Headlines
Loading...
Tu Jo Zindgi He Meri by Sajal Ali

Tu Jo Zindgi He Meri by Sajal Ali





👈 تو جو زندگی ہو میری
👈 تحریر سجل علی

tu jo zindgi he meri novel by sajal ali
وہ اپنے آفس کے کیبن میں بیٹھا اپنے اسٹاف پر غصہ نِکال رہا تھا
کوئی کام تُم لوگوں سے نہیں ہوتا اب اگر مجھے کام ٹھیک سے نہیں ملا تو مُجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا جاٶ اب یہاں سے
غصے میں کہہ کر پانی پینے لگا
حسنین شاہ کیا بات ہے کس بات پر اتنا غصہ ہو رہے ہو یار کام ڈاٶن اب بتا کیا بات ہے حسنین کا دوست جنید اس سے پوچھنے لگا
کچھ نہیں بس تھوڑا سٹریس ہے سوچ رہا ہوں گھر جا کے ریسٹ کر لوں جنید تُو سب دیکھ لینا وہ بے زاری سے کہتا ہُوا اپنی چیئر سے اٹھ کھڑا ہوا
کوٹ کو ہاتھ میں لیا گاڑی کی چابی لیے آفس سے نِکل آیا
زفر رہنے دو آج میں خود ڈرائیو کروں گا
حسنین نے گلاسز آنکھوں پر لگائے اور آکر گاڑی میں بیٹھ گیا
حسنین شاہ کا اپنا بزنس تھا بلاشبہ وہ بہت خوبصورت اور مردانہ وجاہت کے سبب اس پورے ماحول پر چھایا رہتا تھا
سفید رنگ سیاہ آنکھیں ہلکی دھڑی اور غمبیر مَردانہ آواز اسے اگر کوئی اک بار دیکھتا تھا تو تعریف کیے بنا نہیں رہ سکتا تھا
حسنین نے اپنا فون اٹھایا اور کر کسی کو کال کرنے لگا
کام ہو گیا جو میں نے کہا تھا مجھے ساری انفورمیشن چاہیئے آج شام تک نہیں تو آج سے تم فارغ کل سے جاب پر آنے کی ضرورت نہیں اس نے اپنی بھاری مَردانہ آواز میں کہہ کر فون بند کر دیا
احمَد ہاؤس پہنچا تو گارڈز نے گیٹ کھولا حسنین کی گاڑی اندر داخل ہوئی ۔
احمد ہاؤس بہت خوبصورت اور وسیع تھا اس گھر میں حسنین شاہ اس کی دادی تایا تائی اور کزن حنا رہتے تھے
دادی کو سب پیار سے بی جان کہتے تھے اکرم شاہ كے دو بیٹھے تھے بڑے بیٹے احمد صاحب جب كے چھوٹے بیٹےحماد صاحب
حماد صاحب اور انکی بیوی کچھ سال پہلے فوت ہو چکے تھے حماد صاحب کی صرف اک ہی اولاد تھی حسنین شاہ جب كے اَحمد صاحب کی اک ہی بیٹی حنا تھی
اَحمَد شاہ کا اپنے بزنس تھا وہ زیادہ تر بزنس كے سلسلے میں ملک سے باہر رہتے تھے حسنین اپنے تایا کی بہت عزت کرتا تھا وہ گھر میں داخل ہوا تو حسنین کی دادی ملازموں کو کام سمجھا رہی تھی حسنین آکر بی جان كے ساتھ سوفے پر بیٹھہ گیا
آج میرا بچہ جلدی گھر آگیا ہے اور کب آئے تُم دبئی سے واپس بی جان نے حسنین کا ماتھا چومتے ہوئے کہا
آج ہی واپس آیا ہوں بی جان تھوڑا سا کام تھا آفس میں وہ کر كے سیدھا گھر ہی آ رہا ہوں
حسنین بی جان كے گود میں سَر رکھ كے لیٹ گیا
کیوں کرتے ہو اتنی محنت اتنا پیسہ کما کر کیا کرو گے بس کر دو اب شادی کی عمر ہو گئی ہے شادی کر لو مجھے اپنے پوتے پوتیوں کو دیکھنا ہے مرنے سے پہلے میری خواہش پوری کر دو یہ بولتے بولتے بی جان كی آنکھوں سے آنسو گر كے حسنین كے چوڑی پیشانی پر آگٸے
بی جان آپ رُو کیوں رہی ہَیں آپکو پتا ہے میری زندگی کا اک ہی مقصد ہے حسن جیلانی کی تباہی حسنین نے قرب سے کہا
حسنین بھول کیوں نہیں جاتے جو ہو گیا سو ہو گیا تمہیں ابھی پورا سچ نہیں پتا اور میں بھی تو ماں تھی نا لیکن میں نے اللہ پے پر چھوڑ دیا ہے اور پِھر اگر تُم نے بھی وہی سب کیا تو اس میں اور تُم میں کیا فرق رہ جائے گا
بی جان نے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی سمجھانے کی ناكام کوشش کی


بی جان حسن جیلانی نے میرے باپ مروا دیا اور آپ کہہ رہی ہَیں میں کچھ نا کروں چُپ کر كے بیٹھ جاؤں ہر گز نہیں حسنین شاہ نے کبھی معاف کرنا سیکھا ہی نہیں ہے
میں اپنا انتقام ضرور لوں گاحسنین کہہ کر اٹھ بیٹھا اور بی جان کے سر پر بوسہ دے کر سیڑھیاں پھلانگتا اوپر چلا گیا
اللہ اس لڑکے کو سمجھا دے
اور آنے والی تباہی سے بچائے سب کو
بی جان نے آنسو صاف کیے اور اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئیں

. . . . . . . . .
جیلانی حویلی میں سید مہراب جیلانی کا ایک بیٹا اور دو بیٹیاں تھیں مہراب جیلانی کی اک بیٹی کی تو بہت سال پہلے ڈیتھ ہو گئی تھی
مہراب جیلانی اور انکی بیوی کی بھی کچھ سال پہلے وفات ہو چکی تھی
مہراب شاہ کا بڑا بیٹا حسن جیلانی تھا جس کی شادی فرزانہ بیگم كے ساتھ ہوئی تھی حسن جیلانی كے دو بیٹیاں تھیں بڑی بیٹی ماہ رخ اور چھوٹی بیٹی ماہ نور
جب کے مہراب شاہ کی ایک بیٹی رانیا کی شادی مہراب صاحب نے اپنے بھانجے كے ساتھ کر دی تھی رانیا بیگم کی دو بیٹیاں سائرہ اور انوشے تھیں اور چھوٹا بیٹا عادل تھا
سائرہ حویلی میں رہتی تھی کیوں کہ سائرہ اور ماہ رخ اک ہی کالج میں پڑھتی تھیں
مانو کیا کر رہی ہو ماہ رخ ماہ نور كے ساتھ اکڑکر بیٹھ گئی ماہ رخ بہت پیاری اور سب کی لاڈلی تھی ڈارک براٶن بڑی بڑی آنکھیں لمبے گھنے بال دودھ جیسا سفید رنگ وہ خوبصورتی کی مثال تھی
آپی یہ دیکھیں انوشے کی تصویر کتنی اچھی آئی ہے مانو اور انوشے میں بہت اچھی دوستی تھی مانو نے اپنا فون ماہ رخ کو دیکھاتے ہوئے کہا
ہاں پیاری تو بہت لگ رہی ہے ماہ رخ کہہ کر اٹھ گئی اور اپنے گھنے بالوں میں برش کرنے لگی
ماہ ر خ کمرے سے باہر آئی تو ماہ رخ کی ملازمہ مومنہ اس كے بالوں کو دیکھنے لگی
کیا ہوا ایسے کیا دیکھ رہی ہو ماہ رخ نے مسکراتے ہوئے مومنہ کو دیکھا
باجی آپ بہت خوبصورت ہَیں کبھی کسی کی نظر نا لگ جائے آپکو پورا جیلانی خاندان میں نے دیکھا ہے لیکن آپ جیسی خوبصورت کوئی لڑکی نہیں دیکھی ملازمہ نے ماشاء اللہ کرتے ہوئے کہا
اچھا شکریہ ماہ رخ ملازمہ سے کہہ کر باہر چلی گئی وہ ایسی ہی تھی سب کی عزت کرنے والی سب کے ساتھ پیار سے بات کرنے والی۔

سر حسن جیلانی کی حویلی میں ٹوٹل تِین لڑکیاں رہتی تھیں دو حسن جیلانی کی بیٹیاں اور ایک حسن جیلانی کی بھانجی
وہ اپنے کمرے میں اندھیرا کیے سویا ہوا تھا جب اس كو اس کے خاص آدمی تہاور کا فون آیا
ہھممم....ٹھیک ہے اب تم کل سے حسن جیلانی کی حویلی کا پہرہ دو گے مجھے اک اک خبر دیتے رہو گے جی صاحب
جی حسنین نے فون بند کیا اور اٹھ کر کمرے کی لائٹس آن کی اٹھ کے ونڈو كے سامنےآ کھڑا ہوا
آج سے تمہاری برے دن شروع حسن جیلانی اب تمہیں پتا چلے گا کہ کسی کو تکلیف دے کر تڑپانہ کیا ہوتا ہے حسنین کی آنکھیں غصے سے سرخ ہو رہیں تھیں
. . . . . .
ماہ رخ کیا کر رہی ہو سائرہ ماہ رُخ كے کمرے میں آکر کہنے لگی
کچھ نہیں نماز پڑھی ابھی اور اب تھوڑا سی پڑھائی کرنے لگی تھی
ماہ ر خ نے دوپٹہ نماز كے اسٹائل میں لپیٹا ہوا تھا
پرسوں کالج میں پارٹی ہے ماہ رخ لیکن ہم نہیں جاسکتے سائرہ نے ماہ رخ کا فون دیکھتے ہوئے کہا
ہاں یار نہیں جا سکتے کیوں كے سیّد لڑکیاں پارٹیز میں نہیں جا سکتیں ماہ رخ نے آم سے لہجے میں کہا
ماہ رخ سب کتنا مزہ کریں گی اور ہم گھر میں بیٹھے ہوں گے سائرہ نے مایوس ہوتے ہوئے کہا
سائرہ ہمیں اِجازَت نہیں ایسی پارٹیز میں جانے کی


ماہ رخ برقع پہن کر جائیں گے اور ویسے بھی تو ہم پردہ کر كے جاتی ہیں سائرہ نے ماہ رخ کو قائل کرنا چاہا
سائرہ تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے کیا۔۔۔۔ ہم نہیں جارہے بس ماہ خ نے بکس بیگ سے نکالتے ہوئے کہا
اَچّھا یار نہیں جاتی مار کیوں رہی ہو سائرہ بھی منہ پھُلا کر بیٹھ گئی
ماہ رخ اپنی ہنسی کو دبانے کی کوشش کرنے لگی
. . . . . . . . . . . .
حسنین مارننگ واک کر كے گھر لوٹا تو بی جان كے کمرے کا رُخ کیا
بی جان قرآن پاک کی تلاوت کرنے میں مصروف تھیں حسنین بی جان کو دیکھ کر اپنے کمرے میں آیا اور شاور لینے چلا گیا
حسنین فریش ہو کر نیچے آیا تو بی جان کو انتظار میں دیکھا
آگیا میرا بچہ رات نیند ٹھیک سوۓ تھے نا بی جان نے اس كے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا بی جان کو معلوم تھا كے حسنین نے پوری رات سِگرٹس پیتے ہوئے گزاری ہے
جی بی جان بہَت اچھی نیند آئی رات اور آپ نے ناشتہ کیا حسنین بی جان سے نظریں نہیں ملا پارہا تھا
نہیں میں تمہارا انتظار کر رہی تھی اب کروں گی بی جان نے ممتا سے پُر لہجے میں کہا
حسنین کو بی جان نے اپنے ہاتھوں سے ناشتہ کروایا
اَچّھا بی جان اب میں چلتا کچھ کام بھی ہے
آفس میں شاید رات آنے میں دیر ہو جائے حسنین نے فون اور گاڑی کی چابی اُٹھاتے ہوئے کہا
اَچّھا میرا بچہ اللہ تمہیں اپنے امان میں رکھے
للہ حافظ بی جان نے روزانہ کی طرح اسے دعا دی
حسنین باہر آیا تو ڈرائیور اور گارڈز پہلے موجود تھے
گلاسسز آنکھوں پر لگائے
وائیٹ شرٹ بلَیک کوٹ اور بلَیک پینٹ میں ملبوس اچھے سے بال سیٹ کیے اپنی پوری آن سے چلتا ہوا وہ گاڑی میں بیٹھا
تہاور مجھے ان لڑکیوں کی تصویریں چاہیے آج شام تک حسنین نے نیا حکم جاری کیا
سر لڑکیاں فل پردے میں آتی ہیں تصویر کیسے لوں گا تہاور نے سوچتے ہوئے کہا
تم کوشش کرنا اگر پِھر بھی کام نہ ہوا
تو میں خود دیکھ لوں گا حسنین نے کہہ کر فون بند کر دیا

حسنین آفس پہنچا تو سٹاف نے اسے سلام کیا
اسنے سب کو سر ہلا کر جواب دیا اور اپنے کیبن میں آگیا
جہاں جنید اس کا انتظار کر رہا تھا
آگئے جناب جنید نے طنزیہ نظروں سے حسنین کو دیکھا
ہاں کیوں حسنین نے عام سے لہجے میں جواب دیا
کوئی حکم نیا جنید نے حسنین کو تنگ کیا
ہاں میرا شوز پالش کر دینا حسنین کونسا کم تھا اور اپنے قہقہہ کو روکنے کی کوشش کرنے لگا
جنید کو پہلے تو بات سمجھ میں نہیں آئی لیکن جب آئی تو وہ اٹھ کر حسنین كے پاس آیا اور حسنین کو زور سے کمر پر مکا دے مارا
منہ سے نہیں بات کر سکتے ہاتھ پاٶں پر کیوں اتر آتے ہو حسنین نے کوٹ ٹھیک کرتے ہوئے کہا
جنید ابھی جوابی کاروائی کرنے لگا تھا لیکن حسنین کی سیکرٹری ڈور نوک کر کے اندر آئی
سر مسٹر آفاق کی کالز آرہی ہیں بار بار
وہ آج آپ كے ساتھ میٹنگ کرنا چاہتے ہیں مونا نے تفصیل سے آگاہ کرتے ہوۓ کہا
آج تین بجے کا ٹائم دے دو اُنہیں حسنین نے کہہ کر کوٹ اتار کر چیئر کی پشت پر ٹِکا دیا
جی سر میں کہہ دیتی ہوں یہ کہتے ہوۓ مونا کیبن سے باہر چلی گئی
حسنین میں اک بات سوچ رہا ہوں بہت دنوں سے جنید نے کچھ سوچتے ہوئے کہا
اَچّھا تُم سوچتے بھی مجھے تو تُم عقل سے پیدل لگتے ہو خیر چھوڑو کیا سوچ رہے ہو حسنین نے شرارت سے کہا
کر لے بکواس تو اپنی جنیید نےکھا جانے والی نظروں سے دیکھتے ہوۓ کہا
اچھا نہیں بول رہا اب بتاٶ کیا بات ہے حسنین نے اپنی ہنسی کو روکا
اب میری سنو جنید نے حسنین کو گھورتے ہوئے کہا
اَچّھا بابا بولو کیا بات ہے حسنین چیئر پر بیٹھ گیا
تُم شادی کیوں نہیں کر لیتے
اب تو عمر بھی نکلی جا رہی ہے ایسا نا ہو بعد میں کوئی ستر سالہ بوڑھی بھی تُم سے شادی نا کرے جنید کی شیطانی رگ جاگی


تُم کیوں پاگل ہو رہے ہو اور خود کونسا شادی کی ہوئی ہے جو میرے پیچھے لگے ہوئے ہو حسنین نے کافی پیتے ہوئے کہا
جب تمہاری شادی ہوگی تو پِھر میں شادی کروں گا
پِھر تو تمہاری قسمت میں شادی لکھی ہی نہیں حسنین ابھی بات کر ہی رہا تھا كے دروازہ ناک ہوا آجائیں حسنین نے اِجازَت دی
تہاور روم میں داخل ہوا
ہیلو سر
ہیلو تہاور کیسے ہو حسنین نے تہاور کو سامنے رکھی چیئر کی طرف اِشارَہ کیا
جنید فون میں مصروف تھا
سر وہ دونوں لڑکیاں ابھی کالج سے گھر گئی ہیں لیکن آپ نے کہا تھا حسن جیلانی کی بیٹی کا پتا کرنا ہے لیکن یہ بہت مشکل ہے کیوں كے دونوں لڑکیاں پردہ کر کے آتی ہیں تہاور اپنی دوہن میں سوار بولے جا رہا تھا حسنین کا دل کیا وہ اپنا سر دیوار سے دے مارے جنید اب نہیں چھوڑے گا مجھے حسنین نے دِل میں سوچا
جنید کے کان کھڑے ہو گئے وہ فون واپس ٹیبل پر رکھ کر حسنین جواب طلب نظروں سے دیکھنے لگا
کون لڑکی کیسی لڑکی کیا چل رہا ہے کوئی مجھے بھی بتانا پسند کرے گا جنید نے مشکوک نظروں سے حسنین کو دیکھا
کوئی بات نہیں جنید یہ تہاور تو ایسے ہی بکے جا رہا ہے حسنین نے تہاور کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھا
تُم اب مجھ سے چھپاؤ گے ڈوب مرو حسنین شاہ جنید نے چبا چبا کر کہا
تہاور مروا دیا تم نے کیا ضرورت تھی اس پاگل كے سامنے بات کرنے کی حسنین نے بالوں میں ہاتھ ڈالتے ہوئےبولا
لڑکی پسند کر لی ہے میں نے اسی كے پیچھے اسے لگایا ہوا وہ تہاور کی طرف اشارہ کرتے ہوے کہنے لگا
حسنین نے یہ لفظ کس طرح بولے یہ صرف وہی جانتا تھا
کب کر لی پسند لڑکی اور مجھے بتایا بھی نہیں جنید نے حیرانگی سے دیکھتے ہوئے کہا
بہت ٹائم پہلے دیکھی تھی لیکن وہ سید زادی ہے اور اس کا باپ مجھے اپنی بیٹی نہیں دیگا حسنین نے بات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا
تو تمہیں کیا پڑی ہے سید زادی كے پیچھےبھاگنے کی کوئی اور پسند کر لو جنید کو دال میں کچھ کالا لگ رہا تھا اسے پتا تھا حسنین اصل وجہ نہیں بتا رہا
حسنین شاہ کو جو چیز ایک بار اچھی لگ جائے پِھر وہ حسنین کی ہوتی ہے حسنین نے ضدی لہجے میں کہا
لیکن وہ کوئی چیز نہیں ہے جیتی جاگتی اِنسان ہے حسنین شاہ جنید کو ڈَر لگنےلگا تھا کیوں كے جنید حسنین کی ضد کو اچھے سے جانتا تھا
میں نہیں جانتا کچھ مجھے بس وہ لڑکی چاہیئے ہر حال میں حسنین نے دو ٹوک کہا اور چیئر سے اٹھا
مسٹر آفاق آنے والے ہوں گے تو میں جا رہا ہوں میٹنگ روم میں حسنین کہہ کر اپنے کیبن سے باہر چلا گیا۔۔۔۔۔
ماہ رخ کیا ہوا تم ٹِھیک تو ہو سائرہ نے ماہ رخ کو گم سم دیکھا تو پوچھنے لگی
سائرہ پتہ نہیں کیوں میرا دِل گھبرا رہا ہے ایسا لگتا ہے جیسے کچھ بہَت برا ہونے والا ہے ماہ رخ نے آنکھیں بند کی
لو پانی پی لو کچھ نہیں ہوگا تم فضول میں ٹینشن لے رہی ہو سائرہ نے پانی ماہ رخ کو دیا
اللہ کرے میرا وہم ہو ماہ رخ نے منہ پر ہاتھ پھیرا
سائرہ میں کچھ ٹائم آرام کرنا چاہتی ہوں اسنے اپنی آنکھوں کو مسلتے ہوئے کہا
اَچّھا میری جان تم . آرام کرو میں بعد میں آتی ہوں سائرہ کہہ کر کمرے سے باہر چلی گئی
. . . . . . . . . . . .
حسنین میٹنگ سے فارغ ہوا تو جنید كے پاس آیا
جنید میں کچھ ٹائم كے لیے لانگ ڈرائیو پر جا رہا ہوں چلو گے میری ساتھ حسنین نے کوٹ ہاتھ میں لیا ہوا تھا
اس ٹائم لانگ ڈرائیو جنید کو حیرت ہوٸی کے چار بجے کون لانگ ڈرائیو پر جاتا ہے
ہاں کیوں اس ٹائم لانگ ڈرائیو پہ جانا ممنوں ہے حسنین نے ہنستے ہوئے کہا اور آفس سے باہر آیا
حسنین ایسے ہی ہنستے رہا کرو جنید نے بہَت ٹائم بعد حسنین کو ہنستے ہوئے دیکھا تو خوشی سے کہنے لگا
ھممم سہی کہہ رہے ہو حسنین آکر گاڑی میں بیٹھا حسنین ڈرائیونگ سیٹ جب كے جنید فرنٹ سیٹ پر تھا
حسنین اک بات مجھے سمجھ میں نہیں آرہی تم نے سید زادی کو دیکھا کیسے تہاور تو کہہ رہا تھا وہ پردے میں ہوتی ہیں جنید کو ابھی تک حسنین کی باتوں پر یقین نہیں آرہا تھا
بس دیکھ لیا تمہیں اس کیا لینا دینا كے کیسے اور کہاں دیکھا حسنین نے بیزاری سے کہا
حسنین نے ماہ رخ کو دیکھا ہی نہیں تھا اسے ماہ رخ سے کوئی مطکب بھی نہیں تھا اسے تو صرف اپنا بدلا لینا تھا
لیکن اب تم نے کیا سوچا ہے بی جان رشتہ لے کر جائیں گی جنید نے عام سے لہجے میں پوچھا
نہیں بی جان کیوں جائیں گی وہاں حسنین کو یہ بات کسی خنجرکی طرح لگی تھی
تم اتنا غصہ کیوں کر رہے ہو سب ٹِھیک ہے جنید نے اسکے چہرے پر ایک عجیب سا قرب محسوس کیا تو کہنے لگا
ہاں یار سب ٹِھیک ہے کوئی اور بات نہیں کر سکتے ہم حسنین نے بات بدلی
اَچّھا ٹِھیک ہے جیسے تمہاری مرضی اور بھی جان کیسی ہیں جنید نے زیادہ اس سے نہیں پوچھا اسے پتا تھا حسنین غصے کا تیز ہے
بالکل ٹِھیک ہیں بی جان حسنین نے نارمل سے لہجے میں کہا
حسنین كے فون پر کال آئی تو وہ فون میں مصروف ہو گیا
اَچّھا تم یہ ڈیل سائن کر دو بہَت اچھی بات ہے یہ کانٹریکٹ مجھے ہی ملنا تھا مجھے یقین تھا حسنین نے فون پر بات کا سلسلہ ختم کِیا تو جنید کی نظریں خود پر مرکوز پَائیں
کیا ہے ایسے کیا دیکھ رہے ہو حسنین کی چہرے پر اک عجیب سے خوشی جنید کو نظر آئی
تم اتنا پیسا کس لیے کما رہے ہو کیا کرو گے اتنے پیسے کا جنید نے طنزیہ لہجے میں پوچھا
کیا مطلب مجھے تمہاری بات سمجھ میں نہیں آئی اس نے جنید کو سوالیہ نظروں سے دیکھا
حسنین شاہ تم نے خود کو کام کرنے والی مشین بنا دیا ہے ربورٹ بن گئے ہو تم۔۔ اور تم کہتے ہو تمہیں میری بات سمجھ میں نہیں آئی
حسنین کی نظریں سڑک پر مرکوز تھیں وہ جنید کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جواب نہیں دے سکتا تھا اس لیے چُپ رہا
اللہ پاک تمہیں سیدھا راستہ دکھاۓ حسنین شاہ میرے لیے تم بھائی جیسے ہو میں تمہاری خوشی میں خوش ہوں جنید نے کہہ کر بات کو ختم کِیا

حسنین گھر رات گئے لوٹا تو احمَد صاحب کو انتظار میں پاکے حسنین خوشی میں آگے بڑھ کر اَحمد صاحب کے گلے لگا
بڑے ابو آپ کب آئے واپس۔۔
مجھے بتایا کیوں نہیں میں آپ کو پک کرنے آجاتا حسنین اَحمد صاحب کے گلے لگا شکوہ کرنے لگا
اچھا ہُوا نہیں بتایا ورنہ تمہاری روٹین مجھے پتا کیسے چلتی یہ کونسا ٹائم ہے گھر واپس آنے کا حسنین شاہ
اَحمَد صاحب نے حسنین کو ڈپٹتے کہا
سوری بڑے ابو کام میں مصروف تھا ٹائم کا اندازہ ہی نہیں ہوا حسنین نے سر جھکا کر جواب دیا
تم دن رات خود کو کیوں کام میں الجھا کر رکھتے ہو حسنین شاہ کس چیز
سے بھاگ رہے ہو اور کب تک بھاگو گے میری بچے اب بھول جاٶ وہ سب اَحمد صاحب وہیں صوفے پر بیٹھ گئے
حسنین نے قرب سے آنکھیں بند کر لیں اسے لگ رہا تھا اگر وہ آنکھیں کھولے گا تو سب کچھ پِھر سامنے آجائے گا
لیکن کب تک وہ آنکھیں بند کیے بیٹھا رہتا حسنین نے آنکھیں کھولی تو گہری سیاہ آنکھوں سے اک آنسو ٹوٹ کر گال پر پھسل آیا جِسے حسنین نے نہ محسوس انداز میں صاف کر دیا
بڑے ابو میں حسنین شاہ آپ سے وعدہ کرتا ہوں میں حسن جیلانی سے اپنے بابا کا بدلہ لے کر رہوں گا حسنین نے اَٹَل لہجے میں کہا جس میں چٹانوں جیسی سختی تھی حسنین کے چہرے پر۔۔
حسنین بیٹا تم اب تک اس بات کو نہیں بھولے تمہارا باپ میرا بھی بھائی تھا وہ صرف تمہارے اکیلے کا کچھ نہیں تھا چھوڑ دو یہ سب میری بچے کچھ حاصِل نہیں ہوگا کسی سے دشمنی پال کر اور جسے تم آج تک اپنا دشمن سمجھتے آئے ہو وہ بے قصور ہے تم میری بات کا اعتبار کیوں نہیں کرتے اَحمد صاحب نے پیار سے سمجھانے کی کوشش کی
پر اب اس سب کا کوئی فائدہ نہیں بڑے ابو میں اپنے فیصلے سے پیچھے نہیں ہٹنے والا
میرا مقصد جیلانی خاندان کی بدنامی ہے اور میں اپنے فیصلی پر قائم رہوں گا آپ آرام کریں کل بات کریں گےحسنین نے کوٹ ہاتھ میں لیا اور اٹھ کھڑا ہوا
اَحمد صاحب نے حسنین کو دیکھ کر دِل ہی دِل میں اس كے لیے دعائیں مانگی اور اٹھ کر اپنے کمرے میں آ گئے
حسنین اپنے کمرے میں آیا تو گرنے كے انداز میں بیڈ پر لیٹ گیا
بابا میں حسن جیلانی کو کبھی معاف نہیں کروں گا یہی سوچتے ہوئے پتا نہیں کب نیند آ گئی
. . . . . . . . .
ماہ رخ نے صبح اٹھ کر نماز پڑھی اور پِھر باہر لان میں چہل قدمی کرنے نکل آئی
پوری حویلی سنسان تھی سب نیند میں تھے
ماہ رخ کا روشن چہرہ بہت پاكیزہ اور شفاف لگ رہا تھا لیکن اک عجیب سی ویرانی چھائی ہوئی تھی
مجھے سکون کیوں نہیں مل رہا آخر ہو کیا گیا ہے
ماہ رخ وہی سوال خود سے کرنے لگی جو اتنے دنوں سے اس كے دماغ میں چل رہے تھے
اور وہ خواب کیا مطلب ہے اس خواب کا ماہ رخ نیچے گھاس پر بیٹھ گئی
میرے اللہ آپ میری مدد کرو میری لیے جو بہتر ہو وہی کرنا ہمیشہ ماہ رخ سچے دِل سے دُعا کر كے اٹھی اور حویلی كے اندر چلی گئی
. . . . . . .
حسنین اَحمد صاحب كے ساتھ مارننگ واک کر کےگھر آیا تو دونوں ہنستے ہوئے گھر میں داخل ہوئے
بی جان اور نصرت بیگم لاٶنج میں باتیں کر رہیں تھیں
اَحمد صاحب اور حسنین بی جان كے ساتھ آکر صوفے پر بیٹھ گئےبی جان بیچ میں بیٹھی ہوئیں تھیں
آج میری بچے کا موڈ بڑا خوشگوار لگ رہا بی جان نے حسنین نے سَر پر ہاتھ پیھرتے ہوئے کہا
احمَد تم نہ جایا کرو ملک سے باہر
میرا بچہ خُوش تو رہے گا نہ
اب بوڑھی آنکھوں کو روز اک نیا نور ملے گا بی جان نے ممتا بھرے انداز میں کہا
بی جان آپ کا لاڈلا مجھ سے بہت آگے نکل چکا ہے میں ٹہرا غریب آدمی آپ کا بچہ تو ماشاء اللہ سے امیر ہے وہ گھر بیٹھ جائے تو کوئی پرواہ نہیں ہوگی اسے


اَحمد صاحب نے فخریہ لہجے میں کہا
اسی بات سے میں بھی پریشان رہتی ہوں اس نے خود کو پتھر کا سمجھ رکھا ہے بیوی آئے گی تو سدھر جائے گا بی جان نے انگلی کی مدد سے چشمہ ٹِھیک کرتے ہوئے کہا
بڑی امی آپ ناشتہ لگائیں بھوک لگی ہے میں فریش ہو کر آتا ہوں حسنین نصرت بیگم سے کہتا ہوا اپنے کمرے میں چلا گیا
دیکھا اَحمد یہ میری بات کو گھوما کر گیا ہے رب جانے کیا چل رہا اس كے دماغ میں بی جان نے اسے دیکھتے ہوئے کہا
بی جان آپ ٹینشن نہ لیں میں سنبھال لوں گا اسے اَحمد صاحب نے بی جان کو دلاسہ دیا
. . . . . . . . .
ماہ رخ تم تیار ہو گئی ماموں ہمارا ویٹ کر رہے ہیں، سائرہ ماہ رخ
كے کمرے میں آئی
ہاں بس یہ نقاب کرلوں ماہ رخ نے نقاب کرتے ہوئے کہا اور سائرہ كے ساتھ کمرے سے باہر آگئی
چلیں بیٹا حسن صاحب نے ماہ رخ کو دیکھتے ہوئے کہا
جی بابا چلیں ماہ رخ نے کہا اور دونوں حسن صاحب کے پیچھے باہر چلی آئیں

ماہ رخ کالج آئی تو اس کا دِل پڑھائی میں نہیں لگ رہا تھا سائرہ نے بھی یہ بات نوٹ کی تھی
کیا بات ہے ماہ رخ تُم مجھے ٹھیک نہیں لگ رہی کیا بات ہے مجھ سے شیئر کرو ایسے چُپ کیوں بیٹھی ہو سائرہ اور ماہ رخ کینٹین میں بیٹھ گئیں
سائرہ میں بہَت پریشان ہوں یار سمجھ میں نہیں آرہا کیا کروں کچھ دنوں سے عجیب عجیب سے خواب آ رہے ہیں اکثر رات کو نیند ٹوٹ جاتی ہے تو پوری رات سو نہیں پاتی ہوں ماہ رخ واقعےبہت پریشان تھی
کونسے خواب اور یار اب ضروری تو نہیں ہر خواب صحیح ہو وہم بھی تو ہو سکتا ہے نا
تم پریشان نہ ہو سب ٹھیک ہے سائرہ نے پیار سے کہتے ہوئے ماہ رخ کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا
ہو سکتا ہے پگلی کے تمہاری شادی ہونے والی ہو بہَت جلد سائرہ نے ماہ رخ کا موڈ چینج کرنے كے لیے مذاق میں کہا
لیکن کون جانے کونسا قبولیت کا ٹائم ہے
سائرہ ایسا کچھ نہیں تُم بھی نہ ماہ رخ نے شرماتے ہوئے کہا
پِھر کیسا ہے جی ہمیں بھی بتا دو نہ سائرہ پِھر بھی بعض نہ آ ئی
دفع ہوجاؤ ماہ رخ کہہ کر اپنے اور سائرہ کے لئے جوس لینے چلی گئی
. . . . . . . . . . .
حسنین رائل بلو کوٹ پینٹ اور وائٹ شرٹ میں بال جیل سے سیٹ کیے ایک ہاتھ میں گاڑی کی چابی دوسرے ہاتھ میں لیپ ٹاپ کا بیگ لیئے آفس میں داخل ہوا
سر آپکی آج شام کی میٹنگ کی ٹائمنگ میں نے آپکو سینڈ کر دی ہے حسنین کی سیکرٹری نے آکر کہا
ھممم....ٹھیک ہے میں چیک کر لوں گا جنید کو میرے آفس میں بھیجو حسنین کہہ کر اپنے کیبن چلا آیا
فون اور لیپ ٹاپ ٹیبل پر رکھا خود چیئر پہ بیٹھا ہوا تھا
آگئے سر آپ میں کب سے انتظار کر رہا تھا لیکن صاحب تو نظر ہی نہیں آرہے جنید کہتے ہوئے روم میں داخل ہوا
کبھی معاف بھی کر دیا کرو ہمیشہ شروع ہو جاتے ہو حسنین نے فون دیکھتے ہوئے کہا
تُم اس لائق ہی نہیں جو تُم سے بات کی جائے حسنین شاہ جنید نے حساب برابر کیا
ہاہاہا...ٹھیک ہے میں بھی دیکھوں کتنے دن رہ سکتے ہو میرے بغیر حسنین نے چیلنجنگ انداز میں کہا
منہ دھو کر آٶ اپنا جنید نے جھٹ سے جواب دیا
ہاہاہاہا۔۔۔۔۔حسنین نے مہز اسکا دل جلانے کے لیے قہقہہ لگایا
حسنین اتنے ہینڈسم ہو لڑکیاں تمہارے پیچھے ہَیں تُم نے کبھی غور کیا ہے جنید نے ٹاپک چینج کیا
نہیں میری پاس فضول ٹائم نہیں ہے حسنین نے بیزاری سی کہا اور لیپ ٹاپ پر ٹائپنگ کرنے میں مصروف ہو گیا
تُم اتنی عزت كے لائق نہیں جتنی عزت تمہیں مل گئی ہے حسنین شاہ
جنید نے نا گواری سے کہا
اچھا اور کچھ حسنین نے مسکراتے ہوئے کہا
کچھ نہیں کام کرو اپنا میں جا رہا ہوں جنید کہہ کر باہر چلا گیا
حسنین کام میں مصروف ہو گیا
. . . . . . . . . . .
ماہ رخ چلو ڈرائیور آگیا ہے سائرہ کلاس میں آکر کہنے لگی اچھا میں بیگ اٹھا لوں ماہ رخ اور سائرہ کالج كے گیٹ پر آئی تو ڈرائیور نے گاڑی کا دروازہ کھولا
ماہ رخ اور سائرہ گاڑی میں بیٹھی
حویلی پہنچ کر ماہ رخ اپنے کمرے میں آئی سائرہ بھی ماہ رخ كے پیچھے اس كے کمرے میں چلی آئی
کیا بات ہے ماہ رخ تُم مجھے پریشان لگ رہی ہو راستے میں بھی ایسے ہی تھی
سائرہ کالج کے باہر اک آدمی نے ہماری پکچرز کھینچیں جب تم اور میں گاڑی میں بیٹھ رہے تھے تو میری نظر اس پر گئی ماہ رخ نے پریشانی سے کہا
تُم نے چہرہ دیکھا اس آدمی کا سائرہ نے پوچھا
ہاں سوچتے ہوئے کہا
اچھا تُم فکر نا کرو ہم ماموں کو بتا دیں گے وہ سب دیکھ لیں گے تُم ٹینشن نہ لو اور ریسٹ کر لو کچھ دیر سائرہ کو پتا تھا ماہ رخ تھوڑی تھوڑی بات سے گھبرا جاتی ہے
نہیں سائرہ ہم بابا کو نہیں بتائیں گے اور تُم بھی چُپ رہنا ماہ رخ نے بےساختہ کہا
اچھا میں نہیں بتا رہی کسی کو تُم چھوڑو اب زیادہ مت سوچو سائرہ کہہ کر کمرے سے باہر چلی گئی
. . . . . . . .
حسنین اپنے آفس میں کام کر رہا تھا جب اسے تہاور کے نمبر سے واٹس ایپ میسج موصول ہوا
حسنین نے میسج کھولا تو اس میں دو لڑکیوں کی برقعہ میں میں تصویریں تھیں
حسنین كے ہونٹوں پر عجیب سی مسکراہٹ آکر غائب ہو گئی
اس میں حسن جیلانی کی بیٹی کونسی ہے اس نے تہاور کو مسیج کر كے پوچھا
بلیک برقعہ اور گرین حجاج والی
تہاور کا جواب فوراً آیا
حسنین نے سائرہ کی تصویر کروپ کر دی اور ماہ رخ کو دیکھنے لگا
ماہ رخ جیلانی تُم صرف حسنین شاہ کی بنو گی اپنے لیے اللہ سے دعا کرنا شروع کر دو
حسنین نے فون واپس ٹیبل پر رکھا اور آنکھیں بند کر لیں
۔۔۔۔۔
ماہ رخ سائرہ کے کمرے سے چلے جانے کے بعد اٹھ بیٹھی
میں نہیں جانتی وہ آدمی کون تھا کس کا بھیجا ہوا تھا لیکن وہ ہماری برقعہ میں لی گئی پکچرز کا کیا کرے گا ماہ رخ کا سوچ سوچ کر سر دکھنے لگا
اسکے فون پر مسیج آیا وہ جلدی اپنا فون اٹھا کر چیک کرنے لگی
اسکی آج کی پیکچرز تھیں اور نیچے لکھا ہوا تھا
آپ سے بہت جلد ملاقات ہوگی تب تک اپنا خیال رکھیے گا
ماہ رخ کا ہاتھ کانپنے لگا وہ موبائل کو دور پھینک کر خالی خالی نظروں سے دیکھنے لگی
اور پھر اٹھ کر وضو کر کے عصر کی نماز پڑھنے لگی
۔۔۔۔۔۔۔۔
تہاور نمبر کا اتنی جلدی سینڈ کرنے کا شکریہ میں بہت خوش ہوں تمہارے کام سے تمہیں تمہارا انعام آج ہی مل جائے گا وہ اپنے کیبن میں بیٹھا تہاور سے فون پر بات کر رہا تھا
اچھا اب میں فون رکھتا ہوں اگر کوئی بات ہو تو مجھے کال کر لینا وہ کہہ کر ہ
فون بند کر گیا ایک عجیب سی مسکراہٹ اسکے خوبصورت چہرے پر رقس کر رہی تھی وہ یہ سوچ کر مضوظ ہو رہا تھا ماہ رخ کتنا پریشان ہو رہی ہو گی ایک خوشی اور جیت جانے کا جنون اسکے سر پر سوار ہو چکا تھا

حسنین رات گئے گھر واپس لوٹا تو پورے گھر میں اندھیرا چھایا ہُوا تھا وہ اپنے مظبوط قدم اٹھاتا ہوا اپنے کمرے میں آیا
شوز سے پیرو کو آزاد کیا پِھر اٹھ کر فریش ہونے کے لیے چلا گیا
حسنین كھانا لگا دوں آپکا حنا کمرے میں نوک کر کے آئی
آپ جاگ رہی ہَیں ابھی تک اور میں كھانا کھا کر آیا ہوں حسنین نے پہلے حنا کو اک نظر دیکھا پِھر جواب دیا
کچھ اور چاہئیے چائے یا کافی حنا نے پِھر سے کہا
نہیں شکریہ آپ آرام کریں حسنین نے مختصر جواب دیا
ٹھیک ہے شب خیر حنا کہہ کر کمرے سے چلی گئی
حنا حسنین سے محبت کرتی تھی لیکن حسنین کو بتانے کی آج تک ہمت نہیں ہوئی تھی اسے ۔۔
وہ آکر بیڈ پر لیٹ گیا اور سونے کی کوشش کرنے لگا نیند اسکی آنکھوں سے کوسوں دُور تھی
اسے رات سے خوف آتا تھا کہیں پِھر سے وہی سب اس کی آنکھوں كے سامنے نہ آجائے لیکن مرد تھا اور مرد کہاں اپنی کمزوری مانتےہَیں
. . . . . . . . .
ماہ رخ آج برا خواب دیکھ کر ڈر گئی تھی
اس خواب کی تعبیر کیا ہے آخر کون ہے وہ ماہ رخ کا سوچ سوچ کر ہلکان ہو رہی تھی
وہ کمرے سے باہر نکل آئی حویلی اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی وہ اپنے نازک پیر زمین پر رکھتی ہوئی کچن میں آکے پانی پینے لگی
آذان کی آواز اس کے کانوں میں پڑی تو وہ واپس کمرے میں گئی اور وضو کر كے نماز پڑھنے لگ گئی
. . . . . . . . . . .
حسنین اٹھ جاؤ میری جان نماز پڑھو بابا كے ساتھ آج آپ مسجد چلیں گے حماد صاحب دس سالہ حسنین کو پیار سے دیکھتے ہوئےکہنے لگا
جی بابا میں بھی آپ كے ساتھ چلوں گا حسنین کی چھوٹی سی آنکھوں میں چمک آئی
حسنین کبھی بھی نماز نہیں چھوڑنا میرے بچے جب آپ بڑے ہو جائیں پِھر بھی نماز ادا کرتے رہنا
حماد صاحب نے پیار سے بیٹے کو دیکھتے ہوۓ کہا
جی بابا میں ہمیشہ نماز پڑھوں گا حسنین نے حماد صاحب كے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں لیا
بابا . . . . . . . حسنین کی چیخ کمرے میں گونجی وہ خواب میں احمد صاحب کو دیکھ رہا تھا اس نے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا تو پسینے سے تر تھا اسکا چہرے۔۔
وہ پسینہ صاف کر كے بیڈ سے اٹھا اور وضو کرنے چلا گیا
واپس آکر نماز ادا کی اور دُعا کے لیے ہاتھ اٹھائے
میری اللہ میری مدد کرنا میں مانتا ہوں آپ صبر کرنے والوں کا ساتھ دیتے ہَیں لیکن میں اب اور صبر نہیں کر سکتا میں حسن جیلانی سے اپنا بَدلا لے کر رہوں گا حسنین كے چہرے پر سختی اور قرب نظر آرہا تھا
وہ جائے نماز سے اٹھ گیا اور چینج کر کے واک کرنے كے لیے کمرے سے باہر آیا تو اَحمد صاحب بھی واک کرنے كے لیے نکل رہے تھے
بڑے ابو حسنین نے اُنہیں پکارا
جی ابو کی جان مجھے لگا تُم سوئے ہوئے ہو تبھی نہیں جگایا تمہیں اَحمد صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا اور دونوں گھر سے باہر نکل آئے
نیند سے جلدی اٹھ جاتا ہوں آفس جانا ہوتا ہے وہ اپنے بالوں میں ہاتھ گھماتے ہوئے کہنے لگا
اچھی بات ہے تمہارے بابا بھی ایسے ہی تھے کام كے معاملے میں اسے وقت ضائع کرنا سخت ناپسند تھا اَحمد صاحب كے سامنے آج بھی سب پہلے کی طرح کی تازہ تھا بس وہ حسنین کی وجہ سے چُپ رہتے تھے
جی بڑے ابو بابا مجھے بھی کہا کرتے تھے کے اپنے کام کے ساتھ ہمیشہ سنجیدہ رہو چاہے کام بڑا ہو یا چھوٹا حسنین نے چہرے کو سپاٹ رکھا اور دونوں پارک میں داخل ہو گئے .
. . . . . . . . . . . .
ماہ رخ آج کالج نہیں جانا کیا سائرہ تیار ہو کر ماہ رخ كے کمرے میں آئی تو وہ لیٹی ہوئی تھی
نہیں آج میرا دِل نہیں چاہ رہا تُم جاؤ ماہ رخ نے اپنا بازو آنکھوں پر رکھا ہوا تھا
اَچّھا ٹِھیک ہے خیال رکھنا اپنا سائرہ ماہ رخ کی حالت جانتی تھی اس لیے زیادہ فورس نہیں کیا اور کمرے سے باہر آگئی
حسن صاحب نے ماہ رخ کا پوچھا تو سائرہ نے موڈ نہیں اس کا کا کہہ کر ٹال دیا


. . . . . . .
حسنین بلیک پینٹ پر گَرے شرٹ اور بلیک کوٹ میں ملبوس کافی گریس فل لگ رہا تھا وہ آفس پہنچا تو اسٹاف نے سلام کیا
وہ سَر ہلا کر جواب دیتے ہوئے اپنے کیبن میں آیا
ارے واہ آج تو حسنین شاہ لگ ہی نہیں رہے ہر روز خوبصورت ہوتے جا رہے ہو کیا راز ہے آخر جنید نے چھیڑنے والے انداز میں کہا
وہ پِھر بھی انکھیں لیپ ٹاپ پہ مرکوز کیئے بیٹھا رہا اور کوئی جواب نہیں دیا
کیا ہوا آج جوابی کاروائی نہیں ہوئی جنید نے اسے دیکھتے ہوئے کہا
بس نیند پوری نہیں ہوئی ہے یار چھوڑو اس بات کو کافی پیو گے حسنین نے لیپ ٹاپ سے نظریں ہٹاتے ہوئے سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا ہاں منگوا لو جنید نے اسے دیکھتے ہوئے کہا
اچھا اور سناٶ کیسے ہو حسنین نے کافی منگواتے ہوئے کہا
میں بالکل ٹِھیک مجھے کیا ہونا ہے آپ ٹھہرے نازک لوگ جنید نے اسکا پِھر سے مذاق اڑاتے ہوئے کہا
ہلکی سی مسکراہٹ حسنین كے چہرے پر آکر غائب ہو گئی
تم نہیں سدھر سکتے جنید وہ ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہنے لگا
نہیں جی بلکل بھی نہیں میں آپ کی طرح عمر سے پہلے بڑا نہیں ہونا چاہتا جنید نے اسکی بڑی عمر پر چوٹ کی

ماہ رخ جب روم میں بور ہونے لگی تو کمرے سے باہر آگئی
مانو آج تم بھی کالج نہیں گئی ماہ رخ نے مانو کو لانج میں دیکھا تو کہنے لگی
نہیں آپی رات سے طبیعت ٹھیک نہیں تو امی نے کہا آج چھٹی کر لو مانو نے موبائل فون ٹیبل پر رکھرتے ہوئے کہا
کیا ہوا ہے زیادہ تو خراب نہیں طبیعت ماہ رخ نے فکرمندی سے پوچھا
نہیں تھوڑا سا فیور تھا پر امی نے دوا دی ہے اب بہتر ہوں مانو نے صوفے سے اٹھتے ہوئے کہا
اچھا امی کہاں ہیں وہ فرزانہ بیگم کا پوچھنے لگی
امی کمرے میں ہیں مانو نے پیار سے جواب دیا
اَچّھا میں دیکھتی ہوں اُنہیں ماہ رخ کہہ کر اٹھ گئی
. . . . . . . .
تہاور وہ لڑکی آج کالج آئی تھی وہ بے چینی سے ٹیہلنے لگا
نہیں سَر آج صرف اک ہے لڑکی کالج آئی ہے
ہونھ...ٹھیک ہے کل آئے تو مجھے بتا دینا حسنین نے کہہ کر موبائل ٹیبل پر رکھا دیا
کیا ہوا مجنوں کہاں گم ہو جنید نے حسنین کو کسی سوچ میں گم دیکھا تو شرارت سے کہا
نہیں تو ایسا کچھ بھی نہیں تم فضول باتیں کرتے ہو ہمیشہ حسنین نے پین اوٹھاتے ہوئے کہا
اَچّھا نہ مانو تمہاری مرضی میں کیا کہہ سکتا ہوں جنید نے معصوم بنتے ہوئے کہا
بڑے ڈرامے بعض ہو تم جنید بعض نہ آنا حسنین نے مسکراتے ہوئے کہا
تمہارا دوست ہوں آخر کچھ تو اثر ہوگا جنید نے ہنستے ہوئے کہا اور اٹھ کر دونوں آفس سے باہر آگئے
کہاں چلنا ہے حسنین نے سوالیہ نظروں سے دیکھا
جہاں لے کر چلو جنید نے آنکھ مارتے ہوئے کہا
واحیات کبھی تو انسان بن جایا کرو حسنین نے گلاسز آنکھوں پر لگاتے ہوئے کہا
اللہ کا شکر ہے انسان ہی ہوں جنید گاڑی میں بیٹھتے ہوئے کہنے لگا
ہاں پتہ ہے مجھے کے تم کیا ہو منہ نا کھلواو میرا حسنین نے مختصر جواب دیا اور گاڑی اسٹارٹ کی
. . . . . . . . . .
اٹھ گئی تم اب طبیعت کیسی ہے تمھاری فرزانہ بیگم نے ماہ رخ کو دیکھتے ہوئے کہا
ٹھیک ہوں امی بس سَر میں دَرْد تھا ماہ رخ فرزانہ بیگم كے ساتھ بیٹھ گئی
کیا ہوا ماہ رخ آنکھیں کیوں سرخ ہو رہی ہیں تمھاری فرزانہ بیگم نے فکرمندی سے کہا
کچھ نہیں امی پتا نہیں کیا ہے ماہ رخ فرزانہ بیگم کی گود میں سَر رکھ کر لیٹ گئی
فرزانہ بیگم اس كے لمبے گھنے بالوں میں ہاتھ پھرنے لگی
امی جب دِل کو سکون نہ ہو تو کیا کرنا چاہئے ماہ رخ نے آنکھیں بند کیے پوچھنے لگی
تب نماز اور قرآن پاک کی تلاوت کرنی چاہئے جب ہم اپنے رب سے دور ہوتے ہیں تو پھر ہم بے سکونے رہتے ہیں فرزانہ بیگم نے تحمل سے جواب دیئے
ہمم ماہ رخ نے ہلکی سی مسکراہٹ سے جواب دیا اور چُپ ہو گئی
. . . . . . . .
آج بل تم دو گے حسنین اور جنید ریسٹورانٹ آئے ہوئے تھے
کیوں کس خوشی میں آج میرا ولیمہ ہے کیا جنید نے گھورتے ہوئے کہا
ہمیشہ میں بل دیتا ہوں تب میرا والیمہ ہوتا ہے کیا حسنین نے جوابی کاروائی کی
تم ٹھرے امیر زادے میں غریب آدمی بخش دو مجھے جنید نے اپنا نہ نظر آنے والا آنسو صاف کیا
بہت ڈہیٹ ہو تم حسنین نے پیسے دیتے ہوئے کہا اور اٹھ کر ریسٹورانٹ سے باہر آگئے
حسنین اپنے خیال میں چلتا ہوا آرہا تھا کے کیسی سے زور سے ٹکرا گیا
او سو۔۔۔۔ سوری میں نے آپکو دیکھا نہیں حسنین نے فوراً معضرت کرتے ہوے کہا
جب کے اسکی نظریں سامنے والے کے گرے ہوے سامان پر تھیں
لیکن سامنے والے کا چہرہ دیکھ کر وہ ٹھٹک گیا سامنے کھڑی شخصیت کوئی اور نہیں بلکہ حسن جیلانی تھے
کوئی بات نہیں بیٹا میری غلطی تھی حسن صاحب نے اسکے چوڑے شانے پر ہاتھ رکھا اور آگے بڑھ گئے
جب كے حسنین کی پائوں وہیں پہ جم گئے
کیا ہوا یار کون تھے وہ جنید نے آکر حسنین سے چوچھا
ہاں...کھ کچھ نہیں کوئی نہیں تھے چلو چلیں حسنین آکر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا اور کار اسٹارٹ کر دی
جنید کب سے محسوس کر رہا تھا حسنین کی غائب دماغی کو
وہ ٹھیک سے گاڑی ڈرائیو نہیں کر رہا تھا جنید کو ڈر تھا کہیں کو ایکسڈنٹ نا ہو جائے
حسنین تمہاری حالت مجھے ٹھیک نہیں لگ رہی ابھی تم اپنے حوش و حواس میں نہیں ہو میں گاڑی ڈرائیو کر لیتا ہہوں جنید نے اسکے ہاتھ پر ہاتھ رکھا
حسنین نے گاڑی روک دی اور ڈرائیونگ سیٹ سے نکل کر جنید کی سیٹ پر آیا
جنید نے خاموشی سے آکر ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی
حسنین کی انکھیں زپت اور غصے سے سرخ ہو چکی تھیں
حسنین کون تھے وہ جنید نے سنجیدگی سے کہا
مجھے نہیں پتا اور ابھی پلیز میں اس ٹاپک پر اور کوئی بات نہیں کر سکتا
اسنے بے زاری سے کہا اور دوڑتے ہوے منظر کو دیکھنے لگا
میں تمہیں مجبور نہیں کرونگا شاہ جب دل کرے مجھے پتا دینا میں انتظار کرونگا
اس شاہ کے بارے میں جاننے کا جیسے شاید میں نہیں جانتا جنید نے آرام سے کہا
شکریہ جنید اس نے سرد لہجے میں جواب دیا
۔۔۔۔۔۔۔
کیا ہہوا ماہ رخ کہاں کھوئی ہوی ہو کب سے میں باتیں کر رہی ہہوں تم سن نہیں رہی سائرہ نے اسے پیار سے کہا
پتا نہیں لیکن میں پاگل ہو جائوںگی سائرہ
ایک ان نون نمبر سے مجھے مسیج آتے ہیں اور پتا ہے میں نے تمہیں اس دن پتایا تھا کے کسی نے ہماری تصویریں کھنچیں ہیں
ہاں مجھے یاد ہے لیکن تم وہ بات ابھی کیوں کر رہی ہو سائرہ نے الجھی ہوی نظروں سے دیکھا
وہ پیکچرز میرے پاس سیںڈ کیے ہیں اس آدمی نے ناجانے کون ہے اور اخر چاہتا کیا ہے
ماہ رخ نے پریشان لہجے میں کہا
جو کوئی بھی ہوگا ایک دن خد تھک جائے مجھے تو کوئی پہنچی ہہوی چیز لگ رہا
ورنہ اتنی جلدی اسے تمہارا نمبر نہیں ملتا اب کی بار سائرہ بھی پریشان ہو گئی تھی
خیر چھوڑو اللہ پاک بہتر کریں گے چلو سندر چلیں اندھیرا ہونے لگا ہے اب
وہ دونوں اندر چلی گئیں
.........
اچھا چلو اٹھو ماہ رخ کہہ رہے ہیں وہ ہمیں عید کی شاپینگ کروا کے لاوں


ماہ رخ اپنے کمرے میں بیٹھی پڑھائی کرنے میں مصروف تھی
جب سائرہ اس کے ب
پاس آئی
تم اور مانو جاو میرا موڈ نہیں ہے ماہ رخ نے عجیب سے انداز میں کہا
کیوں موڈ نہیں چلو تو سہی مزا آئے گا یار ایسے کسی کو مزا نہیں آئے گا
اچھا ٹھیک ہے ہم بھی نہیں جا رہے سائرہ کو پتا تھا ماہ رخ اب ہامی بھرے گی
تم پاگل ہو سائرہ چلو میں آتی ہہوں وہ اپنی بکس بیگ میں ڈال کر اٹھ گئی
سائرہ نے خوشی سے اسے گلے لگایا اور کمرے سے بھاگ گئی
ماہ رخ ہنستے ہہوے فریش ہونے چلی گئی
۔۔۔۔۔۔۔
سر حسن جیلانی ابھی اپنے گھر سے نکلے ہیں اور ساید وہ لڑکی بھی انکے ساتھ ہیں اب کیا کرنا ہے مجھے
وہ اپنے کمرے میں بیٹھا سگریٹس پینے میں مصروف تھا جب اسے تہاور کا فون آیا
اس نے سگریٹ کو اپنے شوز سے مصلا اور اٹھہ کھڑا ہوا
اچھا تم نظر رکھو میں آتا ہہوں ابھی
وہ کہہ کر اپنے کمرے نکلا۔۔

وہ لوگ شاپنگ مال پہنچے تو ماہ رخ کا دل کسی چیز میں نہیں لگ رہا تھا وہ ہر چیز سے اکتاہٹ کا اظہار کر رہی تھی
سائرہ نے اس کی غیر دماغی نوٹ کی تو اسے کہے بینا رہ نہیں سکی
کیا ہے یار اب اگر آ ہی گئی ہو تو موڈ ٹھیک کر لو اپنا کب سے ماموں جان بھی یہی چیز نوٹ کر رہے ہیں تمہاری وہ کیا سوچیں گے سائرہ نے اسے ڈپٹا
وہ دونوں حسن صاحب سے تھوڑا فاصلے پر تھیں
آپی جلدی آئیں نا مانو نے انہیں اپنے پاس بلایا وہ دونوں مانو کی جانب گئیں
آپی آپ پر یہ کلر زیادہ سوٹ کرے گا آپ یہی لے لیں مانو اسے گرین کلر کا خوبصورت فراق دکھا کر کہنے لگی
اچھا میری جان اگر تمہیں اچھا لگ رہا ہے تو یہی لے لیتی ہوں ماہ رخ نے پیار سے مانو کا چہرہ چھوا
۔۔۔۔۔۔۔
سر کیا کرنا ہے اب تہاور اور وہ بھی اسی مال میں موجود تھے
ابھی کچھ نہیں کرنا آج وہ اپنے باپ کے ساتھ ہے میں پھر کسی دن جو کرنا ہوگا کر لوں گا ابھی چلو
وہ تہاور کو لیے مال کے خارجی راستے کی جانب جانے لگا
ماہ رخ کو بہت دیر سے کسی کی نظروں کے تپش خود پر محسوس ہو رہی تھی وہ پیچھے موڑی تو اسے ایسا لگا سامنے والے شخص نے جلدی سے پشت کر کے کھڑا ہو گیا
وہ اپنا وہم سمجھ کر سر جھٹک گئی اور اپنی شاپنگ پر دھیان دینے لگی
حسنین جلدی سے اپنی گاڑی میں آکر بیٹھا
تہاور کل اگر وہ لڑکی کالج جائے تو مجھے بتا دینا ابھی میں چلتا ہوں اللہ حافظ وہ اندھے طوفان کی طرح گاڑی لے گیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔
اگلے دن ماہ رخ صبح جلدی اٹھ کر کالج كے لیے تیار ہوگئی
ماہ رخ میرا دِل پتا نہیں کیوں گھبرا رہا ہے آج تُم کالج نہ جاؤ فرزانہ بیگم کا دِل صبح سے بے چین ہو رہا تھا
امی آج مجھے لازمی جانا ہے پرسوں سے ایگزامز اسٹارٹ ہیں، ورنہ میں آج نہ جاتی ماہ رخ اچھے سے نقاب کرنے لگی
اَچّھا ٹھیک ہے پِھر خیال رکھنا اپنا فرزانہ بیگم چُپ ہو گئی لیکن دل تو ابھی بے سکون تھا
ماہ رخ چلیں سائرہ کمرے میں آئی
ہاں چلو ماہ رخ نے بیگ اٹھایا اور فرزانہ بیگم سے اللہ حافظ کہہ کر باہر آگئی فرزانہ بیگم دِل میں بیٹی کے لیے دعائیں کرنے لگیں
. . . . . . .
تہاور آج وہ لڑکی گئی ہے کالج حسنین نے فون کان پر رکھا ہوا تھا اور واچ باندھتے ہوئے پوچھنے لگا
جی سر آج حسن جیلانی كے ساتھ دو لڑکیاں ہیں،
ھوں...ٹھیک ہے تُم نظر رکھو ان پر اس نے کہہ کر کال کاٹ کر فون ڈریسنگ ٹیبل پر رکھ دیا
حسنین آپ کیا کرنے جا رہے ی ہیں، حنا نے آدھی باتیں سن لیں تھیں
کچھ نہیں کرنے جا رہا آپ پریشان نہ ہوں حسنین شوز پہننے لگا
میں نے سب سن لیا ہے حسنین آپ جھوٹ کیوں بول رہے ہیں، حنا نے جتاتی ہوئی نظروں سے دیکھا
جب سنہ لیا ہے تو پوچھ کیوں رہی ہیں، اس بار حسنین نے حنا کو دیکھا
آپ کچھ غلط نہیں کریں گے حسنین شاہ ۔۔
حنا نے روکنا چاہا
ھممم...حسنین نے کوئی جواب نہیں دیا اور کمرے سے نکلتا چلا گیا
حنا اسے جاتے ہوئے دیکھنے لگی اور دل ہی دل میں دعا مانگ رہی تھی اب کچھ بھی غلط نا ہو
. . . . . . . . . .
بابا آپ خیال سے جائیے گا ماہ رخ نے گاڑی سے اترتے ہوئے کہا
جی میری جان آپ ٹینشن نا لیں حسن صاحب نے پیار بھری نظروں سے بیٹی دیکھتے ہوئے کہا
سائرہ آج پتا نہیں امی کو کیا تھا بول رہیں تھی کالج نہ جاٶں
کچھ نہیں ہوتا اب تو چھٹی بھی ہونے والی ہے سائرہ بیگ اٹھا کے کھڑی ہو گئی چلو چلتے ہیں
ہاں اچھا مجھے ٹائم کا اندازہ ہی نہیں ہوا ماہ رخ نے بیگ اٹھایا اور نقاب کو ٹھیک کیا
باہر گاڑی میں ڈرائیور پہلے ہی موجود تھا سائرہ کار میں بیٹھ گئی ماہ رخ بیٹھنے لگی تو کچھ آدمیوں نے اسے ذبردستی اٹھا کر دوسری گاڑی میں ڈال دیا
یہ سب اِتْنا اچانک ہوا کے سائرہ کو سمجھ میں نہیں آیا كے آخر ہوا کیا ہے
جب سائرہ کو سمجھ میں آیا تو وہ رونے لگی اور حسن صاحب کو کال کی ماموں ماہ رخ کو کچھ آدمی اٹھا کر لے گئے ہیں، آپ کولج آئیں پلیز مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا سائرہ نے روتے ہوئے کہا
ک.ککک..کیا بول رہی ہو کہاں لے گئے ماہ
رخ کو اور کون تھے وہ آدمی تم نے دیکھا انھیں حسن صاحب کا دِل اُنہیں رکتا ہوا محسوس ہو رہا تھا
پتا نہیں ماموں لیکن آپ کچھ کریں سائرہ نے پِھر سے کہا
ہا...ہاں آپ گھر جائیں میں آ رہا ہوں حسن صاحب نے کہہ کر فون بند کر دیا
. . . . . . .
چھوڑو مجھے کہاں لے کر جارہے ہو چھوڑو ماہ رخ چیخنے لگی لیکن کسی نے اس کی نہیں سنی
گاڑی روکو سَر کی گاڑی میں ڈالنا ہے،انھیں اک آدمی نے کہا اور گاڑی روک دی گئی
کونسا سَر ۔۔
کیوں کر رہے ہو میری ساتھ ایسا کیا کِیا ہے میں نے وہ پِھر سے چیخنے لگی
لڑکی آواز نہ آئے اب کب سے دماغ خراب کر رکھا ہے ہمارا چُپ کر كے بیٹھ جاؤ اک آدمی نے غصے میں کہا
میرے بابا تُم لوگوں کو نہیں چھوڑیں گے
اپنی بہن بیٹی نہیں ہے کسی کی عزت کے ساتھ کھیلتے ہوئے شرم نہیں آ رہی ماہ رخ نے پِھر بھی ہار نہیں مانی
ہمیں پیسے دیئے گئے ہیں، ہم کچھ نہیں کر سکتے اک آدمی نے کہا اور ہم صرف آپکو صاحب کے حوالے کریں گے
اللہ کو کیا منہ دکھاؤ گے یہاں تو تُم سب من مانی کر لو گے اپنے خدا كے سامنے کیا جواب دو گے ماہ رخ نے اپنے آنسو پیتے ہوۓ کہا اسے پتا تھا اب کچھ نہیں ہو سکتا

سائرہ گھر پہنچی تو فرزانہ بیگم ماہ رخ کا پوچھنے لگی
ممانی ماہ رخ کو کچھ لوگ اغواہ کر كے لے گئے اپنے ساتھ سائرہ نے روتے ہوئے کہا
کیاکون تھے اور کیوں اٹھا كے لے گئے میری بچی کو کیا قصور تھا اس کا فرزانہ بیگم رونے لگیں
مانو بھی رو رہی تھی سب بہت پریشان تھے اسے میں فرزانی بیگم یہ سب سن کر بے ہوش ہو گئی
امی....مانو نے فرزانہ بیگم کو بے ہوش ہوتے دیکھا تو تھام لیا اور سائرہ کی مدد سے فرزانہ بیگم کو اندر لے گئیں
. . . . . . .
آگئی صاحب کی گاڑی نکالو لڑکی کو گاڑی سے باہر
ماہ رخ کو اک آدمی نے تھامنے کی کوشش کی لیکن اس نے اسے خود کو ہاتھ لگانے سے باز رکھا اور سختی سے منع کر دیا
میں خود چل رہی ہوں مجھے ہاتھ کوئی نہیں لگائے گا اس نے غصے سے چلا کر کہا
چھوڑ دو اسے میں خود دیکھ لوں گا حسنین کی بھاری آواز گونجی جاؤ تُم لوگ یہاں سے حسنین نے اپنی گاڑی سے باہر نکلتے ہوۓ ماہ رخ کا چِلاّنا سن لیا تھا اس لیے سب کو سختی سے منع کیا اور وہاں سے جانے کا اشارہ کیا
ماہ رخ ابھی بھی نقاب میں تھی وہ خالی خالی نظروں سے اپنے سامنے کھڑے انجان مرد کو دیکھ کر سکتے میں تھی
وہ آدمی سر ہلا کر چلے گئے
سنسان پہاڑی علاقہ ہر طرف سناٹا دور دور تک کسی انسان کا کوئی نام و نشان تک نہیں تھا
اب وہ اس سے مخاطب ہوا
ماہ رخ حسن جیلانی یہی نام ہے نا تمہارا حسنین نے ماہ رخ کی کی شہد زنگ انکھوں میں دیکھتے ہوۓ کہا
وہ سکتے سے باہر آئی اور اپنا پورا نام کسی غیر مرد کی منہ سے سن کر اسے آگ لگ گئی
تُم نے اغواہ کروایا ہے مجھے کون ہو تم اور کیا چاہتے ہو وہ چلائی
چلّاو مت میرے سامنے کوئی نہیں آنے والا تمہاری مدد کو وہ بے زار لہتے میں مخاطب ہوا
میرے بابا تمہیں چھوڑیں گے نہیں اس سے اچھا مجھے چھوڑ دو ماہ رخ کے ہونٹوں سے ٹوٹ ٹوٹ کر یہ الفاظ ادا ہوۓ
ہاں میں نے ہی اغواہ کروایا ہے تمہیں بہَت سے حساب نکلتے ہیں میرے حسن جیلانی کی طرف وہ زہر آلود لہجے میں کہنے لگا اور
اب ان سب حساب کا بدلہ لینے کا وقت آگیا ہے
پہت شوق ہے نا تمہارے باپ کو لوگوں کی زندگی ختم کرنے کا ان کی خوشیاں تباہ کرنے کا اب پتا لگے گا اسے جب اسکی بیٹی سکون کی زندگی جینے کو ترسے گی
میں تُم سے لوں گا سب بدلے اس کے چہرے پر اک عجیب سی ضد اور جنون سوار تھا
اور تمہیں لگتا ہے میں تمہارے
ساتھ چُپ کر كے چلوں گی ماہ رخ نے گویا اس کا مزاق اڑایا
ہاں تمہیں میری ساتھ چلنا ہو گا نہیں تو میں حسن جیلانی كے ساتھ کچھ بھی کر سکتا ہوں حسنین نے دل جلا دینے والی مسکراہٹ سے کہا
ماہ رخ کا دِل اسے بند ہوتا محسوس ہوا
وہ تڑپ اٹھی تھی حسن صاحب کے زکر پر
تُم ایسا کچھ نہیں کرو گے ماہ رکھ نے خود کو مضبوط دِکھانے کی نا کام کوشش کی
چلو ٹھیک ہے میں کچھ نہیں کروں گا لیکن بدلے میں تمہیں مجھ سے شادی کرنی ہوگی اور جو میں کہوں گا وہی کرنا ہوگا حسنین نے سینے پر ہاتھ باندھتے ہوئے آرام سے کہا
نہیں ہر گز نہیں میں مر جاٶں
لیکن تُم سے شادی نہیں کروں گی ماہ رخ نے دو ٹوک جواب دیا وہ کیسے اپنے بابا کا مان توڑ سکتی تھی
پِھر تمہاری مرضی اب جو بھی ہو گا تمہاری غلطی ہوگی اس میں حسنین نے کسی کو فون کرتے ہوئے کہا
ہاں تہاور میری بات سنو حسن جیلانی کو حسنین كے الفاظ ابھی پورے نہیں ہوئے تھے ماہ رخ نے اس سے فون جھپٹ کر چھین لیا اور کال کاٹتے ہوئے کہا
میں تُم سے شادی کرنے كے لیے تیار ہوں تُم میرے بابا کو کچھ نہیں کرو گے ماہ رخ نے یہ کیسے کہا یہ وہی جانتی تھی یہ اس کا خدا۔۔۔۔۔۔
ٹھیک ہے مجھے تُم سمجھدار لگ رہی ہو اور ہاں آج كے بعد تمہارا حسن جیلانی سے کوئی رشتہ نہیں ہوگا حسنین نے اک اور سزا کاا علان کیا
اور چلو اب گاڑی میں بیٹھو
ماہ رخ مرے ہوے قدموں سے چلتے ہوۓ گاڑی میں بیٹھی تو حسنین نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی
جنید نکاح خوان کا انتظام کرو میں کچھ دیر میں گھر پہنچ رہا ہوں اس نے جنید کو فون کر كے کہا اور کال کاٹ دی وہ دونوں پورے دو ڈیڈ گھنٹے کے سفر میں خاموش رہے
حسنین نے اپنا الگ گھر لیا ہوا تھا لیکن وہ اس گھر میں کم ہی جایا کرتا تھا کیوں کے بی جان اپنا گھر چھوڑنے کو تیار نہیں تھی جب کے وہ بی جان کے بغیر رہ نہیی سکتا تھا
وہ اپنے گھر پہنچا تو ماہ رخ کو لیے گھر میں داخل ہوا بہَت بڑا اور خوبصورت گھر تھا
حسنین ہال میں پہنچا تو جنید نکاح خواں كے ساتھ بیٹھا ہوا نظر آیا اسے
جنید دونوں کو دیکھ کر اٹھ کھڑا ہوا
حسنین چلتا ہوا صوفے پر بیٹھ گیا اور ماہ رخ کو دوسرے سوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا
نکاح شروع کریں مولوی صاحب حسنین کی بھاری مردانہ آواز ہال میں گونجی
نکاح ہو گیا تھا حسنین اپنی جیت پر خوش تھا تو ماہ رخ اپنے بابا کی زندگی كے لیے قربانی دے کر کسی بُت کی طرح بیٹھی تھی
ماہ رخ اپنے دکھوں پر رو رہی تھی جب حسنین اسے ہوش کی دُنیا میں لایا
تُم جاؤ کمرے میں وہ اسے غور سے دیکھنے لگا کیا کچھ نہیں تھا اس کے لہجے میں جیت جانے کی خوشی
کسی ربورٹ کی طرح اٹھ کر مرے ہوۓ قدموں کے ساتھ چلتی ہوٸی
جو کمرا سامنے نظر آیا اس میں گھس گئی اور دروازہ اندر سے بند کر لیا
حسنین یہ ٹھیک نہیں کیا تُم نے
اس لڑکی کا کیا قصور تھا
جنید نے افسوس سے کہا
مجھے صرف حسن جیلانی کی بربادی سے مطلب ہے میری لیے ایسی بہَت سی لڑکیاں ہیں اور میں نے تو آج تک اسے دیکھا تک نہیں حسنین نے سر جھٹکتے ہوئے اپنی صفائی میں کہا
لیکن اس سب میں ان کا کیا قصور تھا تم یہ بتانا پسند کرو گے حسنین شاہ جنید نے اس سے چبھتا ہوا سوال کیا جس کا جواب شاید اس کے پاس بھی نہیں تھا
کوئی جواب نہیں ہے نا تمہارے
پاس جنید پھر سے جواب طلب نظروں سے دیکھنے لگا

شب بسر کرنی ہے، محفوظ ٹھکانہ ہے کوئی ؟
کوئی جنگل ہے یہاں پاس میں؟ صحرا ہے کوئی؟
ویسے سوچا تھا محبت نہیں کرنی میں نے
اس لئے کی کہ کبھی پوچھ ہی لیتا ہے کوئی
آپ کی آنکھیں تو سیلاب زدہ خطے ہیں
آپ کے دل کی طرف دوسرا رستہ ہے کوئی؟
جانتی ہوں کہ تجھے ساتھ تو رکھتے ہیں کئی
پوچھنا تھا کہ ترا دھیان بھی رکھتا ہے کوئی؟
دکھ مجھے اس کا نہیں ہے کہ دکھی ہے وہ شخص
دکھ تو یہ ہے کہ سبب میرے علاوہ ہے کوئی
دو منٹ بیٹھ، میں بس آئینے تک ہو آؤں
اُس میں اِس وقت مجھے دیکھنے آتا ہے کوئی
خوف بولا: "کوئی ہے؟ جس کو بُلانا ہے، بُلا!"
دیر تک سوچ کے میں زور سے چیخا: " ہے کوئی؟؟"


حسن مجھے میری بچی ڈھونڈ کر دیں
کہاں لے گئے وہ میری بچی کو فرزانہ بیگم ہوش میں آتے ہی پھر سے رونا شروع ہو گئیں
حسن صاحب سَر پکڑے سامنے صوفے پر بیٹھے ہوئے تھے
فرزانہ میں کوشش کر رہا ہوں آپ دعا کریں ہماری بچی بلکل ٹھیک ہو
حسن صاحب کو اپنی آواز کویں سے آتی ہوئی محسوس ہوئی
اسی دن سے میں ڈرتی تھی ہو نہ ہو یہ سب شاہوں کا کِیا دھرا ہے حسن
وہ لوگ میری بیٹی اغواہ کر كے لے گئے ہَیں
یہ آپ کیا کہہ رہی ہَیں فرزانہ....
ایسا کچھ نہیں اور میں نے کیا بگاڑا ہے انکا وہ سب اک غلط فہمی میں ہوا تھا حسن صاحب ماننے کو تیار نہیں تھے
اپ کہاں مانیں گے آپ کو تو آج بھی ان لوگوں کے لے دل میں محبت بھری ہوٸی ہے لیکن میں ایک ماں ہوں اور میرے لیے میری بیٹی سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں وہ روتے ہوۓ کہنے لگیں
آپ غلط سوچ رہی ہیں لیکن ابھی آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں آپ آرام کریں
اور میں اپنی بیٹی کو گھر واپس لے کر آٶں گا بس آپ مجھ پر اعتبار کر لیں حسن صاحب کہتے ہوۓ کمرے سے باہر چلے گئے
ایس.پی صاحب میری بچی کا کچھ پتا چلا حسن صاحب کمرے سے باہر آکر ایس پی کو فون کر کے پوچھنے لگے
نہیں حسن صاحب ہم کوشش کر رہے ہَیں مل جائے گی آپ کی بیٹی آپ بس تھوڑا صبر کر لیں ایس پی نے انہیں کہا
میری بچی صبح سے غائب ہے اور آپ کہہ رہے ہیں میں صبر کر لوں
مجھے میری بیٹی چاہیئے ہر حال میں حسن صاحب نے غصے میں کہا
ہم آپکا دکھ سمجھ سکتے ہَیں حسن صاحب ہم اپنی طرف سے پوری کوشش کر رہے ہَیں بہت جلد آپکو اچھی خبر دیں گے ان شاء اللہ ایس.پی صاحب نے کہا اور حسن صاحب نے کال کاٹ دی
. . . . . . . . . .
اَچّھا حسنین میں اب گھر چلتا ہوں كھانا کھا لینا میں نے کچن میں رکھوا دیا تھا جنید واپس جانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا
شکریہ جنید میرا ساتھ دینے كے لیے اور ابھی بھی کسی کو اس بات کا پتا نہیں لگنا چاہئے بی جان اور بڑے ابو کو بھی نہیں حسنین جنید کو باہر تک چھوڑنے آیا
ٹھیک ہے میں نہیں بتا رہا کسی کو اور تُم اب بھابھی کا خیال رکھنا اس سب میں انکی کوئی غلطی نہیں ہے
ہاتھ ہلکا رکھنا جنید نے حسنین سے ملتے ہوئے کہا
ھممممم۔۔۔۔۔اللہ حافظ حسنین نے بات بَدَل دی
اللہ حافظ جنید کہہ کر اپنی گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہوا
. . . . . . . . . .
ماہ رخ نے کمرے میں آکر اپنا نقاب کھینچ کر اُتار دیا اور گھٹنوں کے بل نیچے بیٹھتی چلی گئی
کیوں اللہ جی کس بات كی سزا دی مجھے میں نے پوری زندگی خود کو چھپا کر رکھا جیسا آپکو پسند ہے ۔
ویسی بننے کی پوری کوشش کی پِھر بھی میریے ساتھ ایسا کیوں ہوا ماہ رخ گھٹ گھٹ کے رو رہی تھی
اس نے بیڈ شیٹ کو اپنے مٹھی میں بھینچ لیا
وہ نہیں چاہتی تھی حسنین اسے روتے دیکھ لے وہ حسنین كے سامنے کمزور نہیں پڑنا چاہتی تھی
اسے پتا تھا کے ابھی سب تو شروع ہوا ہے
. . . . . . . . . .
کچھ دیر بعد ماہ رخ کو کسی کے قدموں کی آہٹ محسوس ہوئی
وہ گھٹنوں میں اپنا منہ چھپانے لگی
دروازہ کھولو باہر سے حسنین کی بھاری آواز سنائی دی
وہ دروازے کو خالی خالی نظروں سے دیکھنے لگی
میں نے کہا دروازہ کھولو نہیں تو میں خود کھول دوں گا حسنین نے دھمکی دی
ماہ رخ پِھر بھی نا اٹھی
وہ خود کو چھپا دینا چاہتی تھی لیکن ایسا اس کے بس میں کہاں تھا
حسنین اسٹور روم سے کمرے کی چابی اتار آیا
ماہ رخ نے اپنا چہرہ گھٹنوں میں چھپایا ہوا تھا
وہ دروازہ کھول کر کمرے میں آیا تو کمرے میں اندھیرا چھایا ہوا تھا
اس نے لائٹس آن کی تو پورا کمرا روشنی سے نہا گیا
پھر اسنے اپنی نظریں ماہ رخ کو ڈھونڈنے میں دوڑائی تو وہ اسے نیچے بیٹھی نظر آئی اس كے لمبے سلکی بال کمر سے نیچے گرے ہوئے نظر آئے
حسنین نے سَر جھٹکا اور آہستہ سے قدم اٹھاتا اس كے سامنے آ بیٹھا
پھر آرام سے گویا ہوا
ابھی تو میں نے تمہیں کچھ نہیں کہا پِھر کیوں رَو رہی ہو اس نے حیران نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا
ماہ رخ نا محسوس انداز سے تھوڑا سا پیچھے ہو گئی
حسنین کی نظروں سے یہ حرکت چھپی نہیں اس كے ہونٹوں پر ایک عجیب سی مسکان دوڑ گئی
چلو اٹھو اور حالت ٹھیک کرو اپنی حسنین سمجھ گیا تھا وہ لڑکی آج کل کی لڑکیوں سے مختلف ہے
ورنہ وہ اس ٹائم احتجاج کر رہی ہوتی لیکن وہ جو سب سوچ کر کمرے میں آیا تھا اسے لگ رہا تھا وہ کمرے میں داخل ہوگا تو
ضرور وہ چیخے گی چِلّائے گی لیکن اسے ایسا نظر نہیں آیا جس سب کو وہ سوچ سوچ کر پریشان اور بے چین تھا
ماہ رخ نا جانے کس دنیا میں کھوئی ہوی تھی وہ پھر سے گویا ہوا
میں کہہ رہا ہوں اٹھ جائیں نہیں تو میں خود آپ کو اٹھا کر باتھ روم تک چھوڑ کے آٶں گا حسنین نے تھوڑے غصے میں کہا
یہ سنتے ہی جلدی سے اٹھ کھڑی ہوئی
حسنین حیران و پریشان کھڑا اسے دیکھ رہا تھا
اس نے اپنی تیس سالہ زندگی میں بہت سی خوبصورت لڑکیاں دیکھی تھیں لیکن ماہ رخ جیسی خوبصورتی پاکیزگی اور ایک عجیب سی کشش اسے کبھی کسی اور لڑکی کے چہرے پر نہیں کھائی دی تھی ایک نور تھا اسکے چہرے پر جو حسنین کو اپنی جانب مائل کر رہا تھا
بڑی بڑی شہد رنگ آنکھیں جو رونے کی وجہ سے سرخ ہو چکی تھیں
گال آنسو سے تَر تھے میک اپ کی نام پر صرف اسکی انکھوں میں کاجل تھا جو رونے کی وجہ سے اسکے چہرے پر پھیل چکا تھا
کچھ ٹائم تک حسنین اسے بے پلکیں چھپکائے بغیر دیکھتا رہا
وہ اسکی خوبصورتی میں کھو سا گیا تھا
ماہ رخ کو عجیب لگ رہا تھا حسنین یوں اسے گھورنا اس نے بیڈ سے دوپٹہ اٹھا کر گلے میں ڈالا اور جلدی سے باتھ روم میں بھاگ گئی
حسنین کو جب ہوش آیا تو وہ اسکے سامنے نہیں تھی
کیا ہو گیا ہے حسنین شاہ تمہیں صرف اپنا انتقام لینا ہے حسنین نے اپنی بے اختیاری پر خود کو جی بھر کے کوسا اور پھر سر جھٹک کر کمرے سے باہر نکلتا چلا گیا
ماہ رخ نے کمرے میں ڈرتے ڈرتے قدم رکھا تو وہ اسے کمرے میں کہیں دِکھائی نہیں دیا
ماہ رخ نے سُکھ کا سانس لیا اور نماز پڑھنے لگی
وہ نماز ختم پڑھنے کے بعد سجدے میں رو رو رہی تھی
جب انسان کو اپنوں کا سہارہ بھی نا ہو تو وہ جو ہمیں ستر ماٶں جتنا پیار دیتا ہے تو پھر وہی ہماری ہر مشکل آسان کرنے لگتا ہے وہ اپنے انسان کو اکیلا نہیں چھوڑتا
میرے اللہ میری بابا کو ہمت اور صبر دینا یا ان كے دِل میں میرے لیے نفرت ڈال دیں وہ گھٹ گھٹ کر رو رہی تھی
حسنین کسی کام سے اندر آرہا تھا جب اسے
ماہ رخ کی رونے کی آواز آئی
وہ اپنے قدم پیچھے کرنے لگا
وہ اس کے سامنے ابھی نہیں جانا چاہتا تھا اس لیے اسے اکیلا چھوڑ دیا
ماہ رخ کا دِل خون كے آنسو رُو رہا تھا
جب اسکا دکھ تھوڑا ہلکا ہوا تو وہ اٹھ کر سامنے پڑے صوفے پر بیٹھ گئی
اور کتنی ہی دیر خالی خالی نظروں سے کمرے کو دیکھنے لگی
پھر گھٹنوں كے گرد ہاتھ باندھ کر چہرہ چھپا لیا سونے کی کوشش کرنے لگی نیند اسکی آنکھوں سے کوسوں دور تھی
اسے رہ رہ کر حسن صاحب فرزانہ بیگم اور باقی سب گھر والوں کی یاد آرہی تھی
سب کتنے پریشان ہوں گے
وہ پھر سے سوچ کر رونے لگی
پھر اسے کب نیند نے اپنی حسار میں لیا اسے پتا ہی نہیں چلا

وہ تھکے ہوۓ قدمو سے چلتا ہوا
لاٶنج میں آیا
اور صوفے پر بیٹھا
اسکا سر درد سے پھٹا جا رہا تھا
وہ اپنے سر کو دبانے لگا
اور سگریٹ نِکال کر اس کے کش بھرنے لگا
اس کا دماغ بہت سی الجھنوں میں الجھا ہوا تھا
اب جب میں حسن جیلانی سے اپنا انتقام لے چکا ہوں تو پھر کیا چیز ہے جو مجھے تنگ کر رہی ہے
وہ اپنے ماتھے پر بل سجائے غصے سے بھرا ہوا تھا
اپنی شرٹ کے اوپر کے دو بٹن کھول کے بازو فولڈ کرنے لگا پھر سب ٹینشن سے خود کو آزاد کر کے سونے لگا
کچھ دیر میں اسے نیند آگئی وہ وہی صوفے پر سو گیا
صبح میں اسے نیند سے جاگا تو پہلا خیال ہی اسے ماہ رُخ کا آیا اور ساری باتیں یاد آنا شروع ہوگئیں
حسنین نے پوری رات لاٶنج میں گزاری تھی
گردن اور کمر میں اِتنا درد ہے اس سے اَچّھا تھا شادی ہی نہیں کرتا سوفے پر تو نا سونا پڑتا حسنین خود کو کوسنے لگا اور اٹھ کر کمرے کا رُخ کیا
وہ کمرے میں آیا ماہ رُخ صوفے پر بیٹھے بیٹھے سو رہی تھی
اس نے بھی رات سوفے پر سوتے گزاری ہے پاگل لڑکی وہ حیرانگی سے اسے صوفے پر سوتے ہوۓ دیکھنے لگا
کچھ دیر تک وہ اپنا انتقام غصہ سب بھولے ماہ رخ کے پاکیزہ سرخ و سفید چہرے میں کھو سا گیا
پھر خود پر کنٹرول کرتا سَر جھٹک کر ڈریسنگ روم میں چلا گیا ماہ رُخ ابھی بھی نیند میں گم تھی
حسنین آفس جانے كے لیے تیار ہونے لگا پرفیوم کی بوتل اس كے ہاتھ سے گر گئی
ماہ رُخ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی لیکن اپنے سامنے حسنین شاہ کو دیکھ کر اسکے ہوش اڑ گئے
کیا ہوا اتنا ڈرنے والی بات تو نہیں تھی حسنین نے آئینے میں سے ماہ رُخ کو دیکھتے ہوئے کہا
ماہ رُخ نے کوئی جواب نا دیا سَر جھکائے بیٹھی رہی
اسے کل سے رہ رہ کر رونا آرہا تھا ماہ رخ اسے اپنے گھر والوں کی یاد آنے لگی تو بہَت سے آنسو اسکی آنکھوں میں جمع ہونے لگے جنہیں ماہ رُخ نے بے دردی سے رگڑا
حسنین کی نظروں سے یہ سب چھپا ہوا نہ تھا لیکن وہ نظر اندازِ کیے اپنے کام میں مصروف رہا
حسنین کمرے سے باہر گیا تو ماہ رُخ ہاتھوں میں چہرہ چھپا کر رونے لگی
کیا ملا حسنین شاہ تمہیں کیوں تباہ کیا تُم نے مجھے میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی ماہ رُخ خود سے باتیں کرنے لگی
حسنین باہر آیا تو گھر كے ملازم بھی آ چکے تھے
حسنین نے اک ملازمہ کو اپنے پاس بلایا اور کچھ پیسے اسے تھمائے
ان پیسوں سے اچھے سے کپڑے لے کر آؤ حسنین کہہ کر چائے پینے لگا .
صاحب کس كے کپڑے لے کر آنے ہیں ملازمہ نے حیرانگی سے کہا
میری بیوی كے لے کر آنے ہیں حسنین نے نارمل سے لہجے میں کہتے ہوئے چائے كی سِپ لینے لگا
صاحب آپ نے شادی کر لی مبارک ہو آپکو میں آج شام بی جان کے پاس جاؤں گی وہ مجھے نیک دیں گی ملازمہ نے خوشی سے کہا
نہیں کوئی ضرورت نہیں ہے
بی جان كے پاس جانے کی
ابھی میں نے گھر میں کسی کو نہیں بتایا حسنین نے ملازمہ کو ڈپٹا
جی صاحب ٹھیک ہے ملازمہ کو حسنین كے غصے کا پتاتھا
وہ بیچاری چُپ کر كے چلی گئی
ماہ رُخ اٹھ کر فریش ہونے چلی گئی وہ کل والے کپڑوں میں تھی
لیکن اسے اپنے حال کی کوئی پرواہ نہیں تھی وہ تو یہ سوچ سوچ کر پاگل ہو رہی تھی کہ حسنین شاہ اسے کیوں اٹھا کر لایا ہے اور اس كے بابا نے ایسا کیا کِیا ہے جس کی اتنی بڑی سزا اسے ملی ہے
لیکن کوئی سِرا اس كے ہاتھ نہیں لگ رہا تھا
آخر تھک ہار کر وہ سَر پکڑ کر بیٹھ گئی
ملازمہ کمرے میں آئی تو ماہ رُخ کی خوبصورتی دیکھ کر اسکی آنکھیں خیرہ ہونی لگیں
بیگم صاحبہ کیا کھائیں گیں آپ ملازمہ آکر کمرا سمیٹنے لگی
نہیں مجھے بھوک نہیں ہے ماہ رُخ نے مختصر سا جواب دیا
بیگم صاحبہ صاحب نے کہا ہے آپکو كھانا كھانا ہوگا
لیکن اپنے صاحب سے کہو میں نہیں کھا رہی كھانا ماہ رُخ نے بے زاری سے کہا
کیوں نہیں كھانا حسنین کی غصلی آواز کمرے میں گونجی ملازمہ کمرے سے چلی گئی
میری مرضی ماہ رُخ نے نظریں اپنے ہاتھوں پر مرکوز کی
نکاح کے بعدکونسی مرضی کیسی مرضی تمہاری اب میں جو کہوں گا وہ تُم کرو گی اور آج سے اس گھر کا کام تُم کرو گی
اس لیے کچھ کھا پی لو ورنہ کام کیسے کر سکو گی حسنین نے بے تاثر چہرے سے کہا اور بیڈ سے کوٹ اٹھانے لگا
لیکن مجھے کوئی کام کرنا نہیں آتا ماہ رُخ نے اٹک اٹک کر کہا
نہیں آتا تو سیکھ جاؤ گی میں ملازمہ سے کہہ دوں گا وہ سِکھا دے گی تمہیں حسنین نےحتمی فیصلہ سنایا
ماہ رُخ چُپ ہو گئی اسے پتا تھا اب کچھ بولْنا فضول ہے
حسنین کمرے سے جانے لگا تو ماہ رُخ نے اسے مخاطب کیا
مجھے اکیلے ڈر لگتا ہے یہ کہتے ہوئے بہَت سے آنسو نکل کر اس کے گال پر بہنے لگے
میں رات تک واپس آجاؤں گا لیکن اگر نہیں آیا تو تمہارے پاس رات کوئی ملازمہ ضرور رہے گی حسنین ناجانے کیوں اب نرم ہونے لگا تھا شاید اسے احساس ہو رہا تھا كے اس نے غلط کیا ہے
حسنین کمرے سے باہر گیا تو ماہ رُخ نے آنکھیں موند لیں
کہیں میں نے کچھ غلط تو نہیں کیا اور یہ تو بالکل انکی طرح دکھتی ہے شاید خُون كے رشتے ایسے ہی ہوتے ہیں حسنین کی آنکھوں كے سامنے اک پیارا اور پاکیزہ چہرہ چھن سے آیا
لیکن میں اپنا بدلا لوں گا ہر حال میں حسنین خود کو سمجھانے لگا اور گاڑی میں بیٹھ گیا
. . . . . .
حسن صاحب میری بچی کل سے نہیں مل رہی آپ کیا کر رہے ہیں کہاں ہے آپکا اسٹیٹس کہاں ہے آپ کی پولیس فرزانہ بیگم نے چیختے ہوئے کہا
فرزانہ وہ میری بھی بیٹی ہے مجھے بھی آپ کی طرح دکھ ہے لیکن میں کیا کروں کسی کو کچھ پتا نہیں چل رہا كے ماہ رُخ کو کہاں لے جایا گیا ہے
اگر کسی کو میری پیسے سے مطلب ہوتا تو اب تک فون کر كے مجھے کہہ دیتے لیکن ابھی یہ سب ہو کیا رہا ہے سمجھ سے باہر ہے حسن صاحب نے سَر دباتے ہوئے کہا
آپ میرا کہا مان کیوں نہیں لیتے یہ ضرور کسی شاہ نے کیا ہے آپ وہاں جاکر پوچھ لیں فرزانہ نے اک بار پِھر سے کہا
اس بار حسن صاحب بھی چُپ ہو گئے اور پر سوچ انداز میں سر ہلا کر فرزانہ بیگم کو جواب دیا پھر اٹھ کر کمرے سے چلے گئے

حسنین آفس پہنچا تو جنید اس كے روم میں پہلے سے موجود تھا
کیسے ہو جنید۔۔
حسنین نے موبائل اور گاڑی کی چابی ٹیبل پر رکھتے ہوئے پوچھا
میں ٹھیک ہوں تُم کیسے ہو جنید حسنین كے فیصلے سے خوش نہیں تھا لیکن یہ بھی سچ تھا وہ حسنین سے دوستی نہیں توڑ سکتا تھا
میں بھی ٹھیک ہوں بس گردن میں درد ہے حسنین نے گردن پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا
کیوں کیا ہوا ڈاکٹر کو دکھایا جنید نے فکرمند لہجے میں کہا


نہیں یار ٹائم ہی نہیں ملا
ابھی بھی سیدھا آفس آیا ہوں اور آج بی جان کو بھی سب بتانا ہے حسنین نے پریشانی سے کہا
تمہیں کیا لگتا ہے بی جان کا ری ایکشن کیا ہوگا جنید اسے دیکھنے لگا
ناراض ہوں گی وہ لیکن میں اُنہیں منع لوں گا حسنین بی جان کو راضی کرنا اچھے سے جانتا تھا
اور بھابھی کو بھی اپنے ساتھ لے کر جاؤ گے جنید نے اگلا سوال کیا
نہیں وہ ابھی نہیں لے جاؤں گا کیوں کے حسن جیلانی کو پہلا شک ہی ہم پر ہوگا تو وہ بی جان كے پاس آئے گا اور اگر اس نے اپنی بیٹی کو دیکھ لیا تو میرا پلین خراب ہو جائے گا حسنین نے لیپ ٹاپ پر ٹائپنگ کرتے ہوئے کہا
حسنین جو ہوا سو ہوا تُم نے حسن جیلانی کی بیٹی بھی اغواہ کر لی اب ایک باپ کو یہ تو بتا دو كے اسکی بیٹی کہاں ہے کس حال میں ہے جنید کو سمجھ نہیں آرہا تھا وہ حسنین کو کیسے سمجھائے
نہیں ابھی کچھ دن حسن جیلانی کو تڑپنے دو پِھر بتا دوں گا
اسنے عجیب سے انداز میں مسکراتے ہوئے کہا
اللہ سمجھا دے تمہیں شاہ اور میں کیا کہہ سکتا ہوں جنید کہہ کر چلا گیا
. . . . . . . . . . .
فرزانہ میں کل شاہ ہاؤس جاؤں گا اگر یہ انکا کیا دھرا ہے تو اس بار میں کسی کو معاف نہیں کروں گا حسن جیلانی نے غصے میں کہا
مجھے پورا یقین ہے میری بیٹی ان لوگوں کے پاس ہے اور مجھے میری بچی کسی بھی حال میں واپس چاہیے فرزانہ بیگم نے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا اور اٹھ کر کمرے سے باہر چلی گئی
مانو بس کرو ہم اللہ پاک سے دعا کر رہے ہیں نہ ماہ رخ مل جائے گے ہمیں سائرہ کب سے مانو کو چُپ کرا رہی تھی لیکن وہ چُپ ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی
آخر میں سائرہ مانو کو آرام کرنے کا کہہ کمرے سی باہر نکل گئی
. . . . . . . .
بیگم صاحبہ صاحب جی نے کہا تھا آپ کو گھر کا کام سکھا دوں آپ جلدی سے تیار ہوکر نیچے آئیں اور یہ آپ کا سامان اور کپڑے صاحب نے منگوائےتھے ملازمہ نے سامان اور کپڑوں سے بھرے شاپنگ بیگز بیڈ پر رکھے اور سب کچھ سمجھا کر کمرے سے چلی گئی
ماہ رخ خالی خالی نظروں سے اپنے سامنے پڑے مہنگے اور بھاری کپڑوں کو دیکھنے لگی پِھر اٹھ کر مرے مرے قدم اٹھاتی فریش ہونے چلی گئی
ماہ رخ گَرے ڈریس میں اپنے لمبے بالوں کا ڈھیلا جوڑا بنا کر کمرے سے باہر آئی
گھر میں ملازموں کی فوج تھی لیکن حسنین شاہ نے اتنے وسیع گھر کا کام اسی کو سونپا تھا وہ سوچ سوچ کر پریشان ہو رہی تھی کے اگر اس سے گھر کا کام سہی سے سنبھالا نہیں گیا تو نا جانے حسنین اس کا کیا حال کرے گا
فِلحال وہ باقی ساری سوچیں اور پریشانیوں سے سر جھٹک کر چھوٹےچھوٹے قدم اُٹھاتی لاٶنج میں آئی تو بہت سے ملازمین اسے دیکھنے لگیں
پہلے مجھے کوکنگ کرنا سکھا دیں وہ نا جانے کیوں گھبرا رہی تھی
پھر اپنے سامنے کھڑے بہت سے ملازمین کو دیکھتے ہوۓ اس نے بات کا آغاز کیا
بیگم صاحبہ آئیے میں آپ کو کیچن میں لے کر چلتی ہوں
ان میں سے ایک عورت اسکے پاس تھی ماہ رخ نے اس عورت کو صبح اپنے کمرے میں دیکھا تھا
اور آپ ٹینشن نا لیں بیگم صاحبہ میں آپ کو سارے کام کرنا سکھا دوں گی
ماہ رخ اسکی ہمراہی میں کچن تک آئی
آپ کا نام کیا ہے ماہ رخ نے اسے مخاطب کیا
جی میرا نام نور ہے میں پہلے بی جان کے ساتھ انکے کام کرتی تھی
پھر حسنین صاحب نے یہ والا گھر لے لیا تب سے یہیں رہتی ہوں بی جان نے مجھے صاحب کی دیکھ بھال کے لیے یہاں بھیجا ہے
وہ عورت ساتھ ساتھ کام بھی کرتی جارہی تھی سبزی کاٹنے کے ساتھ ساتھ وہ اس کے سوالوں کا بھی جواب دے رہی تھی
اچھا ٹھیک ہے شکریہ اور آپ مجھے بیگم صاحبہ نا کہیں اگر آپ مجھے ماہ رخ کہہ کر مخاطب کریں گی تو مجھے زیادہ اچھا لگے گا وہ اپنی میٹھی سی آواز میں کہہ کر نور کے ہاتھ سے سبزی لینے لگی
لیکن میں کیسے وہ نور سامنے کھڑی اس لڑکی کو غور سے دیکھنے لگی جو اتنے بڑے گھر کی بہو ہونے کے بعد بھی کتنے شیریں لہجے میں بات کر رہی تھی
کیسے کیا مطلب اور میں کچھ نہیں جانتی آج سے آپ مجھے ماہ رخ ہی کہیں اب مجھے یہ سکھا دیں کے روٹی کیسے بنتی ہے ماہ رخ نےجیلانی حویلی میں کبھی کوئی کام نہیں کیا تھا
لیکن نصیب اور قسمت میں کیا لکھا ہے یہ بھلا کِسے پتا ہوتا ہے
اچھا میں آپ کو سکھاتی ہوں آپ بس مجھے نوٹ کرتی جائیں نور اسے سائیڈ پر کر کے روٹیاں بنانے لگی وہ اس کی ایک ایک بات کو اچھے سے سمجھ رہی تھی
اچھا اب آپ ہٹ جائیں میں کوشش کرتی ہوں وہ کہہ کر اپنے بازو فولڈ کر کے روٹیاں بنانے لگی
اس نے پانچھ سے چھ بار روٹی کو بڑھایا لیکن وہ ایک عجیب و غریب قسم کا نقشہ بن رہا تھا آخر میں ماہ رخ نے جھنجلا کر ہاتھ اوپر کیا تو اسکا ہاتھ گرم توے سے لگا اسکا ہاتھ جل گیا تھا
امی۔۔۔۔۔۔ ماہ رخ كے ہونٹوں سے یہی لفظ با ساختا نکلا
امی کہاں ہیں آپ ماہ رخ ہاتھ کو پکڑ کر نیچے بیٹھ گئی بہت سے آنسوں اسکی آنکھوں سے باڑ توڑ کے نکل آئے اسے اتنی جلن نہیں ہو رہی تھی جتنا اسے اندر سے درد کھا رہا تھا اسے تو بہانہ چاہیے تھا رونے کا لیکن پِھر
حسنین كے الفاظ اس كے کانو میں گونجے وہ پِھر سے اٹھ کھڑی ہوئی اور اپنی آنکھیں رگڑ کر نور کی ساتھ ہلکی سی مسکرائی وہ نہیں چاہتی تھی اسکی زندگی کے ساتھ جو ہوا ہے وہ کسی کے سامنے آئے
اور اگر آج کل کی لڑکیاں بھی خود کو مظلوم ظاہر کرنے کے بجائے خود اپنی زندگی میں آنےوالی ساری مشکلوں کو حل کریں تو کبھی کسی لڑکی کا گھر خراب نا ہو
وہ بھی اسی سوچ کی مالک تھی کے وہ کسی کو اپنے اوپر ہنںسنے کا موقع نہیں دینا چاہتی تھی
اور اٹھ کر اپنے جلے ہوۓ ہاتھ سے روٹیاں بنانے لگی
ماہ رخ بی بی آپ کا ہاتھ جل گیا ہے آپ رہنے دیں میں بنا لوں گے آپ بعد میں سیکھ لینا ملازمہ نے اس کے جلے ہاتھ کو دیکھتے ہوئے کہا
نہیں مجھے درد نہیں ہوتا اب تُم صرف مجھے سمجھاتی جاؤ ماہ رخ کہہ کر چُپ ہو گئی
ماں باپ كے لیے بیٹیاں سب کچھ قربان کر سکتی ہیں، یہاں تک كے اپنی زندگی بھی تباہ کر دیتی ہیں،اور ہمیں نہیں پتا کل کو ہماری زندگی میں کیا ہونے والا ہے کونسی آزمائش ہمارے لیے منتظر ہے اس لیے خود کو آنے والے وقت کے لیے ماہ رخ جیسی لڑکیوں کو تیار رہنا چاہیے .
عورت ہر چیز سے لڑ سکتی ہےبس اس میں ہمت ہونی چاہیے
......
اچھا جنید اب میں چلتا ہوں بی جان کو سب بتانا ہے
جنید اس کے آفس میں آیا تو وہ کہیں جانے کے لیے اپنے کینبن سے نکل رہا تھا
اچھا ہے میں تمہارے اس ایک فیصلے میں تمہارے ساتھ جنید نا چاہتے ہوۓ بھی اپنی ناراضگی کا اظہار کر گیا
میں سمجھ رہا ہوں تمہارے تعنے اور باتیں لیکن ابھی میں تمہیں کچھ سمجھانے سے قاصر ہوں
اب چلتا ہوں اللہ حافظ اسکے شانے پر ہاتھ رکھ کی آگے بڑھ گیا
جنید کی نظروں نے تب تک اس کاپیچھا کیا جب تک وہ اسکی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہوا

حسنین آفس سے سیدھا شاہ ہاؤس پہنچا
وہ گھر میں داخل ہوا تو بی جان صوفے پر بیٹھی تسبیح پڑھ رہیں تھیں
حسنین کو اتنے دن بعد دیکھ کر انکا چہرہ کِھل اٹھا تھا انہیں پتا تھا کے حسنیں کام کی وجہ سے کبھی کبھی گھر نہیں آتا تھا
آگئے کہاں تھے اور گھر پر فون بھی نہیں کیا کل سے کام میں اتنے گم ہو کے پیچھے سے گھر والوں اور بی جان کا خیال ہی نہیں رہتا آپ کو
کل سے میں تمہارا انتظار کر رہی ہوں تھے کہاں تم
بی جان ابھی تو آگیا ہوں نا آپ کے سارے سوالوں کے جواب دوں گا وہ بی جان کا ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھوں میں لے کر دھیمے لہجے میں کہنے لگا
اب پھر تمہارا کوئی کام کا بہانا ہوگا ہمیشہ ایسا ہی کرتے ہو تم اس بار تو میں بھی تمہاری باتوں میں نہیں آٶں گی بی جان نے بھر پور ناراضگی کا اظہار کیا
لیکن آپ مجھ سے زیادہ دن ناراض نہیں رہ سکتیں مجھے پتا ہے
حسنین آپ کب آئے حنا نے اسے بی جان کے ساتھ دیکھا تو اسکے پاس آئی
ابھی ابھی آیا ہوں اور بڑے ابو گھر پر ہیں یا افس وہ احمد صاحب کا پوچھنے لگا
ابو گھر پر ہیں آج نہیں گئے وہ آفس۔
حنا نے اسے جواب دیا



0 Comments: