Headlines
Loading...
روشن صبح قسط نمبر11

روشن صبح قسط نمبر11





قسط نمبر:11

زاویار رات 12 بجے گھر آیا. آج پھر حیات نظر نہیں آئی. وہ روم میں آگیا. وہ صوفے پر بیٹھی رو رہی تھی.
کیا ہوا تمہیں؟ وہ فکر سے بولا.
اسنے سر اٹھا کر دیکھا اور فوراً اٹھ کر اس کے پاس آئی.
کیا ہوا؟ رو کیوں رہی ہو؟ وہ پیار سے بولا.
مجھے ڈاکٹر کے پاس جانا ہے. اسنے روتے ہوئے کہا.
کیوں؟ کیا ہوا؟ طبعیت تو ٹھیک ہے.
اسنے اپنا ہاتھ آگے کیا. اسکا ہاتھ جلا ہوا تھا.
یہ کیسے جلا؟ وہ غصے سے بولا. یار مجھے کال کر دیتی میں جلدی آجاتا.
وہ روتی رہی.
چلو. اسنے اسکا دوسرا ہاتھ پکڑا اور نیچے کا رخ کیا.
زاویار! شاہ بانو نے اسکو پیچھے سے دی. لیکن تب تک وہ جا چکا تھا.
یہ اتنی رات میں کہاں گیا ہے. وہ تجسس سے بولیں.
_¤_¤_¤
زاویار کہاں گئے تھے تم؟ وہ واپس آیا تو سب جاگ رہے تھے.
میں حیات کو لے کر ڈاکٹر کے پاس گیا تھا.
کیوں کیا ہوا؟ نادر شاہ نے پوچھا.
اسکا ہاتھ جل گیا, کھانا بناتے ہوئے. زاویار غصے سے بولا.
ارے حیات! بتا تو دیتیں. بتایا کیوں نہیں. جہاں آراء بولیں.
کس کو بتا دیتی؟ کون سنتا اسکی بات.؟ وہ پھر غصے میں بولا.
سب کی حیرت عروج پر تھی.
مام آج کے بعد یہ گھر کا کوئی کام.نہیں کرے گی. بھابھی بھی اس گھر کی بہو ہیں نہ, وہ بھی کوئی کام نہیں کرتیں. تو حیات بھی اس گھر کی بہو ہے. بیوی ہے میری. آج سے یہ بھی کوئی کام نہیں کرے گی. وہ غصے میں یہ کہہ کر حیات کا ہاتھ پکڑا اور اوپر چلا گیا.
نادر اور جہاں آراء ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرانے لگے.
اوپر آکر اسنے حیات کو بیڈ پر بیٹھایا, پانی کا گلاس دیا اور ہاتھ میں میڈیسن نکال کر اسکی طرف بڑھائی.
اسنے میڈیسن کھائی اور گلاس سائیڈ پر رکھا. وہ ڈریسنگ کے پاس جاکر اپنی واچ اتارنے لگا.
آپکو کھانا لا دوں. وہ اسکے پاس آئی.
وہ اسکی طرف مڑا. سوری یار تمہیں میری وجہ سے بہت تکلیف پہنچتی ہے. میں خود کو کبھی معاف نہیں کرسکتا.
آپ ایسے مت بولیں. وہ نظریں جھکا کر بولی. میں ٹھیک ہوں, کھانا لاتی ہوں اپکے لیے کھالیں.
یار تم میری اتنی فکر مت کیا کرو. میری فکر کرنے والے بہت ہیں پر تمہاری فکر کرنے کے لیے صرف میں ہوں. وہ اسکا ہاتھ پکڑ کر بیڈ تک لایا. تم آرام کرو اور بیڈ پر ہی سونا.
پر آپ... وہ جھجکتے ہوئے بولی.
میں بھی سوجاؤں گا. تم سو جاؤ شاباش. اور پھر اسنے حیات کو لٹایا, اسے بلینکٹ اڑایا اور لائٹ آف کردی.
_¤_¤_¤
صبح ناشتے پر سحرش نے زاویار سے کہا. آج تم آفس مت جانا, ہمیں شاپنگ پر لے چلنا.
اچھا... اسنے نوالہ منہ میں ڈالا.
حیات کہاں ہے زاویار؟ شاہ بانو نے جھجکتے ہوئے پوچھا.
وہ سورہی ہے مام. تب ہی وہ ڈائینگ ہال میں داخل ہوئی.
سوری میں لیٹ ہوگئی. وہ نظریں جھکا کر بولی.
کوئی بات نہیں بیٹا. نادر شاہ نے نرمی سے کہا.
اپکا ہاتھ کیسا ہے اب. جہاں آراء نے پوچھا.
ٹھیک ہے اب. وہ بولی اور کچن میں جانے کے لیے مڑی.
تم کہاں جارہی ہو؟ شاہ بانو نے پوچھا.
میں کچن میں. وہ مڑی.
اسکی کوئی ضرورت نہیں ہے. وہ مسکرائیں. آؤ بیٹھو ناشتہ کرو اب کے ساتھ.
جی! وہ حیرت سے بولی. باقی سب بھی حیرت سے انکی طرف دیکھ رہے تھے.
ہاں آؤ. زاویار کے پاس بیٹھو.
اسنے حیرت سے سبکی طرف دیکھا. زاویار نے اسے اشارے سے اپنے پاس بلایا. اسنے نظریں جھکالیں اور آکر اسکے برابر والی کرسی پر بیٹھ گئی.
ابھی زاویار ہمیں شاپنگ پر لے کر جائے گا اور تم نے بھی چلنا ہے. سحرش مسکرا کر بولی.
جی. اور یہ کہہ اسنے نظریں جھکالیں.
_¤_¤_¤
ناشتہ کرکے, ڈائینگ سمیٹ کر وہ اپنے روم.میں آگئی.
زاویار بیڈ پر بیٹھا ٹی.وی دیکھ رہا تھا. ایک نظر اسپر ڈال کر وہ اندر آگئی اور اپنے کپڑے ڈھونڈنے لگی. وہ بظاہر تو ٹی.وی دیکھ رہا تھا. لیکن اسکی نظریں حیات پر تھیں. وہ اٹھا اور وارڈروب کا پٹ کھول کر کھڑا ہوگیا.
یہ رہے تمہارے کپڑے. وہ پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈال کر اطمینان سے بولا.
وو پلٹی. یہ یہاں کس نے رکھے؟ وہ خود سے بولتی ہوئی وارڈروب تک ائی. وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا. اسنے اسے دیکھ نظریں جھکالیں.
یہ یہاں کیسے آگئے؟ اسنے جھنیپ کر کہا. سوری مجھے نہیں پتا یہ یہاں کس نے رکھے. میں ابھی ہٹاتی ہوں. وہ آگے بڑھی.
زاویار نے اسکا ہاتھ تھام لیا. یہ میں نے رکھے ہیں. وہ چونک کر اسے دیکھنے لگی. مجھے اچھا نہیں لگا کہ میری بیوی کے کپڑے ایسے پڑے ہوئے ہیں. وہ مسکرایا.
تم تیار ہوکر آؤ. میں نیچے ویٹ کر رہا ہوں. وہ اسکا ہاتھ چھوڑکر باہر نکل گیا. اور وہ بس اسکو جاتے دیکھتی رہی.
_¤_¤_¤
37188170_2019752461428483_5113002443826790400_o.jpg?_nc_cat=102&_nc_eui2=AeFDlLPvr1VJI-Apl-brbKGwJ5TYU1sYwkih__6XDZYxQ880ryw5fSMAC4bvqHUCpo0XbtYTOUCNYAVAJeENRL86BLuD_rWPnJt4OHJG2F7XqA&_nc_oc=AQnShyWTYCFvHOK2ao2DjwgxCCNsfur_AKy2B7rx-yEjpdSMF39nfpnOGeXYf43gk7k&_nc_ht=scontent.fkhi5-1

0 Comments: