Headlines
Loading...
روشن صبح قسط نمبر10

روشن صبح قسط نمبر10





#قسط_نمبر_10

رات 1 بجے زاویار گھر آیا. وہ جب بھی گھر آتا تھا حیات کو اپنا منتظر پاتا تھا. پر آج وہ لاؤنج میں تھی نہ کچن میں. وہ اوپر اپبے بیڈ روم میں آیا. دروازہ کھولا. حیات فرش پر بیٹھی, بیڈ پر سر ٹکاۓ زاروقطار رو رہی تھی. وہ گھبراگیا.
اسے کیا ہوا, یہ ایسے کیوں رورہی ہے. وہ اسکے پاس آکر بیٹھا.
حیات نے سر اٹھاکر اسے دیکھا. اسکی دودھ جیسی رنگت سرخ ہورہی تھی, اسکی آنکھیں بھی سرخ ہورہی تھی, بال بکھرے ہوئے تھے.
کیا ہوا تمہیں؟ اسنے پیار سے پوچھا. کسی نے کچھ کہا ہے تمہیں.
کیوں کیا تھا وہ سب کچھ آپنے میرے ساتھ. وہ روتے ہوئے چلائی.
ہوا کیا ہے؟ وہ حیران ہوا.
آنٹی نے آپ کے لیے کیا کیا سوچا ہوا تھا, ایک امیر, ماڈرن, فیشن ایبل گھرانے کی لڑکی کا, جس سے وہ آپکی بڑی دھوم دھام سے شاسی کرواتیں. لیکن آپنے میری زندگی تو برباد کی ہی ساتھ میں اپنی بھی کرلی.
کیا کہا ہے مام نے تم سے. اسنے غصے میں کہا.
پتہ نہیں آنٹی مجھے اتنا برا کیوں سمجھتی ہیں. میں اتنی بھی بری نہیں ہوں جتنا آپ اور سب سمجھتے ہیں.
وہ حیرت سے اسے دیکھتا رہا. آج سے پہلے حیات کو کسی نے بھی جو کچھ بولا وہ کبھی نہیں روئی لیکن آج وہ بہت رورہی تھی.
آپ نے اچھا نہیں کیا میرے ساتھ, میری زندگی برباد کرکے. اس گھر کے لوگ اور آپ مجھے کبھی نہیں اپنائیں گے. وہ اٹھ کر جانے لگی.
صحیح کہا تم نے. زاویار کی آواز پر وہ پلٹی. وہ بھی اٹھ کھڑا ہوا اور اسکی طرف مڑا.
میں نے ہم دونوں کی زندگی برباد کرلی. کاش اگر اسی وقت مجھے پتہ چل جاتا کہ میں تم سے پیار کرتا ہوں. تو یہ سب کچھ کبھی نہیں ہوتا. وہ اسکی طرف دیکھتے ہوئے اسکے پاس آکر بولا.
وہ حیرت سے اسے دیکھتی رہی کہ زاویار کو مجھ سے پیار. کیا میں نے ٹھیک سنا.
جب میں نے پہلی بار تمہیں دیکھا تھا تب ہی مجھے تم سے پیار ہوگیا تھا. میں نے ایسی خوبصورتی, ایسی سادگی کہیں نہیں دیکھی تھی. لیکن میں نے اپنے دل کی نہیں سنی, میں نے ہر بار دل کی بات کو جھٹلایا, تمہیں پانا چاہا تو صرف ایک رات کے لیے. میں جانتا ہوں کہ تمہیں میرا یقین کبھی نہیں آئےگا لیکن میں سچ کہہ رہا ہوں کہ میں تم سے بہت پیار کرتا ہوں, بہت چاہتا ہوں تمہیں, اپنی حرکتوں پر بھی بہت شرمندہ ہوں اور اس سب کے لیے تم سے معافی بھی مانگ رہا ہوں. اسنے آگے بڑھ کر اسکا ہاتھ تھامنا چاہا لیکن وہ پیچھے ہوگئی اور باہر نکل گئی. وہ کھڑا اسے جاتا دیکھتا رہا.
_¤_¤_¤

حیات تمہاری آنکھیں اتنی سوجی ہوئی کیوں ہورہی ہیں؟ وہ سحرش کا ناشتہ اسکے کمرے میں دینے گئی تھی.
نہیں بھابھی ویسے ہی. اسنے ٹرے سائڈ ٹیبل پر رکھی.
ایسا لگ رہا ہے کہ تم ساری رات روئیں تھیں.
نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے. وہ یہ کہہ کر واپس مڑی, کچھ چاہیے ہو تو بتا دیجیے گا. اور باہر نکل گئی.
سحرش کو پہلی بار احساس ہوا کہ وہ خود غلط تھی.
حیات اتنی بری بھی نہیں ہے, جتنا میں سوچتی ہوں, آج میری سوچ اسکے لیے بدل گئی. وہ دل میں بول کر مسکرائی.
_¤_¤_¤
آنٹی کیا ہوا؟ کچھ چاہیے تھا آپکو؟ وہ کچن میں آئیں تھیں, وہ برتن دھو رہی تھی.
کچھ نہیں ہوا, اپنے کام سے کام رکھو. یہ میرا گھر. ہے میری جہاں مرضی میں جاؤں گی.
نجمہ... نجمہ کہاں ہو بھئی جلدی آؤ. وہ اسے جواب دے کر نجمہ کو پکارنے لگیں. اور فریج کی طرف بڑھ گئیں.
میں پانی دے دیتی ہوں. وہ پھر بولی.
تمہاری سمجھ میں نہیں آتی بات, مجھے تمہاری شکل دیکھنا بھی پسند نہیں ہے. تمہیں میں صرف نادر کی وجہ سے برداشت کررہی ہوں ورنہ ورنہ کب کا تمہیں اس گھر سے نکال باہر کرتی.
انہوں نے غصے سے اسکا ہاتھ جھٹکا. اتنے میں نجمہ بھی کچن میں آگئی.
تم نے سر درد کی دوائی کہاں رکھی ہے. انہوں نے نجمہ سے پوچھا.
بی بی جی میں نے آپکے کمرے کی سائڈ ٹیبل کی دراز میں ہی رکھی تھی.
لیکن وہاں نہیں ہے. جلدی سے دوا میرے کمرے میں لے کر آؤ. یہ کہہ کر وہ چلی گئیں.
نجمہ آپی میں چائے بنا رہی ہوں آپ دوا لے آئین جب تک. حیات نے نجمہ سے کہا اور چائے بنانے لگی. کچھ ہی دیر نجمہ دوا لے آئی.
زاویار صاحب آگئے؟ نجمہ نے ہارن کی آواز سن کر کہا.
آپ انہیں کھانا دے دیجیئے گا میں یہ چائے اور دوا آنٹی کو دے دیتی ہوں. وہ چائے کا کپ اور دوا ٹرے میں رکھ کر باہر نکل گئی.
آنٹی چائے! وہ شاہ بانو کے روم کے دروازے پر دستک سے کر بولی.
میں نے تمہیں منع کیا تھا نہ. انہوں نے غصے میں کہا.
آنٹی پلیز غصہ نہ کریں. وہ ان کے پاس آئی.
درد اور بڑھ جائےگا. آپ پلیز یہ میڈیسن اور چائے لے لیں.
انہوں نے ایک نظر اس پر ڈالی اور کپ اٹھا لیا اور میڈیسن اسکے ہاتھ سے لے کر کھالی.
آپ لیٹ جائیں میں آپکا سر دبا دیتی ہوں.
شاہ بانو بغیر کچھ کہے لیٹ گئیں اور وہ انکے سرہانے بیٹھ کر انکا سر دبانے لگی.
زاویار یہ سب سیکھ رہا تھا. اسے حیات بہت اچھی لگ رہی تھی. وہ دروازہ بند کرکے کھانا کھانے چلا گیا.
تھوڑی دیر بعد حیات شاہ بانو کے روم سے نکلی. اور لاؤنج میں آئی. پورے گھر میں خاموشی کا راج تھا, صرف زاویار کھانا کھا رہا تھا.
آپ جاکر سوجائیں. میں یہ سب اٹھالوں گی. وہ نجمہ کے پاس آکر بولی جو ڈائینگ کے پاس کھڑی تھی. وہ سر ہلا کر چلی گئی.
تم نے کھانا کھایا؟ زاویار نے اس سے پوچھا.
نہیں. وہ نظریں جھکا کر بولی.
تو کب کھاؤگی. وہ تھوڑا ناراض ہوا. آجاؤ کھالو. سب تو سورہے ہیں, کوئی کچھ نہیں کہہے گا.
نہی میں کھالوں گی بعد میں. وہ یہ بول کر کچن میں چلی گئی اور وہ ہاتھ ملتا رہ گیا.
_¤_¤_¤

آنٹی آپ باہر کیوں آگئیں؟ میں ناشتہ اندر ہی لارہہ تھی. حیات ڈایئنگ ہال میں آتی ہوئی شاہ بامو سے بولی.
نہیں اب درد ختم ہوگیا ہے. انہوں نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا. میں اب بلکل ٹھیک ہوں.
حیات تم اتنی سادی کیوں رہتی ہو. جیاں آراء نے اسکی طرف دیکھتے ہوئے کہا. لگتا ہی نہیں تم اس گھر کی بہو ہو.
جی! وہ دھیرے سے بولی.
جاؤ پہن کر آؤ. انہوں نے پھر کہا.
اسنے نظریں اٹھاکر زاویار کو دیکھا جس کی نظریں بھی اس پر تھیں.
ایسے کیا دیکھ رہی یو حیات جاؤ پہن کر آؤ.
دادی فارغ ہوکر پہن لوں گی.
نہیں ابھی پہن کر آؤ جاؤ شاباش.
میرے پاس اس وقت کچھ نہیں ہے دادی. وہ جھجکتے ہوئے بولی.
کیا.... تمہارے پاس کچھ نہیں ہے. حیرت سے کہہ کر انہوں نے شاہ بانو کی طرف دیکھا.
شاہ بانو اور زاویار نے شرمندگی سے نظریں جھکالیں.
ڈیڈ پانچ دن بعد روحان کا برتھ ڈے ہے. وہ ایک سال کا ہوجائےگا. اسکی فرسٹ برتھ ڈے ہے تو میں سوچ رہا تھا کہ ایک پارٹی اورگنائز کروں. صارم نے کہا.
ہاں کاں کیوں نہیں. ہمارے پہلے پوتے کی برتھ ڈے ہے خوب اچھی طرح کریں گے. نادر شاہ خوش ہوکر بولے.
دادی آپ فکر نہ کریں میں حیات کو بلکل اپنی طرح بنادوں گی. سحرش مسکراکر بولی. میں اسکو ایسی جیولری اور کپڑے دلاؤں گی کہ لوگ دیکھتے ہی پہچان جائیں گے کہ یہ شاہ ہاؤس کی دوسری بہو ہے.
نہیں بھئی نہیں. حیات کو شاپنگ تو میں خود کراؤں گا. وہ اس پر نظریں جما کر بولا اور حیات نے گھبرا کر نظریں جھکالیں.
اوہوووووو... دیور جییییی. سحرش نے شوخ لہجے میں کہا.
سب مسکرادیے اور وہ کچن میں آگئی.
_¤_¤_¤

🌸🌸🌸🌸🌸
37188170_2019752461428483_5113002443826790400_o.jpg?_nc_cat=102&_nc_eui2=AeFDlLPvr1VJI-Apl-brbKGwJ5TYU1sYwkih__6XDZYxQ880ryw5fSMAC4bvqHUCpo0XbtYTOUCNYAVAJeENRL86BLuD_rWPnJt4OHJG2F7XqA&_nc_oc=AQnShyWTYCFvHOK2ao2DjwgxCCNsfur_AKy2B7rx-yEjpdSMF39nfpnOGeXYf43gk7k&_nc_ht=scontent.fkhi5-1

0 Comments: