Headlines
Loading...
روشن صبح قسط نمبر9

روشن صبح قسط نمبر9





#قسط_نمبر_09

بھابھی اٹھ جائیں. 7 بج گئے ہیں. حیات سحرش کے روم میں کھانا لے کر آئی. ٹرے سائڈ ٹیبل پر رکھی.
روحان کہاں ہے؟ وہ اٹھتے ہوئے بولی.
وہ سورہا ہے دادو کے روم میں. آپ اسکی فکر مت کریں, فریش ہوکر کھانا کھالیں. اور میں نے میڈیسن بھی نکال دی ہے کھا لیجیئے گا. اسنے کھڑکی سے پردے ہٹائے. اور بھائی آجائیں گے, میں انہیں بھی کھانا دے دوں گی. آپ فکر مت کریں, اپنی طبعیت ٹھیک کریں بس. وہ یہ بول کر باہر نکل آئی.
_¤_¤_¤
بھیا کیا ہوا اسے؟ صارم روحان کو گود میں لےکر لاؤنج میں ٹہلا رہا تھا. وہ بہت رورہا تھا.
پتہ نہیں یار! روئے جارہا ہے چپ ہی نہیں ہورہا. سحرش سورہی ہے وہ ڈسڑب ہورہی تھی اسلیے میں اسے باہر لے آیا.
اچھا! آپ مجھے دے دیں. اور آپ جاکر سوجائیں. میں اسے سلادوں گی. آفس جانا ہوگا نہ آپکو صبح تو آپ جاکر سوجائیں. وہ اسے گور میں لیتے ہوئے بولی.
تھینکس! وہ یہ کہہ کر چلا گیا.
اور حیات اسے لےکر روم میں آگئی. زاویار بیڈ پر لیٹا ٹی.وی دیکھ رہا تھا.
تم اسے کیوں لے آئیں. وہ اسکی طرف دیکھ کر بولا.
بھیا اسکو سنبھال رہے تھے. انہیں صبح جلدی اٹھنا ہوتا ہے. اس لیے میں اسے لے آئی.
اچھا! حیات نے روحان کو صوفے پر لٹایا اور خود قالین پر بیٹھ گئی.
تم اسے بیڈ پر لٹال دو اور خود بھی آجاو. حیات نے حیرت سے نظریں اٹھاکر اسکی طرف دیکھا.
ایسے مت دیکھو. اسنے جھینپ کر نظریں جھکالیں.
آجاؤ. وہ یہ بول کر ٹی.وی دیکھنے لگا.
وہ اسے لےکر بیڈ پر آگئی.
_¤_¤_¤
حیات آپکی آنکھ اتنی سرخ کیوں ہورہی ہے۔نادر شاہ نے صبح ناشتے پر اسسے پوچھا
روحان رو رہا تھا ساری رات اس لئے جاگ رہی تھی، پھر فجر کی آزان ہوگی تھی، اسی لیے میں سوئ ہی نہیں۔وہ دھیرے سے بولی
اچھا! وہ غصے سے شاہ بانو کو گھورنے لگے۔وہ نظریں چراگیں ناشتہ سے فارغ ہوکر وہ اپنے کمرے میں آئ
زاویار آفس جانے کےلیے تیار ہورہا تھا حیات کی عادت تھی وہ زاویار کے آٹھنے سے پہلےاسکی ضرورت کی ہر چیز سامنے نکال کر رکھ دیتی تاکہ زاویار کو مشکل نہ ہو
وہ بیڈ پر روحان کے پاس آکر بیٹھ گئی. اور دونوں ہاتھوں سے سر تھام لیا. زاویار اسے آئینے میں سے دیکھ رہا تھا لیکن بولا کچھ نہیں.
بی بی جی کھانا کیا بنانا ہے؟ نجمہ دروازے پر دستک دے کر بولی.
اسنے سر اٹھایا. میں نے آپکو منع کیا ہے نہ کہ مجھے بی بی جی مت کہا کریں. میں آج بھی اپکے لیے حیات ہی ہوں. اسنے مسکراکر کہا.
اچھا! وہ بھی مسکرائی. کھانا.
آنٹی سے پوچھ لیں. اور مجھے ایک سر درد کی میڈیسن لادیں.
پر اپکی الماری میں میڈیسن باکس ہے نہ.
آپ مجھے نیچے سے لادیں.
جی. وہ بول کر چلی گئی.
زاویار نے مجھے اپنی چیزیں یوز کرنے سے منع کیا ہے, یہ بات میں کس کس کو بتاؤں. اسنے دل میں کہا. اور ایک نظر زاویار پر ڈالی, وہ شیشے سے اسے ہی دیکھ رہا تھا, اسنے فوراً نظریں جھکالیں.
_¤_¤_¤
حیات ایک بات کہوں؟ جہاں آراء اس سے بولیں, و اس وقت انکے کمرے میں موجود تھی اور انکے پیر دبا رہی تھی.
جی جی دادی! بولیں نہ. وہ پیر دباتے مسکراکر بولی.
مجھے پتہ ہے کہ تمہاری شادی کیسے ہوئی ہے زاویار سے.
حیات نے حیرت سے انکی چرف دیکھا اور نظریں جھکالیں.
پر جو بھی ہوا سو ہوا. لیکن اب وہ تمہارا شوہر ہے, اسکا خیال رکھنا تمہاری ذمہ داری ہے. وہ اٹھتے ہوۓ بولیں.
مجھ سے کوئی غلطی ہوگئی ہے.
نہیں بیٹا! وہ پیار سے بولیں, میں تو جب سے آئی ہوں تمہیں سب کی خدمت کرتے دیکھا ہے, تم تو سب کا بہت خیال رکھتی ہو.
وہ نظریں جھکا گئی. انہوں نے اسکے سر پر ہاتھ پھیرا.
جاؤ شاباش دیکھ کر آؤ کہ زاویار آیا یا نہیں.
جی میں دیکھ کر آتی ہوں. وہ بیڈ سے اترتے ہوئے بولی.
ہاں جاؤ. وہ مسکرائیں.
وہ روم سے نکل کر لاؤنج میں آئی. نجمہ زاویار کو پانی کا گلاس دے رہی تھی.
وہ آفس سے آکر صوفے پر بیٹھا اپنی ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کررہا تھا.
کہاں تھیں تم؟ میں کب سے آیا ہوا ہوں کوئی ہوش ہے تمہیں یا نہیں.
وہ پانی پی کر حیات کو دیکھ کر غصے میں بولا.
سوری میں دادی کے پیر دبا رہی تھی.
دادی کی طبیعت ٹھیک ہے؟ اسنے پوچھا.
ٹھیک ہے, میں کھانا لگاتی ہوں آپ جب تک فریش ہوجائیں. وہ یہ کہہ کر کچن میں چلی گئی.
اور وہ اسے جاتا دیکھتا رہا. اسے احساس ہوا تھا حیات کو ڈانٹنے کا. وہ تو میری ہی دادی کے پیر دبا رہی تھی. اور میں نے خامخواں ڈانٹ دیا. حد ہی ہوگئی. اسنے سر جھکا کر دونوں ہاتھوں میں تھاما اور دل میں خود سے بولا.
_¤_¤_¤
حیات میں ڈاکٹر کے پاس جارہی ہوں. وہاں سے امی کی طرف جاؤنگی تم روحان کو سنبھال لوگی نہ. سحرش ڈاکٹر کے پاس جارہی تھی صارم کے ساتھ.
جی بھابھی یہ لوئی پوچھنے والی بات ہے. میں سنبھال لوں گی اسے. آپ آرام سے جائیں. اسنے مسکراکر کہا.
تھینکس! وہ یہ کہہ کر آگے بڑھ گئی.
بھابھی تھینکس تو مجھے کہنا چاہیے آپنے مجھے اس لائق سمجھا.
سحرش شرمندہ سی ہوگئی.
اب جائیں بھابھی ورنہ ٹائیم نکل جائے گا. وہ مسکراکر بولی اور وہ لوگ باہر نکل گئے.
_¤_¤_¤
حیات! جہاں آراء اسکے روم میں آئیں.
جی دادی! آپ اوپر کیوں آئیں مجھے بلالیتیں. وہ روحان کو فیڈر پلا رہی تھی.
بیٹھی رہو! میں اکیلے بور ہورہی تھی اسلیے سوچا آج تک تمہارا کمرہ نکیں دیکھا وہ ہی دیکھ آؤں. وک بیڈ پر بیٹھ گئیں.
جی. وہ مسکراگئی.
یہ چادر یہاں کیوں رکھی ہے. انہوں نے صوفے پر رکھی چادر کو دیکھتے ہوئے پوچھا.
وہ دادی یہ.... وہ جھجکی.
تم یہاں سوتی ہو؟ انہوں نے فوراً پوچھا.
اسنے اثبات میں سر ہلا کر جواب دیا.
اور یہ کپڑے کس کے ہیں؟ انہوں نے ایک کونے میں رکھے ہوئے کپڑوں کی طرف اشارہ کرکے پوچھا.
میرے ہیں دادی. اسنے سر جھکا کر کہا.
یہ الماری میں کیوں نہیں رکھے تم نے.
حیات خاموش بیٹھی رہی. جہاں آراء اسکی خاموشی کا مطلب سمجھ گئیں تھیں کہ اسے زاویار نے ہی منع کیا ہوگا.
_¤_¤_¤
آنٹی! وہ کچن سے نکل کر شاہ بانو کے پاس آئی.
بولو! انہوں نے رک کر کہا.
آنٹی میں ایک کال کرلوں ثریا آنٹی کو. جب سے یہاں آئی ہوں ایک بار بھی انسے بات نہیں کی ہے. اسنے جھجکتے ہوۓ کہا.
کوئی ضرورت نہیں ہے. لینڈ لائن کا بل آتا ہے وہ کون بھریں گے عثمان صاحب. وہ طنزیہ بولیں. اور اگر زیادہ ہی انکی یاد آرہی ہے تو واپس طلی جاؤ. نہ ہمیں تمہاری ضرورت ہے نہ زاویار کو. یہ کہہ کر وہ اپنے روم میں چلی گئیں.
وہ کچھ نہ بولی اور انہیں جاتا دیکھتی رہی.
آپ! وہ مڑ کر زاویار کو دیکھتے ہوئے بولی.
وہ اسکی اور شاہ بانو کی ساری باتیں سن چکا تھا.
آپ فریش ہوجائیں میں کھانا لگاتی ہوں. اسنے اپنے آنسوں چھپائے.
تم میرے سیل سے کال کرلو. اسنے اپنا موبائیل جیب سے نکال کر اسے دینا چاہا.
نہیں نجھے نہیں کرنی. تھینکس. وہ یہ بول کر کچن میں چلی گئی.
_¤_¤_¤
دوسرے دن نجمہ نے حیات کو آکر بتایا کہ اسکے گھر سے کال آئی ہے. وہ کھانا بنا رہی تھی.
ثریا آنٹی کی کال ہے. وہ خوشی سے بولی.
ہاں, تم جاؤ میں کھانا دیکھتی ہوں.
وہ خوشی سے فون کی طرف بھاگی.
آنٹی کیسی ہیں آپ؟ اسنے ریسیور اٹھا کر سلام کرنے کے بعد پوچھا.
میں ٹھیک تم سناؤ کیسی ہو. زاویار اور باقی سب کیسے ہیں؟ دوسری طرف سے پوچھا گیا.
میں بھی ٹھیک ہوں اور باقی سب بھی.
زاویار ٹھیک تو رہتا ہے نہ تمہارے ساتھ. وہ فکر سے بولیں.
جی آنٹی میرے ساتھ سب ٹھیک رہتے ہیں. اور انکل کیسے ہیں؟
وہ بھی ٹھیک ہیں.
اسی وقت شاہ بانو اپنے کمرے سے نکلیں. انکی نظر حیات پر پڑی وہ غصے سے اسے گھورنے لگیں.
حیات نے انہیں دیکھا. وہ غصے میں تھیں. آنٹی میں تھوڑی دیر میں بات کرتی ہوں. اپنا اور انکل کا خیال رکھیئے گا.
ہاں چلو تم بھی خیال رکھنا.
جی. اسنے یہ کہہ لر ریسیور رکھا.
تھوڑی دیر اور بات کر لیتیں اسکا بل تو عثمان نے ہی بھرنا ہے. وہ طنزیہ بولیں.
ثریا آنٹی نے کی کال کی تھی میں نے نہیں.
جاؤ کچن میں. وہ غصے میں بولیں.
اور وہ کچن کی جانب بڑھ گئی.
_¤_¤_¤
کیا ہوا آنٹی آپکو؟ کیا سر میں درد ہورہا ہے. شام کا وقت تھا. شاہ بانو لان میں اپنا سر پکڑ بیٹھی تھیں.
آپ کے لیے چاۓ بنادوں؟ وہ پھر بولی.
ہاں چائے بنادو اور یک سر درد کی میڈیسن بھی لے آؤ. جہاں آراء بھی لان میں آگئیں. اور شاہ بانو کے برابر میں پڑی کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولیں.
آپ کے لیے لاؤں؟ اسنے انکیں سہارا دیتے ہوئے کہا.
ہاں بیٹا لے آؤ.
وہ اندر کچن کی طرف بڑھ گئی. شاہ بانو بلکل خاموش بیٹھی رہیں تبھی جہاں آراء نے انکی جانب دیکھتے ہوئے بات چیھڑی.
سحرش کی طرح حیات بھی تمہاری بہو ہے شاہ بانو.
وہ میری بہو نہیں ہے. انہوں نے غصے سے جواب دیا.
ایسا نہیں ہوتا شاہ بانو. وہ انکے غصے کے پیش نظر نرمی سے سمجھانے لگیں.
نہیں کبھی نہیں. انہوں نے سر اٹھاکر کہا. میں نے زاویار کی بیوی کے لیے کیا کیا نہیں سوچا ہوا تھا. ایک فیشن ایبل لڑکی امیر اور ماڈرن گھرانے کی. لیکن اسکے نصیب میں یہ لکھی تھی.
جہاں آراء انکی طرف دیکھتی رہیں.
آنٹی, چائے اور میڈیسن. وہ میز پر ٹرے رکھ کر, انکی طرف چائے کا کپ بڑھاتے ہوئے بولی.
انہوں نے اسکے طرف دیکھے بنا چائے اور میڈیسن لےلی.
انکو چائے دے کر وہ وہاں سے چلی گئی.
لیکن جہاں آراء جانتیں تھیں کہ اسنے ساری باتیں سن لیں ہیں.
_¤_¤_¤

🌸🌸🌸🌸🌸
37188170_2019752461428483_5113002443826790400_o.jpg?_nc_cat=102&_nc_eui2=AeFDlLPvr1VJI-Apl-brbKGwJ5TYU1sYwkih__6XDZYxQ880ryw5fSMAC4bvqHUCpo0XbtYTOUCNYAVAJeENRL86BLuD_rWPnJt4OHJG2F7XqA&_nc_oc=AQnShyWTYCFvHOK2ao2DjwgxCCNsfur_AKy2B7rx-yEjpdSMF39nfpnOGeXYf43gk7k&_nc_ht=scontent.fkhi5-1

0 Comments: