر سے مخاطب کیا
ہم . . . . . وہ اتنا کہہ کر چُپ ہو گیا
آپ ٹھیک ہَیں وہ خود کو مطمئن کرنا چاہتی تھی
وہ اپنی سرخ آنکھوں سے اسے دیکھنے لگا
کیا کچھ اسے یاد نہیں آرہا تھا وہ اس کا خوبصورت بچپن خوشیاں اور حَسِین یادیں جو شاید اب وہ مازی کی کتاب نہیں کھولنا چاہتا تھا آج وہ کتاب ماہ رخ خود کھول چکی تھی اس کا ماضی اس کا بچپن اسکی آنکھوں كے سامنے گھوم رہا تھا اور اک تلخ سی مسکراہٹ اس كے ہونٹوں پر دوڑ گئی
وہ ماہ رخ کو فراموش کر چکا تھا
وائٹ شرٹ جس كے بازو فولڈ کیئے ہوئے تھے بلیک پینٹ میں وہ ایک خوبصورت مرد اس ٹائِم ماہ رخ کو ٹوٹ ہوا محسوس ہو رہا تھا وہ بکھرا ہوا لگ رہا تھا وہ اس بکھرے ہوئے انسان کو محبت دے کر سمیٹنا چاہتی تھی جو اس کا محرم تھا جو اسکے دکھ سکھ کا ساتھی تھا وہ بہت پہلے ہی اپنے سامنے بیٹھے اپنے مغرور اور ضدی شوہر کو معاف کر چکی تھی
یہ لیں پانی پی لیں بہت رُو لئے اب آپ سو جائیں وہ اس پر پہلی بار حق جتا رہی تھی
حسنین کس تکلیف سے گزر رہا تھا یہ وہی جانتا تھا لیکن ماہ رخ کا اس سے اس طرح سے بات کرنا بہت اچھا لگ رہا تھا
اس نے گلاس كے ساتھ ساتھ اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ بٹھایا اور پِھر اس كے سامنےگھٹنوں كے بل زمین پر بیٹھا
ماہ رخ کا منہ کھل گیا وہ حیران و پریشان تاثرات لیئے اسے تک رہی تھی
آپ یہ کیا کر رہے ہَیں اوپر بیٹھ جائیں نیچے کیوں بیٹھے ہَیں وہ اسے آنکھیں دیکھانے لگی
مسز ماہ رخ حسنین شاہ کیا آپ مجھے میرے گناہ کی معافی دے سکتی ہَیں میں مانتا ہوں میرا گناہ اتنا چھوٹا نہیں جیسے آپ اتنی آسانی سے معاف کر دیں لیکن اگر ہو سکے تو اک بار سچے دِل سے مجھے معاف کردیں میں آپکو بہت سے خوشیاں دوں گا کبھی آپکو دکھ یا تکلیف نہیں دونگا یہ میرا وعدہ ہے آپ سے وہ آنکھوں میں پیار لئے اسے دیکھ رہا تھا
ماہ رخ نے اپنے رب کا شکر کیا دِل میں پِھر حسنین کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے برابر بٹھایا
میں نے آپکو سچے دِل سے معاف کر دیا مجھے کوئی گلہ نہیں آپ سے آپ غلط فہمی کا شکار تھے لیکن اگر کوئی بھی مرد کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے اک بار سوچ لے وہ کیا کرنے جا رہا ہے تو اُاسے کبھی کسی لڑکی كے سامنے شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں پڑے گی
آپ نے اپنے دکھ کا انتقام اک لڑکی سے لیا جس کا دور دور تک کوئی قصور نہیں تھا لیکن پِھر بھی وہ آپکی سزا كے بھینٹ چڑھی میں یہ نہیں کہتی كے میں پوری طرح سے خوش ہوں یا نہیں لیکن میری طرف سے آپکو کبھی بھی شکایت کا موقع نہیں ملے گا وہ کسی اور ہی دُنیا میں کھوئی ہوئی یہ سب کہے جارہی تھی جب اس کی بات مکمل ہوئی تو اس نے اپنی آنکھیں کھولی جن میں بہت سے آنسو رکے ہوئے تھے جو کے وہ روک نہ سکی
حسنین نے اسے پانی دیا اور اسکے آنسو صاف کئے
میں مانتا ہوں مرد اپنے انا اور بدلے کی آگ میں کسی لڑکی کی عزت مان اور بھروسہ جو اس کے گھر والوں کو اس لڑکی پر ہوتا ہے وہ اک سیکنڈ میں روندھ کر چلا جاتا ہے میں نے گناہ کیا ہے اور میں اپنے کئے پر شرمندہ ہوں اور اب میں کوشش کروں گا كے میرا بیٹا کبھی بھی میرے جیسا نہ بنے میری اولاد اپنے ماں پر جائے کھلے دِل کی مالک در گزر کرنے والی اور سب کو معاف کرنے والی نہ كے میری طرح بدلے کی آڑ میں کسی کی زندگی تباہ کر دینے والی وہ مظبوط اور سچے دِل سے خود سے عہد کر رہا تھا
ماہ رخ کی آنکھیں اپنے ہاتھوں پر تھی
وہ اسے اپنے حصار میں لے کر اسکے ماتھے پر اپنی محبت کی پہلی نشانی چھوڑی اور پِھر اسے دیکھنے لگا اچھا اب اٹھیں مجھے بھی نیند آرہی ہے وہ شرارت اور محبت سے پر انداز میں کہنے لگا
ماہ رخ اٹھ کر بیڈ کی طرف چلی گئی
حسنین بھی لائٹس اوف کر كے سونے لگا
اگلی صبح ماہ رخ نے اٹھ کر اپنے نئی اور سنہری صبح کا آغاز نماز سے کیا وہ حسنین کو کب سے پکار رہی تھی لیکن وہ اٹھنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا
ماہ رخ نے ٹھنڈا پانی گلاس میں بھرا اور آہستہ سے چلتی ہوئی اس سے کچھ فاصلے پر کھڑی ہوئی اور پِھر بیچارے حسنین کا وہی حال ہوا جو کسی بھی معصوم اور مظلوم شوہر کا ہوتا ہے ٹھنڈا ٹھار پانی اسے کسی سیلاب سے کم نہیں لگا
وہ اپنے بھیگے کپڑے دیکھ رہا تھا اور پِھر جلدی سے اٹھ کر ماہ رخ پر لپکنے کی کوشش کی لیکن وہ اس متوقع کروائی سے آگاہ تھی اس لیے بھاگ کر باتھ روم میں گھس گئی حسنین اپنے دانت پیس کر رہ گیا ماہ رخ میں کہہ رہا ہوں دروازہ کھول دیں مجھے ٹھنڈ لگ رہی ہے یار وہ غصے میں چلا کر کہنے لگا
میں نہیں نکل رہی آپ مجھ پر جوابی کروائی کریں گے مجھے پتہ ہے وہ اندر سے کہنے لگی
حسنین كے چہرے پر اک خوبصورت سے مسکراہٹ رقص کر رہی تھی
جب اتنا ہی ڈر تھا تو یہ سب کیا ہی کیوں آپ نے اس نے باتھ روم كے دروازے سے ٹیک لگا لی
کیوں كے آپ اٹھ نہیں رہے تھے وہ گھبراتے ہوئے جواب دیا
اچھا جی صحیح ہے تو پِھر اب ڈرنا کیسا آجائیں باہر اور بی جان کی کال آئی ہے وہ آپ سے بات کرنا چاہتی ہَیں حسنین نے اسے اک بار پِھر سے باہر آنے کا کہا
آپ جھوٹ بول رہے ہَیں میں نہیں آرہی وہ بھی باہر آنے سے انکاری تھی
حسنین نے فون کو سپیکیر پر کیا تو بی جان کی آواز ماہ رخ تک پہنچی وہ ماہ رخ كے بارےمیں پوچھ رہی تھیں
بی جان وہ باتھ روم میں ہَیں آتی ہَیں تو آپ سے بات کروا دونگا حسنین کا موڈ خوشگوار تھا
ماہ رخ بھی بی جان کی آواز سن کرباتھ روم سے باہر نکل آئی اور حسنین كے ہاتھ سے موبائل لیا وہ اوف وائٹ پیروں تک آتی فراک میں ملبوس دوپٹہ گلے میں ڈالے لمبے سلکی بال اس کی کمر پر کسی آبشار كے طرح بکھرے تھے کسی بھی میک اپ سے پاک چہرا لیئےسیدھا حسنین کے دِل میں اتر رہی تھی وہ اسے دیکھتا رہ گیا

وہ اس كے ہاتھ سے موبائل لے کر بی جان سے بات کرنے لگی
میں بالکل ٹھیک بی جان آپ کیسی ہیں وہ دھیمے لہجے میں بات کر رہی تھی

حسنین اپنے کپڑے ورڈروب سے نکال کر فریش ہونی چلا گیا جب کی اسکی پر شوخ نظریں ماہ رُخ سے ہٹنے کا نام نہیں لے رہی تھیں
وہ خود پر حسنین کی نظروں کی تپش محسوس کر رہی تھی لیکن اس نے حسنین كے سامنے یہ بات ظاہر نہیں کیا
جی جی بی جان آپ بے فکر رہیں وہ میرا خیال رکھ رہے ہیں ٹھیک ہوں میں وہ بی جان کی سوالوں کا جواب دے رہی تھی
اچھا بیٹا ٹھیک ہے اب میں فون بند کر رہی ہوں انشا اللہ بَعْد میں بات کریں گے بی جان نے بات کر كے رابطہ منقطع کر دیا
وہ موبائل کو ٹیبل پر رکھ کر کھڑکی کے سامنے سے گرے پردوں کو ہٹانے لگی
وہ فریش ہو کر باتھروم سے باہر آیا نیوی بلیو شرٹ بلیک جینس کی پینٹ بالوں کو تولیے سے رگڑتا ہوا آئینہ كے سامنے کھڑا ہو گیا
وہ کب سے اپنے خوبرو اور ہینڈسم شوہر کو دیکھ رہی تھی جو صرف اس کا نصیب تھا اس پر صرف ماہ رُخ کا حق تھا
دِل دیان گلاں
کراں گے نال نال بیہ کہ آنکھ نال آنکھ نوں ملا كے
وہ بہت خوشگوار موڈ گانا بھی گنگنانا رہا تھا
وہ اسکی سحر انگیز آواز میں کھو سی گئی تھی
جب حسنین کو زیادہ خاموشی محسوس ہوئی تو وہ ماہ رُخ کو اپنے بیتاب نظروں سےڈھونڈ نے لگا اسے خود اپنے بے چینی کی سمجھ میں نہیں آرہی تھی ماہ رُخ کی چپ اس سے برداشت نہیں ہوئی اس کا دِل چاہ رہا تھا ماہ رُخ بولتی رہے اور وہ سنتا جائے پِھر اسکی نظر اپنے سامنے پڑی تو وہ سامنے ہی کھڑی تھی
وہ حیران ہوا كے یہ چُپ کیوں ہے حسنین ہیئر برش کو ڈریسنگ ٹیبل پر رکھ کر اس كے پاس آیا
ماہ رُخ كے چہرے پر مسکراہٹ تھی اور آنکھیں نم
ماہی آپ ٹھیک ہیں وہ اسے ماہی بلا رہا تھا ماہ رُخ نے کوئی جواب نا دیا وہ چُپ رہی
کیا بات ہے جان حسنین وہ بالکل اس كے پاس آکر کھڑا ہوا تو ماہ رخ خیال کی دنیا سے باہر آئی اور اسے اپنے قریب دیکھ فورا انکھیں جھکالیں وہ تو حسنین کو دیکھنے میں کھو سی گئی تھے
کیا . . . کک . . . . کچھ نہیں آپ کب آئے وہ اپنے گھبراہٹ کو چھپانے كے لیے عجیب و غریب سوال کرنے لگی
ھاھاھاھاھاھاھاھ ماہی میں کہاں گیا تھا حسنین آنکھوں میں شرارت اور پیار لیے اسے سے دیکھا رہا تھا
کہیں نہیں میں نے ایسے ہے پوچھ لیا وہ اس نے اپنے اپنی گھبراہٹ پر قابو پا کر کہا
اچھا جی اور کیا کہہ رہی تھی آپ بی جان سے حسنین نے اس كے چہرے پر آئے آوارہ لٹ کو اس كے کان كے پیچھے کرتے ہوئے کہا
ماہ رُخ نے اپنے آنکھیں میچ لیں حسنین اس کی اس حرکت پر دلکشی سے مسکرا دیا
حسنین . . . . اس نے اسے مخاطب کیا
جی ماہی . . . . وہ بھی اس نے اسی لہجے میں کہا دیا
مجھے بھوک لگی ہے ماہ رُخ آہستہ آہستہ اس كے گرفت سے نکل کر جاکر بیڈ پر بیٹھ گئی ماہ رُخ کی آنکھوں میں شرارت تھی
اچھا جی تو یہ آپ کا بھگانے کا طریقہ تھا حسنین نے اسے ترچھی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا
میں کیوں بھگاونگی آپ سے ڈرتی تھوڑی ہوں ماہ رُخ نے بچو کی طرح منہ بنا کر کہا
میں بَعْد میں خبر لیتا ہوں آپ کی اچھی طرح ابھی كھانا آوڈر کر لوں حسنین اسکی جانب پیلو پھینکا جیسے ماہ رُخ نے پکڑ لیا اور اپنے خوبرو شوہر کو دیکھنے لگی
. . . . . . .
حسن اور کتنے دن میں اپنے بیٹی سے دور رہوں گے آپکو مجھ پر ترس نہیں آتا آج فرزانہ بیگم نے اپنے غصے سے پوری حویلی کو سَر پر اٹھایا ہوا تھا وہ ہر حال میں ماہ رُخ سے ملنا چاہتیں تھیں
فرزانہ اب بس تِین دن اور پِھر میں آپکو ہماری ماہ رُخ سے خود ملانے لے چلوں گا حسن صاحب نے اُنہیں سمجھانا چاہا
جیلانی صاحب میں اب اور برداشت نہیں کر سکتی میری بچی مجھے تِین دن بَعْد اپنے آنکھوں كے سامنے چاہئے آواز تو سن لیتی ہوں لیکن مجھے ہر پل اسکی فکر رہتی ہے فرزانہ بیگم نے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا اور اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئیں
حسن صاحب آن كے جاحانرانا انداز کو دیکھنے لگے
. . . . . . . .
بریک فاسٹ ہو چکا تھا ماہ رُخ نے دونوں كے لیے كھانا نکالا حسنین اتنے دیر میں جنید کو اپنے کل کی میٹنگ کی بارے میں بتا رہا تھا جو كے بہت اچھی رہی تھی جس کنٹریکٹ كے لیے وہ لندن آیا تھا وہ کنٹریکٹ اسکی کمپنی کو مل چکا تھا اب اسکی دو دن تک واپسی تھی وہ جنید کو اگاہ کر كے رابطہ منقطع کیا اور ماہ رُخ كے ساتھ اکر سوفے پر بیٹھ گیا
ماہ رُخ نے اسکی توجہ کھانے کی طرف دلائی
وہ بریک فاسٹ کرنے لگا بریک فاسٹ ختم . کر كے دونوں نے چائے پی۔
ماہ رُخ اپنے مگ کو گھور رہی تھی
جب كے حسنین ماہ رُخ کو دیکھنے میں مصروف تھا وہ پزل ہونی لگی
کیا ہے حسنین ایسے کیوں دیکھ رہے ہیں آخر میں اس نے منہ پھولا کر معصوم سا شکوہ کیا جس پر حسنین کا قہقہہ بے ساختہ تھا
ماہ رُخ اسے پہلی بار ک کر ہنستے ہوئے دیکھ رہی تھی اس كے دِل نے اک بیٹ مس کی
حسنین نے بمشکل اپنے ہنسی کو کنٹرول میں کیا اور ماہ رُخ کا ہاتھ پکڑ کر اس کی آنکھوں میں دیکھنے لگا
ماہ رُخ نے اپنی نظریں جھُکا لیں وہ اسکی اس ادا پر تو جیسے قربان ہی ہو گیا
آپ کو پتا ہے جان حسنین میں ساری زندگی ایسی ہی دیکھ سکتا ہوں کیوں کہ میری لیے یہ دنیا کا سب سے خوبصورت منظر اور کوئی نہیں کمرے میں اسکی محبت سے بھری آواز گونجی جب كے اس کی بات سن کر ماہ رخ سرخ ہو گئ
اب چُپ کیوں کیوں بولو نہ کچھ اچھا ٹھیک ہے جب تمھیں کچھ نہیں بولنا تو میں کوئی نہ کوئی گوری ڈھونڈ لیتا ہوں جو مجھ سے پیار بھری باتیں کر سکے کیوں میری بیوی تو بولتی ہی وہ اپنے ہنسی کو دبا کر سنجیدہ لہجے میں کہا
جب كے ماہ رُخ کو تو مانو کسی نے گرم گرم پانی سَر پر ڈال دیا ہو وہ جارحانہ انداز میں اسے گھورنی لگی
میں جان لے لوں گی اس گوری کی سنا آپ نے ماہ رُخ نے اک اک لفظ چبا چبا کر کہا
میری روز جان لیتی ہو یہ کم ہے کیا جو اب کسی اور کی بھی جان لینی ہے آپکو حسنین کی آنکھوں میں محبت کا سمندر رواں تھا
وہ جانے لگی جب حسنین نے اس کا ہاتھ اپنے گرفت میں لیا اس كے راہ فرار كے سارے راستے بند کر دیے
ماہ رُخ نے اسکے چوڑے سینے پر اپنا سَر ٹکا دیا
وہ دونوں مکمل ہو گے تھے انکی زندگی میں اب صرف خوشیاں منتظر تھے
. . . . . . .
بی جان حسنین اور ماہ رُخ کب واپس آرہے ہیں
حسن صاحب اور فرزانہ بیگم آج شاہ ہاؤس آئے ہوئے تھے
کل رات کی فلائٹ ہے انشا اللہ دو دن میں واپس آجائیں گے بی جان كے چہرے پر خوشی صاف ظاہر تھی
اچھا بی جان پِھر ہم چلتے ہیں صبح سے یہیں آئے ہوئے ہیں گھر میں بچیاں اکیلی ہیں اب ہمیں اِجازَت دیں حسن صاحب اور فرزانہ بیگم نے آن سے اِجازَت لے اور گھر كے لیے روانہ ہو گے
. . . . . . . .
حسنین اٹھ جائیں کب سے کہہ رہی ہوں آپ میری بات کیوں نہیں سن رہے ماہ رُخ ڈارک بلیو ڈریس میں ملبوس اسے نیند سے اٹھانے میں لگی ہوئی تھی
کیا ہے ماہی سونے دیں بَعْد میں بات کر لیں گے اس نے چادر واپس کھینچ کر اپنے اوپر ڈالی ماہ رُخ منہ پھلا کر جاکر سوفی پر بیٹھی
حسنین کو جب بہت دیر تک ماہ رُخ کی آواز نا آئی تو اس نے خود چادر ہٹا کر اپنے نظریں ارد گرد کمرے میں گھمائی وہ سامنے بیٹھی نظر آئی اسے۔ بلیو ڈریس میں اس کا سرخ و سفید رنگ اور بھی دمک رہا تھا
کیا کرنا ہے ماہی بتاؤ وہ اب باقاعدہ بیڈ سے اٹھ کر اس كے پاس آیا
مجھے بات نہیں کرنی آپ سے ماہ رُخ اس سے منہ پھیر کر بیٹھ گئی
سوچ لیں مجھے منانا اچھے سے آتا ہے حسنین شرارتی لہجے میں کہا
ماہ رُخ کی تو جان پر بن آئی وہ فوراً اپنا رُخ اسکی جانِب موڑ گئی
حسنین نے مسکرا کر اسے دیکھا
کیا بات ہے حکم کریں آپ وہ اپنے سینے پر ہاتھ کر اس كے سامنے ہلکا سا جھُکا
ماہ رُخ كے ہو نٹوں پر اک شرمیلی مسکان دوڑ گئی
مجھے شاپنگ کرنی ہے بہت ساری اور ہاں آپ مجھے گھمانے بھی لے جائیں گے وہ بچو کی طرح اپنی فرمائشیں بتانے لگی
اچھا ٹھیک ہے میری جان میں آپکو گھمانے اور شاپنگ کرانے ضرور لے کر جاؤں گا بس آپ اپنا موڈ ٹھیک رکھیں وہ اس كے ہاتھ پر ہلکا سا اپنے ہاتھوں کا دباؤ ڈال کر فریش ہونے چلا گیا
واپس اکر رائِل بلیو کوٹ بلیو پینٹ اور وائٹ شرٹ میں ملبوس وہ بہت خوبرو اور بلاشبہ بہت پیارا لگ رہا تھا
ماہ رُخ کی تو نظریں اس پر سے ہٹنے سے انکاری تھیں
وہ آئینے میں نظر آتے ماہ رُخ كے عکس کو دیکھ رہا تھا پِھر جیل لگا کر بالوں کو سیٹ کیاپرفیوم چھڑک کر اپنی تیاری مکمل کر كے ماہ رُخ كے پاس آکر کھڑا ہوا
چلیں اب آپ اپنا نقاب وغیرہ کر لیں تب تک میں کل رات کی سیٹز کنفرم کروا لوں وہ اس سے مخاطب ہوکر فون میں بزی ہو گیا
جب كے ماہ رُخ اپنا نقاب کرنے لگی

کہاں چلنا ہے پہلے وہ اس کا ہاتھ تھامے لفٹ سے باہر آیا اور پارکنگ کی طرف بڑھا
جہاں آپ لے چلیں ماہ رخ نے دھیمے لہجے میں کہا
وہ اسکی بات پر مسکرا دیا
میرا دل تو کہیں اور جانے کا ہو رہا ہے حسنین نے آنکھ دباتے ہوئے کہا
ماہ رخ کے ہڑبڑا کے پیچھے ہو گئی
کم سے کم یہاں تو چھوڑ دیں پبلک پلیس ہے.....
ہاہاہا اچھا بابا ٹھیک ہے پہلے شاپنگ کر لیتے ہیں وہ اسے لیے کار میں بیٹھا اور گاڑی اسٹارٹ کی
جی ٹھیک ہے، ماہ رخ نے اسے دیکھتے ہوئے کہا
کیا بات ہے جانے من نظر لگانے کا اِرادَہ ہے کیا حسنین نے اسکی چوری پکڑ لی تھی
وہ اپنا سَر جھکا گئی
کم اون یار اب اس بات پر بھی تم شرمائو گی وہ آنکھوں میں محبت لیئے اسے دیکھنے لگا
نہیں تو میں کیوں شرمائوں گی آپ اینویں میں خُوش نہ ہوں
میں آپکو نہیں دیکھ رہی تھی اسے بس کچھ ہی دیر لگی تھی خود کو سنبھالنے میں
اب وہ بھی جوابی کروائی کر رہی تھی
اچھا جی لیکن میں نے تو ابھی دیکھا تھا لوگ چُھپ چُھپ کر مجھے اپنے آنکھوں کی حصار میں لیئے ہوئے تھے وہ بعض نہ آیا
ہاں تو دیکھ رہی تھی اس میں کیا ہے آپ بھی تو پورا دن گھورتے رہتے ہیں، تو میں کچھ کہتی ہوں آپکو . . . . . . نہیں نہ
اس نے منہ بنا کر جواب دیا اور منہ پھلا کے بیٹھ گئی
اچھا بابا آپ دیکھ لیں جی بھر كے میں نے کب روکا ہے آپکو اس نے ماہ رخ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا
یہ کیا کر رہے ہیں، ٹھیک سے ڈرائیونگ کریں نہ اس نے اپنا ہاتھ اسکی گرفت سے نیکالتے ہوئے کہا
یار آپ ظالم بیوی ثابت ہو رہی ہیں، میری لئے حسنین نے مصنوعی آہ بھرتے ہوئے کہا
حد ہے حسنین اب کیا کر دیا میں نے اور ویسے بھی
آپکو تھوڑی سے چھوٹ دیتی ہوں تو آپ پھیل جاتے ہیں، اس سے اچھا ہے میں چُپ ہی رہا کروں اس نے سامنے بیٹھے حسنین گھورتے ہوے کہا
ماہ رخ کا ہاتھ ابھی بھی حسنین كے سرخ و سفید مظبوط ہاتھ میں تھا
وہ بلا شبہ ماہ رخ سے کہیں گُنا زیادہ خوبصورت تھا
کم تو ماہ رخ بھی نہیں تھی لیکن حسنین کی بات ہی اور تھی
حسنین۔۔۔۔۔۔ کچھ دیر کی خاموشی كے بَعْد اس نے اسے مخاطب کیا
ہممم . . . بولو اس کا پورا دیہان اب ڈرائیونگ پر تھا
آپکو پچھتاوا تو نہیں ہوگا کبھی كے آپ نے کیوں مُجھ سے شادی کر لی آپکو تو اور بھی حَسِین اور خوبصورت لڑکیاں مل سکتی تھیں
ہمسفر كے روپ میں وہ اپنی بات مکمل کر كے اب بے صبری سے حسنین كے جواب کا انتظار کر رہی تھی
نہیں کبھی بھی نہیں پہلی بات میں عاشق مزاج یا بگڑا ہوا لڑکا نہیں جو ہر کیسی پر دِل ہار بیٹھوں
دوسری بات آپ سے شادی کرنا صرف اور صرف میری اک پلین كے مطابق تھا جو كے بلا جواز تھا اور پِھر انتقام یا کچھ اور کب محبت میں تبدیل ہوا مجھے خد نہیں معلوم
یا شاید جب میں نے آپ کو پہلی بار دیکھا تھا تب ہی میں نے گھٹنے ٹیک دیئے تھے آپ کے سامنے
لیکن میری انا اور بابا ماما کا دکھ مجھے یہ سب قبول کرنے سے روک رہا تھا
لیکن اب جب مجھے معلوم ہے كے حسن ما . . . . . ماموں کی کوئی غلطی نہیں وہ بے قصور ہیں،
تو میرا فرض بنتا ہے كے میں اپنے غلطی مان اور ان سے معافی مانگوں
آپ نے بابا کو ابھی ماموں کہا ماہ رخ اپنے آنکھوں میں ڈھیر سارے آنسو لیئے اسے دیکھ رہی تھی
جس کا ضبط سے چہرہ لال ہو چکا تھا
ماہ رخ نے پانی کی بوتل اسے دی
جیسے اس نے شکریہ کہ كے تھام لیا
اور کچھ دیر چُپ رہنے کے بَعْد پِھر سے اپنی بات کا آغاز کیا
ہاں میں نے بہت کچھ کھویا ہے بچپن میں ماں باپ چھوڑ کر چلے گئے
اس كے بَعْد مجھے ماموں سے اک عجیب سی نَفرت ہوگئی تھی تب تو بچہ تھا
اور یہ بات میں نے بہت ٹائیم تک بی جان سے بھی چھپا کر رکھی تھی كے میں حسن جیلانی سے کس چیز کا انتقام لینا چاہتا ہوں
اُنہیں لگتا تھا میں بچہ ہوں مجھے کچھ معلوم نہیں لیکن بچپن سے ہی میرے اندر نَفرت کا بِیج بن چکا تھا
جو آہستہ آہستہ اپنے جڑیں میرے اندر مضبوط کرتا گیا وہ آج اپنا دِل اور اپنے اندر چھپا ہر درد کو اس كے ساتھ شعر کرنا چاہتا تھا
اچھا ٹھیک ہے آپ ریلیکس ہو جائیں اور موڈ ٹھیک کر لیں ماہ رخ نے اسکی حالت دیکھی تو اس نے دونوں کا چُپ رہنا ہی بہتر سمجھا
ہم واپس جا کر پہلے حسن ماموں كے پاس جائیں گے میں ان سے معافی مانگنا چاہتا ہوں
اس نے اپنے آنکھوں کو بند کر لیا
جیسے آپ کی مرضی ماہ رخ اِتْنا کہہ كے چُپ ہوگئی
اس نے شاپنگ مال کی سامنے گاڑی روکی اور پِھر ماہ رخ کی سائیڈ کا دروازہ کھول کر اس كے سامنے ہاتھ کیا
جسے ماہ رخ نے مضبوطی سے تھام لیا اور اس كے ساتھ چلتی ہوئی مال كے اندر داخل ہوئی
ماہ رخ میں یہاں پہلے بھی بہت بار آچکا ہوں لیکن کیسی لڑکی كے ساتھ آج پہلی بار آیا ہوں اس نے اسے تنگ کرنے لیئےکہا
ماہ رخ نے اسکی ہاتھ پر چونٹی کاٹی
وہ اس کی اس حرکت پر مسکرا دیا
اوکے اوکے اب جو جو پسند آئے لیتی جائیں
مجھے تو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا حسنین نے بے چارگی سے کہا
وہ میں گھر والوں کے لیئے بھی شاپنگ کرنا چاہ رہی تھی ماہ رخ کو کہاں عادت تھی اسے گھمنے کی وہ تو ہمیشہ خد کو اک کمرے تک یا پِھر کزنس كے ساتھ زیادہ رہتی تھی شاپنگ کا اسے کوئی خاص شوق بھی نہیں تھا
کبھی کبھی اسے مانو ضد کر کے اپنے ساتھ لے کر جاتی تھی لیکن وہ وہیں بھی ہوں ہاں میں ہی جواب دیتی تھی
اچھا میں کر لیتا ہوں سب کی شاپنگ حسنین نے اسکی گھبراہٹ کو بھانپ لیا تھا اس لیئےخد ہی سب كی شاپنگ کرنے لگا
ماہ رخ تو اسکی چوائس دیکھ کر حیران رہ گئی اسکی پسند کی ہر اک چیز بہت ہی خوبصورت تھی
وہ شاپنگ کرنے میں مگن تھا جب ماہ رخ کی نظر سامنے کھڑی دو لڑکیوں پر پڑی وہ دونوں لڑکیاں حسنین کو دیکھ کر مسکرا رہی تھی
ماہ رخ انکا لباس دیکھ کر ہی توبہ توبہ کرنے لگی
جب حسنین نے اسے اپنی جانب متوجہ کیا تو
وہ سَر جھٹک کر حسنین کو دیکھنے لگی
بس حسنین چلیں اب میں تھک گئی ہوں اور بھوک بھی لگی ہے جب اس سے اور دیر تک برداشت نہ ہوا تو اسنے اچانک سے ضدی لہجے میں واپس چلنے کا کہا
شاپنگ بھی تقریباً پوری ہوچکی تھی ماہ رخ نے ان لڑکیوں کو جتانے کے لیے حسنین کا ہاتھ پکڑا اور حسنین کو لئے مال سے باہر آگئی
وہ گاڑی میں بیٹھی تب تک حسنین نے بھی ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی
اب کہاں چلنا ہے حسنین نے شاپنگ بیگ پیچھے سیٹس پر رکھتے ہوئے کہا
مجھے بھوک لگی ہے تو پہلے لنچ کر لیتے ہیں، ماہ رخ نے اسے جواب دیا
ماہ رخ چاہے جو بھی ہو جائے حسنین شاہ صرف آپکا ہے اور ہمیشہ آپ کا ہی رہے گا
حسنین نے بھی مال میں ان لڑکیوں کو دیکھ لیا تھا جو اسے گھور رہیں تھیں پِھر ماہ رخ کا خد سے حسنین کا ہاتھ پکڑنا وہ سمجھ گیا تھا كے ماہ رخ جیلس ہو رہی تھی
اسے ماہ رخ سے وہ بات چھیڑنہ مناسب نہیں لگا تو اس نے گھوما پھرا کر اپنی بات سمجھا دی اور گاڑی اسٹارٹ کی

ریسٹورنٹ پہنچنے تک ان دونوں کا ٹائم ہنسی مذاق میں گزرا
وہ دونوں اک دوسرے سے بہت حد تک ناراضگی اور غصہ ختم کر كے اپنے نئے زندگی کا آغاز کر رہے تھے
ریسٹورنٹ پہنچ کر حسنین نے گاڑی روکی اور ماہ رخ کی سائڈ کا دروازہ کھول کر اسے ہاتھ دے کر نیچے اترنے میں مدد کی
وہ اس کا ہاتھ مضبوطی سے تھامے ریسٹورنٹ کی اندر داخل ہوا
آپ آرڈر کریں حسنین نے منیو کارڈ اس كے جانِب بڑھایا
نہیں آپ کر دیں آرڈر ماہ رخ نے اپنے سرخ و سفید چہرے كو نقاب سے آزاد کیا
کیونکہ حسنین نے ریسٹ روم لیا تھا کچھ ٹائم كے لیے
اسے معلوم تھا ماہ رخ کمفرٹیبل نہیں رہے گی اتنے لوگوں كے سامنے
حسنین نے پھر خود ہی دونوں كے لیے كھانا آرڈر کیا
کچھ ٹائم بَعْد وہ کھانے کی پلیٹ لیے کمرے میں داخل ہوا
ماہ رخ اٹھ کر ٹیبل كے سامنے آکر بیٹھی حسنین نے اسکے لیے اپنے ساتھ والی چیئر اگے کی
وہ بھی بغیر کسی جھجھک كے اس كے ساتھ آکر بیٹھی
حسنین نے پہلے اسے كھانا کھلانا چاہا
ماہ رخ کو شرم آرہی تھی یوں حسنین كے ہاتھوں سے كھانے میں
کھا لو جب بہت دیر تک وہ اسکے منہ كے سامنے کھانے کا سپون بڑھائے رکھا تو حسنین نے اسے متوجہ کیا
لیکن وہ پھر بھی سر جھکائے بیٹھی رہی
کھا لو یار مجھے بھی بھوک لگی ہے
ماہ رخ نے منہ نا کھولا تو اس نے اسے تنبیہ کی

ماہ رخ نے آہستہ سے منہ کھولا اور حسنین نے اسے كھانا کھلانا شروع کیا
آپ بھی کھا لیں میں خود کھا لیتی ہوں جب ماہ رخ نے دیکھا كے حسنین صرف اسے ہی کھلائے جا رہا ہے خود نہیں کھا رہا تو اس نے دھیمے لہجے میں کہا
میں کھا لوں گا پہلے تُم کھا لو حسنین نے اسے محبت پاش نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا
اور ماہ رخ بھی چُپ ہوگئی
دونوں نے كھانا ختم کیا حسنین اٹھ کھڑا ہوا
چلیں وہ اس سے مخاطب ہوا جو اپنا حجاب ٹِھیک کر رہی تھی
جی اس نے آہستہ سے کسی بچے کی طرح سَر ہلا کر جواب دیا
حسنین کی ماہ رخ کی اس حرکت پر ہنسی چھوٹ گئی
وہ اسے لیے ریسٹورانٹ سے باہر آیا
پِھر فرنٹ سیٹ کا ڈور کھول کر ماہ رخ كو بیٹھایا اور خود آکر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا
اب کہاں چلنا ہے وہ چاہتا تھا ماہ رخ اس كے ساتھ بہت سے باتیں کرے
کیونکہ ابھی تک تو اسنے ماہ رخ كو اِتْنا بولتے ہوئے نہیں دیکھا تھا
اس نے
مجھے نہیں معلوم میں فرسٹ ٹائم آئی ہوں آپكو ہی پتہ ہو گا وہ معصومیت سے اپنے شہد رنگ آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگی
ماہی اک بات پوچھوں آپ سے وہ کچھ دیر خاموشی كے بَعْد مخاطب ہوا
جی پوچھیں وہ اسے سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی
آپ گھر میں بھی اِتْنا ہی کم بولتی تھیں وہ آنکھوں میں تجسس لیے اسے دیکھنے لگا
جی ہاں شاید لیکن میں آپ سے کیا باتیں کروں
مجھے سمجھ میں نہیں آتا اس نے تحمل سے جواب دیا
لیکن آج صبح میں تُو آپ ٹِھیک تھیں
پِھر اب اس خول میں کیوں سمٹ گئی ہیں
وہ اسےسوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا
نہیں ایسی بات نہیں اس نے بات كو ختم کرتے ہوئے کہا
اچھا چلیں اتریں گاڑی سے حسنین نے گاڑی روکی اور اسے گاڑی سے باہر آنے کا کہا
وہ آرام سے گاڑی سے باہر نکل آئی
تو اسکی آنکھوں كے سامنے اک بہت ہے خوبصورت پارْک تھا
حسنین اس كے چہرے پر خوشی اور آنکھوں میں چمک دیکھ کر سمجھ گیا تھا ماہ رخ پارْک اکر خوش ہوئی ہے
وہ اس کا ہاتھ اپنے گرفت میں لیے پارْک کے اندر داخل ہوا
شام کا ٹائم تھا اتنے لوگ تو نہیں تھے لیکن کچھ فیملیز اپنے بچو كو لے گھمانے كے لیے آئی ہوئی تھی
حسنین اسے لیے اک بینچ پر اکر بیٹھا
حسنین وہ بچی کتنی پیاری ہے نا
ماہ رخ نے بچو كے طرح اس کا ہاتھ ہلا کر اسے اپنے جانِب متوجہ کیا
وہ اس کی اس بے ساختہ حرکت پر مسکرا دیا
ہاں پیاری تو ہے اس نے بھی ماہ رخ کی ہاں میں ہاں ملائی
حسنین میں اس بچی كو اٹھانا چاہتی ہوں ماہ رخ نے اسے التجا بھرے لہجے میں کہا
وہ بچی بھی اپنے نیلی بڑی بڑی آنکھوں سے کب سے ماہ رخ كو گھور رہی تھی کیوں كے اس پارْک میں ماہ رخ سب سے چینج لگ رہی تھی
خود كو ابایا میں چھپائے آنکھوں میں چمک لیے ماہ رخ كو دیکھ رہی تھی
اچھا میں کوشش کرتا ہوں كے اس بچی كے ماما بابا ہمیں اپنے بچی کچھ ٹائم کے لیے دیں
ماہ رخ خوشی سے مسکرا دی ماہ رخ كو مانو كے یاد آرہی تھی
اک آنسو چپکے سے اسکی انکھ سے نکل کر حجاب میں جاذب ہو گیا
تھوڑی دیر بَعْد حسنین اپنے ہاتھوں میں وہ چھوٹی گول مٹول سی بچی لیے سامنے سے آتا ہوا نظر آیا
وہ بینچ سے اٹھ کھڑی ہوئی حسنین نے آتے ہی
بچی اسکے حوالے کی وہ اک الگ ہی دُنیا میں تھی
بچی كو صرف اسکی آنکھیں نظر آرہی تھی اس لیے وہ تھوڑا سا ڈر بھی رہی تھی
حسنین نے بچی کی ماما سے اک فوٹو کھینچنے کا کہا تو وہ مان گئی
حسنین ماہ رخ كے پاس آکر کھڑا ہوا
اک ہاتھ ماہ رخ كے شانے پر رکھا
ماہ رخ اس پیاری سی بچی كو اپنی گود میں اٹھائے کھڑی تھی اور یوں یہ خوبصورت سا منظر کیمرے کی انکھ نے محفوظ کر لیا
آپ دونوں بہت پیارے ہیں اللہ نے چاہا تو آپکو بھی ایسی ہی پیاری سے بیٹی پیدا ہوگی
بچی کی ماں جب ان دونوں سے بچی لی کر جانے لگی تو انہیں دعا بھی دیکر گئی
جس پر حسنین نے دھیمے سے آمین کہا
کچھ ٹائم اس بچی کے ساتھ گزار کر
آن لوگوں نے
اور ہوٹل كے لیے روانہ ہوئے
بہت تھک گئی ہوں میں ماہ رخ نے گاڑی کی سیٹ سے اپنا سَر ٹکاتے ہوئے کہا
ہاں بس اب ہوٹل پہنچنے والے ہیں آپ وہاں جاکر آرام سے سو جانا
حسنین نے اسے تھکا ہوا دیکھا تو کہا
تھک تو وہ خود بھی گیا تھا
لیکن ماہ رخ کی تھکن اسے زیادہ محسوس ہو رہی تھی
وہ لوگ ہوٹل پہنچے تو آتے ساتھ ہی اپنے روم میں فریش ہوکر سُو گے
حسنین کل ہم واپس گھر چلیں گے نا
ماہ رخ كو نا جانے اچانک سے کیوں یہ سوال دماغ میں آیا
ہم . . . . . . جی ہاں کل گھر چلیں گے حسنین نے اپنی آنکھیں کھول کر اسے دیکھا جو اسے دیکھ رہی تھی
اوکے ٹِھیک ہے وہ ھلکا سا مسکرائی اور پِھر اپنے آنکھیں بند کر كے سونے لگی

ؒج کے دن حسنین کی آنکھ جلدی کھل گئی تھی وہ اٹھ بیٹھا
اسے لگا ماہ رخ بھی جاگ گئی ہوگی لیکن ماہ رخ تو ابھی تک سوئی ہوئی تھی
وہ اسے دیکھنے لگا پِھر اس كے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگا
لیکن پِھر اسے لگا کے ماہ رخ کی نیند نہ خراب ہو جائے
اس لئے وہ آرام سے اٹھا اور وارڈوب سے اپنے کپڑے نکالنے لگا
فریش ہونے چلا گیا واپس آیا تو وہ نیند میں ہی تھی
وہ چلتا ہوا ڈریسنگ ٹیبل كے سامنے کھڑا ہوکر بالوں میں برش پھیرنے لگا
وہ نیوی بلو شرٹ پر بلیک جینز میں ملبوس خود پر پرفیوم چھڑک کر کمرے سے باہر چلا گیا
ماہ رخ نے آنکھوں کھولی تو اسے حسنین بیڈ پر نظر نہیں آیا
وہ حیرانگی سے حسنین کی خالی جگہ کو دیکھنے لگی
پِھر اٹھ کر بیڈ سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی
وہ اپنے بالوں کا کلپ اٹھانے لگی جب اس کے ہاتھ میں حسنین كے ہاتھ کا لکھا ہوا لیٹر آیا
میں کچھ کام سے جا رہا ہوں اک دو گھنٹے میں واپس آجاٶں گا تب تک آپ اپنا خیال رکھیئے گا
بریک فاسٹ آپ کا میں نے سامنے ٹیبل پر رکھ دیا تھا
مجھے معلوم ہے آپ زیادہ دیر تک نہیں سوتی اس لیئے كھانا کھا لینا خدا حافظ
حسنین شاہ . .
وہ اس کا لکھا ہوا نام اپنے ہاتھ سے چھونے لگی
پِھر ہلکا سا مسکرا کر بالوں کا جوڑا کرتے ہوئے فریش ہونے چلی گئی
. . . . . . .
اَحمد ہاٶس میں عید کا سماع تھا
سب كے چہرے خوشی سے دمک رہے تھے بی جان کو اَحمد صاحب نے حسنین کی دیر رات فون کال کا بتا دیا تھا
اب بی جان کو یقین تھا كے سب کچھ ٹِھیک ہو چکا ہے
پورے شاہ ہاٶس کو سجایا جا رہا تھا بی جان كے چہرے سے مسکراہٹ اوجھل ہی نہیں ہو رہی تھی
حنا بیچاری صبح سے ہلکان ہوئے جارہی تھی
حنا بیٹا حسن جیلانی كے گھر پر فون کر دے اَحمد سے کہو
بی جان نے اپنا چشمہ ٹِھیک کرتے ہوئے کہا
جی بی جان میں کہتی ہوں
حنا نے ہاں میں جواب دیا
ہاں بیٹا وہ بھی تڑپ رہے ہوں گے کتنے دنوں سے اپنی بیٹی سے نہیں ملے
میں نہیں چاہتی كے اب کچھ اور برا ہو بی جان کی آنکھوں میں آنسو جمع ہونا شروع ہوگئے
وہ بھی تو ماں تھی اور اپنے جوان بیٹے اور بہو کی موت کا صدمے سے ٹوٹ چکی تھیں وہ تو بس حسنین کی خاطر انھوں نے خود کو سنبھالا ہوا تھا
حنا نے پانی کا گلاس بی جان كے سامنے کیا
جسے بی جان نے کانپتے ہاتھوں سے تھام لیا
. . . . . .
حسنین کی دوپہر دو بجے واپسی ہوئی
وہ کمرے میں داخل ہوا تو ماہ رخ سامنے ہی صوفے پر فون میں سر دیے نظر آئی
ماہ رخ کی پشت حسنین کی طرف تھی وہ اپنے ہی خیالوں میں کھوئی ہوئی تھی
حسنین اپنے مضبوط قدم آرام سے اٹھاتا ہوا اس كے پاس آکر کھڑا ہو گیا
پِھر دھیرے سے اپنے مظبوط ہاتھ اسکی آنکھوں پر رکھ دیئے
ماہ رخ چیخ کر چھلانگ لگا کر صوفے سے اتر گئی
حسنین اس كی بدحواسی دیکھنے لگا
وہ اسے آگ برساتی نظروں سے دیکھنے لگی
یہ کیا تھا حسنین مجھے ڈرا دیا آپ نے وہ خود کی سانسوں کو ہم وار کرتے ہوئے کہنے لگی
اچھا بابا سوری مجھے کیا پتا تھا میری بیوی اتنی ڈرپوک ہوگی
وہ اپنے قہقہے کو روکتے ہوئے کہنے لگا
اب یہ مذاق تھا وہ بچوں كی طرح منہ پھولائے کھڑی تھی
نہیں تو وہ آہستہ سے قدم اٹھاتا اسکے پاس آکر کھڑا ہوا
اچھا ٹِھیک ہے پِھر۔
اور آپکا کام ہو گیا وہ واپس صوفے پر جاکر بیٹھنے لگی
جی ہو گیا اور کچھ دیر میں ہمیں ایئرپورٹ کے لیے نکلنا ہوگا اس لئے آپ پیکنگ کر لیں وہ بھی اسکے ساتھ سوفے پر آکر بیٹھا
جی . . . . ٹِھیک ہے میں کرتی ہوں وہ صوفے سے اٹھنے لگی لیکن اس کا ہاتھ حسنین نے اپنے گرفت میں لے لیا
یہ کیا ہے چھوڑیں نہ میرا ہاتھ
مجھے بہت کام ہے وہ ہلکی سی مسکراہٹ سجا کر گویا کوئی
حسنین نے اک چھوٹا سا بوکس کھولا تو اس میں بہت ہی نازک سی ڈائمنڈ رنگ تھی ماہ رخ کی آنکھوں میں چمک آئی
یہ کیا ہے وہ حیرانگی سے حسنین کی آنکھوں میں دیکھنے لگی
آپ كے لئے میری طرف سے اک چھوٹا سا تحفہ وہ اس كے سامنے گھٹنوں كے بل بیٹھ گیا
اِجازَت ہے وہ آنکھوں میں شرارت لئے شَریر لہجے میں کہنے لگا
ماہ رخ نے چہرے پر مسکراہٹ سجا کر ہاں میں سَر ہلایا
اس نے نازک سی ڈائِمنڈ کی رنگ ماہ رخ کے نازک سے ہاتھ میں پہنا دی
اور ماہ رخ کے ہاتھ پر اپنی محبت کی نشانی چھوڑی
پِھر اٹھ کھڑا ہوا
اب آپ کر لیں کام وہ ماہ رخ کی آنکھوں میں اک خوشی اور انسں دیکھ سکتا تھا لیکن پھر وہ اٹھ کر چینج کرنے چلا گیا
ماہ رخ ابھی بھی اسی سحر میں کھوئی ہوئی تھی
پِھر اپنے ہاتھ میں میں سجی رنگ کو دیکھنے لگی
اک پیاری سی مسکان اسکے ہونٹوں پر آکر غائب ہوگئی
وہ اپنا ذہن جھٹک کر پیکنگ کرنے لگی
. . . . . .
حسنین نے بیگز گاڑی میں رکھوائے اور دونوں روانہ ہوگئے
میری زندگی كے خوبصورت اور یادگار پل یہی تھے
جو میں یہاں آپ كے ساتھ گزار کر جارہی ہوں مسٹر حسنین شاہ
وہ آخر اپنے دِل کی بات زبان سے بیان کر گئی
حسنین کو لگا اسکے دل سے بہت بڑا بوجھ اتر گیا ہو جیسےجیسے
وہ خوش تھا بہت خوش کیوں كے اسکی محنت اور محبت کامیاب ہو گئی تھی
نفرت تو ماہ رخ نے اسکے دِل اور دِماغ سے کب سے نکال دی تھی
انہیں باتوں میں وہ ایئرپورٹ پہنچ گئے
حسنین گاڑی سے اتر کر بیگز وغیرہ نکلوا کے ماہ رخ کو لئے ایئرپورٹ كے اندر داخل ہوا
کچھ دیر میں اسکی فلائٹ کا ٹائم ہوا تو وہ دونوں اپنی اپنی سیٹس پر آکر بیٹھے
اس بار حسنین خود ہی اپنا ہلکا سا حصار اس پر کھینچ لیا تھا
ماہ رخ اسکی اس حرکت پر مسکرا دی
اب تو ڈر نہیں لگے گا نہ حسنین نے سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا
نہیں . . . ٹِھیک ہوں میں وہ دھیمے لہجے میں گویا ہوٸی
۔۔۔۔۔
اللہ جانےاگے کیاہونے والا تھاوہ
دونوں سہی سلامت گھر پوہنچنے والے تھے بھی یا نہیں۔۔۔۔۔

کچھ ٹائم بَعْد ماہ رُخ تو اسکے کندھے پر سَر رکھ کر سو گئی
حسنین نے اس كے سَر پر اپنا سَر رکھا اور سو گیا
کچھ گھنٹے کی پر سکوں نیند کے بعد دونوں جاگ ہوی
کیا ہوا بھوک لگی ہے کیا حسنین کے اسکی شہد رنگ آنکھوں میں دیکھ کر پوچھا
نہیں ابھی نہیں لگی اس نے نفی میں سر ہلا کر کہا
حسنین آپ اپنا موبائل دیں گے مجھے
وہ اس کا موبائل مانگ رہی تھی اصل میں وہ حسنین کا ری ایکشن دیکھنا چاہتی تھی
ہاں کیوں نہیں حسنین ب نارمل سا ری ایکٹ کیا اور اپنا موبائل اسکے ہاتھ پر رکھ دیا
پاسورڈ تو کھول کر دیں وہ ویسے ہی موبائل ہاتھ میں رکھے اسے کہنے لگی
پاسورڈ نہیں لگا ہوا حسنین اپنا سَر سیٹ پر ٹکا کر انگھیں موندے سونے لگا
ماہ رُخ کی آنکھیں کھولی رہ گئیں
لیکن پِھر وہ اس کا موبائل اوپن کر كے اسکی گیلری کھولنے لگی
جس میں تھوڑے بہت سانگس تھے
جنید كے ساتھ حسنین کی تصاویر تھیں
لیکن اک جگہ آکر ماہ رُخ کی آنکھیں حیرانی سے کھول گئیں

کیوں کے وہاں پر ماہ رُخ کی پکچرز تھیں اور بھی بہت سی تھے جہاں پر ماہ رُخ کو خبر تک نہیں تھی كے کوئی اسکی پکچرز کیپچر کر رہا ہے
وہ واپس حسنین کی جانب دیکھنے لگی جو پرسکون نیند میں تھا
اسکی زیادہ پکچرز حسنین نے لندن میں لی تھیں
ماہ رُخ نے موبائل اوف کر كے رکھ دیا
کچھ دیر بَعْد فلائٹ پاکستان لینڈ کر چکی تھی
وہ دونوں باہر آئے ائرپورٹ پر گھر كے سب لوگ انہیں ویلکم کرنے کے لیے کھڑے تھے
ماہ رُخ کی نظریں تو صِرف حسن جیلانی اور فرزانہ بیگم پر جم گئیں
وہ بھاگ کر انہیں گلے سے لگانا چاہتی تھے اس کا ہاتھ ابھی بھی حسنین کی گرفت میں تھا
وہ اپنے آنسوں سے بھری ہوئی آنکھیں اسکی جانب کر کے دیکھنے لگی
حسنین نے اس کا ہاتھ چوڑ دیا اور آنکھوں سے اشارہ کیا
تُم جاؤ مل لو سب سے حسنین کی بھی آنکھیں نم تھی
ماہ رُخ بھاگ کر حسن صاحب كے گلے سے لگ گئی
وہ اپنے آنسو اپنی تڑپ رُو کر ختم کرنا چاہتی تھی وہ بہت ٹائم تک انکے سینے سے لگی آنسو بہاتی رہی
فرزانہ بیگم نے اسے حسن جیلانی سے الگ کیا اور اپنے آغوش میں لیا
ماںً کے آغوش سے بہتر دُنیا کی کوئی جگہ نہیں اک ماں ہی تو ہے جو اپنے بچے کو ہر سرد و گرم ہوا سے بچاتی ہے
فرزانہ بیگم نے اسے اپنے سے الگ کر كے اس کا ماتھا چوما
پِھر وہ مانو سائرہ اور انوشے والوں کی جانب متوجہ ہوئی
حسن جیلانی خود چل کر حسنین كے پاس گیے
وہ اپنا سَر جھکائے وہیں پر کھڑا تھا جہاں پر ماہ رُخ نے اس کا ہاتھ چھوڑا تھا
حسنین بیٹا اپنے ماموں سے نہیں ملو گے حسن صاحب کی آواز دَرْد سے روندھ گئی
مجھے معاف کر دیں آپ وہ زندگی میں پہلے بار کسی كے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑا تھا
کوئی بات نہیں غلطیاں ہم سب سے ہوتی ہیں،
میرے بچے حسنین صاحب نے اسکے جوڑے ہوئے ہاتھ کھول دیے اور اپنے سینے سے لگا لیا
حسنین كے دِل میں اب کوئی نفرت نہیں تھی
وہ نفرت کو بھول کر آگے بڑھا تھا
حسن صاحب اسے لیے بی جان كے پاس آئے
بی جان نے اسکی ماتھے پر بوسہ دیا اور پِھر دونوں سب سے ملے
اور ائرپورٹ سے باہر آکر اپنی اپنی گاڑیوں میں بیٹھ گئے
ماہ رُخ اب ٹینشن میں تھی كہ وہ کس كے ساتھ بیٹھے
کیونکہ بی جان نے اسے حسن جیلانی کی گاڑی میں بیٹھنے کا کہا تھا
لیکن وہ پریشان تھی کہیں حسنین غصہ نا کرے اس لیے وہ اسے دیکھ رہی تھی
حسنین نے اسے اشارے سے حسن صاحب کی گاڑی میں بیٹھنے کا کہا
وہ خوشی خوشی حسن صاحب کی گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہوئی
سب لوگ شاہ ہاؤس پہنچے
گھر میں داخل ہوئے تو پورے گھر میں اک خوشی کا ماحول تھا سب باہر ہی لاونج میں بیٹھے خُوش گپیوں میں مصروف تھے
ماہ رُخ مانو حنا والوں كے ساتھ تھی
حسنین کو تو وہ بھول ہی گئی تھی
حسنین منہ پھولائے اسے دیکھ رہا تھا
پِھر اٹھ کر اپنے گاڑی کی چابی اٹھا کر گھر سے باہر نکل آیا
اس کا اِرادَہ جنید سے ملنے کا تھا
وہ فون کر كے جنید کو ملنے کا بتا چکا تھا
اس نے اپنے گاڑی جنید كے گھر كے باہر روکی
اور پِھر جنید کو کال کر بتایا كہ وہ اس كے گھر كے باہر کھڑا ہوا ہے
کچھ ٹائم بعد جنید گھر سے باہر اتا ہوا دکھائی دیا
کیسے ہو بڈی بہت مس کیا تجھے جنید آتے ہی گرم جوشی سے اس سے ملا
میں نے بھی بہت مس کیا تمہیں حسنین نے اسے ٹائٹ ہگ کیا
چل اوئے جھوٹ نا بولو مجھے پتہ ہے تُم نےشکرانے كے نفل پڑھے ہونگے كے میں کچھ دن تمھارے ساتھ نہیں تھا
ویسے بھابھی بھی تھیں تمھارے ساتھ مجھے تو بھول ہی گئے ہونگے آپ جنید نے اسکی ٹانگ کھینچی
تمہاری بکواس کبھی بند نہیں ہو سکتی حسنین نے زور سے ہاتھ اسکی کمر پر مارا
ھائے ظالم انسان مار ڈالا جنید کی ایکٹنگ عروج پر تھی
اُف . . . . . . تمھارے ڈرامے جنید
وہ ہنستا ہوا گاڑی میں بیٹھا
جنید بھی فرنٹ سیٹ کا ڈور کھول کر بیٹھ گیا پِھر دونوں روانہ ہوئے
. . . . . . . .
ماہ رُخ کی نظر کب سے بار بار حسنین کو ڈھونڈ رہی تھی لیکن وہ اسے نظر نہیں آرہا تھا
وہ سمجھی شاید وہ فریش ہونے چلا گیا ہو اس لیے اپنا دھیان سائرہ والوں کی باتوں پر کی طرف کرلیا
لیکن سائرہ حنا اور مانو نے اسے مانئی خیز نظروں سے دیکھ رہی تھیں
کیونکہ انہیں اسکے چہرے پر پریشانی صاف نظر آرہی تھی
وہ انکی نظروں کا مطلب سمجھنے سے قاصر تھی
کیا ہوا چُپ کیوں ہوگئے ہیں،۔۔۔۔۔ سب وہ سوالیہ نظروں سے سب کو دیکھنے لگی
کسے ڈھونڈا جا رہا ہے آخر ہمیں بھی تو پتہ چلے سائرہ نے اسے کوہنی ماری اور چھیڑنے والے اندازِ میں کہا
کسی کو بھی نہیں میں تو بس وہ ھلکا سا مسکرا کر چُپ ہوگئی
میں تو بس کیا بھائی کی یاد ستا رہی ہے ابھی سے آپکو مانو نے بھی باتوں میں اپنا حِصَّہ ڈلا
نہیں ایسا کچھ نہیں ہے تُم سب فضول میں تنگ نہیں کرو مجھے
وہ منہ بنا کر وہاں سے اٹھ گئی
جب سائرہ وغیرہ کے قہقہوں نے اس کا پیچھا دور تک کیا
وہ بی جان كے پاس سے گزر رہی تھی جب بی جان نے اسے اپنے پاس بلایا
ماہ رُخ بیٹا حسن کو کوئی کام تھا آفیس کا وہ اور تمہاری ماں تو گھر چلے گئے
اور ہاں کل کی تمہیں اور حسنین کو دعوت بھی دے کر گئے ہیں،
رات میں حسنین کو بتا دینا جب وہ گھر آئے بی جان نے اسے پیار سے کہا
كہاں گئے ہیں وہ بی جان ۔۔۔۔ماہ رُخ نے سرسری سے لہجے میں پوچھنے لگی
وہ اپنے دوست سے ملنے گیا ہے مجھے بتا کر گیا تھا بی جان نے اپنا چشمہ ٹھیک کرتے ہوئے کہا
اَچّھا ٹھیک ہے بی جان وہ مایوس ہوگئی تھی
لیکن اسے غصہ بھی آرہا تھا كے حسنین نے اسے بتایا بھی نہیں . . .
مجنو اب تو آپ کا غصہ کم ہو گیا ہے اسکے پیچھے بھی بھابھی کا ہاتھ ہے جنید اور وہ راستے میں تھی جب جنید نے چھرے پر سنجیدگی جب کے انکھوں میں شرارت لیے گویا ہوا
تو کمینہ انساں ہے جب غصہ کرتا تھا تب بھی تمہیں سکوں تھا
اب جب نہیں کرتا تب بھی تمہیں مسئلا ہے وہ موڑ کاٹتے ہوے کہہ رہا تھا
حسنین کے فوں کب سے فون کالز ارہی تھیں
جیسے وہ کب سے نظر انداز کر رہا تھا
اوئے کان کام نہیں کر رہے کیا
خب سے فون پر بھابھی کی کالز ارہی ہیں بات کیوں نہیں کر رہے
تم اس بات کو چھوڑو اور کہاں چلنا ہے یے بتاو حسنین کے چہرے پر صاف نظر ارہا تھا کے وہ اس بارے میں بات نہیں کرنا چاہتا۔۔

وہ غصے میں اپنے کمرے میں داخل ہوی پھر اپنا موبائل لے کر حسنین کو کال کرنے لگی
بہت بار کالز کرنے کے بعد بھی جب حسنین نے اسکا فون نہیں اٹھایا
اس نے غصے میں اپنا فون بیڈ پر پھینک دیا
کیوں كے اب اسے یقین تھا كے حسنین اس سے ناراض ہے
وہ خود کا غصہ ختم کر كے کچھ دیر بَعْد کمرے سے نکل آئی
اور حنا كے کمرے کا رخ کیا جہاں پر سائرہ حنا وغیرہ سب ساتھ میں بیٹھے باتوں میں مصروف تھے
ان سب کی بھی اک دوسری سے دوستی ہو چکی تھی
وہ کمرے میں داخل ہوئی تو سب كے چہرے پر شرارتی مسکراہٹ رقص کر رہی تھی
اسنے سب کو نظر اندازِ کرتے ہوے سامنے رکھے صوفے پر بیٹھ گئی
سائرہ مانو آج رات تم دوںوں یہیں رک جاو میں اور حسنین بھی کل جائیں گے تو ساتھ ہی چلیں گے سب
اس نے عام لہجے میں کہا
ہاں تم سب آج رات میرے ساتھ رہو حنا نے بھی ماہ رخ کی ہاں میں ہاں ملائی
اچھا ٹھیک ہے آپی مانو نے ہاں میں جواب دیا
سائرہ کو بھی کوئی پروبلم نہیں تھی
وہ سب باتوں میں گم تھی ماہ رخ بار بار ٹائم دیکھ رہی تھی
رات كے نو بجہ چکے تھے اور حسنین گھر نہیں آیا تھا
وہ غصے میں بیٹھی ہوئی تھی جب حنا کے کمرے کا دروازا نوک ہوا
جی آجائیں حنا نے آنے والے کو اِجازَت دی جب كے اندر داخل ہونے والا کوئی اور نہیں بلکے حسنین تھا
سائرہ اور مانو نے سَر پر دوپٹہ رکھا اور حسنین کو سلام کیا
کیوں کے وہ سب حسنین سے ایئرپورٹ پر نہیں ملیں تھیں
حسنین نے شَفْقَت بھرا ہاتھ انکے سروں پر رکھا
مانو کی آنکھوں میں نمیں آگئی تھی انکی زندگی میں صرف بھائی کی کمی تھی
حسنین نے بھی بات کو سمجھا
اس لیئے وہ مانو سے مخاطب ہوا
مانو میں آپ کا بھائی بھی ہوں بچے آج سے آپ یے نہیں سوچنا کے آپ کا کوئی بھائی نہیں ان نے مانو کے سر پر ہاتھ رکھ کے کہا
جی بھائی مانو نے اپنے انسوں صاف کیے اور دھیمے سے مسکرائی
سب مسکرا دیئے حسنین نے سب كے دلوں میں اپنی جگہ بنا لی تھی
یہ سچ تھا كے اس نے ماہ رخ سے زبردستی نکاح کیا لیکن اس نے ماہ رخ کو کیسی اذیت سے دو چار نہیں کیا تھا وہ صرف بھٹکا ہوا تھا
اچھا آپ سب انجوائے کریں میں چلتا ہوں حسنین ماہ رخ كے پھولے ہوئے چہرے پر اک نظر ڈال کر كے کمرے سے چلا گیا
سب نے ماہ رخ کو مشکوک نظروں سے دیکھا
جو اب تک پتہ نہیں کتنے بار ٹائم دیکھ چکی تھی وہ سب جانتی تھی كے وہ حسنین کا انتظار کر رہی تھی
ماہ رخ تُم بھائی كے پاس جائو اسے کھانے کا پوچھو سائرہ نے اسکے مزاج کو جانچتے ہوئے کہا
وہ بھی بغیر کچھ کہے کمرے سے نکل کر اپنے کمرے کی طرف چلی گئی
حسنین فریش ہونے گیا تھا وہ غصے سے چہرہ لال کیئے ٹہلنے لگی
وہ واش روم سے جیسے باہر آیا تو ماہ رخ کو اپنے انتظار میں پایا
وہ بھی بنا کچھ کہے اپنے کڑتے کے بٹن بند کرنے لگا
وہ کالی شلوار قمیض میں ملبوس اپنے تمام تَر مردانہ وجاہت كے ساتھ اس كے سامنے کھڑا اسے نظر انداز کر رہا تھا
ماہ رخ چور نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی
حسنین نے اک نظر موڑ کر اسے دیکھا پِھر سَر جھٹک کر اپنے کڑتے کی بازو فولڈ کرنے لگ گیا
کہاں سے آ رہے ہیں جب اس سے رہا نہیں گیا تو وہ ناگواری سے اس كے پاس آئی انداز برہم تھا
آپکو کیوں بتاؤں آپ جائیں نا اب میرا خیال کیوں آیا آپکو وہ بھی اسی لہجے میں جواب دے کر آگے بڑھ گیا
آپ ناراض ہیں مُجھ سے وہ پِھر سے اس کا رستہ روکے سامنے کھڑی ہوگئی
نہیں میں ناراض نہیں ہوں ہٹ جائیں اب وہ اپنے موبائل میں لگ گیا جیسے کہنا چاہ رہا ہو مجھے بات نہیں کرنی
ماہ رخ نے اس كے ہاتھ سے اس کا موبائل چھین کر زور سے زمین پر پھینکا
حسنین کی آنکھیں حیرانگی سے اور بھی کھول گئی اس کا قیمتی موبائل پوری طرح سے ٹوٹ چکا تھا
لیکن پِھر کچھ ٹایم بَعْد وہ اپنے سامنے کھڑی ماہ رخ کو سنے پے ہاتھ باندھے کھورنے لگا
اس پر حسنین کے گھوری کی کوئی پرواہ نہیں تھی یہ اعتماد بھی حسنین کا ہی دیا ہوا تھا
حسنین کی آنکھوں میں اب حیرت کی جگہ شرارت نے لے لی تھی
وہ اسکے پاس قدم بڑھانے لگا
ماہ رخ اب ٹھٹھک کر پیچھے ہٹنے لگی
وہ . . . . ووو . . . . . . وہ آپ نے كھانا کھایا وہ جلدی سے بھاگ کر اس سے بہت دُور جاکر کھڑی ہوئی
یہ کیا ہے ماہ رخ آپ بھاگ کیوں جاتی ہیں ہمیشہ
جب خود سے بڑی حرکتیں کرتی ہیں تب آپکو ڈر نہیں لگتا وہ اپنے چہرے پر جاندار مسکراہٹ تھی
محبت سے چور لہجے میں کہہ رہا تھا
کیوں كے مجھے پتہ ہے آپ مجھے کچھ نہیں کہیں گے اس لیئے وہ اسے جلدی سے کہہ کر کمرے سے بھاگ گئی
جب كے حسنین اسکی حرکتوں پر مسکرا دیا
وہ رات گئے تک سائرہ والوں كے ساتھ تھی جب اسے نیند آنے لگی تو وہ اپنے کمرے میں جہاں حسنین لائٹ اوف کئے نیند میں گم تھا
وہ آھستہ سے چلتی ہوئی بیڈ كے پاس آئی اور اپنے جگہ پر تکیہ رکھا پھر سونے کی کوشش کرنے لگی
اب بھی نہ آتیں آپ کیسے خیال آیا حسنین نے نیند سے بوجھل آواز میں کہا
وہ مڑ کر اسے دیکھنے لگی جسکی آنکھیں بند تھیں لیکن وہ جاگ رہا تھا
مانو والی تھی تو ان كے ساتھ ٹائم کا پتا ہی نہیں لگا
اور آپ سو جاتے نہ کونسا میں آپ کو لوری سنا کر سلاتی ہوں اس نے شاراتی لہجے میں کہا
آپ کیوں چاہتی ہیں میں آپ سے سختی سے پیش آئوں اس نے اپنے اک آنکھ کھول کر ماہ رخ کو دیکھا
وہ دلکشی سے مسکرا دی اور حسنین نے اسے جھٹکے سے اپنی طرف کھینچا وہ ہستی ہوئی اس کی چوڑی سینے میں سماع گئی
حسنین کل میں بابا والوں كے پاس جانا چاہتی ہوں اور بابا نے آپکو بھی بلایا ہے
تو ہم کل چلیں اس نے اجازت طلب نظروں سے حسنین کو دیکھا
ہاں چلیں گے ضرور حسنین نے پیار سے جواب دیا

صبح ماہ رخ کی آنکھ پہلے کھل گئی تھی
پِھر اک جماعی لے کر اپنی گردن کو سہلانے لگی
کمرے میں ہلکی سی روشنی تھی کیوں كے اے.سی کی وجہ سے پورا کمرا بند تھا
وہ بیڈ سے اتر کر کھڑکی کے پاس آ رکی اور کھڑکی پر گرے پردے ہٹائے
حسنین ابھی بھی گہری نیند میں تھا
اس نے گھڑی پر ٹائِم دیکھا تو صبح کے آٹھ بج رہے تھے
وہ پہلے خود نہا کر پیچ کلر کی فراک اور چوڑی دار پجامے میں ملبوس ڈریسنگ ٹیبل كے سامنے گھڑی ہو کر اپنے بالوں کو برش سے سیدہا کرنے لگی
پِھر حسنین کی جانب آئی اسے نیند سے جگانے كے غرض سے
حسنین . . . . . اس نے دھیے آواز میں اسے پکارا
اک تو یہ بھی نا مجال ہے جو اک ہی بار کہنے پر اٹھ جائیں
وہ بڑبڑاتی ہوئی اس كے اور پاس آکر کھڑی ہوئی اور اس بار تھوڑا سا تیز آواز میں مخاطب کیا
حسنین اٹھ جائیں نہیں تو میں پِھر سے پانی لے آ رہی ہوں اس نے تیز لہجے میں کہا
حسنین نیند کو بھگانے كے لیئے اپنی آنکھوں کو زبردستی کھلنے کی کوشش کرنے لگا
ماہ رخ کو اس پر ٹوٹ کر پیار آرہا تھا
لیکن وہ خود پر بند باندھتے ہوئے اس كے کپڑے واڈروب سے نکال کر واش روم میں رکھ آئی
حسنین کہونی بیڈ سے ٹکائےاپنے چہرے كے نیچے ہاتھ رکھے اسے اپنے آنکھوں كے حصار میں لیئے ہوئے تھا
مجھے گھورنا بند کریں اور جلدی سے تیار ہوکر نیچے آجائیں
وہ اس كے بالوں کو بکھیر کر بھاگ گئی
حسنین کی عنابی ہونٹھ مسکرا دیئے
وہ باتھ روم میں گھس گیا
ماہ رخ کمرے سے نکل کر حنا كے کمرے میں گئی

جہاں سائرہ مانو اور حنہ اک ساتھ سوئے تھے
وہاں وہ تینوں نیند میں تھیں
وہ اُنہیں دیکھ کر کمرے سے باہر اگائی
پِھر کچن میں آکر ملازمہ کو بریک فاسٹ کا مینیو بتایا اور باہر لان میں آئی وہاں پر ہلکی ہلکی دھوپ تھی
وہ آ کر بینچ پر بیٹھی
حسنین نے فریش ہوکر اپنے بالوں کو سنوارا اور پرفویم چھڑک کر کمرے سے باہر نکل آیا
لاونج میں اسے صرف یکا دوکا لوگ نظر آئے
وہ آکر لاونج میں ہی بیٹھ گیا اور نیوز پیپر پھڑنے لگا
ماہ رخ کچھ دیر لان میں ٹہلنےكے بَعْد گھر كے اندرونی حصے میں داخل ہوئی تو
حسنین اسے سامنے بیٹھا نظر آیا
وائیٹ شلوار قمیض میں ملبوس چہرے سنجیدگی لیئے وہ اخبار پھڑنے میں مصروف تھا
آج سنڈے تھا تو وہ ابھی تک آرام سے گھر پر ہی تھا
ماہ رخ دھیرے سے چلتی ہوئی اس كے ساتھ کچھ فاصلے پر آکر بیٹھی
اس نے ماہ رخ کو اک نظر دیکھا اور مسکرا دیا
وہ اس کے سرخ لمبی انگلیوں والے ہاتھ دیکھنے لگی
اک بات تو ماننی پڑے گی كے بہَت کم لڑکے ایسے ہوتے ہَیں جن كے ہاتھ پائوں بھی خوبصورت ہوں
لیکن ان میں مکمل خوبصورتی ہے
وہ چہرے پر مسکراہٹ سجائئ بڑبڑا رہی تھی
حسنین کو لگا وہ اکیلے ہے بولی جارہی ہے تو اس نے نیوز پیپر ٹیبل پر رکھا
اور غور سے اپنے پہلو میں بیٹھی مسکراتی ہوئی بیوی کو دیکھنے لگا
کیا بات ہے جانے حسنین کس بات پر مسکرایا جا رہا ہے
وہ نرم آواز اور پر شوخ نظروں سے اسے دیکھنے لگا
کچھ نہیں بس ایسے ہی وہ اب اپنا دھیان ادھر اُدھر کرنے كے لئے اپنا چہرہ موڑ گئی
حسنین مسکرا دیا
کچھ ٹائِم بَعْد سائرہ والی بھی نیند سے اٹھ گئیں اور سب کمرے سے باہر نکل آئی
ماہ رخ کچن کا کام دیکھ رہی تھی
سب نے اک ساتھ ناشتہ کیا
ماہ رخ نے حسنین کی پلیٹ میں املیٹ ڈالا
پِھر خد کھانے لگی
حسنین بیٹا آج حسن کی طرف جانا ہے بچیوں جلدی کرو ناشتہ ختم کر کے پھر تم لوگوں نکلنا بھی حسن کئ بار فون کرچکا ہے صبح سے
جی بی جان نے انہیں اگاہ کیا
ماہ رخ آپ سب بھی تیار ہو جائیں جب نکلنا ہو تو مجھے بتا دیجیئے گا میں آجائوں گا
ابھی تھوڑا سا کام ہے وہ کر لوں وہ مسکرا کر کہتا ہوا اپنے کمرے میں گیا
جب كے ماہ رخ تو اسکی مسکراہٹ میں کھوئی ہوئی تھی
کوئی اتنا خوبصورت کیسے ہو سکتا ہے وہ اپنے دِل پر ہاتھ رکھے سوچنے لگی پِھر اپنی ہی بات پر مسکرا دی
وہ سب تیار ہوکر لاؤنج میں آ گئیں بی جان نے ماہ رخ سے حسنین کو بلا لانے کا کہا تو تو وہ اپنے اور حسنین كے مشترکہ کمرے میں آئی
اسکی ہاتھ لیپ ٹاپ پر جلدی جلدی سے ٹائپنگ کر رہے تھے
وہ دھیرے سے چلتی اس كے پاس آئی
آپ جب فری ہوجائیں تو آجائیں نیچے ہم سب ویٹ کر رہے ہَیں
اسکی نظریں اب بھی حسنین كے چلتے ہاتھوں پر تھیں
بس میں فری ہوں پانچھ منٹ ویٹ کریں
وہ اپنا کام کر كے فارغ ہوا تو لیپ ٹاپ اوف کر كے بیڈ سے اٹھ گیا
تب تک اس کا روم نوک کر كے ملازمہ اک باکس لے کر آئی
حسنین نے اس سے بوکس لیا اور واپس جانے کا اشارہ کیا
اور خود بوکس کھولنے لگا
اس میں کیا ہے اور کس نے بیجھا ہے ماہ رخ نے پوچھا
اس میں میرا موبائل ہے جنید سے کہا تھا اس نے بھیجا ہے
میرا بے چارہ موبائل تو رات ٹوٹ چکا ہے حسنین نے آہ بھرتے ہوئے کہا
ماہ رخ کی ہنسی کمرے میں گونجی
میں تو بھول ہی گئی تھی خیر میری غلطی نہیں تھی آپ میرے ہوتے ہوئے موبائل میں گم تھے
تو اس لیے میں نے آپ کا موبائل توڑا وہ صفائی میں کہنے لگی
اس کا مطلب ہے آپ چاہتی ہَیں میں دن رات آپ میں گم رہوں اس نے شریر لہجے میں کہا
جب كے مسکراہٹ اس كے حسین اور خوبرو چہرے پر رقص کر رہی تھی
میں نے ایسا تو نہیں کہا ماہ رخ کترا کر بھاگنے كے لیے پر تولنے لگی
پِھر کیسا کہا ہے مجھے بھی سمجھا دیں وہ اور شریر لہجے میں کہنے لگا
اک اک قدم اسکی جانب بڑھانے لگا
ماہ رخ جھک کر نیچی سے نکل کر شرماتے ہوئے کمرے سے بھاگ گئی
حسنین بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے اسے دیکھنے لگا
پِھر کمرے سے باہر نکل گیا
وہ نیچے آیا تو سب تیار کھڑی تھیں جانے کی لیئے
حسنین نے مانو سے ہلکی پھلکی باتیں کی اور باہر نکل گیا
ماہ رخ لوگ بھی اس كے پیچھے ہی تھی
اس نے گاڑی کا دروازہ کھولا ماہ رخ فرنٹ سیٹ پر جب كے سائرہ اور مانو پیچھے بیٹھ گئیں
حسنین ڈرائیونگ سیٹ پر آیا اور گاڑی اسٹارٹ کی

کیا ہوا اتنی خاموشی کیوں ماہ رخ نے جب سب کو چُپ دیکھا تو پیچھے مڑ کر دونو کو دیکھ کے گویہ ہوئی
بس ایسے ہی دونو نے مسکورا کر جواب دیا
وہ لوگ جیلانی حویلی پہنچے تو حسنین نے باہر نکل کر گاڑی کا دروازہ کھولا
وہ سب باہر نکل آئیں
ماہ رخ اور حسنین گھر میں داخل ہوئے تو حسن صاحب نے گرم جوشی سے دونوں کا استقبال کیا
حسنین کو بہت دیر تک وہ گلے سے لگائے کھڑے رہے
حسنین نے بھی محبت کا جواب محبت سے دیا
وہ سب گھر میں داخل ہوئے سب لوگ اک ساتھ بیٹھے باتیں کر رہے تھے
حسن صاحب کی آنکھیں نم تھیں آج انکی ہانیہ ان كے ساتھ نہیں تھی
ہانیہ کا خون تھا اس کا بیٹا آیا تھا
انہوں نے پورا دن ہنسی مذاق اور آپس میں باتیں کرتے ہوئے گزارا واپسی پر حسن صاحب نے ماہ رخ اور حسنین کو بہَت سے تحفے تحائف
كے ساتھ رخست کیا
جس پر حسنین منع کرتا رہ گیا لیکن حسن صاحب نے اسکی اک نا سنی
وہ اور ماہ رخ گاڑی میں آکر بیٹھے
تھوڑے دیر بَعْد ماہ رخ کو گاڑی میں ہی نیند آگئی
حسنین اس حسین اسے انکھوں کے ظریئے دل میں اتارنے لگا
وہ سوتے ہوئے اور بھی پیاری لگ رہی تھی اس کے بال اس کے چہرے پر آ گئے تھے جسے حسنین نے بہت احتیات سے ہٹایا
پِھر مسکرا کر اپنا دھیان ڈرائیونگ پر دینے لگا

وہ لوگ گھر پہنچے تب تک ماہ رخ گہری نیند سو چکی تھی
حسنین نے اسے اک دو بار پکارا جب ماہ رخ پِھر بھی نا اٹھی تو وہ اپنی سیٹ سے اٹھ کر اسکی طرف آیا
اور جھک کر ماہ رخ کو آرام سے اپنی بانہوں میں اُٹھائے گھر کی جانب بڑھ گیا
وہ بار بار ماہ رخ کی بند آنکھوں کو دیکھ رہا تھا
گھر میں داخل ہوا اور سیڑھیاں پھیلانگتا ہُوا اپنے کمرے تک آیا
پِھر اپنے پیر سے دروازے کو دھکیلا تو دروازہ کھلتا چلا گیا
اس نے آرام سے اسے بیڈ پر لٹایا پِھر اس كے چہرے کو نقاب سے آزاد کیا
ماہ رخ كے چہرے پر پسینے کی چند قطرے چمک رہے تھے جسے حسنین نے اپنی انگلیوں کی پوروں سے صاف کیا اور جھک کر اس كے ماتھے پر پیار کیا
اپنے کپڑے نکال کر فریش ہونے چلا گیا
واپس آیا تو ماہ رخ جاگ رہی تھی لیکن وہ چھت کو گھور رہی تھی
وہ نہا کر اپنے بالوں کو خشک کرتے ہوۓ پِھر آکر اس كے برابر بیٹھ گیا
کیا سوچ رہی ہیں وہ اس كے بالوں میں آہستہ سے ہاتھ پھیرنے لگا
ماہ رخ نے اپنی آنکھیں بند کر دیں پِھر اس نے آنکھیں کھولی تو آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے
جنہیں حسنین نے پیار سے صاف کیا
میں بہت خوش ہوں آپ كے ساتھ حسنین
اس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا
تھینک یو مائی لو
آئی فیل سو لکی ٹو ہیو یو
اِز مائے وائف . حسنین نے اسکے ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام کر اسے محبت پاش نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا
ماہ رخ نے اسے اپنی آنکھوں كے حصار میں لیا
چار سال بَعد. . . . . . . . . .
آج انکی شادی کو 4 سال ہوچکے تھے
ان چار سالوں میں انکی زندگی میں اک پیاری سی پری بھی آچکی تھی
جسکا نام حسنین نے حورین رکھا تھا
گول مٹول سے شہد رنگ چھوٹی چھوٹی سی آنکھوں والی حورین كے اندر حسنین کی جان تھی
اب تو ماہ رخ کو بھی لگتا تھا كے حسنین کو صرف اسکی حورین ہی یاد رہتی ہے
وہ جب بھی آفس سے لوٹتا تو اس کا پورا ٹائم حورین كے ساتھ ہی گزرتا
جس پر ماہ رخ کو کبھی کبھی غصہ بھی آتا كے پورا دن وہ حورین کا خیال رکھتی ہے باپ كے آتے یہ میڈم ماں کو پہچاننے سے بھی انکاری ہوتی ہے
بابا کی پرنسز ماما سے پوچھو وہ آپ كے پاپا سے بات کیوں نہیں کر رہیں حسنین نے شرارت سے کہا
میلی بابا کی ماہی آپ بابا شے بات کیوں نہیں تل لہی ہیں
وائٹ بے بی فراک میں دو پونیاں کیے وہ حسنین كے سینے پر بیٹھی اپنے توتلی زُبان سے ماہ رخ سے مخاطب ہوئی
جو کمرے کی حالت سدھار رہی تھی
اپنے بابا کی چمچی یہ گند پھیلا کر رکھا ہے آپ دونوں نے وہ كون صاف کرے گا
دونوں باپ بیٹی اک جیسے ہو پِھر تمہارے باپ محترم کو غصہ آتا ہے كہ کمرا صاف نہیں وہ مصروف سے اندازِ میں بھی حسنین کو سنانے سے بعض نا آئی
وہ آنکھیں بند کیے چہرے پر اک جاندار مسکراہٹ سجائے ابھی بھی بیڈ پر لیٹا ہوا تھا
ماہ رخ نے اسے ہنستے ہوئے دیکھا تو اسے اور تپ چڑ گئی
وہ حورین کے ٹوائز کو باسکٹ میں ڈال کر سیدھا حسنین کے سامنے سینے پر ہاتھ باندھ کر کھڑی ہو گئی
حسنین شاہ آپ اور آپ کی شہزادی بیٹی سدھر جاؤ نہیں تو میں گھر چھوڑ کر چلی جاٶں گی توبہ ہے دونوں کو رتی برابر فرق نہیں پڑا
میں نے بکواس تو نہیں کی ابھی وہ غصے میں چہرہ لال کیے دونوں باپ بیٹی کو گھور رہی تھی
حسنین کا قہقہہ جاندار تھا
ماہ رخ تو کچھ ٹائم تک اسکی پیاری سی ہنسی میں کھو سی گئی
جب كے حسنین نے کہا
ہم دونوں باپ بیٹی کب سے خاموش ہیں جب کے آپ اتنی دیر سے ہمارے کانوں میں رس گھول رہی ہیں
اپکو پھر بھی ہم معصوم باپ بیٹی برے لگ رہے ہیں
اس نے گہری نظروں سے اپنی بیوی کو دیکھا چہرے پر مسکراہٹ تھی جو ہمیشہ ماہ رخ سے بات کرتے ہوئے قائم رہتی تھی
حسنین اسے محبت بھری نگاہوں کو دیکھ رہا تھا جو گرین لانگ فراک اور وائٹ چوڑی دار پاجامہ پہنے دونوں باپ بیٹی کو گھور رہی تھی
ماہی یار ایسے تو نا دیکھو پِھر کہتی ہو میں فضول قسِم کا انسان ہوں اس نے اسے آنکھ مار کر کہا
ماہ رخ نے اپنا ہاتھ اسکی آنکھوں پر رکھ دیا
ماما گندی میلے بابا كے چہرے سے ہاتھ ہتائیں نہیں تو میں آپ تے ہاتھ پر کاٹوں گی
حسنین كی شہزادی سے کہاں برداشت تھا كے کوئی اسکے بابا کو کچھ کہے اس لیے وہ اپنے سامنے کھڑی اپنی ماں کے نرم اور نازک ہاتھ کو اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے ہٹانے لگی
دن بھر میرے ساتھ ہوتی ہیں آپ باپ كے آتے ہی ماں گندی ہوگئی واہ بیٹا واہ
ماہ رخ تو لڑاکا عورتوں کی طرح بولنے لگی
جب کی حسنین سے اپنی ہنسی روکنا مشکل ہو گیا
آپ ہنس لیں چہرہ ضبط سے لال ہو رہا ہے اب حسنین کی شامت آئی
تم میری بیٹی کو ڈرا رہی ہو اس لیے اس سے بات نا کرو ہم دونوں خود جا رہے ہیں کمرے سے
حسنین چہرے پر شرارتی مسکراہٹ سجائے ہنستا ہوا کمرے سے چلا گیا
جبکہ وہ دانت پیس کر رہ گئی
وہ نیچے لان میں آیا تو بی جان اور اَحمد صاحب كے برابر والی کرسی پر بیٹھ گیا
بڑے ابو میں نے ابھی جنید سے بات کی ہے آج شام کی پارٹی میں حِنا اور جنید دونوں شریک ہو رہے ہیں
تب تک حورین صاحبہ بھی باپ کی گود سے اتر کر بی جان کی گود میں جا پہنچی تھی
حسنین نے پیار بھری نظروں سے اپنی بیٹی کو دیکھا جس کی صرف شہد رنگ کی آنکھیں ماں پر گئی تھیں ورنہ وہ حسنین کی کاربن کاپی تھی
جس پر اکثر حسنین ماہ رخ کو تنگ کرتا رہتا تھا
یہ اچھی بات کہی میں نے بھی اتنی دنوں سے چَکر نہیں لگایا حِنا کی طرف آج ملاقات ہو جائے گے
اَحمد صاحب نے چشمہ صاف کرتے ہوئے کہا
حِنا اور جنید کی شادی ہو چکی تھی
دونوں اک ساتھ خوش تھے
شام میں ماہ رخ نے حسنین کی دی ہوئی ریڈ اور بلیک ساڑھی نہیں پہنی کیوں کے اسے یہ اَچّھا نہیں لگ رہا یوں سب كے سامنے میں جانا تو اس نے حسنین کو بَعْد میں کبھی ساڑی پہنے پر راضی کیا اور سفید پیروں تک آتا فراک زیب تن کیا ریڈ حجاب میں نیچرل سے میک اپ میں بہت پیاری اور حَسِین لگ رہی تھی
حسنین کمرے میں آیا تو دیکھتا ہی رہ گیا
تب وہ حورین کو تیار کر رہی تھی حورین بھی باربی باربی فراک میں بہت پیاری لگ رہی تھی
سوری میں شاید رستہ بھول گیا ہوں میری بیوی آپ نے کہیں دیکھی ہے کیوں کے میری شہزادی تو آپ كے پاس ہے حسنین نے شریر لہجے میں کہا انداز تنگ کرنے والا تھا
جی نہیں میں نے آپکی بیوی نہیں دیکھی جب آپکو ہی نہیں پتا تو مجھے کیسے پتا ہوگا
وہ بھی ماہ رخ تھی آخر حساب برابر کیا آپکی آواز تو میری بیوی کی آواز سے ملتی ہے کہیں آپ ہی

تو نہیں ہیں مسز ’ حسنین
وہ پِھر بھی بعض نا آیا
اور چلتا ہوا حورین کو اٹھا کر اسکے پھولے ہوۓ گال پر پیار کیا وہ بھی اپنے باپ کو دیکھ کر خوشی سے مسکرا رہی تھی
حسنین حد ہے اب جلدی سے تیار ہو کر نیچے آجائیں وہ حورین کو اس کے ہاتھوں سے لے کر حال میں چلی گئی
ماشاء اللہ۔۔۔ اللہ پاک میری دونوں پرنسز کو ہمیشہ خوش اور نظر بد سے بچانا وہ دِل میں دُعا کرتا ہوا فریش ہونے چالا گیا
. . . . . .
حال میں گہما گہمی عروج پر تھی ہر کوئی خوش گپیوں میں مصروف تھا
ماہ رخ کو دور سے حسن صاحب اور بی جان لوگ نظر آگئے تھے اس لیے وہ حورین کو لیے ان كے پاس چلی آئی
اور سب سے ملی حورین کبھی مانو تو کبھی جنید حِنا لوگوں كے پاس منتقل ہورہی تھی
حسنین بھی بلیک کوٹ اور
بلیک پینٹ اور وائٹ شرٹ میں ملبوس ہر اک کی توجہ کا مرکز تھا
بہت سی لڑکیاں تو اب بھی اسے دیکھ کر فدا ہوچکی تھیں
وہ متوازن چال چلتے ہوئے اپنی بیوی كے ساتھ آکر کھڑا ہوا اور سب سے آکر ملنے لگا
جنید اور وہ اک دوسرے سے باتیں کرتے ہوئے چلے گٸے
ماہ رخ بھی حِنا سائرہ لوگوں كے ساتھ آکر بیٹھ گئی
کیک کاٹنے کا ٹائم آیا تو حسنین اور ماہ رخ نے اپنی شادی کی سالگرہ کا کیک کاٹا
ماہ رخ کو پتا تھا حسنین کے بہت سے مہمان آئیں گے اس نے نقاب کیا ہوا تھا
اور پھر خوبصورت لمہات کو کیمرے کی آنکھ میں محفوض کر لیا گیا
ماہ رخ حورین كے کپڑے صاف کر رہی تھی جس پر حورین نے کیک گرایا تھا
حسنین دونوں كے پاس آیا
اور حورین کو اٹھایا
میرا دِل کرتا ہے ماہی كے میں اب کبھی تم سے جدا نا ہوں حسنین نے عجیب سے لہجے میں کہا
اللہ نا کرے یہ کیا بکے جارہے ہیں آپ ماہ رخ نے آنکھیں دکھائی
ہاں میری جان میں اب بہت سال جینا چاہتا ہوں کیوں كے
تم جو زندگی ہو میری . . . . . . . .
اس نے محبت سے کہا اور ماہ رخ اور حورین کو اپنے سے لگایا
انکی فیملی مکمل تھی
ان دونوں کی محبت اپنی منزل پا چکی تھی دور کھڑے حسن صاحب اور بی جان کی آنکھیں نم تھیں
بھی جان نے تینوں کو دِل میں بہت سی دعاٸیں دیں

. . . . . . . . . ختم شد . . . . . . .


0 Comments: