Headlines
Loading...
روشن صبح قسط نمبر8

روشن صبح قسط نمبر8





#قسط_نمبر_08

سحرش بیٹا کیا ہوا تمہاری طبعیت کو؟ نادر شاہ اور سب گھر والے اسکے پاس موجود تھے.
پتا نہیں پاپا زرا پکر آگۓ تھے. وہ سر پر ہاتھ پھیرتے ہوۓ بولی.
ڈاکٹر کے پاس چلو زیادہ طبعیت خراب نہ ہوجاۓ کہیں. صارم نے اٹھتے ہوۓ کہا.
ہاں سحرش چلی جاؤ ڈاکٹر کے پاس. جہاں آراء نے بھی کہا.
نہیں میری ہمت نہیں ہے میں بس آرام کرونگی. وہ بیزاری سے بولی.
یہ سب تمکاری ڈائیٹنگ نے کیا ہے. شاہ بانو نے اسے ڈانٹا.
پتہ نہیں بچیوں کو کیا شوق ہے ڈائیٹنگ کا.اچھی بھلی ہو ڈائیٹنگ کرکے سارے چہرے کی رونق اڑالی. جہاں آراء نے کہا.
پتہ نہیں اسکو کہاں سے لگتا ہے کہ یہ موٹی ہورہی ہے. صارم غصے میں بولا.
اچھا بس کر جائیں آپ لوگ کوئی میری بہوؤں کو کچھ نہیں کہے گا. نادر شاہ مسکراۓ.
بھابھی آہ یہ میڈیسن اور دودھ لےلیں.حیات اندر آئی اسکے ہاتھ میں ٹرے تھی. آپکے چکر صحیح ہوجائیں گے. وہ پاس آکر بولی.
تمہیں میرا خیال رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے. میں اپنا خیال خود رکھ سکتی ہوں. سحرش نے غصے سے اسے دیکھا اور وہ نظریں جھکا گئی. یہ اچھائی کا ڈرامہ کرکے تم اس گھر کی مالکن نہیں بن جاؤگی.
بھابھی میں نے کبھی ایسا نہیں سوچا.
چپ کرو.... اور مجھے کیا پتہ تم نے اس دودھ میں کچھ ملایا ہے یا نہیں. تم یہ خراب دودھ پلاکر مجھے مارنا چاہتی ہو.
بھابھی.. وہ بے بسی سے بولی.
سحرش یہ کیا بول رہی ہو آپ.. نادر شاہ نرمی سے بولے. انہیں غصہ تو آرہا تھا لیکن وہ سحرش کو بھی کچھ نہیں بولنا چاہتے تھے.
سحرش صحیح کہہ رہی ہے. اسکا کیا بھروسہ. شاہ بانو نے کہا.
شاہ بانو تم تو کچھ عقل کے ناخن لو.. جہاں آراء نے پہلی بار اپنی بہو کے سامنے میں زبان کھولی تھی.
امی آپکو کچھ نہیں پتا. وہ فوراً بولیں.آپ ہیاں نہیں تھیں نہ, اپکو نہیں پتہ یہاں کیا کیا ہوا ہے.
اگر یہاں ہوتی تو یہ سب کبھی نہیں ہونے دیتی. اور سحرش چلو یہ دودھ پیو. حیات دو اسے. اسنے چپ چاپ ٹرے اسکے آگے کردی.
زاویار نہیں آیا ابھی تک. جہاں آراء نے حیات سے پوچھا.
نہیں.. وہ دھیرے سے بولی.
شوہر ہے تمہارا وہ...تمہیں خیال رکھنا چاہیے اسکا. جاؤ شاباش کال کرو اسے.
میں. اسنے حیرت سے کہا.
بیوی تم ہو تو کال نھی تم ہی کروگی. جاؤ شاباش.
جی. وہ یہ کہہ کر باہر نکل گئی.
اسنے زاویار ہو لینڈ لائین سے کال کی. وہ جانتی تھی کہ وہ اسکی آواز سن کر ہی کال ڈراپ کردے گا. دوسری تیسری بیل پر اسنے کال پک کی.
ہیلو! دوسری طرف سے آواز ابھری.
کب آئیں گے آپ؟ اسنے ڈرتے ہوۓ پوچھا.
کون؟ زاویار نے اسکے آواز کال پر کبھی نہیں سنی تھی اسلیے پوچھا.
میں حیات. دوسری طرف سے خاموشی ہوگئی. دادی اپکا ویٹ کر رہی ہیں اسلیے انہوں نے کال کروائی.
آتا ہوں تھوڑی دیر میں.
جی. وہ کال ڈراپ کر ہی رہی تھی, اس سے پہلے زاویار نے کردی.
کس کی کال تھی؟ آفتاب نے پوچھا. وہ اس وقت کلب میں بیٹھا تھا.
گھر سے تھی. وہ سگریٹ کا کش لیتے ہوۓ بولا.
گھر سے تو تھی لیکن ابھی فون پر کون تھا.
حیات....
بہت فکر ہے اسے تیری. وہ مسکرایا.
پتہ نہیں یار. اسنے کرسی سے ٹیک لگائی. میں اسسے دور رہنا چاہتا ہوں, اسے ایک منٹ بھی اپنے سامنے برداشت نکیں کرسکتا. لیکن میں پھر بھی ایسا نہیں کر پاتا.
کہیں تجھے اس سے پیار تو نہیں ہوگیا.
وہ جھٹکے سے آگے ہوا, واقعی مجھے اس سے پیار ہوگیا ہے. جس سے اتنی نفرت کرتا ہوں اس سے پیار کیسے ہوسکتا ہے. وہ دل میں بولا
_¤_¤_¤
سب لوگ کہاں ہیں؟ وہ ابھی ابھی کلب سے آیا تھا. حیات اوپر جارہی تھی فوراً رکی.
بھابھی کی طبعیت خراب تھی صبح سے, وہ اور بھائی سورہے ہیں, آنٹی انکل بھی ابھی دادی کے روم سے نکل کر اپنے روم میں گۓ ہیں.
زاویار کی نظریں اسی پر جم گئیں. کتنی سادگی تھی اسمیں, کوئی بناو سنگھار نہیں, پھر بھی وہ پری لگتی تھی.
کھانا لگادوں؟ وہ نظریں نیچی رکھ کر بولی.
ہاں دادو کے روم میں جارہا ہوں وہیں لےآنا.
جی. وہ کچن کی طرف بڑھ گئی.
کیسی طبعیت ہے آپکی دادو. وہ انکے پاس ہی بیڈ پر بیٹھ گیا.
میں ٹھیک تم سناؤ. وہ اٹھتے ہوۓ بولیں.
اتنی رات میں گھر کیوں آتے ہو؟ اب شادی ہوگئی ہے تمہاری. بیوی ہے تمہاری اسکا خیال رکھنا تمہاری ذمہ داری ہے.
اچھا! وہ انکی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا. بھابھی کو کیا ہوا؟
چکر آگئے تھے اب ٹھیک ہے. وہ اسکے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگیں.
ح
کھانا! حیات نے زرا سا دروازہ کھول کر کہا.
اندر آجاؤ, تمہارا بھی گھر ہے یہ. انہوں نے نرمی سے کہا. زاویار آٹھ بیٹھا. وہ سر ہلا گئی اور اندر آکر کھانے کی ٹرے میز پر رکھی.
کھائیں دادو. وہ روٹی توڑتے ہوۓ بولا.
نہیں میں نے تو کھالیا. تم کھالو حیات تم نے بھی تو نہیں کھایا. انہوں نے مسکراکر کہا.
میں نے کھالیا. وہ نظریں جھکا کر باہر نکل گئی.
_¤_¤_¤
بھئی مام یہ تو کھا ہی نہیں رہا. سحرش اپنے دسں ماہ کے بیٹے کو بیڈ پر بیٹھا کر بےزاری سے بولی. اسنے مجھے بہت تنگ کیا ہوا ہے. میری اپنی طبعیت ٹھیک نہیں ہے یہ اور پریشان کررہا ہے. وہ اس وقت بہت رو رہا تھا.
یہ تو واقعی بہت چپ ہی نہیں ہورہا ہے. شاہ بانو اسکے پاس بیٹھتے ہوۓ بولیں.
بھابھی یہ شاید بھوکا ہے. میں اسکی فیڈر بنادیتی ہوں. حیات روحان کے رونے کی آواز سن کر اندر چلی آئی.
بہت شکریہ تمہارا. وہ تلخ ہوئی.
آپ آرام کریں میں سنبھال لیتی ہوں اسے. وہ پھر بولی.
منع کردیا نہ جاؤ یہاں سے.
سحرش بری بات ہے بیٹا. ایسے نہیں کرتے. جہاں آراء بھی اندر آئیں. تم آرام کرو اسے میں اور حیات سنبھال لیں گے. جاؤ حیات فیڈر بناؤ اسکی اور روحان کو باہر لے آؤ تاکہ یہ آرام کرلے.
جی. وہ فیڈر بنانے لگی.
تم آرام کرو. اور غصہ کم کرو ورنہ طبعیت خراب ہوجائے گی. وہ یہ بول کر لائٹ آف کرکے باہر نکل آئیں اور ساتھ میں شاہ بانو بھی.
_¤_¤_¤

🌸🌸🌸🌸🌸
37188170_2019752461428483_5113002443826790400_o.jpg?_nc_cat=102&_nc_eui2=AeFDlLPvr1VJI-Apl-brbKGwJ5TYU1sYwkih__6XDZYxQ880ryw5fSMAC4bvqHUCpo0XbtYTOUCNYAVAJeENRL86BLuD_rWPnJt4OHJG2F7XqA&_nc_oc=AQnShyWTYCFvHOK2ao2DjwgxCCNsfur_AKy2B7rx-yEjpdSMF39nfpnOGeXYf43gk7k&_nc_ht=scontent.fkhi5-1

0 Comments: