Headlines
Loading...
روشن صبح قسط نمبر5

روشن صبح قسط نمبر5





#قسط_نمبر_05

دوسرے دن دوپہیر میں زاویار گھر آیا, اپنے کمرے میں داخل ہوا. حیات اسکے کمرے کی بیڈ شیٹ بچھا رہی تھی. نجمہ کی طبعیت خراب تھی اس لیے حیات اسکا ہاتھ بٹا رہی تھی. وہ دروازہ بند کر کے وہیں کھڑا اسے دیکھتا رہا. وہ بیڈ شیٹ بچھا کر مڑی تو اسے ایسے کھڑے دیکھ کر جھینپ گئ, اس نے سر پر ڈوپٹا اوڑھ رکھا تھا.
آپ...وہ جھنیپ کر بولی.
یہ میرا روم ہے,میں یہاں نہیں آؤںگا تو کون آئیگا.وہ اسکے پاس بڑھتے بولا.وہ اسے پاس آتا دیکھ کر فوراً دروازے کی طرف بڑھی.
سنو... اسنے حیات کو مخاطب کیا.
جی... وہ رکی.
میرے فرینڈز آرہے ہیں... تین کپ بلیک کافی لے آو.
جی... وہ فوراً یہ کہہ کر باہر نکلی.
وہ کچن میں آکر کافی بنانے لگی. اتنی دیر میں زاویار کے دوست علی اور آفتاب بھی اگئے.تھوڑی دیر بعد وہ ہاتھوں میں کافی کی ٹرے لے کر اوپر اسکے کمرے کے پاس پہنچی اور دستک دی.
آجاو... اندر سے زاویار کی آواز آئ..
حیات نے دروازہ کھلا,اندر اسکے دو دوست بیٹھے ہوئے تھے.دونوں کی نظریں اس پر تھیں,دونوں عجیب نظروں سے اسے دیکھ ریے تھے. ان تینوں کے ہاتھ میں سگریٹز تھے اور تاش کے پتے بیڈ ہر رکھے ہوئے تھے.
کافی...وہ وہیں کھڑے ہوکر بولی.
یہاں لا کر رکھو. اسنے سنجیدگی سے کہا. اتنی بھی تمیز نہیں سکھائ تمہارے parents نے تمہیں. اسنے نظریں جھکالیں اور ٹرے لا کر بیڈ پر رکھ دی.وہ جانے کے لیے مڑی تبھی ان میں سے ایک نے اسکا ہاتھ پکڑا.
یہ کون ہے؟ آفتاب نے اسکا ہاتھ پکڑ کے پوچھا.
وہ ڈر گئ اور اپنا ہاتھ چھڑوانے لگی.
یہ ہماری نوکرانی ہے,آئ مین کک.
اسنے زبردستی اپنا ہاتھ چھڑوایا اور باہر نکل گئ.
کیا چیز ہے یار یہ.. علی حیرت سے بولا.کلب میں بھی ایسی خوبصورتی نہیں دیکھی.
تیرے تو مزے ہیں یار,روز اسکو دیکھتا ہے. آفتاب بولا.
اور وہ بس مسکرا کر رہ گیا.
_¤_¤_¤
اپکی شادی کب ہے؟ نادر شاہ نے اس سے پوچھا.وہ سب اس وقت ڈائیننگ پر موجود تھے. وہ سبکو کھانا سرو کر رہی تھی.
جی...پانچ مہینے بعد.وہ دھیرے سے بولی.
تمہاری شادی ہونے والی ہے. شاہ بانو اسے دیکھ کر بولیں.لہجے میں حیرت تھی.زاویار نے بھی حیرت سے اسے دیکھا.
ہاں شہریار سے, وہ اسکا کزن ہے.نادر شاہ بولے.اور زاویار کی نظریں اس پر جم گئیں.
_¤_¤_¤
کیا قسمت یے شہریار کی...آفتاب بولا.
ہاں یار یہ تو ہے,وہ ڈرائیور ہے اور لڑکی دیکھ اسے کیسی ملی ہے اور ایک میں ہوں.. زاویار نے سر جھٹکا.
تو کیا حیات کو سیریس لے رہا ہے. علی نے اسے دیکھا.
ابے تم دونوں کو کیا لگتا ہے میں کیا اسے پسند کرنے لگا ہوں.اسنے سگریٹ جلاتے ہوئے کہا.
تو... دونوں نے ایک ساتھ کہا.
میں چاہتا ہوں کے وہ ایک رات کے لیے میرے پاس آجائے,جب بھی اسے دیکھتا ہوں اسکے حسین سراپے میں کھو جاتا ہوں.وہ دلکشی سے بولا.
تیرے لیے کونسا مشکل کام ہے.تیرے آگے پیچھے تو لاکھوں لڑکیاں رہتی ہیں.علی شوخ ہوا..
ہاں تو ٹرأے تو کر.. آفتاب نے بھی اسے راہ دکھائی.
_¤_¤_¤
زاویار اپنے روم میں آیا.حیات اسکے روم کی ڈسٹنگ کر رہی تھی. وہ آج روزانہ سے زیادہ نکھری نکھری لگ رہی تھی. گیلے بالوں کی وجہ سے اسکے سر سے ڈوپٹا بار بار اتر رہا تھا. اسنے بلیک کلر کی فراک پہینی ہوئ تھی.جو اسکے پیروں تک آرہی تھی.
زاویار اسے بے خودی میں تکتا رہا.وہ اسکے پاس گیا اور اسکا ہاتھ تھام لیا.
وہ چونک گئ. یہ... یہ...کیا کر رہے ہیں آپ... وہ غصے میں بولی.
آج تم بہت خوبصورت لگ رہی ہو.وہ شوخ ہوا.
ہاتھ چھوڑیں میرا..وہ ہاتھ چھڑاتے ہوئے غصے میں بولی.پر اسنے بہت مضبوطی سے اسکا ہاتھ پکڑا ہوا تھا.
مجھے تم سے ملنا ہے اکیلے میں... آج رات کو..
اسنے حیرت سے دیکھا..نہیں مجھے نہیں ملنا ولنا اپ سے اور ہاتھ چھڑیں میرا.
کیوں نہیں ملنا..وہ سنجیدگی سے بولا.مجھےصرف ایک رات گزارنی ہے تمہارے ساتھ.
آپکو شرم نہیں آتی ایسی بات کرتے ہوئے..میری شادی ہونے والی ہے.وہ ہاتھ چھڑوانے کی کوششوں میں لگی ہوئ مگر چھڑوا نہیں پارہی تھی.
تو کیا ہوا..میں نے کونسا شادی کرنی ہے تم سے.. صرف ایک رات کا تو بول رہا ہوں...
آپ ہاتھ چھوڑیں میرا.اس بار اسکے لہجے میں بے بسی تھی. تب ہی دروازے پر دستک ہوئ.
پلیز چھوڑیں میرا ہاتھ.وہ روہانسی ہوئ.
زاویار دروازہ کھولو.شاہ بانو باہر سے بولیں.
کھول رہا ہوں..یہ کہہ کر ,اسکا ہاتھ چھوڑ کر وہ دروازے کی طرف بڑھا.
کتنی دیر لگادی تم نے دروازہ کھولنے میں..وہ اندر آئیں.تم یہاں کیا کر رہی ہو. انہوں نے حیات کو دیکھ کر سخت لہجے میں کہا.
میں ڈسٹنگ کر رہی تھی. وہ نظریں جھکا کر بولی اور باہر نکل گئ.
تم نے دروازا کیوں بند کیا ہوا تھا.انہوں نے عجیب لہجے میں کہا.
ایسے ہی.. وہ بیڈ پر دراز ہوتے ہوئے بولا.
آح کل تم کچھ زیادہ ہی حیات کے آگے پیچھے نہیں گھوم رہے.وہ اسکے پاس آکر بولیں اور وہ خاموش رہا.یاد دکھنا وہ اس گھر کی نوکرانی ہے,تمہاری کسی بھی الٹی سیدھی حرکت پے اس بار نادر تمیں معاف نہیں کریں گے.
اُف مام.... کیا ہوگیا ہے بھئ پتہ ہے مجھے. وہ چڑا.
بس یاد رکھنا. یہ کہہ کر وہ باہر نکل گیئں.
حیات کچن میں آئ اسکی ڈھڑکنیں عجیب ہورہی تھیں.اسنے پانی پیا اور اپنی ڈھرکنیں درست کیں.زاویار کو کیا ہو گیا ہے. وہ دل میں خود سے بولی.
حیات! شاہ بانو نے کچن میں آکر اسے پکارا. تم اس گھر کی نوکرانی ہو بھولنا مت. وہ سختی سے بولیں.ڈسٹنگ کے علاوہ تم وہاں کیا کر رہی تھیں مجھے سب پتا ہے.
انٹی ایسا کچھ نہیں ہے.وہ ڈرتے ہوئے بولی.
بس یاد رکھنا.غصے میں یہ کہہ کر وہ کچن سے باہر نکل گئیں.اور وہ بےبسی سے انہیں جاتا دیکھتی رہی.
شہریار تم کوئی اور کام نہیں کرسکتے. رات کا وقت تھا. وہ اور حیات اس وقت اپنے گھر کی چھت پر موجود تھے. وہ اسکی بات سمجھ گیا تھا کہ وہ کونسے کام کی بات کررہی ہے.
کیوں یار اتنے اچھے لوگ تو ہیں. ہمارا اتنا خیال رکھتے ہیں اور تم چاہ رہی ہو کہ میں یہ کام چھوڑ دوں. اور تم سب کہ ساتھ روڈ پر آجاؤں. وہ غصے میں بولا.
میرا یہ مطلب نہیں ہے. اسنے نظریں جھکائیں.
تمہارا جو بھی مطلب ہے مجھے پرواہ نہیں. تم نے بھی وہیں کام کرنا ہے اور میں نے بھی. وہ یہ کہہ کر نیچے چلا گیا. اور وہ اسے جاتا دیکھتی رہی تھی.
تجھے کیا ہوا بہت پریشان لگ رہا ہے.زاویار کار پورچ میں پارک کر کے جارہا تھا تبھی اسکی نظر شہریار پر پڑی.
کچھ نہیں یار. وہ دھیرے سے بولا.
کچھ تو ہے... اگر کوئی مسئلہ ہے تو مجھے بتا. زاویار نے کہا.
نہیں یار بس ویسے ہی. اسنے نظریں چرائیں.
زاویار سمجھ گیا کہ اسے پیسوں کی ضرورت ہے.
ابے مجھ سے کیوں شرما رہا ہے مجھے تو تیرے بارے میں سب کچھ پتہ ہے کہ تو جوا کھیلتا ہے. وہ مسکرایا. بتا اب کتنے پیسے ہار گیا.
10لاکھ. اسنے کہا.
بس اتنی سی بات پر پریشان ہورہا ہے تو...میں کل صبح دے دونگا پیسے تجھے. زاویار نے مسکراکر کہا.
تھینک یو یار اگر آج تم نہ ہوتے تو پتہ نہیں کیا ہوتا.
لیکن پھر تو یہ پیسے واپس کیسے کرے گا.
ہاں یار یہ تو ہے. میں کیا کروں. وہ اداس ہوا.
لیکن تیرے پاس دس لاکھ سے بھی قیمتی چیز ہے. زاویار کمینگی سے بولا.
کیا. اسنے حیرت سے اسے دیکھا.
حیات! وہ.مسکرایا. تو ایک دن کے لیے اسے میرے پاس بھیج دے اور دس لاکھ لے لے.
شہریار کافی دیر تک سوچتا رہا. اس وقت اسے پیسوں کی سخت ضرورت تھی. وپ حیات کو تو کیا کسی کو بھی داؤ پر لگا سکتا تھا.
مجھے منظور ہے بتا کب بھیجنا ہے اسے. وہ سرد لہجے میں بولا.
بتا دوں گا. اور یہ کہہ کر وہ مسکرانے لگا.
_¤_¤_¤
37188170_2019752461428483_5113002443826790400_o.jpg?_nc_cat=102&_nc_eui2=AeFDlLPvr1VJI-Apl-brbKGwJ5TYU1sYwkih__6XDZYxQ880ryw5fSMAC4bvqHUCpo0XbtYTOUCNYAVAJeENRL86BLuD_rWPnJt4OHJG2F7XqA&_nc_oc=AQnShyWTYCFvHOK2ao2DjwgxCCNsfur_AKy2B7rx-yEjpdSMF39nfpnOGeXYf43gk7k&_nc_ht=scontent.fkhi5-1

0 Comments: