Headlines
Loading...
روشن صبح قسط نمبر4

روشن صبح قسط نمبر4





#قسط_نمبر_04

بچپن سے لےکر جوانی تک, اسکی بےجا ضدوں اور لاڈ پیار نے اسے خودسر اور مغرور بنادیا تھا. وہ اپنی ساری تمیز کھو چکا تھا. چھ سال کی عمر میں اسے بورڈنگ بھیج دیا گیا. جسکی وجہ سے اتنے سالوں میں وہ اپنے گھر والوں سے بدظن ہوگیا تھا.اور بورڈنگ سے آنے کے بعد وہ اپنا سارا وقت گھر میں گزارنے کے بجاۓ کلب میں اپنے غلط دوستوں کے ساتھ گزارتا تھا. جب لوگوں کی رات ہوتی تھی تب اسکا دن شروع ہوتا تھا. وہ ساری رات باہر گزارتا, وہ ڈرنک کرتا, سگریٹ پیتا. اسمیں ساری برائیاں تھیں لیکن اس سب کے باوجود ایک ایسی ہستی بھی تھیں جن سے اسے بہت محبت تھی. وہ اسکی دادی تھیں, وہ گاؤں میں میں رہتی تھیں وہ نادر شاہ کے ساتھ ہر سال گرمیوں میں گاؤں جاتے, اسکی وہاں جاکر بھی وہی شرارتیں اور بدتمیزیاں ہوتی تھیں لیکن جب وہ بورڈنگ جارہا تھا تو اسکی دادی ہی تھیں جنہوں نے نادر شاہ کو بہت منہ کیا لیکن وہ نہیں مانے اور اس دن سے زاویار نے سب سے زیادہ جس کو چاہا ہے وہ اسکی دادی ہیں, وہ اسے جو بھی بولدیں وہ کبھی نہیں ٹالتا.

شاہ بانو کہاں ہو بھئ؟ دیکھو تو کون آیا ہے۔نادر شاہ صبح ہی انگلینڈ سے واپس آے تھے۔
ارے آپ کب آئے؟ وہ کمرے سے نکل کر آئیں، بتا تو دیتے میں ذاویار یا صارم کو ائرپورٹ بھیج دیتی۔
ارے نہیں نہیں میں انگلینڈ سے واپسی پر گاوں چلا گیا تھا اماں کو لینے ، صوفے پر بیٹھتے ہوے بولے ، وہ بھی ان کے پاس بیٹھ گیئں۔ سحرش اور صارم اپنے کمرے سے نکلے اور سلام کرکے ان کے پاس ہی بیٹھ گئے۔تب ہی حیات ان کے لئے پانی لیکر آئ
کیسی ہو آپ ؟ نادر شاہ اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوے بولے۔آج میں خاص آپ کے لیے آپنی اماں کو لایا ہوں، گلاس پکڑتے ہوئے کہنے لگے ، حیات کے لبوں پر مسکراہٹ آگئ جب سے وہ یہاں آئ پہلی بار کسینے اس سے پیار سے بات کی تھی۔
موم دادو آئیں ہیں زاویار انکا ہاتھ پکڑ کر انرر لا رہا تھا۔ آئیں نہ دادو
شاہ بانو نے بہت ناگواری سے جہاں آراء کو دیکھا۔
ادھیڑ عمر کی جہاں آراء جب بھی گاوںء سے آپنے بیٹے کے پاس آتیں تھیں شاہ بانو نے کبہی بھی ان سے بے تکلفی نہیں برتی تھی وہ ہمیشہ سے انکے ساتھ ایسا رویہ رکھتی تھیں سحرش شاہ بانو کی بہو تھیں لیکن لگتی انکی بیٹی ہی تھی

وہ بھی جہاں آراء سے کوئ بات نہیں کرتی ،البتہ دونوں پوتے زاویار اور صارم دادی کا بہت خیال کرتے، بہت پیار کرتے دونوں ان سے ، پر زیادہ زاویار وہ تو ماں سے زیادہ دادی کا خیال کرتا۔
نادر شاہ کا بچپن گاوںء میں گزرا ، انکا باپ ایک مزدور تھے ، نادر اور انکی بہن ایک چھوٹے سے اسکول میں زیر تعلیم تھے ، انکو گاوںء کی زندگی کبھی پسنر نہیں تھی ، وہ شہر میں رہنا چاہتے تھے ، اعلی تعلیم حاصل کرنا چاہتے تھے، جب انہوں نے میٹرک کیا تو انکی بہن کی شادی ہوگئ ، سارہ کی شادی کے دو ماہ بعد انکے ابا کا انتقال ہوگیا ، نادر نے اپنی ماں کو سارہ کے پاس چھوڑا اور پڑھائ کے لیے شہر آگیے ، جہاں وہ کماتے بھی تھے اور پڑھتے بھی، اور ایک بڑے بزنس مین بن گئے ، انکی شادی بھی ایک بزنس مین کی بیٹی سے ہوئ اور آج انکے پاس وہ سب تھا جو وہ چاہتے تھے۔
یہ کون ہے؟ وہ سب سے مل کر حیات کی طرف دیکھ کر تجسس سے بولیں۔
امئ میں آپ کو اسی سے ملوانے لایا ہوں۔ یہ ہماری چھوٹی بہو ، آپکے زاویار کی بیوی ہے۔وہ اسکے پاس آکر بولے جائو بیٹا دادو سے ملو۔
السلام وعلیکم !وہ انکے آگے سر جھکاتے ہوئے بولی۔
وہ حیرت سے اسے دیکھ رہیں تھیں ، انہیں یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ اس گھر کی بہو ہے ۔وہ اس سے اپنائیت سے ملیں۔
۔*۔*۔*۔
زاویار نے حیات کو کیسے پسند کرلیا؟ جہاں آراء اپنے کمرے میں بیٹھیں شام کی چائے پی رہیں تھیں ۔
کیوں آپکو پسند نہیں آئ؟ نادر شاہ بھی انکے کمرے میں موجود تھے ۔
نہیں مجھے تو بہت پسند آئ ہے ، پر یہ تو کسی مڈل کلاس کی لگتی ہے۔
بس امئ کیا بتائوں ، زاویار کی کہانی ، میں تو سوچ بھی نہیں سکتا تھا زاویار اس حد تک گر سکتا ہے۔
ایسا کیا کردیا اسنے ۔
انہوں نے ایک سرد آہ بھری ۔
حیات اپنی خالہ اور خالو کیساتھ رہتی تھی، اسکے ماں باپ کا بچپن میں ہی انتقال ہو گیا تھا۔ اسکے خالہ اور خالو اسے بہت چاہتے تھے۔ اسکی منگنی بھی انہوں نے اپنے بیٹے شہریار سے کر دی تھی۔ شہریار ہمارا ڈرائیور تھا۔ کچھ عرصہ پہلے عثمان ( شہریار کے والد) دل کا دورہ پڑا اور وہ بستر سے لگ گئے۔ وہ آفس جانے کے قابل نہیں رہے تھے۔ جب تک انکی نوکری تھی انہوں نے حیات کو میٹرک تک پڑھایا پر انکے گھر کے حالات متاثر ہورہے تھے۔
ایک دن میں نے شہریار کو پریشان دیکھا تو پوچھا۔ تب اسنے مجھے اپنی پریشانی سے آگاہ کیا۔ تب میں نے اسے مشورہ دیا کہ تم صبح حیات کو میرے پاس لے آنا میں اسے کک کی جاب دوںگا ، ہماری کک اچھا کھانا نہیں بناتی وہ ہنس کر بولے وہ بھی مسکرا دیا۔
دوسرے دن وہ اسے لے کر میرے پاس آگیا، وہ پہلی نظر میں ہی مجھے بہت اچھی لگی، خوبصورت اور کافی سلیقے والی ، میں عثمان کو دیکھنے گیا تھا جب پہلی بار اسے دیکھا ، اسکے ہاتھ کا کھانا کھایا ، اسنے گھر کو بہت سلیقے سے رکھا ہوا تھا، جب میں نے سوچا کہ زاویار کی شادی اس سے ہوجائے اور ہمارے گھر کی بہو بن جائے لیکن ایسا ممکن نہ تھا۔میں نے اسے کک رکھ لیا۔
ایک دن وہ کچن میں آٹا گوند رہی تھی ، جب زاویار کچن میں آیا۔
تم کون ہو؟ اور یہاں کیا کرہی ہو ؟ وہ اسے گہری نظروں سےدیکھتے ہوئے بولا اسنے سادگی میں بھی ایسی خوبصورتی نہیں دیکھی تھی۔
میں حیات ہوں ، یہاں کھانا بناتی ہوں ، وہ نظریں جھکا کر بولی اسے اسکے ایسے دیکھنے سے وحشت ہورہی ، وہ دوبارہ کام میں لگ گئ۔
تم یہاں کیا کرہے ہو زاویار ؟ سحرش اندر آکر ، حیات کو عجیب نظروں سے دیکھتے ہوئے بولی ۔
وہ نظریں جھکا گئ
زاویار، وہ اسکا بازو ہلاتے ہوئے بولی جو پوری طرح سے اس میں کھویا ہوا تھا فورا چونکا ، جی
تم یہاں کیا کر رہے ہو؟
پانی پینے آیا تھا۔ وہ فریج کھول کر بوتل منہ سے لگاتے ہوے بولا
آج سے پہلے تو کبھی خود پانی لینے نہیں آے
اوہ••• بھابھی کیا ہوگیا۔وہ کہنے لگا ، آپکو کیا لگتا ہے، میں اس نوکرانی کی وجہ
سے یہاں آیا ہوں؟ میرے لیے بہت لڑکیاں ہیں. وہ مسکرا کر بولا تو وہ وہ مسکرادی اور دونوں کچن سے باہر نکل گئے اور وہ سر جھکائے اپنا کام کرتی رہی.
_¤_¤_¤
37188170_2019752461428483_5113002443826790400_o.jpg?_nc_cat=102&_nc_eui2=AeFDlLPvr1VJI-Apl-brbKGwJ5TYU1sYwkih__6XDZYxQ880ryw5fSMAC4bvqHUCpo0XbtYTOUCNYAVAJeENRL86BLuD_rWPnJt4OHJG2F7XqA&_nc_oc=AQnShyWTYCFvHOK2ao2DjwgxCCNsfur_AKy2B7rx-yEjpdSMF39nfpnOGeXYf43gk7k&_nc_ht=scontent.fkhi5-1

0 Comments: