Headlines
Loading...
دسمبر لوٹ آنا تم تحریر ناصر حسین پارٹ 2

دسمبر لوٹ آنا تم تحریر ناصر حسین پارٹ 2





اس لڑکے نے غور سے اسے دیکھ جب وہ کینٹین کی طرف جانے لگی تبهی اس نے پیچھے سے آواز دی. ..
" رکیں ."....اس نے گردن گهما کر پیچھے دیکها. .
"بتائیں کیا کیا لانا ہے...میں لا دیتا ہوں. .. وہاں کافی لڑکے کهڑے ہیں..."
وہ ازلی سنجیدگی سے بولا.....
"شکر ہے کچھ تو اس میں پاکستانیوں جیسا تها..".اس نے اپنی فرمائش بتائی اور وہیں اینٹوں والے راستے سے ہٹ کر گهاس والے پلاٹ میں آ کر بیٹھ گئی. .پانچ منٹ بعد جب وہ واپس آیا تو اس کے ہاتهوں میں برگر کے ساتھ ساتھ کوک کی کین بهی تهی.....
وہ کهڑی ہو گئی. ..اس نے مطلوبہ چیزیں اس کی طرف بڑهائیں اور جانے کے لیے مڑا.وہ برگر پا کر اتنی خوش تهی کہ اس سے پیسوں کا بھی نہیں پوچها....برگر بند پیکنگ میں تها اس نے غور سے پیکٹ کو الٹ پلٹ کر دیکها اور زور دار چیخ مار کر اس پیکٹ کو دور پهینک دیا. ...زور زور سے چلتا ہوا وہ شخص جاتے جاتے مڑا...اور آس پاس کچھ لوگوں نے بھی رک کر اسے دیکها.....
وہ تشویش سے اسے دیکهتے ہوئے اس کے پاس آیا...وہ اسے نہیں منہ کهولے نیچے پڑے پیکٹ کو دیکھ رہی تھی. .....
"What Happened. ..?"
وہ اس کے پاس آ چکا تھا. ....
"یہ...یہ....اس پیکٹ کے اوپر گدهے کی تصویر ہے." ...اس نے پیکٹ کو دیکها. ..اور غصے سے سر جهٹکا وہ جانے کیا کیا سوچ رہا تها. .....
" تو...."؟
" گدهے کا گوشت تو حرام ہے ناں.."؟ وہ اداسی سے بولی ...
"تو آپ سے کس نے کہا آپ گدهے کا گوشت کهاو..".وہ ضبط کے سارے ریکارڈ توڑتے ہوئے بولا.....
"اس برگر میں گدهے کا گوشت ہے ناں."...؟ وہ تقریباً رو دینے کو تهی.....
"اف کیا مصیبت ہے یہ لڑکی اسے پاگل کر دے گی." .
"وہ صرف لوگو بنا ہوا ہے ...اس برگر میں گوشت ہے ہی نہیں. ...".جانے وہ اس کم مغز لڑکی کو کیا سمجهانے کی کوشش کر رہا تها. ......
"نہیں میں پهر بھی اسے نہیں کها سکتی. ..آپ پلیز اسے چینج کر آئیں.."...اس نے پیکٹ اٹها کر اس کی طرف بڑهایا ..وہ بادل نخواستہ پیکٹ پکڑنے پر مجبور ہو گیا...اس نے یقیناً اس لمحے کو کوسا ہوگا جب اس نے اس لڑکی سے بات کی..پیکٹ پکڑ کر وہ ایک بار پھر سے کینٹین کی طرف گیا...آج کا دن اس کا خراب گزرنے والا تھا. ......
واپس آلو کے چپس اسے تھماتے ہوئے جب وہ مڑا تو ایک بار اس لڑکی نے اسے آواز دی. ..اس نے " اب کیا ہوا " والی نظروں سے اسے دیکها. .......
"تهینکس. ...کتنے پیسے ہیں. .."اس نے گہری سانس خارج کی. .....
' اٹس اوکے." ......
" نہیں پلیز لے لیں. "...اس نے اصرار کیا. ....
" میں لڑکیوں سے پیسے نہیں لیتا..'".
..کہہ کر وہ پهر سے مڑا تب آیت کو یاد آیا اس نے چپس کهانے کی تو آفر ہی نہیں کی اسے....
" کهائیں گے آپ.."...اس نے غصے سے مٹهیاں بهینچ لیں ..اور آیت نے بے اختیار اپنا نچلا ہونٹ دانتوں تلے دبایا...
" چپس. ."...وہ ڈرتے ہوئے بولی تهی اور اس نے پہلی بار اس انگریز نما انڈین لڑکے کو مسکراتے ہوئے دیکها...مسکراتے ہوئے وہ طوفان برپا کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا......
" تهینکس بٹ میرا روزہ ہے.".
"روزہ. "...؟ یہ کس مہینے کا روزہ تها...؟وہ حیران تهی...وہ پهر سے جانے لگا....
لیکن اسے ایک بار پھر سے رکنا پڑا کیونکہ اس لڑکی نے پهر سے اسے " سنیں " کہہ کر روک دیا......
"جی"......آج اس کا تحمل ریکارڈ توڑ دیتا. ....
" تهینکس." ...اور اسے وہ لڑکی پاگل لگی تهی....
" جتنی بار تهینکس بولنا ہیں بول دیں میں یہیں کهڑا ہوں ..لیکن اگر مڑنے کے بعد آپ نے آواز دی تو اچها نہیں ہوگا.....".وہ انگلی سے اسے وارن کرتا ہوا بولا ..
"نہیں یہ آخری بار تها. ."...وہ خجل سی ہوتے ہوئے بولی...
"ویسے آپ کو ایک بات بتاؤں. "...؟ اس نے غصے سے اس شخص کو دیکھا. ....
" آپ نہایت سڑیل ، کهڑوس قسم کے انسان ہیں..انگریزوں کے ساتھ رہ رہ کر آپ ان کے جیسے ہو گئے ہیں. .اور آئندہ اگر میں مر بھی جاؤں گی ناں تب بھی آپ سے مدد نہیں لوں گی."....غصے سے کہتی وہ پلٹی اور بنا پیچھے دیکهے آگے بڑهی جبکہ وہ وہیں برف بن گیا......
دل ہی دل میں اسے کوستی وہ دور نکل آئی. ..وہ کب سے اس کی بد اخلاقی کو برداشت کر رہی تهی لیکن آخر میں کام ہو جانے کے بعد اس نے مکمل بهڑاس نکال لی......اس نے سوچا وہ اس سے کهبی نہیں ملے گی لیکن اس بار اس کی سوچ غلط تهی.....
_ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _
"کیسی ہیں آپ امی" __
"میں بالکل ٹھیک"___
" میرا لنڈن بھی ایک دم زبردست ہے"____
اس نے چپس کو دانتوں سے کترتے ہوئے کہا اور کوک کی کین ہونٹوں سے لگایا...دن کا وقت تها وہ کمرے میں بیٹهی تهی باہر سٹوڈنٹس کا کافی شور تها. .آج وہ مما کو کال کرنے کا ارادہ کیے ہوئے تهی مگر انہوں نے اس سے پہلے ہی کال کیا....اور لندن جانے کر بهول جانے والا شکوہ کیا جو اکثر پاکستانی بیرون ملک جانے والوں سے کرتے ہیں اب وہ انہیں کیا بتاتی یہاں اتنے بڑے ملک میں انسان اپنے کو بھی بهول جائے ...
اچانک دهڑام سے دروازہ کھول کر کوئی اندر داخل ہوا. .کوک اس کے حلق میں ہی اٹک گئی وہ بری طرح کھانستی کهڑی ہوئی. .....
" او....او....اوکے مما میں آپ سے بعد میں بات کرتی ہوں ."...کہہ کر اس نے فون کٹ کر دیا اور سامنے کهڑے اس ہاتھی نما انسان کو دیکهنے لگی جو کسی بھی اینگل سے انسان نہیں لگتا تها اس سیاہ فام نے تو کہا تها افریقن لڑکا رہتا ہے مگر یہ تو انڈونیشیا کے گینڈوں جیسا تها....اف حد سے زیادہ کالا ، بڑے بڑے ہونٹ باہر نکلا ہوا پیٹ.....پاکستان میں ہوتا تو پاکستانی اسے آدم خور کا لقب ضرور دیتے......
وہ ڈرتے ہوئے کهڑی ہو گئی...وہ بھی مسکراتے ہوئے اسے دیکھ رہا تھا. ...اس نے فوراً زور سے آنکهیں میچ کر دعا کی کاش یہ کہیں غائب ہو جائے مگر آنکهیں کهولنے پر اسے احساس ہوا اس کی دعا قبول نہیں ہوئی. ....
" ہائے سویٹ ہارٹ...".وہ شاید مصافحے کے لیے یا گلے ملنے کے لیے آگے بڑها مگر اس نے سوئچ بورڈ سے لگا چارجز کهینچ کر اس کے منہ پہ دے مارا...اور چیخ مار کر بهاگتی ہوئی باہر نکلی.......
" جل تو جلال تو آئی بلا کو ٹال تو..."کا ورد کرتی وہ تین تین اسٹیپس ایک ساتھ پهلانگتی نیچے پہنچی. ..وہ کیا تها ہاتهی جیسا انسان یا انسان جیسی ہاتهی..اف کتنا بهیانک تها. ..اب وہ کیا کرے. ...وہ اس کے ساتھ کهبی بهی اپنا روم شئر نہیں کر سکتی یہ نا ممکن تها...لیکن اب تو کوئی اور راستہ بھی نہیں تها. ....
وہ رونے کو تیار کهڑی تهی آنسو کا بند کهبی بهی ٹوٹ سکتا تها لیکن وہ بہ مشکل ضبط کیے کهڑی تهی. .پرنسپل سے بات کرنے کا وہ سوچ بھی نہیں سکتی تهی رات والے واقع کے بعد ایک نئی فضول بات سن کر وہ تو اسے احمق سمجهیں گے. ..اور یہ بھی ہو سکتا ہے وہ اسے ایڈمیشن ہی نہ دیں...
" نہیں. ..نہیں. "...لیکن وہ اس کالے گینڈے کے ساتھ بھی نہیں رہ سکتی...بے بسی سے وہ آسمان کی طرف دیکهنے لگی یہاں تو وہ کسی کو جانتی بھی نہیں تهی جس سے مدد لیتی یا کچھ انفارمیشن....
اف یہ لندن جانے اور کتنے امتحان لے گی..ہر جگہ لڑکوں اور لڑکیوں کے گروپ کهڑے نظر آ رہے تهے وہ بے دھیانی سے چلتی ہوئی آگے بڑھ رہی تهی. .جانے کہاں جا رہی تهی. ....
تب اسے وہ مسلمان لڑکا یاد آیا جس سے وہ کچھ دیر پہلے ملی تھی لیکن وہ ...وہ اب اسے کہاں ملے گا اور اس کے ساتھ تو وہ خود ہی بدتمیزی کر کے آئی تهی کیا معلوم تھا جو اگلے کچھ ہی گهنٹوں میں اسے اس لڑکے کی ضرورت پهر سے پڑنے والی ہے. ..
ٹهیک ہے وہ اس سے اپنی بدتمیزی کے لیے معافی مانگ لے گی لیکن اب وہ ملے گا کہاں یہ کوئی پچاس گز کا سکول نہیں تها لندن کی بڑی یونیورسٹی...جہاں انسان چیونٹیوں کی طرح نظر آ رہے تهے وہاں ایک مخصوص لڑکے کو ڈهونڈنا مشکل نہیں نا ممکن تھا. اور اوپر سے وہ اس کا نام تک بھی نہیں جانتی تھی کاش اس وقت وہ اس سے اس کا نام پوچھ لیتی یا اس سے نمبر ہی لے لیتی....وہ جتنا بھی غصے والا سیڑیل کیوں نہ ہوتا تها تو ایک مسلمان ناں...؟ اس کا ہم مذہب وہ کچھ نہ کچھ تو ضرور کرتا.......
کتنا غیرت مند نظر آ رہا تها وہ .اس نے تو اسے کینٹین جانے سے بھی یہ کہہ کر منع کر دیا کہ وہاں لڑکے کهڑے ہیں تو اس معاملے میں بھی وہ اس کی مدد ضرور کرتا...
وہ احمقوں کی طرح ادهر ادهر دیکهتی واپس صبح والے راستے پر جا رہی تهی جانتی تھی یہ حماقت کے سوا کچھ نہیں مگر ایک بار دیکھنے میں حرج بھی تو نہیں تها. ...وہ اسی درخت کے پاس چلی آئی جس کے پاس وہ بازو ٹکائے کهڑا تها مگر اب وہ درخت اس کا منہ چڑا رہا تها. ...
سورج سر پہ آ چکا تھا...دسمبر کے باوجود بھی دهوپ میں ہلکی سی تپش ضرور تهی جو اسے اس وقت محسوس نہیں ہو رہی تهی. ..کچھ چلتے ہوئے وہ مزید آگے آئی جہاں صبح اس نے چپس لے کر دیا تها. .وہ جگہ بھی وہی تها وہ گهاس صرف وہی نہیں تها...جانے کہاں تها ........
وہ اسے ہر جگہ ڈهونڈ رہی تهی یونیورسٹی کے کونے کونے میں. ..اور ایک بار اس نے حماقت کی انتہا کرتے ہوئے ایک لڑکی سے جا کر پوچها صبح یہاں جو لیدر کی جیکٹ والا لڑکا کهڑا تها اس کا نام معلوم ہے آپ کو...
اس لڑکی نے جواب تو کیا دینا تها وہ اسے ملامت بهری نگاہوں سے دیکهتی ہوئی وہاں سے چلی گئی. ..
وہ افسردہ چہرہ لیے واپس ہوسٹل کی سیڑهیوں تک آئی لیکن سیڑهیوں پر موجود اس لڑکے کو دیکھ کر وہ ٹهٹک کر رک گئی. ..چٹکی کاٹ کر دیکها وہ وہی تها آنکهیں مسل کر دیکها ہاں وہ واقعی وہی تها....
وہ آس پاس سے بے نیاز کسی سے فون پہ بات کر رہا تها...وہ دوڑتی ہوئی اس کے پاس گئی.....
" یہاں کیا کر رہے ہیں آپ.."؟جاتے ہی اس کی بے ربطگی شروع ہو گئی ...اس نے چونک کر اسے دیکها پهر آیت نے اس کی آنکھوں کو بڑا ہوتے ہوئے دیکها...وہ بهول چکی تهی صبح اس نے کتنی بدتمیزی کی مگر یہ بات وہ بهی بهول چکا ہو ایسا ضروری نہیں تها.....
"آئی ول کال یو لیٹر. ..."اس نے فون کانوں سے ہٹایا اور کهڑا ہو گیا. ..
"تو مجهے کہاں ہونا چاہیے تها. "..؟ اب وہ پوری طرح اس کی طرف متوجہ تها.....
"نہیں مطلب میں آپ کو کب سے ڈهونڈ رہی تهی." ...اس سے بات نہیں بن پائی....
"اور آپ مجهے کیوں ڈهونڈ رہی تهیں.".. وہ ہاتھ سینے پہ باندھ کر پوچهنے لگا. ...
"وہ ...وہ...مجهے آپ کی مدد چاہیے تهی.."...اس نے جهجکتے ہوئے کہا.....
"اور آپ کو ایسا کیوں لگا میں آپ کی مدد کروں گا."..اگر وہ غصہ تها بھی تب بھی اس کی باتوں سے ظاہر نہیں ہو رہا تها. ..چہرے پہ دنیا بهر کی سنجیدگی سجائے وہ بڑی رکھائی سے بات کر رہا تها...
"کیونکہ آپ نے صبح میری مدد کی تھی. ."...
" وہ میری سب سے بڑی غلطی تهی.."...
وہ جانے کے لیے مڑا اور وہ اس کے پیچھے ایسے بهاگی جیسے کوئی ہاتھ آیا خزانہ اس سے دور جا رہا ہو.....
" تو ایک بار پھر سے وہی غلطی کریں...".وہ معصومیت کی انتہا کو پہنچ چکی تھی. ...
" میں ایک غلطی بار بار نہیں کرتا"....ضبط.. ضبط... ضبط. اس وقت وہ روزے کے ساتھ یہی کر رہا تها...
مجهے آپ کی تهوڑی ہیلپ چاہیے ....وہ اس کے برابر چلنے کی کوشش کر رہی تهی....
" لیکن مجهے آپ کی ہیلپ کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے" .....وہ کون سی بات کہاں جتا رہا تها.....
" کیا آپ ایک مجبور مسافر لڑکی کی زرا بھی مدد نہیں کریں گے..."..وہ رونے والی تهی.....
" مجهے ایسا کوئی شوق نہیں ہے. ..".جواب اسی نے نیازی سے دیا گیا. ..سامنے والے کو اس سے زرا بھی ہمدردی نہیں تهی.....
" آپ نے اتنا سارا پڑھ کر یہی سیکها ہے"....؟ ازلی پاکستانی فارمولا. ....
"نہیں لیکن میں نے کچھوے اور بچهو والی کہانی ضرور پڑهی تهی.".. ...
"وہ شاید کچھوے اور خرگوش والی کہانی تهی"...اس نے تصیح کرنا ضروری سمجها....
" نہیں کچهوا اور بچهو..."...
" یہ کس کورس بک میں تهی....".؟ اس تجسس ہوا ...
"جہاں سے میں نے پڑها."....اس کے سر میں درد ہونے لگا جیسے صبح ہوا تها. ....
"آپ نے کہاں سے پڑها ..".؟ وہ اصل موضوع سے نکل کر کہیں اور پہنچ گئی. .. .
"جہاں سے مجهے پڑهایا گیا....".. اگر برداشت کرنے کا کوئی ایوارڈ ہوتا تو وہ یقیناً اسے ہی ملتا....
"لیکن میں نے تو کہیں نہیں پڑها. ..".؟اسے افسوس ہوا...
" تو میں کیا کروں." ...؟
" کیا اس کہانی میں کچهوا اور بچهو ریس لگاتے ہیں." .؟ عقل کا تهوڑا بہت غلط استعمال کرتے ہوئے وہ بولی. .
وہ تیز تیز چلتے اچانک رک گیا اور ایک ناگوار سی نگاہ سے مخاطب کو دیکها. ...
"نہیں. ..اگر آپ کہیں تو میں آپ کو کل وہ کہانی لکھ کر دوں گا لیکن میرا پیچھا کرنا بند کریں".....اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا. ....
اور اس کے ساتھ ہی آیت کو یاد آیا وہ اس کے پاس کچهوا اور بچهو والی کہانی سننے نہیں کسی اور کام کے لیے آئی تهی کسی بہت ضروری کام کے لیے. ..
" تو آپ میری مدد نہیں کریں گے. ..؟" وہ دهمکی دینے والے انداز میں بولی....
"بالکل نہیں." ..وہ ایک بار پھر تیز چلنے لگا..دهمکی کا بھی اس پہ اثر نہیں ہوا ..وہ ایک دم نرم پڑ گئی اور آگے بڑھ کر کمال کی بے تکلفی سے اس کا ہاتھ پکڑ لیا. ..وہ جہاں شاکڈ تها وہیں اس لڑکی کی دیدہ دلیری پہ حیران بھی تها..اس نے اپنے ہاتھ کو دیکها جسے اس نے کافی مضبوطی سے پکڑ رکها تها. ....اس کی آنکھوں سے سیلاب جاری ہو گیا. .وہ مزید اپنے آنسو روک نہیں سکی....اور پهوٹ پهوٹ کر رو پڑی. ..
"میں کہاں جاؤں. ..کیا کروں. ..؟ یہاں کوئی میری مدد نہیں کرتا ...؟ میں کسی کو جانتی بھی نہیں." وہ دونوں ہاتھوں سے چہرہ چهپا کر سسک پڑی....
اور اس کے لیے یہ بالکل نئی سچویشن تهی لڑکیوں کو روتا ہوا دیکھ کر اسے الجهن ہونے لگتی...وہ کئی پل اسے دیکهے گیا اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تها اسے کیسے چپ کرائے....
"اوکے..اوکے....آپ کو جو بھی ہیلپ چاہیے میں کروں گا..لیکن رونا بند کر دیں". ..اس نے دوپٹے سے اپنی سرخ ناک اور آنکهوں کو صاف کیا. ....
اور اسے شروع سے لے کر آخر تک ساری رواد سنائی. وہ خاموشی سے اسے سنتا رہا جب وہ خاموش ہوئی تب وہ صرف اتنا بولا.....
" نو پرابلم وہ لڑکا آج کے بعد آپ کے روم میں نہیں آئے گا."...آیت کو لگا وہ مذاق کر رہا ہے یا ٹالنے کی کوشش کر رہا ہے. ....اس نے بے یقینی سے اس کی آنکهوں میں دیکها.....
"بولا ناں نہیں آئے گا"...وہ اس کی بے یقینی پڑھ چکا تها
.جب وہ جانے کے لیے مڑا تو پیچھے سے اس نے آواز دی..وہ جنجھلا کر پلٹا....
" آپ کا نام کیا ہے..."؟ جو سوال اسے سب سے پہلے پوچهنا چاہیے تھا وہ اب پوچھ رہی تھی. ..
" انوشیر رضا..."..وہ اب بھی سنجیدہ تها...
اور ایک بار پھر جاتے جاتے اسے پیچھے مڑنا پڑا کیونکہ اس لڑکی نے ایک بار پھر اسے آواز دے کر روک دیا. ..
" سوری اینڈ تهینکس. .."وہ آنکهوں کو رگڑتے ہوئے بولی...

" کچھ اور کہنا ہے. ..؟ کهڑوس...؟ سڑیل...؟ یا انگریز. "..؟ وہ نم آنکھوں کے باوجود مسکرا دی اور وہ ایک نے تاثر نگاہ اس پہ ڈال کر وہاں سے چلا گیا. ...آدهے گهنٹے تک وہ یونہی یونیورسٹی میں چکر لگاتی رہی پهر جب وہ کمرے میں پہنچی تو وہ افریقن اپنا بیگ اٹهائے باہر نکل رہا تھا. ..اس دروازے پہ دیکھ کر ایک کچا چبا جانے والی نظر اس نے آیت پہ ڈالی اور وہ بوکهلا گئی...سمجھ نہیں سکی غصہ وہ کمرے سے نکال دیے جانے پہ ہے یا چارجر منہ پر مارنے سے..بہرحال اس کے جانے کے بعد اس نے سکون کا سانس لیا ..یہ سب کتنی آسانی سے ہو گیا جانے انوشیر نے کیا کیا ہوگا ...بہرحال وہ اس کی مشکور تهی اور اس سے شرمندہ بھی...اب یہ کمرہ صرف اسی کا تها......لیکن اس کی یہ خوشی فہمی یوں غلط ثابت ہوئی شام کو وقت ایک انڈین پوجا نامی لڑکی کمرے میں آ گئی..جو بهی تهی خیر وہ لڑکی تو تهی ...
انوشیر سے وہ اس کے بعد بھی دو بار ملی ..اور ہر بار صرف مدد کے لیے ہی ملی اب وہ بنا کسی اعتراض کے اس کی مدد کرتا تها...یہ ان آنسو کا اثر تھا شاید..لیکن مدد کے علاوہ وہ کوئی بات نہیں کرتا تها ...پتا نہیں وہ لڑکیوں سے اتنا دور کیوں بهاگتا تها..
اور ان کچھ ہی ملاقاتوں میں آیت نے جان لیا وہ کافی مذہبی ہے اسلام اور اللہ سے بہت محبت کرنے والا....
_ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _
جنت تیزی سے بهاگتی ہوئی گهر میں داخل ہوئی دهڑکن ابهی تک بے قابو تهی. .اس انسان کا چہرہ بار بار آنکھوں کے سامنے آ رہا تها وہ اسے ذہن سے جهٹکنا چاہتی تهی لیکن وہ ایسا نہیں کر پا رہی تهی اس کے علاوہ ذہن میں کچھ تها ہی نہیں. .....
آنکهیں کهولنے پر بھی اسے وہی نظر آ رہا تها اور بند کرنے پر بھی وہی چہرہ...
اس نے ماتهے کو چهو کر دیکها جہاں پسینہ ہی پسینہ تها ..تیز تیز بهاگنے کی وجہ اس کا سانس پهولا ہوا تها. .گهر کے دروازے پہ ٹیک لگا کر وہ کهڑی تهی سبهی گهر والے اتنی سردی میں اندر آگ جلائے بیٹهے ہوں گے کسی کو نہیں معلوم باہر جنت کے ساتھ کیا ہو رہا ہے کسی کو تو کیا اسے خود بھی نہیں معلوم تها یہ کیا ہو رہا تها. .....
بس وہ بار بار درود پاک کا ورد کر کے اپنے اوپر پهونک رہی تهی اور اللہ سے دعا کر رہی تهی مجهے گمراہ ہونے سے بچائیں...وہ بڑی دیر تک دروازے کے ساتھ کهڑی رہی .....اور پهر اس کے پاوں تهکاوٹ کی وجہ سے شل ہو گئے وہ وہیں لکڑی کے دروازے کے پاس ہی بیٹھ گئی. ..چہرے پہ کئی خوفناک تاثرات تهے...
ڈر کے گهبراہٹ کے وحشت کے....آنسو کا ایک ریلا جو آنکھوں سے رواں تها ..وہ تب چونکی جب اس کے پاس گڑیا آ کر اسے جهنجوڑنے لگی......
" جنت بوا کیا ہوا آپ کو...."؟ اس نے تشویش سے اسے دیکهتے ہوئے پوچها ...وہ کچھ سن کیوں نہیں پا رہی تهی وہ بس گڑیا کے ہونٹ ہلتے ہوئے دیکھ رہی تھی اور پھر گڑیا کا چہرہ تحلیل ہو گیا اس میں ایک نیا چہرہ ابهر آیا...کچھ جانی پہچانی سی آنکهیں ، کچھ مانوس سے ہونٹ....وہ جهٹکا کها کر اٹهی اور جا کر وضو کرنے لگی.....
گڑیا کچھ سمجھ نہیں سکی اور انہیں ان کے حال پہ چهوڑ کر وہ آم کے درخت سے بندھے جهولے سے جهولنے لگی.......
وضو کرنے کے بعد وہ قرآن پاک باہر لے آئی اور کهلے آسمان تلے چار پائی پر بیٹھ کر زور زور سے تلاوت شروع کر دی...اس کی آواز بهرائی ہوئی تهی وہ بار بار آنسو کو پیچھے دھکیل رہی تهی. ...تلاوت کرتے ہوئے بهی بار بار اس کا ذہن اس شخص کی طرف جا رہا تها قرآن پاک کے الفاظ میں بھی وہی ایک چہرہ نظر آ رہا تها یہ کیسی بے بسی تهی کتنی بے چارگی کا عالم تھا. .اسے اپنی مدد پہ پہلی بار افسوس ہوا کاش وہ اس کی آنکھوں میں نہ دیکهتی کهبی یا . .یا پھر وہ اس کی مدد کے لیے ہی نہ جاتی....
لیکن اب کیا ہو سکتا تها جو ہونا تھا وہ ہو چکا تها. ..اسے یقین تھا وہ اس چہرے کو بهلا دے گی مگر اس کا یقین بہت جلد ہی ہوا میں اڑنے والا تھا. قرآن پاک کی تلاوت بھی اس سے نہیں ہو سکی الفاظ آنکهوں سے دور ہوتے جا رہے تھے اور ایک تصویر قریب سے قریب تر آتی جا رہی تهی. ......
شام کے وقت سبهی گهر والوں کو تشویش ہوئی اور تشویش ہونا لازمی تها اس کی شکل ہی ایسی بنی ہوئی تھی ..چہرہ سرخ تها اور وہ بات کرتے کرتے اچانک کہیں کهو جاتی...دادی اپنے پرانے خیالات کو برقرار رکھتے ہوئے کہنے لگلگیں ضرور میری بچی سے کوئی بهوت چپٹ گیا ہے. ..ہاں واقعی کوئی بهوت ہی تها جو اس کے پیچھے پڑا تها...
بهابهی نے کہا وہ ساری ساری رات جاگ کر نوافل ادا کرتی ہے اور تسبیح پڑهتی ہے اور دن کو بھی اکثر وقت قرآن پاک کی تلاوت کرتی ہے اس وجہ سے اس کی یہ حالت ہوئی ہے اب وہ کیا کہتی اس نے زندگی میں پہلی بار قرآن پاک کی تلاوت ادهوری چهوڑ دی....
بنا کسی وجہ کے. ...اور یہی حال اس کا رات کو تها ..کهانا کهانا تو دور وہ پانی کا ایک گهونٹ بهی حلق سا ناں انڈیل سکی ..کچی عمر کی کچی پهول تهی اور پل بهر میں ٹوٹ گئی..وجود ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا. .سوچا نہ تها کهبی یہ ہوگا...
چاند کو دیکهتے ہوئے وہ بار اس میں کسی کا عکس ڈھونڈتی رہی..چاند اسے ہمیشہ ہی خوبصورت نظر آتا مگر پہلی بار اسے چاند کو خوبصورت نہیں لگ رہا تها چاند میں جو ایک تصویر تهی وہی خوبصورت تهی بس دنیا کی ہر شے سے زیادہ. .....
وہ بهاگتی ہوئی آئی تهی وہاں سے خود کو بچانے کے لیے مگر وہ کہاں بچ سکی جس سے بهاگ رہی تهی وہ اس کے پیچھے پیچھے چلا آیا..اس کی سانسوں کے ساتھ. .وہ آئی تهی مگر وہ نہیں آئی تھی اس کا صرف جسم لوٹ آیا تها...روح اور دل وہ کہاں رہ گئے. ..؟
وہ ان کو کہاں چهوڑ آئی .اسی پہاڑی پہ وہیں کہیں. ..؟ جہاں وہ خود کو چهوڑ آئی تهی وہ موڑ تو بہت پیچھے رہ گیا پهر وہ بار بار کیوں سوچ رہی تهی. ....
آنکهیں اتنی پیاسی کیوں تهیں...دل اداس کیوں تها کچھ اچها کیوں نہیں لگ رہا تها. .ہر منظر واضح کیوں نہیں تها. ..اور وقت وہ کیوں اتنا آگے نکل گیا وہ صبح تهی اور اب رات....وہ سماں کچھ اور تها اور یہ کچھ اور. ..اس کے دل میں اچانک یہ خواہش کیوں ابهری وقت رک جاتا اور پیچھے لوٹ جاتا...چند گهنٹے واپس پیچھے چلا جاتا اور پھر. ..پهر کیا ہوتا. ....؟
" یا اللہ یہ مجهے کیا ہو رہا ہے میں کیوں اس کے بارے میں اتنا سوچ رہی ہوں." ...اس نے دل کے سامنے ہاتھ جوڑ دیے اور دل یوں ہنسا جیسے چهوٹے بچے کی بات پہ ہنسا جاتا ہے ....دل نے اس قید کر لیا وہ دل کی قیدی بن گئی اور جو دل کے قیدی ہوتے ہیں وہ تو اپنے آپ میں بھی نہیں رہتے......
اس رات سردی اتنی تهی کہ ہڈیوں کے اندر گهسی چلی جاتی ..ایک تو دسمبر کا مہینہ تھا اور اوپر سے برفانی علاقہ تو سردی عروج پر پہنچ چکی تهی مگر اس نے اپنے ہاتهوں کو دیکها وہ سردی کیوں محسوس نہیں کر رہی تهی....
اس نے جائے نماز بچها کر نوافل ادا کئے مگر اس کا دهیان وہاں بھی نہیں تها. ...وہ اللہ کی یاد سے بھی غافل ہو رہی تهی کس کے لیے ایک مرد کے لیے جس سے وہ صرف ایک بار ملی ایک لمحے کے لیے اس کی آنکھوں میں دیکها اور ایک لمحے کی خطا کے بدلے دل نے اسے کہاں سے کہاں پہنچا دیا. ......وہ روتی آنسو بہاتی سجدے میں پڑی اللہ تعالیٰ سے اپنے لیے رحم مانگ رہی تھی. .صراط مستقیم مانگ رہی تھی. .
اس کے باوجود بھی اس چہرے نے اس کا پیچھا نہیں چهوڑا ..وہ کوئی آسیب تها جو اس سے چپٹ گیا...کمرے میں انگهیٹی جل رہی تھی وہ انگهیٹی کے پاس آئی....ایک انگارہ نکال کر اس نے اپنی ہتھیلی پر رکھا اور اپنے آپ سے پوچها....؟
" جب میں یہ آگ برداشت نہیں کر سکتی تو جہنم کی آگ کیسے برداشت کروں گی.."...
_ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _
وہ پورے ایک ہفتے تک پهر سے لکڑیاں کاٹنے نہیں گئی..لیکن پورے ہفتے میں ایک لمحہ بھی ایسا نہیں آیا جب اسے وہ نہ یاد آیا ہو. ...؟ اسے خوش فہمی تهی وہ آہستہ آہستہ اس کی یاد سے پیچھا چهڑا لے گی لیکن یہ صرف ایک خوش فہمی کے علاوہ کچھ نہ تھا. ..
وہ چلتے چلتے رک جاتی بیٹهے بیٹهے کهو جاتی کهانا کهاتے ہوئے کہیں اور پہنچ جاتی.........
ایک بار تو حد ہی ہو گئی وہ سب کے ساتھ بیٹهی کهانا کها رہی تهی جب روٹی کا ٹکڑا سالن میں ڈبونے کی بجائے پانی میں ڈبو کر منہ میں ڈالنے لگی اسے ہوش تب آیا جب رام گڑیا اور عروج کے قہقہے گونج اٹهے...باقی گهر والے بھی مسکراہٹ چهپا رہے تهے. .وہ خود بھی بری طرح جهنپ گئی ....
تینوں بچے کافی دیر تک ہنستے رہے..اور وہ ان سے نگاہیں نہیں ملا سکی....دادی کہتی تهی میری بیٹی پاگل ہو گئی ہے. ..سہی تو کہتی تهیں وہ پاگل ہی تو ہو گئی تهی وہ البیلی. ...
اس کی یاد کے باوجود وہ نماز قرآن سے غافل نہیں ہوئی توجہ ہوتی یا نہ لیکن وہ فرض ضرور ادا کرتی.
" تیری یاد دے وچ سجنڑاں اسی اپنے آپ نوں بهلا دتا___تیرا جادو ایسا چلیا میرے تے میں زہر نوں چاہ کے آپ پیتا_____"
زندگی میں ایک سٹیج ایسا ہوتا ہے جو کوئی اور تو کیا انسان خود بھی کهبی سمجھ نہیں پاتا اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے وہ اپنے آپ سے بھی دور دور رہنے لگتا ہے. ..بادل ایک بار پھر آسمان پر قبضہ جمانے آ گئے. ..گڑیا کو ہمیشہ اعتراض رہتا یہ بادل ہمارے علاقے میں ہی کیوں آتے ہیں دور کیوں نہیں جاتے. ..تب وہ اسے بڑی محبت سے سمجهاتی بارش اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے وہ بارش برساتا ہے تبهی فصلیں اور درخت سرسبز ہوتے ہیں .......
" کیا اللہ میاں زمین کو نہلاتا ہے.."..وہ معصومیت سے پوچهتی . جنت مسکرا دیتی اس کی عمر اتنی نہیں تهی جو وہ اس سے لمبی چوڑی بحث کرتی اس لیے سر اثبات میں ہلا دیتی لیکن اس کے برعکس رام اس کی باتیں جلدی سمجھ جاتا ...شاید وہ ذہین تها یا پھر وہ توجہ سے سنتا یا اس لیے کیونکہ وہ لڑکا تها لیکن اس نے کهبی اس بات پہ غور نہیں کیا. ...وہ صرف سمجهتا نہیں تها وہ مانتا بھی تها ...لاکھ شرارتی سہی لیکن جنت کی بات اس کے لیے پتهر کی لکیر ہوتی ..عروج بھی زیادہ چوں چراں نہیں کرتی تهی بس گڑیا کو کهبی کهبی اعتراض ہوتے.......
" اللہ تعالیٰ نے مجهے سکول میں فرسٹ پوزیشن کیوں نہیں دی...."تب وہ اس کے گالوں پہ ہاتھ رکھ کر کہتی " ضرور تم نے محنت نہیں کی ہوگی.."..
جس پہ وہ منہ بسور کر کہتی "لیکن میں نے دعا تو کی تهی ناں...."؟
"تم نے صرف دعا کی ہوگی اور کسی نے دعا کے ساتھ ساتھ محنت بھی کی ہوگی تو یقیناً اسی کی دعا قبول ہوتی ناں...."؟ گڑیا کو اس کی بات سمجھ میں نہیں آتی....اکثر اسے سمجهاتے ہوئے وہ کئی کئی مختصر مثالیں بناتی.....تب رام کہتا "یہ تو ہے ہی پاگل جنت بوا مجهے سمجهاو " اور وہ خفگی سے رام کو گهور کر کہتی. ..." بلی جیسی آنکھوں والے دفعہ ہو جاو یہ میری بوا ہے تمہاری کیا لگتی ہے" تب رام اداسی سے اسے دیکهتا اور پوچهتا وہ اس کی کیا لگتی ہے تب وہ اس کے گالوں کی چٹکی کاٹ کر کہتی میں تمہاری دوست ہوں تمہاری آپی.....وہ پهر سے خوش ہو کر گڑیا کو چڑانے لگتا ........
اس علاقے میں دن کو بھی اکثر اندهیرے کا سماں ہوتا کیونکہ سورج کے عین سامنے کالے بادل آ کر کهڑے ہو جاتے تهے......اور یہی حال اس دن بھی تها وہ لکڑیاں کاٹنے کے بارے میں سوچ رہی تھی لیکن سورج بھی لکا چهپی کهیل رہا تها. ...مگر اس کے باوجود اس نے ارادہ ملتوی نہیں کیا.....
سفید چادر نما شال کو اپنے گرد اچهی طرح لپیٹ لیا. .سر کو بھی اسکارف سے چهپا لیا. ...
وہ لڑکا جو بھی تها اس کے بارے میں وہ یہ سوچ کر نکلی تهی وہ ایک سیاح تها جو محض سیر و تفریح کے لیے آیا ہوگا اور واپس چلا گیا ہوگا ...عموماً چار پانچ دن سے وہ رہتے نہیں تهے.......
کلہاڑی رسی اور گڑیا کی انگلی تهام کر وہ باہر نکلی...آج اس کے ساتھ چلنے کے لئے صرف گڑیا ہی تهی رام اور اس کی کسی بات پہ لڑائی ہوئی تھی جو ہمیشہ ہوتی رہتی تھی اس لیے وہ ساتھ چلنے سے انکار کر چکا تها اور عروج کو تهوڑا ہوم ورک کرنا تها اس لیے وہ گڑیا کو ساتهی بنا چکی تهی. .........
[ دسمبر لوٹ آنا تم تحریر ناصر حسین]
برف کی تہہ کافی حد تک اوپر آ چکی تھی گڑیا کو برف پہ چلنا ہمیشہ مشکل لگتا .اس کی زبان پہ ہر وقت یہی شکوہ رہتا برف دوسری طرف کیوں نہیں پڑتی تب وہ اس سے کہتی "کیونکہ اللہ تعالیٰ ہم سے بہت محبت کرتے ہیں اور دوسرے لوگ پیسے دے کر سفر کر کے ہمارے علاقے میں برف دیکهنے آتے ہیں جبکہ ہم بنا پیسوں کے ہی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے فیض یاب ہو رہے ہیں " وہ پل بهر کے لیے مسکاتی...
" جنت بوا اللہ کہاں ہے. .."؟ اس نے چلتے چلتے اچانک پوچها.....
" اللہ آسمانوں کے اوپر ہے اور تمہارے بالکل پاس..".
"تو مجهے نظر کیوں نہیں آتا..".؟ وہ حیران ہو کر پوچهنے لگی.....
" تمہیں معلوم ہے تمہارے جسم کے اندر ایک دل ہے جس کے ذریعے تم زندہ ہو ..اگر وہ نہ ہو تو تم مر جاو گی ...وہ پورے جسم میں خون کو کنٹرول کرتا ہے لیکن تم اسے دیکھ نہیں سکتی....مگر اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ دل ہے ہی نہیں. اسی طرح تم سورج کو نہیں دیکھ سکتیں کهبی کیونکہ تمہاری آنکهیں چدهیا جائیں گی جب تم سورج کو نہیں دیکھ سکتیں تو سورج بنانے والا تمہیں کیسے نظر آئے گا لیکن تم اس سے ملو گی تم اسے دیکهو گی ہر انسان اسے دیکهے گا لیکن مرنے کے بعد....اور اللہ تعالیٰ تو کر جگہ موجود ہیں ان پہاڑوں میں ان درختوں میں. .یہ سب اللہ تعالیٰ کی تخلیق کی ہوئی نعمتیں ہیں. .."....اس نے ہمیشہ کی طرح پیار سے اسے سمجهایا......
"اوکے میں سمجھ گئی...اچها یہ بتاو اللہ تعالیٰ نے ہمیں کیوں پیدا کیا. ..؟" اس نے ایک اور سوال پوچها....
"اپنی عبادت کے لئے. ...."
"لیکن دادی تو کہتی ہے تم منحوسیت پهیلانے کے لیے پیدا ہوئی ہو. ...."وہ منہ بنا کر خفگی سے بولی جنت مسکرا دی....
"وہ تو یوں ہی کہتی ہیں. ..ہم سب عبادت کے لئے بنائے گئے ہیں...جس طرح تم سکول جاتی پهر ہوم ورک کرتی ہو اور اس کے بعد ایگزامز دیتی ہو ...بالکل ویسے ہی اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہوم ورک کے لیے بهیجا ہے اور ہم اس وقت ایگزامینشن ہال میں ہیں...."..
"لیکن ہم تو برف کے اوپر چل رہے ہیں .."..وہ شرات کے ساتھ بولی.....
"اف اللہ. ..میں صرف مثال دے رہی ہوں پگلی...".
"اور اس امتحان کا رزلٹ کب آئے گا..."... ؟

"روز محشر. .."..گڑیا ایک بهی بات نہیں سمجھ سکی اور باقی کا راستہ خاموشی سے ادهر ادهر دیکهتے ہوئے چلنے لگی........
جنت کے ذہن میں جو تهوڑے بہت خیال آ رہے تھے وہ انہیں جهٹکنے کی کوشش کر رہی تهی مگر وہ اس کوشش میں بری طرح ناکام ہو رہی تهی. .پرندے ہمیشہ کی طرح آسمان کے اوپر ڈیرہ ڈالے ہوئے تهے ..اچانک چلتے چلتے ایک ڈهلوان راستے پہ گڑیا گر گئی.جنت نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ منہ کے بل برف کے اوپر پڑی ہوئی تھی. .......
"جنت بوا پلیز اپنا ہاتھ دیں مجهے. ..".اس نے جیسے التجا کی لیکن جنت بے نیازی سے ہاتھ باندھ کر کهڑی ہو گئی. ...
"خود اٹهنے کی کوشش کرو...".. گڑیا کو اس پہ غصہ آیا یہ کون سا موقع تها یہ سب کرنے کا. ...
"میں نہیں اٹھ سکتی..."..وہ رونے والی تهی حالانکہ اس نے اٹهنے کی کوشش ہی نہیں کی......
"تم اٹھ سکتی ہو گڑیا ...بس کوشش کرو ساری زندگی دوسروں پہ منحصر مت رہا کرو کیونکہ کوئی تمہارا ساتھ ہمیشہ نہیں نبهائے گا ساری زندگی تونے اکیلے گزارنی ہے تو کسی اور کا سہارا لینے سے بہتر ہے خود اپنا سہارا بنو."........
اس وقت اسے جنت کی فلاسفی سے چڑ ہونے لگی اور کوشش کر کے وہ کهڑی ہونے میں کامیاب ہو گئی.
ان دونوں نے ایک بار پھر اپنا سفر شروع کیا پهر گڑیا کو ہی ایک جگہ سوکھی لڑکی کا درخت نظر آ گیا اور وہ وہیں اس طرف مڑے......
رسی ایک طرف رکھ کر اس نے کلہاڑی اٹهائی ..گڑیا تب تک برف کا گهر بنانے لگی. ..بادل پہلے کی نسبت کم ہو چکے تهے لیکن سردی کا زور ویسے ہی برقرار تها....
وہ پورے انہماک سے لکڑیاں کاٹنے میں مصروف ہو گئی. .جب سکینڈ کے ہزارویں حصے میں اسے محسوس ہوا جیسے اس کے پیچھے کوئی کهڑا ہے تیزی سے گردن گهما کر دیکهنے پہ وہ پتهر ہو گئی جیسے ایک ہفتہ پہلے ہوئی تھی. .....
سامنے نظر آتے منظر پہ یقین مشکل تها لیکن نا ممکن نہیں. .وہ اسے اتنی بار دیکھ چکی تهی اب جب حقیقت میں وہ اس کے سامنے تها تو اسے وہ بھی وہم ہی لگ رہا تها. ...وہ سانس لینا بھی بهول گئی دونوں کی نگاہیں ایک دوسرے کا طواف کر رہی تهیں..
. رسی ایک طرف رکھ کر اس نے کلہاڑی اٹهائی ..گڑیا تب تک برف کا گهر بنانے لگی. ..بادل پہلے کی نسبت کم ہو چکے تهے لیکن سردی کا زور ویسے ہی برقرار تها....
وہ پورے انہماک سے لکڑیاں کاٹنے میں مصروف ہو گئی. .جب سکینڈ کے ہزارویں حصے میں اسے محسوس ہوا جیسے اس کے پیچھے کوئی کهڑا ہے تیزی سے گردن گهما کر دیکهنے پہ وہ پتهر ہو گئی جیسے ایک ہفتہ پہلے ہوئی تھی. .....
سامنے نظر آتے منظر پہ یقین مشکل تها لیکن نا ممکن نہیں. .وہ اسے اتنی بار دیکھ چکی تهی اب جب حقیقت میں وہ اس کے سامنے تها تو اسے وہ بھی وہم ہی لگ رہا تها. ...وہ سانس لینا بھی بهول گئی دونوں کی نگاہیں ایک دوسرے کا طواف کر رہی تهیں..
جسم کے اندر کچھ تها جو اپنی نارمل رفتار میں نہیں تها..یا اللہ یہ کوئی خواب تها کوئی حسین خواب جسے وہ چهو کر دیکهتی تو تحلیل ہو جاتا مگر وہ اس طرح یوں یہاں. ...
پهر اسے یاد آیا اس کا چہرہ کهلا ہے اس نے شال کو انگلی کے ذریعے منہ پہ لپیٹا اور اسے مکمل طور پر نظر انداز کرتی بیٹھ کر رسی کو یوں ہی خواہ مخواہ بنانے لگی اس کے ہاتھ بری طرح کانپ رہا تھے بہت جلد ہی اسے احساس ہوا ہاتھ سردی کی وجہ سے نہیں کسی اور وجہ سے کانپ رہے ہیں اور وہ بھی ہاتھ باندھ کر جیسے اس کی گهبراہٹ کو انجوائے کر رہا تها. ....
اسلام و علیکم. .....وہ کتنی دیر بعد بولا اور تب اسے محسوس ہوا وہ کوئی خواب نہیں. .تصویر خواب ہو سکتی ہے لیکن آواز. ..؟ وہ آواز جو اس کے کانوں میں قید ہو چکی تهی ...اور وہ سلام کا جواب دینا چاہ رہی تھی اسے نے منہ کهولا ہونٹ ہلائے مگر آواز کیوں اٹک گئی تهی .....
گڑیا بھی کهیلتے کهیلتے اسے یک ٹک دیکهے جا رہی تهی مگر ان دونوں میں سے کوئی اس کی طرف متوجہ نہیں تها. ....
"میں نے اس دن بہت انتظار کیا تها آپ کا لیکن آپ نے پیچھے مڑ کر ہی نہیں دیکها .رات تک میں انہی پہاڑوں پہ کهڑا رہا ان برف اور درختوں میں آپ کو ڈهونڈتے ہوئے مگر آپ مجهے نہیں ملیں....پهر میں اگلی صبح یہاں آیا اور مغرب تک کھڑا رہا اور اس طرح میں پورا ہفتہ یہاں آتا رہا.....صبح سے رات تک صرف آپ کا ہی انتظار کرتا مگر آپ جانے کہاں کهو گئیں تهیں...میرا پورا ٹرپ واپس چلا گیا میں اکیلا رہ گیا صرف آپ کو پهر سے دیکهنے کے لیے اور میں ہمیشہ یوں ہی آتا صبح سے شام تک جب تک آپ مجهے نظر نہ آتیں ......چاہے صدیاں گزر جاتیں ....یہ کیا کر دیا آپ نے. ..؟ آپ نے اس دن میری جان بچا کر بھی میری زندگی لے لی آپ نے مجهے دنیا سے ہی غافل کر دیا کون سا جادو کیا ہے آپ نے. ..."..؟
وہ ہل نہیں سکی....وہ پوچھ رہا تها کون سا جادو کیا ہے آپ نے اور وہ بھی اس سے پوچهنا چاہتی تهی کہ اس نے یہ کیا کر دیا ہے...؟ مگر زبان ایک بار پھر بولنے سے انکاری ہو گئی وہ ساکت وجود لیے وہیں بیٹهی رہی ہل بھی نہیں پا رہی تهی کوشش کے باوجود بھی نہیں. .......

"مجهے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے میری آنکهیں سب کچھ کہہ رہی ہیں آپ ان میں لکهی ہوئی تحریر پڑھ سکتی ہیں. ..پہلے اگر زندگی کے لیے سانس کی ضرورت تهی تو اب آپ بھی سانس بن گئی ہیں ..آپ پلیز کچھ بولیں اس طرح یوں خاموش نہ رہیں آپ اس دن بھی خاموش تهیں آج بھی خاموش ہیں لیکن آپ کی آنکهیں بول رہی ہیں. .سب کچھ جو آپ نہیں کہہ پا رہی ہیں". ......وہ کچھ اور بھی کہنا چاہتا تھا مگر وہ کهڑی ہو گئی....اس نے محسوس کیا ہے کهبی کهبی سانس لینا بھی مشکل ہوتا ہے. ..
وہ کہہ رہا تها آپ خاموش نہ رہیں وہ اس سے کہنا چاہتی تھی آپ نے مجهے بولنے کے قابل ہی کہاں چهوڑا ہے اور یہ آنکهیں یہ ہمیشہ دل کی چغلی کیوں کرتی ہیں. ..وہ خاموشی سے گهٹر اٹها کر اپنے سر پر رکهنے لگی اور گڑیا کی انگلی پکڑ کر جانے لگی...وہ اسے چھوڑ کر جا رہی تهی بالکل ویسے جیسے اس دن چهوڑ گئی تھی لیکن آج وہ اپنے آپ کو بھی یہیں انہی پہاڑوں میں چهوڑ کر جا رہی تهی بالکل ویسے جیسے اس دن چهوڑ کر گئی تھی. .......
"کل کو میں آپ کا انتظار کروں گا..."....وہ کہہ رہا تها. اور کیوں کہہ رہا تها ..یہ شخص پہلے بھی اس پہ قاتلانہ حملہ کر چکا تها وہ اسے ایک بار پھر سے گهائل کر گیا.اف یہ محبت. ..
"محبت. ..".؟ آسمان پہ اڑتے چڑیوں نے چوں چوں شروع کر دی ...تو کیا میں اس سے محبت کرتی ہوں دل آج کون سا سچ بتا رہا تھا اسے......
بڑی دیر بعد اسے احساس ہوا اس کے گالوں پہ کچھ پانی ہے...وہ جانتی تھی وہ پیچھے کهڑا ہو کر اسے دیکھ رہا ہوگا اور تب تک دیکهے گا جب تک غائب نہ ہو جاتی وہ.....لیکن وہ تو غائب ہو چکی تهی اب کیا بچا تها. ..
"جنت بوا یہ کون تها.."..؟ گڑیا بار بار پیچھے مڑ کر اس شخص کو دیکھ رہی تھی. ...وہ کیا کہتی اب اس سے. ."گڑیا تم گهر میں کسی کو نہیں بتاو گی اس شخص کے بارے میں". ...اس نے سختی سے اسے منع کیا. ..
" کیا میں جهوٹ بولوں."..؟
" نہیں تم صرف سچ چهپانا. ..".وہ بهرائی ہوئی آواز میں بولی. ...
" سچ چهپانا بھی ایک قسم کا جهوٹ ہے ناں...".؟ اس نے معصومیت سے پوچھا. .اور اس کے منہ پہ تالا لگ گیا یہ سبق اس نے گڑیا کو خود ہی سکھائی تھی اور آج...؟
اس نے کوئی جواب نہیں دیا جواب تها ہی نہیں شاید.
باقی کا راستہ خاموشی سے طے ہوا......
_ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _
اگلے دن وہ اس کے کہنے کے باوجود بھی نہیں گئی اسے معلوم تھا وہ وہیں پہاڑوں پر اس کا انتظار کر رہا ہوگا اور مغرب تک وہیں کهڑا رہے گا لیکن وہ پهر بھی نہیں گئی..ایسا نہیں تها کہ اس کا دل نہیں کر رہا تها دل تو بے تاب تها اسے دیکهنے کے لیے مگر وہ دل کی بات سن ہی نہیں رہی تھی جب دل نے اس کی بات نہیں مانی تو وہ کیوں مانتی. ....
صبح سے لے کر شام تک وہ کسی چمگادڑ کی طرح چکر کاٹتی رہی ...کئی بار دل چاہا وہ چلی جائے مگر وہ نہیں جانا چاہتی تھی. .......
اس دن بہت عرصے بعد سورج نے اپنی شکل دکهائی تهی اور وہاں کے مکین خوشی خوشی سورج کو خوش آمدید کہہ رہے تھے. ..گڑیا ہمیشہ کی طرح لمبے لمبے جهولے لے رہی تهی. ..رام اور عروج وہیں آم کے درخت کے نیچے گهر گهر کهیل رہے تهے. .....دادی بھی درخت کی چھاوں تلے بیٹھی اماں سے سر پہ تیل لگوا رہی تهی ..اچانک کسی شرارتی کوے نے درخت کے اوپر سے دادی کے اوپر سفید کریم ڈال دیا ..
جس کے بدلے میں انہوں نے کوے کو تو جو بد دعائیں دینی تهیں اور ساتھ ہی ساتھ رام کے کہنے پہ اس بات کا الزام گڑیا کے سر پہ ڈال دیا ..یہ سب اس کے منحوس تل کی وجہ سے ہوا ہے....گڑیا نے خفگی سے رام اور دادی کو دیکها...اس گهر میں سبهی حادثے اس تل کی وجہ سے ہو رہے تهے .....
پتا نہیں دادی رام کی باتوں پہ آنکھ بند کر کے یقین کیوں کرتی تهی ..ان کی نظروں میں اگر کوئی معصوم ہے شریف ہے تو وہ رام ہے اور ان کی سگی پوتی دنیا جہان کی احمق اور منحوس ہے......
صبح سے شام تک دادی کے طعنے ہوتے لیکن وہ بھی ڈهیٹ بن کر ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکالتی...اب روز روز رام کی مثالیں سننے میں کسے دلچسپی تهی وہ اگر مکھی بھی مارتا تو دادی کی نظروں میں بارڈر پہ جنگ فتح کر کے آیا ہے ...
رام ان کے پاس بیٹھ کر بڑے مزے سے اپنی تعریفیں کرواتا اور اس کے نقصانات گنواتا اور دادی بڑے مزے سے انگلی پہ گن گن کر رٹے رٹائے نقصانات بتاتی....
"اس مہینے کم بخت گڑیا نے تین شیشے کے گلاس توڑ دیے "( حالانکہ گهر میں صرف دو گلاس تهے کل شیشے کے)
" ایک لالٹین بھی خراب کر چکی ہے" ( ہونہہ وہ پہلے سے خراب تها لیکن ان کا نشانہ جو وہ تهی بیچاری )
"اچها ہوا جو لڑکا نہیں ہے _نہیں تو اس کی بیوی دوسرے دن میکے بهاگ جاتی "( اگر لڑکا ہوتا تو کم از کم آپ کی ان جلی کٹی باتوں سے چهٹکار پا لیتی )
اس کے دادا زندہ ہوتے تو اسے سیدها کرتے ( لو آپ کو تو وہ سیدھا کر نہیں سکے اسے خاک کرتے)
بڑی منہ پهٹ اور نافرمان ہے ( کل پاؤں دبائے تهے تب تو بڑی فرماں بردار کہہ رہی تهیں )
وہ جهولتے ہوئے دادی کے جلے کٹے طعنے سن رہی تهی. ...
" پتا نہیں منحوس کس پہ گئی ہے__"_؟دادی بڑبڑائی تهیں رام کو تو جیسے اس کی برائی کروا کے کوئی انعام مل رہا تھا. .......
" آپ پہ "__اس نے زور سے چلا کر کہا __اور دادی کے تن بدن میں آگ لگ گئی ایک تو وہ کوے پہ غصہ تهی اور اوپر سے یہ منہ پهٹ لڑکی. ..وہ چهڑی اٹها کر اس کے پیچھے بهاگیں مگر اس سے پہلے وہ جهولے سے اتر کر باہر جا چکی تھی. ......
اس رام کے بچے کو میں چهوڑوں گی نہیں دروازے پہ بیٹھ کر وہ کوئی انتقامی کارروائی سوچنے بیٹھ گئی ...اسے کسی موقع کی تلاش تهی جب وہ اس سے بدلہ لے سکے اور یہ موقع اسے بہت جلد ہی مل گیا.....دوپہر کے وقت جب دهوپ کافی تیز ہو گئی تو رام درخت کے نیچے بڑے مزے سے لیٹا تھا. ....
وہ اکثر وہیں درخت کے نیچے کهیلتے اور وہیں سو جاتے ..اس نے عروج کو اس خطرناک پلان میں شامل کیا اور چپکے سے کمرے میں آ کر بیگ سے اپنا کالا مار کار اٹهایا. ....
جنت بوا اس وقت کچن میں روٹیاں پکا رہی تهی دادی تو سوتی رہتی ہیں ہر وقت ...وہ اور عروج کمرے سے باہر نکل آئے اور رام کے پاس آ کر بیٹھ گئے ... گڑیا نے مارکر کا ٹاپ ہٹا کر اس کی مونچھیں بنا دیں اور اس کے گالوں پہ موٹا موٹا لکھ دیا بلی جیسی آنکھوں والے. .....

جب وہ بیدار ہوا تو آنکهوں کو مسلتے ہوئے گهر کی طرف چل پڑا جب وہ اندر داخل ہوا تو مدهو اسے دیکھ کر پہلے تو حیران ہوئی پهر کهلکلا کر ہنس پڑی وہ حیرت سے ماں کو دیکهنے لگا. . ....
مدهو نے آئینہ اٹها کر اس کے سامنے کیا اور وہ جتنا شرمسار تها اس سے زیادہ اسے غصہ تها...وہ بھی رام تها اسے اتنی آسانی سے کیسے معاف کر سکتا تها. ..
اور اس کا بدلہ اس نے کچھ یوں لیا شام کے وقت جب گڑیا سو رہی تھی تو اس نے چونینگم اس کے بالوں سے چپکا دیا. .یہ بدلہ کافی جان دار تها جو گڑیا کے چودہ طبق روشن کر گیا..وہ بیچاری نہائے تیل لگائے لیکن وہ چونینگم اتر ہی نہیں رہا تھا اس نے رام کو خوب برا بهلا کہا اور دل ہی دل میں اس کے مرنے کی دعائیں مانگیں......
دادی کو بتانے کا کوئی فائدہ نہیں تها وہ یہ کہہ کر ٹال دیتیں" یہ سب تمہارے اس منحوس تل کی وجہ سے ہوا ہے "اور پھر اس نے رام سے مکمل کٹی لگا لی وہ اس سے بالکل ناراض ہو گئی حالانکہ رام نے اسے منانے کی کوشش بھی کی اور اسے خوبصورت پهول بھی دیے مگر وہ پکی ناراض تهی.....
لیکن بچوں کی ناراضگی بهلا کب تک قائم رہتی ہے چهوٹی چهوٹی باتوں پہ لڑتے ہیں اور پھر خود ہی ایک دوسرے سے باتیں کرنے لگتے ہیں. ........
اگلی صبح وہ تینوں اپنے بهاری بهاری بستے اٹهائے سکول سے واپس آ رہے تھے ...ان کی یہ عادت ہمیشہ سے تهی وہ واپس آتے وقت ایک گهنٹہ وہیں برف پہ بیٹھ کر گهر بناتے اور اس دن بھی انہوں نے ایسے ہی کیا وہ برف کے گهر بنانے لگے اور گولے بنا بنا کر ایک دوسرے کو مارنے لگے........تب اچانک ایک شخص ان تینوں کے پاس آیا ...عروج اور رام نے حیرت سے اسے دیکها لیکن گڑیا اسے پہچان گئی یہ وہی شخص تها جو اس دن جنت بوا سے باتیں کرتا رہا. .....
وہ کافی دیر تک ان کے ساتھ بیٹها باتیں کرتا رہا اس نے سب کو چاکلیٹس بھی دیے...اور پھر اس نے چپکے سے گڑیا کو اشارہ کر کے اسے کچھ فاصلے پہ اپنے پاس بلایا. گڑیا جب اس کے پاس گئی تو اس نے جیب سے سفید رومال نکال کر اس پہ پین سے کچھ لکھ کر دیا...
یہ چپکے سے اس لڑکی کو دینا جو اس دن تمہارے ساتھ تهی...اس نے رومال گڑیا کے ہاتهوں میں دیے ..اس نے حیران ہوتے ہوئے وہ رومال پکڑ لیا ..رام اور عروج ابهی تک حیران ہو کر انہیں دیکهنے لگے لیکن وہ کچھ فاصلے پر تهے اس لیے ان کی باتیں نہیں سن سکے..گڑیا نے رومال اپنے بستے میں ان دونوں سے نظر بچا کر ڈال دیا......
" کیا کہہ رہا تها وہ؟ "رام نے پوچها. ...
" سچ بتاؤں کیا.".؟ اس نے رام کی طرف دیکها اس نے سر اثبات میں ہلایا ..عروج بھی اسے ہی دیکھ رہی تھی. ..
" وہ کہہ رہا تها بلی جیسی آنکھوں والے لڑکے سے دور رہنا.."..رام نے خفگی سے اسے گهورا اور وہ کهلکلا کر ہنس پڑی....پهر وہ تینوں اپنے ہی بنائے برف کے گهر خراب کر کے گهر کی طرف آئے......گڑیا نے انہیں سہی بات نہیں بتائی اور نہ ہی وہ بتانا چاہتی تهی کیونکہ بوا نے منع کیا تھا. ..اس رومال پہ کیا لکھا تھا اور بوا کا اس سے کیا رشتہ ہے یہ سوچنے کی ابهی اس کی عمر نہیں تهی.........
گهر آ کر سب سے پہلے وہ کچن میں گئی جہاں بوا ..سالن کے نیچے لکڑیاں لگا رہی تھی اسے دیکھ کر وہ مسکرا دی. .گڑیا نے آس پاس اچھی طرح دیکھ کر وہ رومال باہر نکال کر اس کی طرف بڑهایا. ......
" یہ کیا ہے...".؟ اس نے حیران ہو کر پوچها. ...
" یہ اس انکل نے دیا ہے. ..".گڑیا نے سرگوشی کی. .
"کس نے." ..؟ فوری طور پر وہ نہیں سمجھ سکی گڑیا کس کی بات کر رہی ہے. ...
"وہی جو اس دن آپ کو ملا تها جب آپ لکڑیاں کاٹ رہی تهیں.."اور جنت نے ڈر کر وہ رومال ایسے چهپایا جیسے اس میں کوئی بم ہو.دل کو کچھ ہونے لگا تها.....
"تم نے یہ بات رام اور عروج کو تو نہیں بتائی ناں."..؟ اس نے خوف زدہ ہو کر پوچها.. .اور گڑیا نے ماتهے پہ ایسے ہاتھ مارا جیسے جنت کی عقل پہ ماتم کر رہی ہو...
"میں بہت سیانی ہوں بوا...میں نے کسی کو نہیں بتائی یہ بات ...".پهر اس نے ساری تفصیل سنائی...جنت کا ڈرا ہوا چہرہ کچھ درست ہوا......
"ٹهیک ہے شابا"ش .....اس نے گڑیا کے گالوں کی چٹکی کاٹی....اس رومال میں جو لکھا تھا وہ اس وقت نہیں پڑھ سکتی تهی لیکن پڑهنے کے لیے بے تاب بہت تهی....
کهبی کهبی گهڑی کی سوئیاں بہت آہستہ ہو جاتی ہیں جیسے اس دن ہوئیں تھیں. .اس نے رات ہونے کا اتنی شدت سے انتظار کهبی نہیں کیا....اور اس دن جب وہ انتظار کر رہی تهی تو رات کافی طویل نظر آنے لگی....جب اسے یقین تھا سب سو گئے ہیں تو اس نے کهڑکی کهول کر چاند کی روشنی میں رومال پہ لکهے وہ الفاظ پڑهنے کی کوشش کی. ....
" اسلام و علیکم. ....
مجهے نہیں معلوم محبت کیا ہے لیکن آپ کو دیکھ کر محبت کی وجود پہ یقین آنے لگا ہے. ..میں آپ کو نہیں بتا سکتا آپ میرے لیے کیا ہیں. ..لیکن آپ کو دیکهنے کے بعد میں اپنے آپ میں نہیں ہوں..میں خود کو ڈهونڈ رہا ہوں لیکن میں کہیں کهو گیا ہوں....آپ ہی مجهے مجھ تک پہنچا سکتی ہیں. ..یوں میرے دل کی دنیا کو نہ اجاڑیں ..مجهے ادهورا نہ کریں...محبت گناہ نہیں ہے محبت تو عبادت ہے ...گناہ تو تب ہوگا جب آپ کسی کے سچے جذبوں کی توہین کریں گی کسی کا دل توڑیں گی....دل توڑنے سے بڑھ کر کوئی دوسرا گناہ نہیں ہے دنیا میں. ..اور آپ یہ گناہ نہ کریں..ایک لڑکا جو صبح سے کے کر رات تک صرف اس امید کے سہارے برف پہ کهڑا رہتا ہے کہ اس کی محبت لوٹ آئے گی اس لڑکے پہ رحم کریں........
جان سے بڑھ کر عزیز. ..روہاب ..."
..اسے احساس نہیں ہوا وہ رو رہی تهی. .کیوں رو رہی تھی اس بات کا جواب وہ لڑکی بھی نہیں دے سکتی تهی اس نے رومال کو آنکهوں سے لگایا ایک عجیب خوشبو اس کے اندر تک اتر گئی.....
" روہاب. "...اس نے نم آنکھوں سے مسکرا کر اس نام کو دہرایا تو کیا اس کا نام روہاب تها...اور وہ اس سے اتنی محبت کرتا ہے ...اس نے ایک بار پھر ان الفاظ کو پڑها...پهر. ..پهر اور اس طرح بیس بار وہ وہی الفاظ دہراتی رہی یہ کیا تها. .؟ کیا یہ محبت تهی مگر اسے محبت کیوں ہو گئی. ..وہ تو ابھی کچی کلی تهی اور دل نے اس کے ساتھ کیا کر دیا. .....وہ کمرے میں ٹہل رہی تھی بے چینی سے ..یہ تو طے تها کہ وہ آج رات سو نہیں پائے گی لیکن اصل الجهن اسے خط کو لے کر ہونے لگی. .
" کیا مجهے جواب دینا چاہیے". ..اس سے رابطہ رکهنا چاہیے. ..؟ لیکن اگر اللہ تعالیٰ ناراض ہو گئے تو...
" محبت عبادت ہے اس نے کہا....اور وہ. "..اس لمحے اس نے چاند کو گواہ بنا کر اعتراف کیا وہ اس سے محبت کرتی ہے اور دل کے سامنے ہار چکی
اس دن آسمان پہ موجود بادلوں نے برسنا شروع کر دیا. جگہ جگہ پانی کے ساتھ ساتھ برف نظر آنے لگا. ..بارشوں میں وہاں کے مکین گهروں میں گهس کر آگے لے ذریعے سردی کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرتے لیکن یہی وہ موقع تها جب وہ تینوں بچے اپنے کسی شیطانی کارکردگی کو تشکیل دیتے......
اس دن بھی جونہی بارش زرا کو تهمی وہ تینوں بچے رام عروج اور گڑیا گهر سے نکل کر باغیچے کی طرف آئے ارادہ ان کا خوبانیاں توڑنے کا تها .....یہ خیال سب سے پہلے گڑیا کے دماغ میں آیا اور اس نے اس پلان میں ان دونوں کو بھی شامل کر لیا. .......
سبهی گهر والوں سے بچتے بچاتے وہ باہر نکل آئے سردی ابهی بهی عروج پر تهی انہوں سویٹرز اور گرم گرم لباس سے خود کو مکمل طور پر ڈھانپ رکها تها مگر ان سب کے باوجود بھی انہیں سردی محسوس ہو رہی تهی. ......
باغیچہ گهر سے کچھ فاصلے پر ہی تها...جس کے چاروں طرف لوہے کی باڑ تهی ...وہ کوئی معمولی باغ نہیں تها دور دور تک پهیلا تها....جس میں خوبانیوں کے ساتھ ساتھ سیب کے بهی درخت تهے اور کچھ سبزیاں بھی. ..

لوہے کی باڑ کے اوپر لوہے کا چهت بھی تها..وہ چوہدری افضل کا باغیچہ تها اور اس کی نگرانی بھی کافی مضبوطی سے کی گئی تهی دروازے پہ تالا ہی ہونا تها لیکن وہ لوگ دروازے سے جاتے ہی کب تهے .باغیچے کے بائیں طرف ایک جگہ سے باڑ ٹوٹا ہوا تها وہ تینوں وہیں سے اندر داخل ہوئے......
یہ ان کا پہلا تجربہ نہیں تها وہ پہلے بھی کئی بار ایسا کر چکے تھے اس لیے انہیں کوئی مشکل پیش نہیں آئی. .اندر آتے ہی تینوں نے سکون کا سانس لیا. ..اور کچھ دیر وہیں بیٹھ کر تهکاوٹ دور کرنے لگے......
پهر گڑیا کهڑی ہو گئی. ..
"ہاں بهئی تو تم دونوں غور سے میری بات سنو. عروج تم دیوار کے پاس کهڑی رہو گی اور بلی جیسی آنکھوں والے تم اس درخت پر کهڑے ہو کر باہر دیکهو گے اگر کوئی آ جائے تو مجهے با خبر کر دینا....اور میں اس سائیڈ والی درخت پہ چڑهوں گی".. اس نے باڑ کے قریب ہی ایک درخت کی طرف اشارہ کیا. ....
"آئی بات سمجھ میں. .."؟ اس نے سوالیہ نگاہوں سے دونوں کو دیکها....
"نہیں. ..نہیں بالکل نہیں". رام بگڑ گیا...
"بہت چالاک ہو تم خود اس درخت پہ کیوں نہیں چڑھ جاتیں اس لیے نا کہ کوئی آ جائے اور تم چهلانگ لگا کر باہر کود جاو ."....اس نے اپنا ماتها پیٹ لیا اصل میں اس کا ارادہ کچھ ایسا ہی تها. ...
"ارے نہیں بزدل کہیں کے....لڑکے ہو کر ڈرتے ہو." ..اس نے رام کو ٹوکا. .....
"نہیں ڈرتا نہیں ہوں ...اچها ایک شرط پہ جاوں گا. .اگر تم مجھ سے شادی کرو گی تو."..؟
گڑیا نے گهور کر اسے خونخوار نظروں سے دیکھا ..وہ ہمیشہ اسے تنگ کرنے کے لیے ایسا ہی کہتا تھا. ..
بهاڑ میں جاو تم...میں خود ہی چلی جاتی ہوں....کہہ کر وہ اسی درخت پہ چڑھ گئی..رام اور عروج بھی اپنے اپنے کام میں لگ گئے. ..درخت پہ چڑھ کر اس نے کچھ خوبانیاں توڑ کر نیچے گرائیں اور کچھ وہیں درخت کے اوپر کهانے بیٹھ گئی. ..عروج اور رام بهی یہی کر رہے تهے ...دیکهتے ہی دیکهتے زمین پر خوبانیوں کا ایک ڈھیر اکهٹا ہو گیا پهر وہ تینوں درختوں سے نیچے اتر آئے اور سب کو اکهٹا کر کے گنتی کرنے بیٹھ گئے. ..
ان سب کی لیڈر اس وقت گڑیا بنی ہوئی تھی کیونکہ وہ غیر معمولی چالاک تهی ان خود کو بڑا بنانے کا اسے بہت شوق تھا. .....تین حصے ہو گئے...
" یہ تمہارا حصہ".. اس نے عروج کی طرف کچھ خوبانی بڑهائے جو اس نے غنیمت سمجھ کر سمیٹ لیے....اور " یہ تمہارا حصہ "، اس نے گویا احسان کر کے رام کو بهی اس کا حصہ پہنچا دیا. ..وہ تینوں وہیں کهانے بیٹھ گئے..
" اور میرا حصہ کہاں ہیں. ..."؟ یہ آواز سامنے سے آئی تھی اور جتنی مانوس تهی اتنی دلکش بھی. .ان تینوں کو اچانک خوبانی کڑوے لگنے لگے .ڈر کے مارے تینوں کهڑے ہو گئے گڑیا کی جهولی سے خوبانی ٹپ ٹپ نیچے گرے وہ حواس باختہ ہو کر سامنے دیکهنے لگی یہ حال رام اور عروج کا بھی تها. ....
جنت سامنے سینے پہ ہاتھ باندھے مسکراہٹ دبائے کهڑی تهی. .اتنی محنت سے کی گئی چوری کے پکڑے جانے کی انہیں امید نہیں تھی. لیکن جنت ہمیشہ ان کی چوری پکڑ لیتی...وہ سمجھ نہیں پاتے اسے یہ سب کیسے پتا چل جاتا ہے.....
وہ چهوٹے چهوٹے قدم اٹهاتی ان کے بالکل سامنے آ گئی..اور گهٹنوں کے بل بیٹھ کر ان کے قد کے برابر ہو گئی. ...
" ہاں جی تو چور پارٹی تم لوگوں کی اس گینگ کا لیڈر کون ہے. ."..؟ ایسے پوچها جیسے پولیس تشویش کر رہا ہو.....
عروج اور رام کی نگاہیں بے ساختہ گڑیا کی طرف گهوم گئیں...اس نے غصے سے دونوں کو دیکها...
" مہ...مہ..مجهے کیا ایسے دیکھ رہے ہو"...وہ کانپتے ہونٹوں سے بولی...
..

"ہاں تو گڑیا رانی میں نے تمہیں سمجهایا تها ناں اس دن کہ چوری کرنا بری بات ہے اور تمہیں عبدالقادر جیلانی والی کہانی بھی تو سنائی تهی ناں".....
گڑیا پر گهڑوں پانی پهر گیا. .وہ نگاہیں جهکائے کهڑی تهی ..رام اور عروج بھی شرمندہ نظر آ رہے تهے. ..
" لیکن خوبانی کهانا غلط تو نہیں ہے ناں..."؟ وہ اپنی دفاع میں کچھ نہ کہتی یہ تو نا ممکن تها ...اپنی غلطیوں کی تو وہ سب سے بڑی وکیل تهی.....
"خوبانی کهانا غلط نہیں ہے لیکن اس طرح چهپ کر چوری کرنا غلط ہے اور یہ بات تو تم لوگوں کو بھی معلوم ہے اس لیے تو چپکے چپکے آئے ہو...اور انسان چهپ کر وہی کام کرتا ہے جس کے بارے میں معلوم ہو وہ غلط ہے. ." .
" زندگی بہت مختصر ہوتی ہے انسان کو معلوم ہی نہیں چلتا کب گزر گئی...اس لیے اسے اچهے کاموں میں استعمال کرنا چاہیے". ..
اسے اس وقت جنت کے لیکچر میں دلچسپی نہیں تهی لیکن جنت نے اسے آخری وارننگ دے کر معاف کر دیا. .
رات کے وقت کمرے میں انگهیٹی جل رہی تھی جو سردی کا سر توڑ مقابلہ کرنے میں لگی ہوئی تھی. .جنت چار پائی پر لیٹی تھی اور ان کے دائیں طرف رام تها بائیں طرف عروج اور گڑیا لیٹی تهیں....رات کے وقت وہ روزانہ اس کے پاس کہانی سننے آتیں اور رام تو کهبی کهبی وہیں سو جاتا....مدهو جتنا بھی منع کرتی لیکن وہ گهر نہیں جاتا تھا. ....
کہانی سنانے کی ذمہ داری پہلے دادی کی ہوتی تهی جو انہیں اپنے دور کے واقعات سناتی تهیں ..جو بچے زیادہ دلچسپی سے نہیں سنتے تھے لیکن کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر تها....ایک دادی نے سر درد کا بہانہ کر کے انہیں ٹال دی اور جنت نے تینوں بچوں کو کہانی سنائی جو کہ جنگل اور پریوں کی تهی.......
بس اس کے بعد بچوں نے تو طے کر لیا کہانی جنت بوا سے ہی سنا کریں گے کیونکہ ان کی کہانیاں ماڈرن ہوتی ہیں اور اس کے بولنے کا انداز بھی اتنا مدهم ہوتا کہ سننے والا کهو جاتا....وہ ہر کہانی کے اختتام پر ایک خوبصورت سبق بھی ضرور دیتی......
لیکن پچهلے کچھ دن سے وہ کهوئی کهوئی رہنے لگی کہانی ادهوری چهوڑ کر کسی سوچ میں ڈوب جاتی اور گڑیا کے " پهر آگے کیا ہوا " کہنے پہ وہ لوٹ آتی اسے خود بھی یاد نہیں رہتا وہ کہاں تک پہنچی تهی...بس وہ ان پہاڑوں کے درمیان تهی جہاں خود کو چهوڑ آئی. .
اس رات بھی وہ بچوں کو وہی آپ بیتی سنا رہی تھی. .
ایک لڑکا پہاڑ سے نیچے لٹک رہا تھا پهر ایک لڑکی نے جا کر اسے بچایا ...اور...اور وہ پهر کهو گئی...
بچے حیران تهے پریوں اور ٹارزن کی کہانی سناتے سناتے یہ لڑکا لڑکی والی کہانی کہاں سے آ گئی بیچ میں. ...
" پهر کیا ہوا." ..؟ گڑیا نے بوجھل آنکهوں سے پوچها..
" بس کہانی ختم....."عروج اور رام سو چکے تھے ان کے خراٹے ہی گونج رہے تھے. ...
"ایسے کیسے ختم یہ کہانی تو ادهوری ہے...".
اس نے احتجاج کیا. ...
" زندگی میں کچھ کہانیاں ادهوری رہ جاتی ہیں. "..اس نے خیالوں میں کهوئے کهوئے جواب دیا...گڑیا نے خفگی سے منہ پهلایا اور سونے کے لیے آنکهیں بند کر دیں..........
رام کی ماں مدهو اس وقت گہری نیند میں تهی جب گهر کا دروازہ زور زور سے بجا ...پہلی بار تو وہ سن نہیں سکی لیکن دروازہ مسلسل پیٹا جا رہا تها تو اس کی آنکھ کهلی سب سے پہلی نظر اس کی رام پر پڑی جو گہری نیند میں تها..اس کے ماتهے پہ بوسا دے کر وہ کمرے کا دروازہ کھول کر باہر نکل آئی....سردی تهمنے کا نام نہیں لے رہی تهی آسمان پر چاند کو دیکھ کر اس نے اندازہ لگانے کی کوشش کی یہ کون سا وقت ہے ..شاید آدهی رات
تهی وہ جانتی تھی دروازے پر کون ہوگا. ....
اکشے نشہ کر کے اسی وقت واپس آتا تها شروع شروع میں اس نے کئی بار پوچها بھی تها لیکن اب عادت سی ہو ہوگئی اکیلے رہنے کی....اس نے کنڈی کهول کر لکڑی کا دروازہ کهولا ..سامنے اکشے غصے سے لال چہرہ لیے کهڑا تها. ...
" سنتی نہیں ہے کیا بے غیرت. .."اکشے نے زور سے اسے دهکا دے کر سامنے سے ہٹایا وہ منہ کے بل زمین پہ جا گری یہ دهکا بھی اس کے لیے نیا نہیں تها...اس کی بهی عادت ہو چکی تهی اسے....
" کهانا لا سالی ..."..وہ غراتے ہوئے بولا..اس نے یہ بھی نہیں سوچا رام گہری نیند میں ہے وہ جاگ سکتا ہے لیکن وہ سوچ ہی تو نہیں سکتا تها........
مدهو نے آدهی رات کو اتنی ٹهنڈ میں چولہا جلایا اور روٹیاں توے پہ ڈالنے لگی. .سالن رات کا ہی بچا ہوا تها. ..دال کا سالن تها اور اس میں بھی آدهے سے زیادہ پانی...غریبی بہت مشکل ہے ایک امتحان ہے جو لوگ اس امتحان سے گزرتے ہیں وہی جانتے ہیں ورنہ صبح شام چکن کهانے والوں کو کیا معلوم
دنیا میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو کئی کئی رات فاقوں میں گزارتے ہیں. .....
لیکن اس نے کهبی نا شکری نہیں کی ..پهر بھی جانے کہیں کوئی سکون کیوں نہیں تها زندگی میں. .خوشی تو ان کے گهر میں جیسے حرام ہو چکی تهی ایک رام ہی تها جو ان کی زندگی تها...ان کے نئے خواب....
سالن گرم کر کے وہ وہاں لے آئی جہاں اکشے بیٹها ہوا تها ..پهر وہ پانی بهرنے گهڑے کی طرف آئی لیکن اس سے پہلے اکشے سارا کهانا زمین پہ پهینک چکا تها. ..
ذلیل نیچ عورت یہ دال تمہارا باپ کهائے گا....وہ غصے سے اٹها اور رام کا لکڑی والا بیٹ اٹها کر زور زور سے مدهو کو پیٹنے لگا...وہ کچھ نہیں بول سکی اس ڈر سے کہیں رام ناں اٹھ جائے وہ آرام سے مار کهاتی رہی...یہ مار تو اس کی قسمت میں ہی لکها تها...جب وہ اسے مار مار کر تهک گیا تو سونے کے لیے جا کر لیٹ گیا...مدهو کے جسم کا ایک ایک حصہ درد کرنے لگا ...سر سے خون بہہ رہا
تها لیکن وہ ضبط کے تمام ریکارڈ توڑ کر چپ چاپ کهڑی ہو کر بستر پر لیٹ گئی .یہ محبت بھی انسان کو کہاں لے آتی ہے اس نے کہاں سوچا تها یہ سب ہوگا. ..جانے خواب پورے ہو کر اتنا دکھ کیوں دیتے ہیں. .امیدیں ایسے ٹوٹتی ہیں ان کے ٹکڑے چنتے چنتے پور پور زخمی ہو جاتا ہے. .....
اس رات وہاں بستر پر لیٹے لیٹے وہ جنت کی باتوں کے بارے میں سوچنے لگی....
" میرا دین سہی ہے....".
" میرے دین میں ہی سب کی منزل ہے....".
" میرے دین میں ہی سکون ہے'........
اور مدهو زندگی میں پہلی بار اس دین کے بارے میں سوچ رہی تھی. .اور جنت کی باتوں پہ غور کر رہی تهی..وہ پہلے بھی کئی بار جنت سے بہت اسلامی واقعات سن چکی تهی اور متاثر بھی بہت ہوئی لیکن آج جس انداز سے وہ سوچ رہی تهی ویسے کهبی نہیں سوچا. ..اکشے سے بات کرنا اپنی جان گوانے کے مترادف تها رام ابهی چهوٹا تها ...اسے خود ہی کچھ کرنا تها وہ ہمیشہ پتهر کے
بهگوان سے انصاف مانگتی آئی تهی اس بار وہ کسی اور کو آزمانا چاہتی تهی. .یہ سہی تها تها یا غلط لیکن وہ زندگی میں ایک بار یہ غلطی کرنا چاہ رہی تھی ...........
_ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _
اگلے دن مدهو جنت کے پاس گئی اور اسے لکڑیاں کاٹنے کے لیے ساتھ چلنے کو کہا...جنت راضی ہو گئی مگر وہ جانتی تھی وہ صرف لکڑیوں کے لیے نہیں جا رہی. ....
جنت نے مدهو کو باہر چارپائی پر بٹهایا اور خود کمرے میں چلی آئی اسے یقین تھا روہاب بھی وہیں ہوگا اس لیے کاغذ قلم اٹها کر اسے خط لکهنے لگی. ....وہ زیادہ پڑهی لکهی تو نہیں تهی لیکن خط لکهنا اتنا وہ کر سکتی تهی. ....

" اسلام و علیکم ..
میں آپ سے کیا کہوں کیا لکهوں کچھ سمجھ نہیں پا رہی مجھ سے ملنے کے بعد جو حالت آپ کی ہے وہی میری ہے ...آپ کہتے ہو میں نے آپ پہ جادو
کیا ہے لیکن اصل جادو تو آپ نے کیا ہے میں کہیں بھی نہیں ہوتی ہر جگہ آپ ہی آپ ہوتے ہو.....
میں نے سوچا کچھ دن تک آپ کو بهول جاوں گی لیکن میرے لیے یہ نا ممکن ہے میں آپ کو بهلانے میں ہار گئی اور دل مجھ سے جیت گیا. لیکن میں ایک مسلمان لڑکی ہوں اور غلط محبت کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی آپ نے کہا تها محبت کرنا گناہ نہیں محبت عبادت ہے سہی کہا تها آپ نے لیکن میں یہ عبادت عبادت کی طرح ہی کرنا چاہتی ہوں.........
دل سے ہاری. .".
" جنت چوہدری. ."
اس خط کو چپکے سے لپیٹ کر اس نے دوپٹے سے باندھ دیا اور باہر چلی آئی مدهو وہیں بیٹهی ہوئی تھی جہاں وہ اسے بٹها کر گئی تھی. ...
کلہاڑی اور رسی سنبهال کر وہ اس کے ساتھ ساتھ چل پڑی..ہمیشہ کی طرح آسمان بادلوں سے ڈهکا ہوا تها ..تینوں بچے سکول گئے ہوئے تھے. ..سکول یہاں سے کچھ ہی فاصلے پر تها ...کوئی خاص سکول نہیں تها دو ٹیچرز آتے تھے اور علاقے کے
بچے وہیں سے کچھ سیکھنے کی کوشش کرتے. .....
اس نے فراک کے اوپر سیاہ سویٹر پہن رکهی تهی. .اور سکارف بھی ہمیشہ کی طرح اس کے وجود کا حصہ تها....کافی دیر خاموش سے چلنے کے بعد مدهو نے کہا. ...
" تم مجهے اپنے دین کے بارے میں بتاو..."...جنت تهوڑی حیران ہوئی اسے لگا تها اس دن کے بعد مدهو اس موضوع پر بات نہیں کرے گی......
" کیا جاننا چاہتی ہو تم" ...؟
" تمہارے دین میں کیا ہے.."..؟
"میرے دین میں سب کچھ ہے الف سے لے کر یے تک.."
" کیا تمہارا دین کامل ہے. ...".
" کامل ترین. ...جنت نے تصیح کی." ...
"تم ایسا کیسے کہہ سکتی ہو"....؟
" میں نہیں قرآن پاک کہتا ہے دنیا کی سب سے عظیم کتاب...."..وہ فخر سے بولی.....
"اور تمہارے قرآن میں سب سہی ہے میں کیسے
یقین کروں...". مدهو نے پوچها. ...
"تم نہ کرو تمہارے یقین یا بے یقینی سے سچ نہیں بدلے گا. .. یہ بات بڑے سے بڑے سائنسدان ثابت کر چکے ہیں مدهو. ..قرآن پاک میں سب کچھ ہے اور سائنس بھی اس بات کی تصدیق کرتی ہے. .میرا دین سب سے خوبصورت دین ہے..."وہ دونوں چلتے ہوئے باتیں کر رہی تهیں. ....
"کیا تم ثابت کر سکتی ہو یہ بات.....؟.".
" کیا"...؟
"یہی کہ تمہارا دین سب سے خوبصورت اور کامل ہے." .؟مدهو بولی....
" تم مجهے چیلنج کر رہی ہو ؟"
"جو بھی سمجھو." ..مدهو بے نیازی سے بولی....
میرا دین سب سے خوبصورت اس لیے ہے مدهو کیونکہ اس میں دنیا جہان کے فائدے ہیں...جو کچھ تم یہاں کرو گی اس کے فائدے اور نیکیاں تمہیں وہاں بھی ملیں گی ایسا کسی اور دین میں نہیں ہے. .....
میں تمہیں سمجهاتی ہوں..قرآن پاک میں فرعون کا
ذکر ہے اور فرعون کی لاش سمندر سے ملی اس بات پہ سائنسدان بھی دنگ رہ گئے. ..جیسا کہ صدیوں پرانی اس کتاب میں سمندر کے دو حصوں کا ذکر ہے آج بھی دنیا اس بات کو تسلیم کرتی ہے سمندر کا ایک حصہ نمکین بھی ہے....ان انگریزوں نے بہت کچھ سیکھا ہے قرآن پاک سے جو ہم بھی نہیں سیکھ پائے......
اب صبح صبح اٹھ کر اگر میں نماز ادا کروں گی تو اس کا مجهے یہ فائدہ ہوگا مجهے ایکسرسائز کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی کیونکہ نماز کے دوران ہے جسم کی ورزش ہو جاتی ہے. .....اور دوسرا فائدہ مجهے آخرت میں ہوگا......
میرا دین کہتا ہے پانی بیٹھ کر تین گهونٹ میں پیو...سائنس نے ثابت کیا ہے پانی بیٹھ کر پینے سے انسان کئی بیماریوں سے محفوظ رہ سکتا ہے. ...
میں اگر ایسا کروں گی تو اس دنیا میں بھی فائدہ اور اس دنیا میں بھی فائدہ ....
میرا دین کہتا ہے چهینک آنے پہ الحمدللہ پڑها کرو. سائنس بھی کہتی ہے چهنک کے ذریعے کئی جراثیم
ناک سے نکل کر مر جاتے ہیں. ...تو اس عمل کا بھی مجهے دونوں جہاں میں فائدہ ہے......
میرا دین کہتا ہے کهانے سے پہلے ہاتھ دهو لو..اب اتنا تو تم بھی مانتی ہو ناں ہاتھ دهوئے بغیر کس طرح کهانے میں جراثیم پیدا ہوتے ہیں. .....
اور میرا دین کہتا ہے پیٹ بھر کر کهانا نہ کهاو اور کهانے کے بعد پانی مت پیو...یہی کچھ عقل مند لوگ بھی کہتے ہیں کیونکہ پیٹ بھر کر کهانے سے انسان کی صحت پر اثر پڑتا ہے اور کهانے کے بعد پانی پینے سے بھی کئی قسم کی بیماریاں پھیلتی ہیں.....
میرا دین کہتا ہے غصہ مت کرو ...بالکل سہی کہتا ہے کیونکہ غصے میں انسان صرف اپنا نقصان کرتا ہے ...اور میرے دین میں شراب حرام ہے ...شراب ایک گهٹیا قسم کا نشہ ہے جو کئی گهر کئی انسان اجاڑ دیتا ہے تبهی تو میرا دین اسے پینے کی اجازت نہیں دیتا......
میرے دین میں جهوٹ بولنا چوری کرنا گناہ ہے...جهوٹ اور چوری غلط ہیں یہ تو تمہیں بھی
معلوم ہے ناں...؟ اور اس کے نقصانات سے بھی ضرور واقف ہوگی تم.. ..
اگر میں ان پہ عمل کرتی ہوں تو مجهے یہاں بھی فائدہ ملتا ہے اور وہاں بهی. ...
میرے دین میں زنا حرام ہے فضول خرچی گناہ ہے ..چغلی اور سود حرام ہے. .مطلب جو جو چیزیں انسان کے لئے سہی نہیں ہیں وہ میرے دین نے انسانوں سے گناہ کی صورت میں دور کر دیے.....
اور میرا دین سب سے آسان ہے...اگر تم نے راہ چلتے کسی کو سلام کیا تم نے نیکیاں کما لیں...اگر تم نے راستے سے کانٹے ہٹا کر دور پهینکے تب بھی تونے نیکیاں کما لیں اور تو اور اگر تم مسکرا کر کسی کو دیکهو گی تو اس کے بدلے میں بھی تمہیں نیکی ہی ملے گی. .......
جنت جو ان سب نیکیوں کا اجر ہوگا وہ میرے اللہ تعالیٰ نے ماں کے قدموں تلے رکھ دی اور میرا اللہ اپنے ایک بندے سے ستر گنا ماوں سے زیادہ محبت کرتا ہے. ...
میں نے تمہیں کئی واقعات پہلے بھی سنائے ہیں
حضرت بلال حضرت یوسف حضرت علی کے....میرے دین میں عدل اور ایثار کی جو مثالیں ہیں وہ تمہیں اور کہیں نہیں ملیں گی.....کیونکہ میرا دین کامل ترین دین ہے.....
مدهو گنگ ہو گئی...سارے الفاظ منہ میں ہی دم توڑ گئے وہ بیس سال کی لڑکی اس کے چیلنج کی دھجیاں اڑا چکی تهی. ..دل میں کوئی شک باقی نہیں رہا تھا مگر وہ کچھ اور سیکهنا چاہتی تهی اس سے. . بہت کچھ. ....
تم اپنے اللہ اور رسول سے بہت محبت کرتی ہو. ...؟ مدهو نے مسکرا کر پوچها....
کوشش کرتی ہوں لیکن وہ مجھ سے میری محبت سے بھی زیادہ محبت کرتے ہیں. میں تمہیں ایک واقعہ سناتی ہوں جس سے تمہیں یقین آ جائے گا ہمارے پیارے رسول ہم سے کتنی محبت کرتے ہیں. .....
ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﺟﺐ ﺟﺒﺮﺍﺋﯿﻞ ﻋﻠﯿﮧ ﺳﻼﻡ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺁﮮ ﺗﻮ ﻣﺤﻤﺪ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﺟﺒﺮﺍﯾﻞ ﮐﭽﮫ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﮨﮯ ﺁﭖ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺟﺒﺮﺍﺋﯿﻞ ﮐﯿﺎ
ﻣﻌﺎﻣﻠﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺁﺝ ﻣﯿﮟ ﺁﭘﮑﻮ ﻏﻤﺰﺩﮦ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ ﺟﺒﺮﺍﺋﯿﻞ ﻧﮯ ﻋﺮﺽ ﮐﯽ ﺍﮮ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﮐﻞ ﺟﮩﺎﮞ ﺁﺝ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﭘﺎﮎ ﮐﮯ ﺣﮑﻢ ﺳﮯ ﺟﮩﻨﻢ ﮐﺎ ﻧﻈﺎﺭﮦ ﮐﺮﮐﮧ ﺁﯾﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﺳﮑﻮ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﺳﮯ ﻣﺠﮫ ﭘﮧ ﻏﻢ ﮐﮯ ﺁﺛﺎﺭ ﻧﻤﻮﺩﺍﺭ ﮨﻮﮮ ﮨﯿﮟ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺟﺒﺮﺍﺋﯿﻞ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮭﯽ ﺟﮩﻨﻢ ﮐﮯ ﺣﺎﻻﺕ ﺑﺘﺎﻭ ﺟﺒﺮﺍﺋﯿﻞ ﻧﮯ ﻋﺮﺽ ﮐﯽ ﺟﮩﻨﻢ ﮐﮯ ﮐﻞ ﺳﺎﺕ
ﺩﺭﺟﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﺳﺐ ﺳﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﻭﺍﻻ ﺩﺭﺟﮧ ﮨﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﻣﻨﺎﻓﻘﻮﮞ ﮐﻮ ﺭﮐﮭﮯ ﮔﺎ
ﺍﺱ ﺳﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﻭﺍﻟﮯ ﭼﮭﭩﮯ ﺩﺭﺟﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻣﺸﺮﮎ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﮈﺍﻟﯿﮟ ﮔﮯ
ﺍﺱ ﺳﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﭘﺎﻧﭽﻮﯾﮟ ﺩﺭﺟﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﻮﺭﺝ ﺍﻭﺭ ﭼﺎﻧﺪ ﮐﯽ ﭘﺮﺳﺘﺶ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﮈﺍﻟﯿﮟ ﮔﮯ
ﭼﻮﺗﮭﮯ ﺩﺭﺟﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﭘﺎﮎ ﺁﺗﺶ ﭘﺮﺳﺖ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﮈﺍﻟﯿﮟ ﮔﮯ ﺗﯿﺴﺮﮮ ﺩﺭﺟﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﭘﺎﮎ ﯾﮩﻮﺩ ﮐﻮ ﮈﺍﻟﯿﮟ ﮔﮯ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺩﺭﺟﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﺴﺎﺋﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﮈﺍﻟﯿﮟ ﮔﮯ ﯾﮧ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﺟﺒﺮﺍﺋﯿﻞ ﻋﻠﯿﮧ ﺳﻼﻡ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﮨﻮﮔﺌﮯ ﺗﻮ ﻧﺒﯽ
ﮐﺮﯾﻢ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﺟﺒﺮﺍﺋﯿﻞ ﺁﭖ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﮐﯿﻮﮞ ﮨﻮﮔﺌﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﺘﺎﻭ ﮐﮧ ﭘﮩﻠﮯ ﺩﺭﺟﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﻥ ﮨﻮﮔﺎ ﺟﺒﺮﺍﺋﯿﻞ ﻋﻠﯿﮧ ﺳﻼﻡ ﻧﮯ ﻋﺮﺽ ﮐﯿﺎ ﺍﮮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﭘﮩﻠﮯ ﺩﺭﺟﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﭘﺎﮎ ﺁﭘﮑﯽ ﺍﻣﺖ ﮐﮯ ﮔﻨﮩﮕﺎﺭﻭﮞ ﮐﻮ ﮈﺍﻟﯿﮟ ﮔﮯ ﺟﺐ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺳﻨﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﺍﻣﺖ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺟﮩﻨﻢ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻻ ﺟﺎﮮ
ﮔﺎ ﺗﻮ ﺁﭖ ﺑﮯ ﺣﺪ ﻏﻤﮕﯿﻦ ﮨﻮﮮ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺣﻀﻮﺭ ﺩﻋﺎﺋﯿﮟ ﮐﺮﻧﺎ
ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯿﮟ ﺗﯿﻦ ﺩﻥ ﺍﯾﺴﮯ ﮔﺰﺭﮮ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻻﺗﮯ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮪ ﮐﺮ ﺣﺠﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻟﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﺍﻭﺭ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﺑﻨﺪ ﮐﺮﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺣﻀﻮﺭ ﺭﻭ ﺭﻭ ﮐﺮ ﻓﺮﯾﺎﺩ ﮐﺮﺗﮯ ﺻﺤﺎﺑﮧ
ﺍﮐﺮﺍﻡ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﭘﮧ ﯾﮧ ﮐﯿﺴﯽ ﮐﯿﻔﯿﺖ ﻃﺎﺭﯼ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﮯ ﻣﺴﺠﺪ ﺳﮯ ﺣﺠﺮﮮ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﮔﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻟﯿﮑﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎ ﺭﮨﮯ۔ ﺟﺐ ﺗﯿﺴﺮﺍ ﺩﻥ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﺳﯿﺪﻧﺎ ﺍﺑﻮ
ﺑﮑﺮﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻨﮧ ﺳﮯ ﺭﮨﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮔﯿﺎ ﻭﮦ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﭘﮧ ﺁﮮ ﺩﺳﺘﮏ ﺩﯼ ﺍﻭﺭ ﺳﻼﻡ ﮐﯿﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺳﻼﻡ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﯾﺎ ﺁﭖ ﺭﻭﺗﮯ ﮨﻮﮮ
ﺳﯿﺪﻧﺎ ﻋﻤﺮﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺁﮮ ﺍﻭﺭ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺳﻼﻡ ﮐﯿﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺳﻼﻡ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﻧﮧ ﭘﺎﯾﺎ ﻟﮩﺬﺍ ﺁﭖ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﻮ ﮨﻮﺳﮑﺘﺎ ﮯ ﺳﻼﻡ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﻣﻞ ﺟﺎﮮ ﺁﭖ ﮔﺌﮯ ﺗﻮ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺗﯿﻦ ﺑﺎﺭ ﺳﻼﻡ ﮐﯿﺎ
ﻟﯿﮑﻦ ﺟﻮﺍﺏ ﻧﮧ ﺁﯾﺎ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻧﮯ ﺳﻠﻤﺎﻥ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻨﮧ ﮐﻮ ﺑﮭﯿﺠﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﺳﻼﻡ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﻧﮧ ﺁﯾﺎ ﺣﻀﺮﺕ ﺳﻠﻤﺎﻥ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﻧﮯ ﻭﺍﻗﻌﮯ ﮐﺎ ﺗﺬﮐﺮﮦ ﻋﻠﯽ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ
ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺳﻮﭼﺎ ﮐﮧ ﺟﺐ ﺍﺗﻨﯽ ﻋﻈﯿﻢ ﺷﺤﺼﯿﺎﺕ ﮐﻮ ﺳﻼﻡ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﻧﮧ ﻣﻼ ﺗﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮭﯽ ﺧﻮﺩ ﻧﮭﯽ ﺟﺎﻧﺎ ﭼﺎﮬﯿﺌﮯ
ﺑﻠﮑﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﻧﮑﯽ ﻧﻮﺭ ﻧﻈﺮ ﺑﯿﭩﯽ ﻓﺎﻃﻤﮧ ﺍﻧﺪﺭ ﺑﮭﯿﺠﻨﯽ ﭼﺎﮬﯿﺌﮯ ۔ ﻟﮩﺬﺍ
ﺁﭖ ﻧﮯ ﻓﺎﻃﻤﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﮐﻮ ﺳﺐ ﺍﺣﻮﺍﻝ ﺑﺘﺎ ﺩﯾﺎ ﺁﭖ ﺣﺠﺮﮮ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﭘﮧ ﺁﺋﯿﮟ
ﺍﺑﺎ ﺟﺎﻥ ﺍﺳﻼﻡ ﻭﻋﻠﯿﮑﻢ
ﺑﯿﭩﯽ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺳﻦ ﮐﺮ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﮐﺎﺋﯿﻨﺎﺕ ﺍﭨﮭﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﮐﮭﻮﻻ ﺍﻭﺭ ﺳﻼﻡ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ﺍﺑﺎ ﺟﺎﻥ ﺁﭖ ﭘﺮ ﮐﯿﺎ ﮐﯿﻔﯿﺖ ﮬﮯ ﮐﮧ ﺗﯿﻦ ﺩﻥ ﺳﮯ ﺁﭖ ﯾﮩﺎﮞ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻓﺮﻣﺎ
ﮨﮯ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺟﺒﺮﺍﺋﯿﻞ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺁﮔﺎﮦ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﺍﻣﺖ ﺑﮭﯽ ﺟﮩﻨﻢ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ ﻓﺎﻃﻤﮧ ﺑﯿﭩﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻣﺖ ﮐﮯ ﮔﻨﮩﮕﺎﺭﻭﮞ ﮐﺎ ﻏﻢ ﮐﮭﺎﺋﮯ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺎﻟﮏ ﺳﮯ ﺩﻋﺎﺋﯿﮟ ﮐﺮﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﻧﮑﻮ ﻣﻌﺎ ﻑ ﮐﺮ ﺍﻭﺭ ﺟﮩﻨﻢ ﺳﮯ ﺑﺮﯼ ﮐﺮ ﯾﮧ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ
ﺁﭖ ﭘﮭﺮ ﺳﺠﺪﮮ ﻣﯿﮟ ﭼﻠﮯ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺭﻭﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯿﺎ ﯾﺎ ﺍﻟﻠﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﺍﻣﺖ ﯾﺎ ﺍﻟﻠﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﺍﻣﺖ ﮐﮯ ﮔﻨﮩﮕﺎﺭﻭﮞ ﭘﮧ ﺭﺣﻢ ﮐﺮ ﺍﻧﮑﻮ ﺟﮩﻨﻢ ﺳﮯ ﺁﺯﺍﺩ ﮐﺮ
ﮐﮧ ﺍﺗﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺣﮑﻢ ﺁﮔﯿﺎ
ﻭَﻟَﺴَﻮْﻑَ ﻳُﻌْﻄِﻴﻚَ ﺭَﺑُّﻚَ ﻓَﺘَﺮْﺿَﻰ
ﺍﮮ ﻣﯿﺮﮮ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﻏﻢ ﻧﮧ ﮐﺮ ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﮐﻮ ﺍﺗﻨﺎ ﻋﻄﺎ ﮐﺮﺩﻭﮞ ﮔﺎ ﮐﮧ ﺁﭖ ﺭﺍﺿﯽ ﮨﻮﺟﺎﻭ ﮔﮯ
ﺁﭖ ﺧﻮﺷﯽ ﺳﮯ ﮐﮭﻞ ﺍﭨﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﻟﻮﮔﻮ۔۔ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﻭﻋﺪﮦ ﮐﺮﻟﯿﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺭﻭﺯ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺍﻣﺖ ﮐﮯ ﻣﻌﺎﻣﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺏ ﺭﺍﺿﯽ ﮐﺮﮮ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺗﮏ ﺭﺍﺿﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﻧﺎ ﺟﺐ ﺗﮏ
ﻣﯿﺮﺍ ﺁﺧﺮﯼ ﺍﻣﺘﯽ ﺑﮭﯽ ﺟﻨﺖ ﻣﯿﮟ ﻧﮧ ﭼﻼ ﺟﺎﮮ .....مدهو
نے جنت کو شال سے آنسو پونچھتے دیکها وہ بهی حضرت محمد صلی علیہ والہ وسلم سے کافی متاثر ہوئی ایک ایسا نبی جو رات رات بھر رو کر صرف اپنی امت کے لیے بخشش مانگتا ہے ان جیسا اس دنیا میں کوئی نہیں ہو سکتا. .......
اگر اللہ تعالیٰ تم لوگوں سے اتنی محبت کرتے ہیں تو تمہیں تکلیف کیوں دیتے ہیں....؟
مدهو نے پوچها...وہ جانتی تھی ساتھ چلتی ہوئی لڑکی اسے ایک بار پھر لاجواب کر دے گی. ....
تکلیف نہیں دیتے مدهو وہ صرف امتحان لیتے ہیں. ..اور اگر امتحان نہ لیں تو ہم ان کی یاد سے غافل ہو جائیں گے. ..اگر آزمائشیں نہ ہوتیں تو ہم اللہ کو کهبی نہیں یاد کرتے...اور اللہ تعالیٰ صرف ہمیں نہیں آزماتے انہوں نے ہم سے پہلے اپنے پیاروں کو سب سے زیادہ آزمایا جن کی مثالیں آج بھی زندہ ہیں.....
کربلا کے میدان میں جنگ لڑتے ہوئے وہ اللہ کے پیارے کئی دن تک بهوکے پیاسے جنگ لڑتے رہے. ....اور حضرت یوسف علیہ السلام کو ان کے بھائیوں
نے اندهیرے کنوئیں میں پهینک دیا تها یہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک امتحان تها.....حضرت محمد صلی علیہ والہ وسلم نے بهوک کی وجہ سے اپنے پیٹ پہ پتهر باندهے اور روزانہ راستے پر سے گزرتے ہوئے ایک بڑهیا ان پہ کوڑا پهینکتی لیکن حضرت محمد صلی علیہ والہ وسلم ان کے لیے پهر بھی دعا کرتے......
یہ تهے ہمارے پیارے نبی. .جن کے صبر استقامت ،ایثار اور تقویٰ کی مثالیں آج صدیوں بعد بھی زندہ ہیں. ....
وہ لوگ سوکھی لکڑیوں کی ایک جهاڑی کے پاس پہنچ گئے. .رسی اور کلہاڑی وہیں پهینک کر وہ برف کے اوپر بیٹھ گئیں.....
جس نبی کو تم لوگوں نے دیکها ہی نہیں اس پہ یقین کرنا مشکل ہوتا ہوگا ناں. ..؟ جنت مسکرا دی.
کوئی مشکل نہیں ہے بس ایمان پختہ ہونا چاہیے..
ایک صحابی تها شاید جن کا نام مجهے نہیں یاد آ رہا حضور پاک سے کہنے لگے اے پیارے نبی ہم کتنے خوش قسمت ہیں جو آپ کو دیکھ رہے ہیں آپ سے باتیں کر رہے ہیں آپ کی سنتوں پہ عمل کر رہے ہیں. ...
تو حضور پاک نے کہا تم لوگ اتنے خوش قسمت نہیں ہو جتنی خوش قسمت میری آنے والی امت ہوگی تم لوگ مجهے دیکھ کر مجھ سے بات کر کے میری پیروی کر رہے ہو ..ایک امت ایسی ہوگی جو مجهے بنا دیکهے بنا سنے مجھ پہ ایمان لائے گی ...........
مدهو کے پاس مزید کوئی سوال نہیں تها...اس نے کہا تو فقط اتنا .. .
میں اسلام قبول کرنا چاہتی ہوں.....جنت نے خوشگوار حیرت سے اسے دیکها. ..
کیا تم نے اپنے شوہر سے بات کی اس بارے میں. ..؟
نہیں اکشے کهبی نہیں مانیں گے...ان سے بات کا فائدہ ہی نہیں ہے. ...وہ مایوسی سے بولی......
بہتر ہے تم ان سے بات کر لو ایک بار مدهو اور
انہیں اسلام کی اہمیت بتاو ..یقیناً وہ سمجھ جائیں گے. ..
ٹهیک ہے لیکن اس سے پہلے مجهے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے تم سے ...سب سے پہلے میں قرآن سیکهنا چاہتی ہوں... کیا تم مجهے سکهاو گی....؟
اس نے سوال کیا....جنت نے سر اثبات میں ہلا دیا....اور لکڑیاں کاٹنے لگی.....مدهو بھی وہیں کلہاڑی کے ذریعے مصروف ہو گئی......
بہت اچانک سے ہی جنت کو احساس ہونا شروع ہو گیا کوئی اسے دیکھ رہا ہے ..وہ جانتی تهی کون ہوگا اس نے اسکارف کو نقاب کے انداز میں لپیٹ لیا اور خود کو مکمل طور پر ڈھانپ لیا...دو آنکھوں کے علاوہ کچھ نظر نہیں آ رہا تها. ....اس نے دائیں طرف دیکها تو وہ اسے ایک درخت کے پیچھے کهڑا نظر آیا.....وہ وہیں کهڑی اسے دیکهتا رہا جب تک وہ لکڑیاں کاٹتی رہی وہ بھی کهبی کهبی ایک نظر اسے دیکھ ہی لیتی .....
جاتے وقت اس نے مدهو سے نظر بچا کر خط اسے

دکهایا اور وہیں اس جهاڑی کے پاس ہی رکھ دیا..اس نے دیکها روہاب کے چہرے پر روشنی سی آئی....پهر وہ مدهو کے ساتھ گهر آئی.....اور ان خطوں کا سلسلہ صرف ایک دن کا نہیں تها بعد میں بھی کئی بار روہاب نے گڑیا کو سکول سے چهٹی کے وقت وہ خط دیے تهے اور وہ بھی گڑیا کے ہاتهوں خط کا جواب بهیجنے لگی تهی.....
مدهو روزانہ اس سے قرآن پاک کی درس لینے آتی تھی اور وہ اسے کئی اسلامی واقعات اور قرآن سکهاتی تهی.....
_ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _
آیت کو لنڈن آئے دو مہینے ہو چکے تھے لنڈن کا شہر اس کے لیے اب پہلے جیسا اجنبی نہیں تھا. .وہ یہاں کے لوگوں یہاں کے ماحول میں خود کو مکمل طور پر ڈهال چکی تھی. ...یہ خوبصورت شہر تها اس کے خوابوں کا شہر وہ لنڈن سے محبت نہیں عشق کرتی تهی. .اسے یہاں شروع شروع میں کافی مشکلات کا سامنا تها وہ کسی کو نہیں جانتی تھی لیکن آہستہ آہستہ وہ سب کچھ ٹھیک کرتی گئی اور ان سب کا سارا کریڈٹ انوشیر رضا کو جاتا ہے اس نے ہر مشکل میں اس کا ساتھ دیا اسے لنڈن میں جب بھی کسی مسئلے کا سامنا ہوتا تو وہ سیدھا انوشیر کے پاس جاتی اور اسے اپنی پرابلم بتاتی...وہ خوشی سے یا مجبوری سے بہرحال اس کی مدد کر دیا کرتا..اس کا مزاج ویسے ہی تها جیسے ہمیشہ سے ہوتا تها...حد سے زیادہ سنجیدہ قسم کا مرد اور اس سے بھی بڑھ کر ایک پاکستانی مشرقی مرد.....
اسے لڑکیوں سے زیادہ بات کرنا اچها نہیں لگتا ..شروع میں آیت کو لگا وہ شرما رہا ہے لیکن بعد میں اسے پتا چلا وہ شرمیلا نہیں وہ غیرت مند ہی اتنا ہی کسی بھی لڑکی کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا. ..اسے آیت کا کسی اور لڑکے کے ساتھ بات کرنا بھی زیادہ اچها نہیں لگتا تھا یہ وہ تب محسوس کرتی تهی جب وہ کسی کے ساتھ ہوتی تو وہ اسے فوراً وہاں سے چلے جانے کا کہتا. ... .اگر وہ دونوں کہیں جا رہے ہوتے تو وہ ہمیشہ دو قدم آگے چلتا تها..اگر اس کے ہاتھوں میں کوئی چیز ہوتی تو وہ بنا کہے وہ چیزیں اٹھا لیتا.......
اصل مرد وہی ہوتے ہیں جو عورت کی حفاظت کریں.ان کی تمام ضروریات کا خیال رکھیں. ..غیرت مند ہر دوسری لڑکی کے ساتھ فری نہیں ہو جاتے ہر دوسری لڑکی سے محبت کا اظہار نہیں کرتے....وہ ہمیشہ عورت کو عزت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور انوشیر بھی انہی مردوں کی اقسام میں تها........
اس سے چند ہی ملاقاتوں میں وہ اس کے بارے میں بہت کچھ جان گئی تهی...جیسے کہ وہ قرآن پاک کا حافظ ہے اور حج بھی کر چکا ہے. ..وہ اسلام اور اللہ سے محبت کرتا تھا اور اس کی زیادہ تر باتیں اسلام کے حوالے سے ہی ہوتی تهیں...آیت جہاں کافی حد تک اس سے متاثر تهی وہیں وہ آپ میں احساس کمتری کا شکار ہوتی ..
آیت کی روم میٹ ایک انڈین لڑکی پوجا تهی جو کافی شوخ اور خوش مزاج تهی...اس کی تمام حرکتیں زیادہ تر مغربی تهیں لیکن اس کے باوجود بھی وہ انڈین سے محبت کرتی تهی پوجا سے اس کی کافی اچهی دوستی تهی اسے بھی لنڈن بہت پسند تها...وہ بھی سیر و تفریح کی کافی شوقین تهی......
پوجا کے بوائے فرینڈز کے بارے میں وہ یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہہ سکتی تهی کیونکہ ان کی تعداد سیکڑوں میں تهی..پوجا تقریباً ہر دوسرے دن اپنا بوائے فرینڈ تبدیل کرتی تهی اس کا سارا الزام میں وہ اپنے بوائے فرینڈ پر ڈالتی تهی اس بریک اپ کے بعد اسے کوئی اور مل جاتا وہ دو دن خوب رونے دهونے اور شور مچانے کے بعد اپنے طرف بڑهتے ہاتھ تهام لیتی....اسے پوجا کی یہ عادت کافی عجیب لگتی تھی لیکن اسے نصیحت کرنا بے کار تها کیونکہ وہ اپنی مرضی کرنے والوں میں سے تهی..لیکن اس سب کے باوجود بھی وہ اس کی اچهی دوست تهی ہر دکھ سکھ میں کام آنے والی جس سے وہ اپنے دل کی بات بے جهجک کہہ سکتی تهی. .لنڈن کا یہ سفر اس کے لیے بہت خوبصورت جا رہا تها. ......
_ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _
ڈھلتی شام کی سنہری روشنی لنڈن کی سرزمین کو اپنے ہی رنگ میں رنگنے کی کوشش کر رہی تهی...وہ کهڑکی کے پاس بیٹهی ٹهنڈی ٹهنڈی ہوا کے جھونکے لے رہی تهی....اس کے ہاتهوں میں اپنا مخصوص ناول تها ....لیکن وہ ناول نہیں پڑھ رہی تهی وہ کهڑکی سے نیچے باہر سٹوڈنٹس کو دیکھ رہی تهی....سیکڑوں کی تعداد میں انگریز ادهر ادهر گهومتے نظر آئے تهے اسے...اب وہ پہلے کی طرح انگریزوں سے نفرت نہیں کرتی تهی کسی حد تک وہ ان کے ساتھ گهل مل گئی تهی...اسے بے تکلفی بھی نہیں کہا جا سکتا تها لیکن شروع شروع کے کچھ دنوں میں اس کے دل میں انگریزوں کے خلاف جو کڑواہٹ تهی وہ ختم ہو گئی. ...
ہیلو ڈئیر آیت.....پوجا کی آواز پہ وہ چونکی..اس نے سر اٹها کر پوجا کو دیکها اور مسکرانے کی کوشش کی وہ آج شاپنگ پہ گئی ہوئی تهی اس نے اسے بھی چلنے کے لیے کہا لیکن اس نے انکار کر دیا.....پوجا اسے خوشی خوشی اپنی شاپنگ دکھانے لگی وہ بھی دلچسپی سے اس کی شاپنگ دیکھ رہی تھی پهر پوجا نے ایک بنا بازوؤں والی سکرٹ اسے دکهائی......
یہ کیا ہے ...؟ اس نے پوچها ....
یہ تمہارے لیے ہے. ....پوجا نے بتایا.....
لیکن میں اس طرح کے کپڑے نہیں پہنتی....اس نے اعتراض کیا.....
اف آیت...تم کتنی دقیانوسی قسم کی لڑکی ہو یہ لنڈن ہے پاکستان نہیں یہاں سبهی ایسے کپڑے پہنتے ہیں اس میں کچھ بھی غلط نہیں ہے. ....
لیکن میں نہیں پہنتی...
تم اگر ایک دن پہن لو گی تو آسمان نیچے نہیں آ جائے گا. .دیکهنا تم بہت اچهی لگو گی ابهی جا کر ٹرائی کرو میں دیکهنا چاہتی ہوں ......پوجا نے زبردستی وہ سکرٹ اس کے ہاتهوں میں تهمائی......اس نے بادل نخواستہ حامی بهر لی... .
وہ جب چینج کر آئی تو پوجا اسے دیکهتی رہ گئی بقول اس کے وہ بہت خوبصورت لگ رہی ہے. ..پوجا کمرے سے باہر نکل گئی وہ آئینے کے سامنے آئی ..وہ واقعی بہت اچهی لگ رہی تھی یہ احساس اسے آئینہ دیکھ کر ہوا تها...اس نے ہلکا میک اپ بھی کیا ..اور کمرے سے باہر نکل آئی. .موسم اچها تها اس لیے اس کا دل چہل قدمی کرنے کو چاہا.......
بنا بازوؤں والی شارٹ سکرٹ پہن کر جب وہ باہر نکلی تو کوئی اسے عجیب نگاہوں سے نہیں دیکھ رہا تها کیونکہ وہ اس ماحول کا حصہ معلوم ہو رہی تھی لیکن جانے کیوں وہ خود ان فٹ محسوس کر رہی تهی. ..یونیورسٹی کے احاطے سے باہر نکل کر وہ سڑک پر آئی... اس کے کهلے بال شانوں پر بکهرے ہوئے تهے ..سڑک پہ اس وقت اور بھی کئی لوگ چہل قدمی کر رہے تھے شام کا منظر کچھ لمحوں میں غائب ہونے والا تها...ہوا بھی ہمیشہ کی طرح ٹهنڈی سی تهی جو اس کے برہنہ بازوؤں کے آر پار گهس رہی تهی..اس کے وجود میں ہلکی سی کپکپاہٹ بھی ہوئی. ......
چلتے چلتے وہ کافی دور نکل آئی تهی..وہ اس وقت جس جگہ جس سڑک پر چل رہی تھی وہ بالکل سنسان تها..سڑک کے دونوں طرف لمبے لمبے درخت تهے جو ہوا کی وجہ سے جهوم رہے تهے. .اسے بہت اچانک احساس ہونا شروع ہوا جیسے کوئی اس کا پیچھا کر رہا ہے اس نے اپنے چلنے کی رفتار مدهم کر دی اور گردن موڑ کر پیچهے دیکها....پیچهے سے دو لڑکے اسے اپنی طرف آتے ہوئے دکهائی دیے...وہ دونوں شکل سے ہی آوارہ لگ رہے تھے .اچهے برے انسان ہر ملک یر جگہ ہوتے ہیں ضروری تو نہیں ہر برائی پاکستان میں ہو برائی تو ہر جگہ جڑیں پھیلائے ہوئے ہے.. .وہ سہم کر چلنا بهول گئی خوف کی ایک تیز لہر اس نے اپنی ریڑھ کی ہڈی میں محسوس کی....وہ لڑکے اب اس کے پاس آ چکے تھے وہ سمجھ نہیں سکی اسے اب کیا کرنا چاہیے. ...
ہائے ڈارلنگ. ..ان میں سے ایک لڑکا بولا...اس کے ہونٹوں پر شیطانی مسکراہٹ رقص کر رہی تهی وہ اس کے جملے سے زیادہ ان کے انداز سے گهبرا گئی..کوئی بھی جواب منہ سے نکلنے سے انکاری ہو گیا....چیونگم چباتا وہ لڑکا اسے اوپر سے نیچے تک بڑی گہری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا. ...اس وقت وہ اپنے آپ کو برہنہ محسوس کر رہی تهی اس کے وجود میں کپکپی طاری ہو گئی..... ..
اس نے بہتری اسی میں جانی کہ واپس لوٹ جائے اور واپس جانے کے لئے جب وہ مڑی تو اپنے قدم آگے نہیں بڑھا سکی ..ایک لڑکے نے مضبوطی سے اس کی کلائی پکڑ لی ....اور دوسرا لڑکا اس کے سامنے آ کر کهڑا ہو گیا..اس کی رہی سہی ہمت بھی جواب دے گئی وہ ان لڑکوں کی دیدہ دلیری پر حیران تهی.....
لیو مائی ہینڈ... ( ہاتھ چهوڑو میرا) ...

اس نے اپنے آپ کو مضبوط بنانے کی حتیٰ الامکان کوشش کی لیکن وہ اس کوشش میں بری طرح ناکام نظر آ رہی تهی...اس لڑکے نے اس کا ہاتھ نہیں چهوڑا پهر وہ اپنے دوسرے ہاتھ سے اس کے گال کو چهو رہا تها بے بسی اور بے عزتی کے احساس سے اس کی آنکهوں سے آنسو رواں ہو گئے....اس نے جهٹکے سے اپنا ہاتھ اس لڑکے کی گرفت سے آزاد کیا اور ایک زناٹے دار تهپڑ اس کے منہ پر دے مارا.......
لڑکا تلملا اٹها...اس کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا..اس نے آیت کے بالوں کو اپنی مٹهی میں دبا لیا...اور دوسرے لڑکے نے اس کی ہاتهوں کو پکڑ رکها تها وہ بے بسی کی انتہا پر تهی. ..شام ڈهل چکی تهی اس وقت اس کی مدد کو ایک فرشتہ ہی آ سکتا تها وہ جہاں جس سڑک پر کهڑے تهے وہاں کوئی ٹریفک بھی نہیں آتا تها......اچانک اس لڑکی کی مٹهی کا گرفت ڈهیلا پڑ گیا اور اس نے گردن موڑ کر پیچھے دیکها...دوسرے لڑکے نے بھی پیچهے دیکها.....سامنے انوشیر کهڑا تها. ..اسے یہ سب ایک خواب لگا...وہ یہاں کیسے. ..؟ کیا سچ میں وہ وہی تها..اسے انوشیر کے روپ میں اس وقت ایک فرشتہ نظر آیا جسے خدا نے اس کی حفاظت کے لیے بهیجا تها....وہ دونوں لڑکے انوشیر سے لڑنے کے لیے اس کی طرف بڑهے انوشیر نے ایک کے پیٹ پر زور دار لات ماری اور وہ کراہتا ہوا سڑک کے دوسرے کنارے پر جا گرا.......دوسرا لڑکا انوشیر سے لڑنے کے لیے بهاگا ..ان دونوں میں ہاتها پائی شروع ہو گئی.....انوشیر اس لڑائی میں زخمی ہو چکا تها اس کے ہونٹ سے خون نکل رہا تها....وہ آنسو بہاتی انوشیر کو دیکھ رہی تهی...پهر انوشیر نے اس کے پیٹ میں زور دار گهونسہ مارا جس کی وہ تاب نہ لا سکا اور لڑهکتا ہوا دور جا گرا ...وہ یہ سب ہوتے ہوئے دیکھ رہی تھی اس کے چہرے پر پسینے کے ساتھ ساتھ گهبراہٹ تهی....انوشیر کا چہرہ غصے اور غیرت سے لال ہو چکا تها وہ اسے اتنے غصے میں پہلی بار دیکھ رہی تھی. ..پهر اس نے انوشیر کو اپنی طرف آتے دیکها اس نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے کهینچتا ہوا وہ سے اپنی بائیک تک لے آیا..اس کا غصہ ابهی تک ٹهنڈا نہیں ہوا تها....
آیت کو اسے غصے سے بہت ڈرنے لگنے لگا. .اس نے کچھ لمحے آیت کی طرف دیکها. پهر اپنی لیدر کی جیکٹ اتار کر آیت کے برہنہ بازوؤں پر رکھ دی...وہ انوشیر کو بتانا چاہتی تهی کہ کس طرح اور کس ارادے سے وہ یہاں آئی تهی اور کیا ہوا تها اس کے ساتھ. .اسے لگا تها انوشیر اسے دلاسا دے گا اور اسے رونے سے منع کرے گا........لیکن انوشیر نے اپنا ہاتھ اوپر کی طرف بلند کیا اور ایک تهپڑ اس کے گال پر دے مارا...وہ حیرت اور دکھ کی ملی جلی کیفیت کے ساتھ انوشیر کو دیکهنے لگی .جس کے کان کی لو تک سرخ ہو چکی تهی..وہ بنا پلکیں جهپکائے انوشیر کو دیکھ رہی تهی یہ تهپڑ اس کے لیے غیر متوقع اور غیر معمولی تها...اسے نہیں معلوم یہ تهپڑ اسے کس لیے مارا گیا تھا ..وہ بس حیران تهی انوشیر کچھ لمحے مٹهیاں بھینچے کهڑا رہا...پهر اس نے آیت کی آنکھوں میں دیکها. .....
کس نے آپ سے کہا تھا اس طرح کے کپڑے پہننے کو...؟ وہ گرج دار آواز میں بولا..اس کی آواز سنسان سڑک پر دور دور تک سنائی دینے لگی.وہ پہلی بار اپنے آپ پر غور کرنے لگی اور اسے تهپڑ کی وجہ سمجھ آ گئی... .......
مہ...مہ..لیکن...اس میں کیا حرج ہے....؟ وہ بہ مشکل ہی بول پائی.....
کیا حرج ہے اس میں. .؟ وہ پہلے سے بھی زیادہ زور دار آواز میں بولا.....
آپ نے ایسے کپڑے ہی کیوں پہنے. ..؟ اس کا بس نہیں چلا کہ وہ آیت کا خون کر دیتا..وہ اس کے غصے سے کافی سہم چکی تهی......
میں نے صرف ایسے کپڑے پہنے ہیں لیکن اس میں میرا تو کوئی قصور. ...اس نے صفائی دینے کی کوشش کی لیکن انوشیر نے اس کی بات پوری نہیں ہونے دی...
سارا قصور آپ کا ہی ہے...یہ آپ آدهے ادهورے کپڑے پہن کر میک اپ کر کے اکیلی سنسان سڑک پر نکل پڑیں گی تو آپ کو کیا لگتا ہے آپ محفوظ رہیں گی...اگر آپ کو اپنی عزت اتنی ہی پیاری ہے تو یوں اس طرح کرتیں ہی کیوں...؟ان لوگوں کو دعوت آپ خود دے رہی ہیں آپ کے کپڑے چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں آپ کس قسم کی لڑکی ہیں اور آپ کہہ رہی ہیں قصور آپ کا نہیں. ..شرم آنی چاہیے آپ کو....انوشیر نے تاسف سے اسے دیکها تها...وہ شرمندہ تهی لیکن اس کے باوجود بھی اس نے اپنے دفاع کی کوشش ترک نہیں کی.......
لیکن لنڈن میں تو سب ایسے کپڑے پہنتے ہیں. ..؟
لیکن آپ لنڈن سے نہیں ہے. .آپ انگریز نہیں ہیں آپ پاکستان سے ہیں اور ایک مسلمان لڑکی ہیں..وہ یہ سب کر سکتے ہیں لیکن ایک مسلمان اور شریف گهر کی لڑکی یہ سب کهبی نہیں کر سکتی...زندگی میں انسان کئی مقامات پر جاتا ہے کئی ملکوں کی سیر بھی کرتا ہے لیکن یوں ان کی تہذیب کو فالو کرنے نہیں بیٹھ جاتا...ہمارا اپنا مذہب کامل ترین ہے ہمیں کچھ بھی فالو کرنے کی ضرورت نہیں ہے. ...اور جن لوگوں کی آپ بات کر رہی ہیں وہ شراب بھی پیتی ہیں کلب بھی جاتی ہیں اور غیر مردوں کے ساتھ راتیں بھی گزارتی ہیں....
وہ نگاہیں جهکائے شرمندہ ہو کر کهڑی تهی. ....
میں نے صرف پہلی بار غلطی کی. ..وہ جیسے ہار مانتے ہوئے بولی. ....
غلطی صرف ایک بار ہوتی ہے جو بار بار کیا جائے وہ غلطی نہیں گناہ کہلاتا ہے. ..اور گناہ کی پہلی سیڑھی ہی غلطی ہے....غلط راستے کی منزل ہمیشہ غلط ہوتی ہے جیسے کہ آج آپ نے غلطی کی اور اس کا انجام آپ نے خود دیکھا. اگر آپ پورے کپڑے پہن کر اور سر پر دوپٹہ لیتیں تو کوئی آپ پر انگلی اٹھانے کی ہمت بھی نہیں کر سکتا تها. ......وہ سر اٹهانے کے قابل بھی نہیں رہی تھی. ..انوشیر بائیک پر بیٹها وہ بھی اس کے پیچھے بیٹھ گئی سارا راستہ وہ روتی رہی. .ایک احساسِ ندامت تها جو اسے کهائے جا رہا تها... اگر آج انوشیر نہ آتا تو کیا ہو جاتا ...؟ لڑکی کی عزت کانچ کی طرح نازک ہوتی ہے اگر ایک بار ٹوٹ جائے تو پهر کهبی جڑ نہیں سکتا.....انوشیر نے اس سے کوئی بات نہیں کی وہ اس سے ناراض تها اسے یونیورسٹی کے ہوسٹل ڈراپ کر کے وہ خاموشی سے چلا گیا اور اس کی یہ ناراضگی صرف ایک دن کے لیے نہیں تهی وہ کئی دن تک یونہی ناراض رہا اسے منانا کافی مشکل تها..اس دن وہ بنچ پر بیٹها تها جب وہ اس کے پاس گئی اس نے ایک بار پھر انوشیر کو سوری کہا تها.....
دیکهیں اگر آپ کو مجھ سے بات کرنی ہے اور میری مدد چاہیے تو آپ آئندہ اس قسم کے کپڑے نہیں پہنیں گی اور ہمیشہ سر پر دوپٹہ بھی لیں گی.......انوشیر نے اس کے سوری کے جواب میں کہا تها اس نے سر اثبات میں ہلا دیا۔
_ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _
کهڑکی کے گرل سے سورج کی روشنی چهن کرتی اندر داخل ہو رہی تھی. .وہ ایک انگڑائی لے کر بیدار ہوئی اور کمبل ہٹا کر واش روم میں چلی گئی. .پوجا اس وقت کمرے میں نہیں تهی وہ ہمیشہ کی طرح صبح صبح جوگنگ کے لیے نکل گئی تهی.......
وہ کچن میں آئی اور اپنے لیے ناشتہ بنانے لگی...ناشتہ بنانے میں اسے صرف بیس منٹ لگے.. ...کمرے کے دروازے پہ اسے دستک سنائی دی. .وہ ناشتہ وہیں رکھ کر دروازے تک آئی..سامنے ہوسٹل کا پوسٹ مین کهڑا تها اس نے ایک خط اس کی طرف بڑهایا. . اس نے حیران ہوتے ہوئے وہ خط پکڑ لیا....پوسٹ مین جا چکا تها وہ ابهی بهی دروازے پہ کهڑی تهی. .
خط میرے لیے .؟ لیکن مجهے خط کون بھیجے گا. .؟ سوچتی ہوئی وہ اندر آئی اس نے تہہ شدہ کاغذ کھولا اور اس پہ لکهی تحریر پڑھ کر اس کے جسم میں جیسے جان ہی باقی نہ رہ گئی ہو......
اگر اپنی زندگی چاہتی ہو تو پاکستان واپس چلی جاو...وہ کاغذ اس کے ہاتھ سے گر گیا..
یہ دهمکی آموز خط اسے کون بهیج سکتا ہے لنڈن میں اس کا کون سا دشمن ہے....اچانک خوف اس کے اندر تک پھیلنے لگا...اسے اپنا وجود کانٹوں کی لپیٹ میں محسوس ہوا... لنڈن کی سرزمین اچانک اسے غیر محفوظ لگنے لگی.......پهر اسے وہ لڑکے یاد آئے جسے اس دن اس نے تهپڑ مارا تها. ...؟
لیکن وہ یہ کیسے جانتے ہیں وہ اس ہوسٹل میں رہتی ہے اور اس کمرے میں. .اور اگر وہ نہیں تهے تو پهر کون تها.؟جو بھی تها لیکن وہ بہت ڈر رہی تهی....
کیا مجهے پولیس کو اطلاع دینی چاہیے. ..اس نے سوچا.
نہیں. نہیں اگر انہیں معلوم چلا تو وہ لوگ کچھ بھی کرسکتے ہیں....لیکن میں اس طرح سب کچھ چهوڑ کر واپس نہیں جا سکتی جو بھی ہوگا دیکها جائے گا...اس نے دل کو ڈھارس دینے کی کوشش کی لیکن یہ کوشش کامیاب نہیں ہو رہی تهی. ...وہ ناشتہ کرنا بهول گئی ...وہ اگلے کچھ دن اسی ڈر اور خوف میں مبتلا رہی......
_ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _
کچھ دن اور آگے بڑھے. .اسے لگا تها کوئی دهمکی آموز خط دوبارہ آئے گا..لیکن اس کا یہ خیال غلط ثابت ہوا خط بهیجنے والے نے دوبارہ زحمت نہیں کی اور اسی میں اس نے غنیمت جانی....ایک ہفتہ گزر جانے کے بعد وہ مکمل طور پر اس طرف سے مطمئن ہو گئی...اس نے سوچا یہی تها کسی نے اس کے ساتھ خطرناک مذاق کیا ہوگا.....وہ اس خط کو بهول گئی اور ایک بار پھر اپنی زندگی میں مصروف ہو گئی. ...
اس دن موسم بہت اچها تها آیت نے کہیں سیر و تفریح کا پروگرام بنایا ابهی تک اس نے لنڈن کے کئی مشہور مقامات نہیں دیکهے...انوشیر نے اسے ایک بار وعدہ کیا تها وہ اسے ایک دن اپنے ساتھ سیر کرائے گا وہ جہاں جانا چاہے گی وہ اسے لے جائے گا. ....اور اس دن موسم بھی اچها تها چهٹی کا دن بھی تها تو اس نے گهومنے پھرنے کا پلان بنایا ......
وہ تیار ہونے لگی اس نے انوشیر کو میسج کر دیا تها جواب میں اس نے اوکے لکها تها....اس نے ہلکے گلابی رنگ کی فراک پہنی اور تهوڑا سا میک اپ بھی کیا...آدهے گهنٹے بعد انوشیر کا میسج آیا کہ وہ آ چکا ہے..وہ روم لاک کر کے نکلی اور سیڑھیاں اتر کر نیچے آئی انوشیر سامنے کهڑا تها.....

وہ اپنی بائیک پر بیٹها تها اس نے لیدر کی جیکٹ پہنی ہوئی تهی...ہاتهوں میں کسینو کی گهڑی اور گلے میں لٹکتا گولڈن لاکٹ....آستین کہنیوں تک فولڈ کیے ہوئے تهے اس نے. ..اس کی سنہری آنکهیں چمک رہی تھیں. ..وہ ہمیشہ خوش لباس تها اور وہ کافی گڈ لنکنگ تها اس نے پورے یونیورسٹی میں تو کیا پورے لنڈن میں انوشیر کے مقابلے کا لڑکا نہیں دیکها. .....
انوشیر نے اسے دیکھ کر بائیک سٹارٹ کی...وہ پیچھے بیٹھ گئی. ..اگلے ہی لمحے بائیک پوری رفتار کے ساتھ سڑک پر چلنے لگی...اس نے لاشعوری طور پر انوشیر کا جیکٹ پکڑ رکها تها...تیز تیز ہوا بھی چل رہی تهی آسمان پر بادل بھی تهے........ہوا کی وجہ سے اس کے بال اڑ رہے تھے. ..دوپٹہ سر سے سرک رہا تها..
دوپٹے کو درست کریں...انوشیر نے اس کا دوپٹہ اترتے دیکھ کر کہا..یہ جملہ وہ دس بار کہہ چکا تھا. .وہ اس معاملے میں کافی سخت تها اسے اس کا ننگا سر بالکل بھی نہیں پسند تها.....
سب سے پہلے انوشیر اسے الزبتھ ٹاور لے آیا تها یہ لنڈن کی سب سے خوبصورت عمارت ہے جسے بگ بین بھی کہا جاتا ہے ...اس کے چاروں طرف گهڑیال لگے ہوئے ہوتے ہیں جو وقت بتاتے ہیں. وہ بائیک سے اتری سب سے پہلی نگاہ اس کی عمارت کی اونچا پر گئی وہ عمارت بہت اونچی تهی اس کے قد سے بھی بہت اونچے. ....اس عمارت کو آنکهوں کے سامنے دیکهنا اس کی زندگی کی بہت بڑی خواہش رہی تهی اور آج اس کی یہ خواہش پوری ہو چکی تهی وہ عمارت اس کے سامنے تهی اتنے قریب اگر وہ ہاتھ بڑهاتی تو اسے چهو لیتی....نیٹ پہ تصویریں دیکهنا اور بات تهی لیکن سامنے اس خوبصورت عمارت کو دیکهنا بالکل الگ تها...ان کے علاوہ بھی کئی سیاہ تهے وہاں. .سیکڑوں کی تعداد میں. ....وہ آس پاس دیکهے بنا کافی دیر تک اس عمارت کو چاروں طرف سے دیکهتی رہی ......
اک خواب سا لگا تها اسے سب کچھ. ..اس نے پرس سے موبائل نکالی اور اس ٹاور کی مختلف اینگل سے تصاویر لینے لگی...اور ساتھ ہی اپنی بهی کئی سیلیفیاں بنا رہی تهی ....یہ سب کتنا اچها لگ رہا تها یہ آیت سے بہتر کوئی نہیں جان سکتا تها اس وقت. .......انوشیر اس سے بے نیاز بائیک سے ٹیک لگائے کهڑا تها.......
پورے آدهے گهنٹے تک وہ الزبتھ ٹاور کا نظارہ دیکهتے رہے پهر اسے انوشیر نے چلنے کو کہا وہ کافی بور نظر آ رہا تھا ان سب چیزوں سے لیکن آیت نے اس کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی.....پهر وہ اسے لے کر ایک بہت بڑے اور پرانے میوزم میں لے آیا. .لنڈن کے میوزم دنیا بھر میں مشہور ہیں. ..انوشیر نے پارکنگ میں بائیک کهڑی کی پهر وہ اس کے ساتھ چلتا ہوا اندر آیا...پارکنگ ایریا عبور کر کے وہ لوگ اس عجائب گھر کے اندر داخل ہو چکے تهے.......
آیت کو وہاں دیکهنے اور حیران کرنے کے لیے کافی چیزیں نظر آئیں...وہ ہزاروں کی تعداد میں عجیب عجیب چیزیں تهیں..جنہیں خوبصورتی سے سجایا گیا تها کچھ چیزیں شیشوں میں قید نظر آ رہی تهیں اور کچھ اس انداز سے رکهے ہوئے تهے کہ انہیں چهو کر اور اٹها کر دیکهنے کی بهی اجازت تهی.........
انوشیر بھی ادهر ادهر مختلف چیزیں دیکھ رہا تها..وہاں کئی اشکال کے بہت پرانے مجسمے بھی تهے جو اس طرح کهڑے تهے کہ حقیقت کا گمان ہوتا. ..ایک ایک چیز کو بار بار دیکهنے کے باوجود بھی آنکهیں نہیں بهر رہی تهیں...وہ پاکستان میں کئی عجائب گھروں میں وزٹ کر چکی تهی لیکن لنڈن کی بات کچھ اور تهی. .........
وہاں سے فارغ ہونے کے بعد انوشیر اسے ایک آئس کریم پارلر لے آیا تها...اسے یہ جان کر کرنٹ لگا کہ انوشیر کو روزہ ہے. ......
لیکن ابهی تو رمضان المبارک کا مہینہ نہیں ہے پهر آپ نے کیوں روزہ رکها...؟ وہ احمقانہ سوال پوچھ بیٹهی..انوشیر نے تاسف سے اسے دیکها......
اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کے لیے صرف رمضان المبارک کا تو انتظار نہیں کیا جا سکتا. .عبادت تو ہم کهبی بهی کسی بھی وقت کر سکتے ہیں. .....اس نے سنجیدگی سے جواب دیا. ......
تهک نہیں جاتے اتنی عبادت کر کر کے. ...؟ دوسرا حماقت سے بهر پور سوال بھی اس کے ہونٹوں سے پهسل گیا.......
اللہ کی عبادت سے کیسی تهکن...؟ تهکن اور سستی ان لوگوں کو ہوتی ہے جن کے دل صاف نہیں ہوتے یا جو پوری طرح ایمان نہیں لائے ہوتے...مجهے ماشاءاللہ ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے. ....اس کے لہجے میں تفاخر تها....
میری نظر میں آپ ایک اچھے مسلمان نہیں ہو...وہ آئس کریم سٹک منہ میں رکھتے ہوئے بولی انوشیر نے اسے الجهی نگاہوں سے دیکها.......
[ دسمبر لوٹ آنا تم تحریر ناصر حسین]

اب دیکھیں ناں..آپ نماز پڑهتے ہیں روزے رکھتے ہیں ..دوسروں کو دین پر عمل کرنے کی تلقین کرتے ہیں مجهے بھی ہمیشہ دوپٹہ سر پر لینے کی نصیحت کرتے ہیں. .لیکن آپ خود مکمل طور پر اسلام کی باتوں پر عمل نہیں کرتے ..جیسا کہ آپ کلین شیو کرتے ہیں جبکہ اسلام میں داڑھی رکهنا فرض ہے. ...اور بهی ایسی. ......انوشیر نے اس کی بات کاٹ دی....
داڑھی رکهنا فرض نہیں سنت ہے...اور سنت وہ ہوتی ہے جو ہم اپنے پاک پیغمبر حضرت محمد صلی علیہ والہ وسلم کو فالو کرتے ہیں. ...ضروری نہیں ہم ایک اچها نہیں کرتے تو ہمیں کوئی بھی اچها کام نہیں کرنا چاہیے. .اب اگر میں کسی وجہ سے روزے نہیں رکھ پاتا تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے مجهے نماز بھی نہیں پڑهنی چاہیے ...مجھ سے جتنا ہو رہا ہے میں جتنا کر سکتا ہوں میں کر رہا ہوں اور میں نے یہ تو کهبی بهی نہیں کہا میں بہت اچها مسلمان ہوں ...ہر انسان کی طرح میں بھی غلطیاں کر سکتا ہوں اور میں کرتا ہوں لیکن اس کا یہ مطلب تو ہرگز نہیں بن جاتا مجهے کهبی نیکیاں نہیں کرنی چاہیے ...مجهے کلین شیو اچها لگتا ہے میں کرتا ہوں اس معاملے میں 'میں نفس پر قابو نہیں پا رہا تو کیا میں نماز اور روزے بھی چهوڑ دوں......؟ آیت اس کی پوری بات توجہ سے سنتی رہی اس کے جملے کے اختتام پر وہ بولی. ......
تو مجهے بھی دوپٹہ سر پر لینا اچها نہیں لگتا تو کیا میں بھی. ..؟ انوشیر نے ایک بار پھر اس کی بات کاٹی ...
میں نے آپ کو فورس نہیں کیا دوپٹے کے لیے اس میں بھی آپ کا اپنا فائدہ ہے...اگر آپ اپنی مرضی کرنا چاہتی ہیں تو میں آپ کو روک تو نہیں سکتا..ویسے بھی اسلام میں زور زبردستی تو نہیں ہوتی...اگر آپ دوپٹہ نہیں لیں گی تو اس میں فائدہ یا نقصان آپ کو ہی ہوگا جیسے اس دن آپ اس طرح کا بے ہودہ لباس پہن کر باہر نکلیں تهیں اور انجام آپ نے خود دیکھ لیا..آپ کی کسی نیکی سے اللہ کو کیا فرق پڑے گا..اس کی عبادت کے لئے کروڑوں فرشتے موجود ہیں اگر آپ تکبر کر بھی لیں گی تو انہیں فرق نہیں پڑے گا...شیطان نے بھی اس طرح حوا کو بہکا کر اس کا لباس چهین لیا تها...آپ بھی شیطان کی بات ماننا چاہتی ہیں. ......؟
شیطان نے آپ کو بھی غلط راستے پر ڈال دیا تها اور آپ کے پیچھے کئی اور شیطان لگ گئے اگر آپ شیطان سے دور رہیں گی تو وہ بھی آپ سے دور رہے گا...اگر آپ شیطان کے پاس ہوتی جائیں گی تو رحمن سے دور ہوتی جائیں گی ...شیطان جس نے اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرنے سے انکار کیا تها اور ان کی رحمت سے محروم ہو گیا آپ بھی کیا اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم ہونا چاہتی ہیں. ......؟
آیت نے نگاہیں جهکا لیں...اس کے پاس کوئی جواب نہیں تها کسی زمانے اس کا بہت بڑا دعویٰ تها ایک اچهے مسلمان ہونے کا لیکن اس شخص نے اس کے ہر دعوے کو ٹهوکر مار دی...آئینہ دیکھ کر اسے معلوم ہوا وہ صرف مسلمان ہے اور اچها مسلمان بننے میں اسے مزید وقت لگے گا....اس نے مزید سوال نہیں کیے. .کیونکہ ایسا کرنے میں اپنی ہی بے عزتی کرنے کے مترادف تها.....
پهر انوشیر اسے ایک خوبصورت جھیل کے کنارے لے آیا تها...وہ اس جھیل کو دیکھ کر پلکیں جھپکنا بهول گئی..قدرت کا وہ خوبصورت منظر اس کی سوچ سے بھی زیادہ خوبصورت تها..مصنوعی چیزیں چاہے کتنی ہی خوبصورتی سے بنائی جائیں وہ کهبی بهی قدرتی چیزوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے. ....وہ مسکراتی نگاہوں اور آنکهوں سے اس جھیل کو دیکهتی رہ گئی...اس نے وہاں بھی کئی تصویریں بنائیں اس نے انوشیر کو بھی تصاویر بنانے کے لیے دعوت دی لیکن اس نے انکار کر دیا. ........ وہ تب تک ایک خوبصورت درخت تلے نیم دراز لیٹا رہا....
وہ لمحے وہ پل بہت خوبصورت تهے جو لوٹ کر نہیں آنے تهے کهبی بهی. جنہیں وہ موبائل اور آنکهوں میں قید کرنے کی ناکام کوشش کر رہی تهی. ......ان دونوں کی واپسی مغرب کے وقت ہوئی اور وہ کافی خوش تهی اس دن.....
_ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _
وہ اس وقت لنڈن کے سب سے بڑے شاپنگ مال کے چهت تلے پوجا کے ساتھ کهڑی تهی.. اس کے چاروں طرف لوگوں کا ایک میلہ تها وہ اس بهیڑ میں ان لوگوں کے ساتھ اس مجموعے کا حصہ معلوم ہو رہی تھی پوجا اس کے برابر کهڑی تهی. ....اس خوبصورت اور عالیشان عمارت کا اندرونی حصہ دیکھ کر جتنی وہ حیران تهی پوجا اتنی حیران نہیں تهی کیونکہ وہ اس شاپنگ مال میں پہلے بھی کئی بار آچکی تهی. ..اگر اسے لنڈن کا سب سے بڑا مال کہا گیا تها تو بالکل سہی تها وہ نہ صرف عمارت بڑی تهی بلکہ اس کی ایک ایک چیز خوبصورتی سے ڈیزائن کی گئی تهی.....پوجا اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے تقریباً کهینچتے ہوئے آگے لے جا رہی تهی. ...وہ اس مال میں پہلی بار آئی تهی اس لیے اس کا دل چاہا وہاں کی ہر چیز اپنی آنکهوں میں محفوظ کر لے مگر نہ جانے پوجا کو کس بات کی جلدی تهی.....چلتے چلتے وہ کئی بار ادهر ادهر دیکهنے کے لیے رکی تھی. .پوجا کو اس کی یہ حرکت نہایت احمقانہ لگی اور وہ اس کی ان حرکتوں سے کافی تنگ نظر آ رہی تهی........
تم یہ سب اور کتنی دیر تک کرنے والی ہو...؟ پوجا نے زچ ہو کر اسے ٹوکا.....
کیا...؟ اس نے ناسمجھی کے عالم میں پوجا کی طرف دیکها...
یہی رک رک کر لوگوں کو گهورنا...اس نے ناگواری سے بهویں چڑهائیں..اور پوجا کے ساتھ چلتی ہوئی کپڑوں والی سٹال کی طرف آئی...وہاں کپڑے سبهی لنڈن کے رسم و رواج کے مطابق تهے اس لیے وہ صرف ان کپڑوں کو دیکھ رہی تهی ... .البتہ اس نے دو چار شیمپو اور ایک دو فیس واش ضرور خریدے تهے.....پهر پوجا اسے جیولری والے حصے کی طرف لے آئی...وہاں کی خوبصورت ڈائمنڈ جیولری دیکھ کر وہ ایک بار پھر پتهر ہو گئی ..وہاں کی ایک ایک شے خوبصورت تهی ..اور اس سے بھی زیادہ ہر چیز خوبصورتی سے سجائی گئی تھی. .....پوجا نے موبائل پہ اس کے کسی بوائے فرینڈ کا میسج آیا تها.....
اوہ....میرا بوائے فرینڈ باہر کهڑا ہے اور مجهے بلا رہا ہے ..کیا تم اکیلی واپس ہوسٹل چلی جاو گی....؟ پوجا نے میسج پڑھ کر اس سے پوچها...اس نے سر اثبات میں ہلا دیا. ..یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں تها...
اس نے دوپٹے کو اچهی طرح درست کیا جو بار بار سر سے پهسلنے لگا تها...کوئی پیچھے سے بڑی تیزی کے ساتھ اس سے ٹکرایا تها اس نے گردن موڑ کر پیچهے دیکها تو ایک لڑکا جو تیزی سے چلتا ہوا مال کے دروازے سے باہر نکل رہا تھا. ...
اس نے نظر انداز کر دیا اور ایک بار پھر وہ خوبصورت جیولری دیکهنے لگی اسے خریدنا کچھ نہیں تها بس یونہی دیکھ رہی تھی. .دس منٹ بعد پورے مال میں شور اٹها ....وہ بھی شور کی طرف متوجہ ہوئی ...غور کرنے پر پتا چلا کوئی ڈائمنڈ رنگ چوری ہو گئی....مال کے دروازے بند کر دیے گئے تهے. .پولیس بھی آ چکی تھی اور وہاں کهڑے سبهی لوگوں کی تلاشی لینے لگی. ..وہ ایک سائیڈ پہ حیران سی کهڑی ہو کر یہ سب دیکھ رہی تھی. ....اچانک ایک پولیس والا بولا. ..
چیک دیٹ پاکستانی گرل. . .اس کی اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے رہ گئی....اس نے ان دو پولیس والوں کو اپنی طرف آتے دیکها. .وہ اس کے قریب آئے اور اس سے بنا پوچهے اس کا پرس لے کر تلاشی لینے لگے...وہ خاموش کهڑی تهی پولیس والا اپنا ہاتھ اندر ڈال کر کهنگهال رہا تها...اسے کوئی ڈر نہیں تها ...لیکن پهر بھی اسے یہ سب کچھ اچها نہیں لگ رہا تها....
پولیس والے نے اپنا ہاتھ باہر نکالا...اس کے چہرے پہ ایک استہزائیہ مسکراہٹ تهی سبهی لوگ منہ کهولے حیرت سے ان کی طرف دیکھ رہے تھے ..وہ پولیس والے کو یا کسی اور کو نہیں بلکہ اس ڈائمنڈ رنگ کو دیکھ رہی تهی جو پولیس والے نے اس کے پرس سے برآمد کیا .....اسے اپنے چاروں طرف دھماکوں کی آوازیں آنے لگیں...رہی سہی جان بھی نکل گئی....
چوری کرتی ہو....اس پولیس والے نے حقارت سے اسے دیکها. .وہ کچھ نہیں بول سکی لب ہلنا بهول گئے..وہ تو یہ سوچ کر ہی شاکڈ تهی وہ ڈائمنڈ رنگ اس کے پرس میں کیسے آیا....پولیس والے نے اپنے ساتھی کو اشارہ کیا اور وہ آگے بڑھا. ....پهر کسی نے اس کا ہاتھ پکڑا. ...اور کوئی اسے کهینچتے ہوئے ایک تاریک کمرے میں لے آیا...دروازہ باہر سے بند کر دیا گیا تها......
کیا یہ سب سچ مچ ہو رہا تها..؟ وہ بے یقینی سے اس تاریک کمرے کو دیکھ رہی تهی. .یہ سب کتنی جلدی ہوا اسے سوچنے سمجهنے کی مہلت ہی نہیں ملی...اسے اس چهوٹے کمرے میں گهٹن ہونے لگی سانس لینے میں دشواری ہو رہی تھی وہ کیا کیا نہیں دیکھ رہی تھی ..میڈیا چینلز پر اس کا تصاویر اخبار میں اشتہارات. ..اس کا تو سب کچھ ختم ہو جاتا پل بھر. .سب کچھ تباہی کی آخری سیڑھی پر کهڑا تها. ...اس بند تاریک کمرے میں نہ تو وہ خود کو نکال سکتی تهی اور نہ ہی کوئی اس کی مدد کر سکتا تها. اس کمرے کو دیکھ کر اسے قبر کا گمان ہونے لگا.... .....
آیت شاپنگ مال میں تهی. .اچانک

پورے مال میں ایک شور سا اٹها ....وہ بھی شور کی طرف متوجہ ہوئی ...غور کرنے پر پتا چلا کوئی ڈائمنڈ رنگ چوری ہو گئی....مال کے دروازے بند کر دیے گئے تهے. .پولیس بھی آ چکی تھی اور وہاں کهڑے سبهی لوگوں کی تلاشی لینے لگی. ..وہ ایک سائیڈ پہ حیران سی کهڑی ہو کر یہ سب دیکھ رہی تھی. ....اچانک ایک پولیس والا بولا. ..
چیک دیٹ پاکستانی گرل. . .اس کی اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے رہ گئی....اس نے ان دو پولیس والوں کو اپنی طرف آتے دیکها. .وہ اس کے قریب آئے اور اس سے بنا پوچهے اس کا پرس لے کر تلاشی لینے لگے...وہ خاموش کهڑی تهی پولیس والا اپنا ہاتھ اندر ڈال کر کهنگهال رہا تها...اسے کوئی ڈر نہیں تها ...لیکن پهر بھی اسے یہ سب کچھ اچها نہیں لگ رہا تها....
[ دسمبر لوٹ آنا تم تحریر ناصر حسین]
پولیس والے نے اپنا ہاتھ باہر نکالا...اس کے چہرے پہ ایک استہزائیہ مسکراہٹ تهی سبهی لوگ منہ کهولے حیرت سے ان کی طرف دیکھ رہے تھے ..وہ پولیس والے کو یا کسی اور کو نہیں بلکہ اس ڈائمنڈ رنگ کو دیکھ رہی تهی جو پولیس والے نے اس کے پرس سے برآمد کیا .....اسے اپنے چاروں طرف دھماکوں کی آوازیں آنے لگیں...رہی سہی جان بھی نکل گئی....
چوری کرتی ہو....اس پولیس والے نے حقارت سے اسے دیکها. .وہ کچھ نہیں بول سکی لب ہلنا بهول گئے..وہ تو یہ سوچ کر ہی شاکڈ تهی وہ ڈائمنڈ رنگ اس کے پرس میں کیسے آیا....پولیس والے نے اپنے ساتھی کو اشارہ کیا اور وہ آگے بڑھا. ....پهر کسی نے اس کا ہاتھ پکڑا. ...اور کوئی اسے کهینچتے ہوئے ایک تاریک کمرے میں لے آیا...دروازہ باہر سے بند کر دیا گیا تها......
کیا یہ سب سچ مچ ہو رہا تها..؟ وہ بے یقینی سے اس تاریک کمرے کو دیکھ رہی تهی. .یہ سب کتنی جلدی ہوا اسے سوچنے سمجهنے کی مہلت ہی نہیں ملی...اسے اس چهوٹے کمرے میں گهٹن ہونے لگی سانس لینے میں دشواری ہو رہی تھی وہ کیا کیا نہیں دیکھ رہی تھی ..میڈیا چینلز پر اس کا تصاویر اخبار میں اشتہارات. ..اس کا تو سب کچھ ختم ہو جاتا پل بھر. .سب کچھ تباہی کی آخری سیڑھی پر کهڑا تها. ...اس بند تاریک کمرے میں نہ تو وہ خود کو نکال سکتی تهی اور نہ ہی کوئی اس کی مدد کر سکتا تها. اس کمرے کو دیکھ کر اسے قبر کا گمان ہونے لگا....لیکن وہ ڈائمنڈ رنگ وہ کیسے اس کے پرس میں آیا...کس نے ڈالا ہوگا کس کی سازش ہوگی پهر اسے وہ دهمکی آموز خط یاد آیا.......جو کچھ وہ اتنے عرصے سے بهلائے بیٹهی تهی وہ سب کچھ ایک دم پهر سے یاد آنے لگا تھا. .لیکن اس وقت سب سے بڑا مسئلہ یہاں سے نکلنے کا تها...چاروں طرف گهپ اندهیرا تها روشنی کی ایک بهی کرن نہیں تهی.
موبائل اس کے ہاتهوں میں تها اور اسے اچانک انوشیر یاد آیا...وہ اس کی مدد کرے گا وہ ضرور کرے وہ ہمیشہ اس مدد کرتا تھا ہر مصیبت میں آج بھی اگر اسے یہاں سے کوئی بچا سکتا تها تو وہ انوشیر ہی تها...اس نے بڑی تیزی سے انوشیر کا نمبر ملایا اور روتے ہوئے سسکیوں کے درمیان اسے پوری بات بتائی. . ......
آپ فکر نہ کریں میں ابهی آرہا ہوں...اس نے جواب میں اتنا ہی کہا اور اچانک اسے ہر طرف روشنی نظر آنے لگی جیسے سب کچھ آخری سیڑهی پر گرنے سے بچ گیا. ....اس کے سر میں درد ہونے لگا اسے چکر آنے لگا چاروں طرف اندهیرا محسوس ہوا...اسے لگا وہ بے ہوش ہونے والی ہے اور وہ فرش پر بے سدھ ہو کر گر گئی.....اس کی آنکهیں بند ہو رہی تهیں...لیکن آنکهیں بند ہونے سے پہلے اس نے جو منظر دیکها انوشیر سامنے کهڑا اس لنڈن پولیس والے سے کوئی بحث کر رہا تھا. ......
مجهے اس لڑکی پر پورا بھروسہ ہے یہ کهبی ایسا کر ہی نہیں سکتی. ...اس نے انوشیر کے منہ سے آخری جملہ سنا اس کے بعد وہ ہوش و حواس کی دنیا سے باہر نکل گئی. ..........
_ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _
جب اس کی آنکھ کهلی تو اس نے خود کو ہوسٹل کے کمرے میں پایا...وہ اس وقت نیم دراز تهی اس کے اوپر کمبل تها سر میں ابهی تک ہلکا سا درد باقی تها...انوشیر اس کے پاس بیٹها تها. ..وہ انوشیر کی بہت مشکور تهی اس نے کئی بار کئی مقامات پر اس کی مدد کی وہ اس کے احسانوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی تھی شکریہ کا لفظ بہت چهوٹا تها ان سب کے لئے. ..
انوشیر اسے ہوش میں آتا دیکھ کر مطمئن ہو گیا وہ اس وقت سے وہاں اس کے پاس تها جب سے وہ بے ہوش ہوئی تهی....پوجا بھی وہیں آ گئی اور آتے ہی بیڈ پر اس کے برابر بیٹھ گئی. .....انوشیر نے اجازت طلب کی وہ کافی دیر سے وہیں بیٹها ہوا تھا. ... .اس نے انوشیر کو روکنے کی کوشش نہیں کی حالانکہ اس کا دل بہت چاہ رہا تھا وہ تهوڑی دیر اس کے پاس رک جاتا......
آئم سوری آیت یہ سب میری وجہ سے ہوا....پوجا نے معذرت خواہ انداز میں اس کی طرف دیکها وہ کافی شرمندہ نظر آ رہی تھی. .....
"نہیں نہیں. .پوجا یہ سب تمہاری وجہ سے نہیں ہوا تمہیں شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے". ...وہ مدهم آواز میں بولی.وہ جانتی تهی جو ہوا اس میں پوجا کی غلطی نہیں ہے یہ سب ضرور ان لڑکوں نے کیا ہوگا .....
نہیں تم کچھ بھی کہو لیکن مجهے یوں اس طرح تمہیں اکیلے چهوڑ کر نہیں جانا چاہیے تھا. ..وہ بہت ہی زیادہ شرمندہ تهی اور کافی دیر تک آیت کے پاس بیٹهی باتیں کرتی رہی پهر اس نے آیت کے لیے سوپ بنایا اور اسے اپنے ہاتهوں سے وہ سوپ پلانے لگی.........
رات تک آیت کی طبیعت کافی سنبهل چکی تهی وہ خود کو فریش محسوس کر رہی تهی. .چائے کا کپ لے کر وہ کهڑکی کے پاس آئی. ..سوچوں کا ایک انبار اکهٹا ہو رہا تھا اس کے دل میں. .موہ حالیہ واقعے کے بارے میں سوچنے لگی....اسے خوف محسوس ہونے لگا. ..سب کچھ بهنور کی زد میں آتا دکهائی دیا..اپنی زندگی اسے خطرے میں محسوس ہونے لگی.......
اور یہ اسی رات کی بات ہے جب وہ گہری نیند میں تهی تب اچانک ایک آواز سن کر جاگ گئی...
تم ابهی تک یہیں ہوں لگتا ہے تمہیں اپنی زندگی نہیں عزیز. ...بهاری مردانہ آواز پورے کمرے میں گونج اٹهی اس کے ڈر اور وحشت میں مزید اضافہ ہوگیا...ماتهے پہ پسینہ تها وہ کچھ بول نہیں سکی....حلق سے آواز نہیں نکل رہی تھی. .پهر اچانک اس نے ہاتهوں نے حرکت کی اور اس نے سائیڈ لیمپ آن کر دیا..پورا کمرہ روشنی میں نہا گیا ..اس نے ڈرتے ڈرتے چاروں طرف دیکها ...کوئی بھی نہیں تها پوجا پاس سوئی ہوئی خراٹے لے رہی تهی اس نے خوف و ہراس سے جهنجهوڑ کر پوجا کو اٹهایا. ...پوجا خمار آلود آنکهیں مسلتی ہوئی بیدار ہوئی....
پوجا اس کمرے میں کوئی ہے...اس نے کمبل اپنے اوپر گردن تک کرتے ہوئے بتایا. .پوجا نے حیران ہو کر اسے دیکھا اور اٹھ کر بیٹھ گئی. .....
" یہاں کون ہے. ..کوئی بھی تو نہیں ہے. "..پوجا نے چاروں طرف دیکھ کر جواب دیا....
":نہیں. .نہیں پوجا میرا یقین کرو یہاں کوئی تها میں نے خود اس مرد کی آواز سنی".....اس نے پوجا کو یقین دلانے کی کوشش اور پوجا نے اسے ایسا دیکھا جیسے اس کی دماغی حالت پر شبہ کرنے لگی ہو.......
یہاں کوئی نہیں ہے کہاں ہے اچهی طرح دیکھ لو...ضرور تم نے کوئی برا خواب دیکها ہوگا..چلو اب سو جاو.....پوجا لائٹ آف کر کے کمبل اوڑھ کر سو گئی.....وہ بهی ڈرتے ڈرتے سونے کے لئے لیٹی تھی اسے یقین تها یہ خواب نہیں تها اور نہ ہی کوئی وہم....اس رات وہ دیر تک سو نہیں سکی ......
اس کے دل میں خوف گهر کر گیا .اب سوتے جاگتے چلتے پھرتے وہ ڈر رہی تھی اس بات کو اس نے انوشیر کے ساتھ ڈسکس نہیں کیا لیکن وہ اسے بتانا چاہتی تهی شاید وہی اس معاملے میں اس کی مدد کرتا....اس دن وہ انوشیر کے ساتھ پیدل چلتی ہوئی سڑک پر چل رہی تھی وہ اس بات کو ڈسکس کرنا چاہتی تهی...اچانک ایک ہیوی لوڈر اس کے بالکل سامنے آ رہا تھا وہ اسے دیکھ نہیں سکی لیکن انوشیر نے اسے دیکھ لیا تھا اس نے اسے دهکا دے دیا اور خود بھی دور جا گرا......اس دن اس کا شک یقین میں بدل گیا یہ سب اتفاق نہیں تها....یہ ایک سازش تھی جو جان بوجھ کر کی جا رہی تهی. .....اس کے ڈر میں مزید اضافہ ہوا......وہ پڑهائی میں بھی دل نہیں لگا پا رہی تهی. ..کچھ دن تک یہ معاملہ خاموش ہوا..وہ تهوڑی مطمئن ہوئی تهی اور ایک بار پھر زندگی کی طرف لوٹنا چاہتی تهی......
_ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _
اسے بهوک کا احساس ہوا__بنا اس وقت وہ کچھ نہیں سکتی تھی موڈ ہی نہیں تها اس لیے اس نے کینٹین سے کچھ کهانے کا فیصلہ کیا. ....
یہی سوچ کر وہ کمرے سے نکل کر سیڑھیاں عبور کرتی یونیورسٹی کے کشادہ لان میں داخل ہوئی...اس کے ہیل والے قدم سبز گهاس پر پڑ رہے تھے ...وہ آس پاس دیکهنے بنا بے نیازی سے چلتی ہوئی آگے بڑھ رہی تهی. .آسمان پر بادل چھائے ہوئے تهے موسم کافی سہانہ تها......
پرندے ہوا سے باتیں کرتے پوری لندن کو اپنے تلے محسوس کر رہے تھے. ...ہر طرف سٹوڈنٹس کے گروپس دکهائی دے رہے تهے وہ پہلے دن کی طرح سب کو دیکھ کر گهبراتی نہیں تهی اب......وہ کینٹین سے کچھ ہی فاصلے پر تهی جب اسے اپنے پیچھے کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی. ....
" کہاں جا رہی ہیں آپ..." ؟ آواز سنتے ہی اس نے رک کر پیچھے دیکها سامنے انوشیر کهڑا تها...وہی سنجیدہ انداز .....
" میں کینٹین جا رہی ہوں."..اس نے کینٹین کی طرف اشارہ کیا انوشیر نے بهی کینٹین کی طرف دیکها. ..
وہاں کئی قسم کے اوباش لڑکے کهڑے ہیں آپ کو جو بھی خریدنا ہو مجهے بتا دیا کریں.....اس کے روکهے انداز میں کہے جانے والے اس جملے پہ وہ برا سا منہ بنا گئی....اس نے آف موڈ کے ساتھ جوس لانے کو کہا...اور وہیں انتظار کرنے لگی. ...پتا نہیں یہ انوشیر لندن میں رہ کر اتنا مذہبی کیسے ہے....وہ تو پاکستان میں بھی اتنی مذہبی کهبی نہیں تهی. ...اسے انوشیر کی یہ دخل دینے والی عادت سے چڑ ہوتی . . وہ ہمیشہ اس پہ عجیب و غریب پابندیاں لگاتا. ....جیسے جس طرف لڑکے کهڑے ہوں اس طرف مت دیکها کرو...یا شاپنگ کرتے ہوئے وہ ہمیشہ اس کے برابر چلتا....اگر کوئی سامان اس کے ہاتهوں میں ہوتا تو وہ بنا کہے اس کا سامان اٹها لیتا.....
اس قسم کے دقیانوسی مرد اس دور میں ملنا مشکل تهے پتا نہیں انوشیر کون سی دنیا سے تها........
وہ جوس لے کر آ گیا...اب جوس پینے کا موڈ کس کا تها....
بے دلی سے اس نے اسٹرا ہونٹوں سے لگایا. ...

" ہمیشہ بیٹھ کر کچھ پیتے ہیں. .."؟ اور انوشیر نے ٹوکنا اپنا فریضہ سمجها......
"کیوں کهڑے ہو کر پینے سے کیا ہوتا ہے. "....وہ سوال کیے بنا نہیں رہ سکی.....
"اگر آپ کو معلوم ہو جائے کهڑے ہو کر کچھ پینے سے کس قسم کا شیطان آپ کے ساتھ پی رہا ہے تو آپ زندگی بھر کهڑے ہو کر پانی نہیں پیں گی....اور کهڑے کهڑے پینے سے صحت کے بهی نقصان ہوتے ہیں. ..."وہ اسے ہمیشہ کی طرح تحمل سے سمجها رہا تھا. ..لیکن آیت کے سب سر سے اوپر گزرتا جا رہا تها. .."آپ کو نہیں لگتا آپ کو اپنے ان نصیحتوں پر ایک کتاب لکهنی چاہیے. "..وہ جل کر بولی اقر بیٹھ کر جوس پینے لگی ..انوشیر نے کوئی جواب نہیں دیا. ..اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا اس سے دور جا رہا تها. ......
وہ اس کو پیچھے سے دیکهتی رہ گئی..کمال کی شخصیت تهی اس کی
لیپ ٹاپ وہ سامنے رکهے بیٹهی تهی. . وکیپیڈیا کا پیج کهلا نظر آ رہا تھا ...جہاں سے وہ لندن کی ہسٹری کهنگهال رہی تهی. ..ابهی تهوڑی دیر پہلے ہی اس نے کهانا کهایا تها پوجا مزے سے خراٹے لے رہی تهی اس کے خراٹے ہمیشہ کی طرح ڈسٹرب کر رہے تھے اسے...وہ ہمیشہ کوشش کرتی کہ پوجا سے پہلے سو جائے تا کہ اس کے بهیانک خراٹوں سے بچ سکے لیکن ہر بار کوئی نہ کوئی کام نکل ہی آتا..........
پهر اس نے لیپ ٹاپ کو سائیڈ پہ رکها اور کچن میں آ کر کافی بنانے لگی. .رات کو تهکاوٹ میں کافی پینے کی عادت اس کی بہت پرانی تهی...خراٹوں کی آواز کچن تک بھی آ رہی تھی . کافی بنا کر وہ مگ تهامے کهڑکی کے پاس چلی آئی......
کهڑکی بند تهی جسے اس نے کهولا...اور کهڑکی کے کهلتے ہی ٹهنڈی ہوا کا جھونکا اس کے وجود سے ٹکرایا...چاندنی رات تهی اور چاند کی دھیمی دھیمی روشنی زمین پر پڑ رہی تهی. ...چاند ہمیشہ کی طرح سب سے منفرد تها ہمیشہ کی طرح ہزاروں ستاروں کے درمیان سر اٹهائے کهڑا نظر آ رہا تھا. ......
کیسے ہو. ...اس نے چاند سے پوچها...چاند سے باتیں کرنے کی عادت اسے ہمیشہ سے تهی..اسے لگتا تھا ہم جو باتیں کرتے ہیں چاند سنتا ہے. ........
"تم جواب کیوں نہیں دیتے .."؟ اس نے چاند کو خاموش دیکھ کر پوچها ...وہ اب بھی ویسے ہی خاموش رہا....
"اتنے بھی خوبصورت نہیں ہو..انوشیر تم سے زیادہ خوبصورت ہے وہ بھی تمہاری طرح زیادہ نہیں بولتا..".
پتا نہیں اسے اس وقت انوشیر کیسے یاد آ گیا...چاند کے سامنے ایک بادل کا ٹکڑا آ گیا اور وہ مکمل طور پر چھپ گیا ۔
"اوکے چهپو مجهے بهی تم سے بات کرنے کا کوئی شوق نہیں ہے. ."...اس نے زور سے کهڑکی بند کر دی..کافی ٹهنڈی ہو چکی تهی ...کپ سے بهاپ اٹهنا بالکل بند ہو چکا تها... .وہ تیزی سے گهومی اور پھر بے اختیار ٹهٹک گئی....
پوجا الجهے بالوں کے ساتھ نیند میں اسے حیران ہو کر دیکھ رہی تھی. ...
"کس سے بات کر رہی تهیں تم.."...؟
""چاند سے."...وہ کندهے اچکا کر بولی.....
"کیا تم پاگل ہو...".؟ پوجا بهر پور حیران ہونے کے بعد بولی.....
" ہاں بہت سارا"......وہ بال پیچھے جهٹک کر بولی....
اور کچن کی طرف بڑهی..پوجا بھی اس کے پیچھے پیچھے آئی....
"آئندہ تمہیں چاند سے بات کرنی ہو یا ستاروں سے لیکن تم میری نیند خراب نہیں کرو گی..."..پوجا کو اپنی نیند خراب کیے جانے پہ بہت دکھ تها....آیت نے اسے گهورنا مناسب سمجها....
"اور تم جو چالیس ہزار فریکوئنسی کے خراٹے لیتی ہو وہ. ..؟ کهبی سوچا ہے میں کیسے سوتی ہوں...."
"ہاں ....وہ...تو میں. ..مطلب وہ تو خود ہی نکلتے ہیں." ..پوجا نے نگاہیں چرائیں اور ایک بار پھر بیڈ پہ جا کر لیٹ گئی....وہ سنک سے کپ دهو کر بیڈ پہ آئی....اور اپنا موبائل چارجنگ پہ لگا کر سونے کے لیے لیٹی..وہ رات کو ہمیشہ موبائل چارجنگ پہ لگا کر ہی سوتی تهی دن کو تو پوجا میڈم کا موبائل لگا رہتا تھا. ......
شکر تها جو پوجا جاگ گئی ورنہ وہ کهبی سو ہی نہیں پاتی اور اب وہ پندرہ منٹ بعد نیند کی وادی میں اتر گئی...لیکن وہ زیادہ دیر سو نہ سکی ...اسے جیسے کوئی آواز دے رہا ہو ...کوئی اس کا نام لے رہا ہو ..اسے لگا وہ خواب دیکھ رہی ہے مگر وہ خواب نہیں تها وہ اٹھ کر بیٹھ گئی. ..اس نے ماتهے کو پوروں سے چهو کر دیکها جہاں پسینہ تها..وہ کافی بوکهلائی ہوئی نظر آ رہی تھی. .....
اچانک اسے کمرے میں سایا نظر آیا کوئی چلتا ہوا سایا...اس کی آنکهیں خوف سے پهیل گئیں. .وہ بنا پلکیں جهپکائے اس سائے کو دیکهے جا رہی تھی. ....
پهر اس کی نظر وہاں سے ہوتے ہوئے کهڑکی تک گئی اور اسے جهٹکا اس وقت لگا جب اس نے کهڑکی کو کهلا پایا....اسے یاد تها وہ کهڑکی بند کر کے آئی تهی ....م
"تم اب تک واپس نہیں گئی. "..؟ پورے کمرے میں ایک بهاری مردانہ آواز گونجی. ..اور اس نے آنکهوں پر ہاتھ رکھ کر ایک زور دار چیخ ماری. ..پوجا ہڑابڑا کر اٹھ بیٹھی....اس نے لیمپ آن کیا.....
"کیا ہوا. .".؟ وہ ڈر کر رونے لگی...پوجا اسے حیرت سے دیکهے جا رہی تھی. ....
" ابهی کوئی کمرے میں تها..".اس نے ہچکیوں کے درمیان اپنی بات مکمل کی.....
"پاگل ہو کیا...یہاں کوئی نہیں ہے". ..پوجا نے خفگی سے سے دیکها پهر اس نے چاروں طرف دیکھا واقعی کمرے میں کوئی نہیں تها. ...
"میرا یقین کرو ابهی کوئی تها یہاں. .".؟ اس نے پوجا کو یقین دلانے کی کوشش کی. ......
"پلیز سو جاو ...دیکهو کوئی نہیں ہے ضرور تم نے کوئی خواب دیکها ہوگا اس دن کی طرح." ...پوجا اسے ملامت کرتی کمبل کهینچ کر سو گئی اور لیمپ بھی آف کر دیا...وہ ابهی بهی سمٹ کر بیٹهی تهی اور آس پاس دیکھ کر جیسے کسی کو تلاش کر رہی تهی...پوجا کہہ رہی تھی وہ وہم ہے لیکن وہ وہم نہیں تها اسے یقین تھا. ..اسے پچهلے سارے واقعات بھی ترتیب سے یاد آنے لگے تهے....اس نے صبح انوشیر سے بات کرنے کا فیصلہ کر لیا. .وہ اسے سب کچھ بتائے گی...وہ ضرور کوئی نہ کوئی حل نکال لے گا اس کے مسئلے کا....
وہ ڈرتے ڈرتے پهر سے سونے کے لیے لیٹی اس نے کمبل کهینچ کر اپنے اوپر کر لی اور کروٹ بدل کر کهڑکی کی طرف مڑ گئی. ...کهڑکی کهلی نظر آئی....
[ دسمبر لوٹ آنا تم تحریر ناصر حسین]
ٹهنڈ کے باوجود اس میں اتنی ہمت نہیں تهی جا کر کهڑکی بند کر دے...وہ آنکهیں کهول کر کهڑکی سے باہر چاند کو دیکھ رہی تھی. .نیند تو اسے آنی ہی نہیں تهی....اسے ایک بار پھر کرنٹ لگا...جب اس نے کسی کو کهڑکی کے اوپر چڑھتے دیکها....وہ جهٹکا کها کر کهڑی ہو گئی. ..وہ کهڑکی سے اندر آتا شخص باہر کود گیا...ایک سانپ تها جس نے اسے کاٹا تها...وہ بهاگتی ہوئی کهڑکی تک آئی......
اور پهٹی ہوئی آنکھوں سے اس شخص کو چاند کی روشنی میں دور جاتا دیکھ رہی تھی. ..وہ اس شخص کو پہچان سکتی تهی. .وہ انوشیر تها جو لمبے لمبے قدم اٹهاتا اس سے دور جا رہا تها. ...لیکن حیرت اسے اس بات پہ ہوئی یہ شخص اس کے ساتھ یہ سب کر رہا تھا. .مگر کیوں ...؟ انوشیر یہ سب کیوں کر رہا تھا. ..؟ وہ اسے کیوں مارنا چاہتا تھا اور اگر مارنا چاہتا تھا تو وہ اسے بچاتا کیوں تها.......ایک نام جو وہ زندگی بهر نہیں سوچ سکتی تهی وہی نام اس کے سامنے تها.....
انوشیر یہ کیوں چاہے گا وہ واپس پاکستان چلی جائے...اور اس دن وہ ڈائمنڈ رنگ اس کے پرس میں "انوشیر نے ہی رکها تها اور پھر لوڈر "...؟
بے یقینی سے بے یقینی تهی...جس شخص کے اوپر وہ اتنا بهروسہ کرتی تهی...وہ یہ سب کیوں کر رہا تھا. ...؟وہ تو ایک مذہبی لڑکا تھا اسلام اور اللہ سے محبت کرنے والا پهر وہ اس کی جان کیوں لینا چاہتا تھا. ..؟
او میرے اللہ. ..وہ سر تهام کے بیٹھ گئی..ہزاروں سوالوں کے درمیان ایک سوال کا بھی جواب اس کے پاس نہیں تها...لیکن وہ جواب حاصل کرنا چاہتی تهی وہ انوشیر سے بات کرنا چاہتی تهی...وہ اس سے سب کچھ جاننا چاہتی تهی.....
وہ اس سے ایک بار پھر ملنا چاہتی تهی. .......
جنت چوہدری نے کهبی سوچا نہیں تها وہ کسی سے یوں محبت کر بیٹهے گی..لیکن محبت تو ایسا جذبہ ہے جو اپنے وجود سے خود ہی آشنا کرواتا ہے. ..پسند کی دوسری سیڑھی چاہت ہوتی ہے اور چاہت پیار میں بدل جاتا ہے پهر انسان پیار سے محبت تک کا سفر طے کرتا ہے اور محبت سے عشق ...اور عشق جنون کی آخری سیڑھی ہے وہ پیار سے محبت میں داخل ہو چکی تهی اور عشق میں داخل ہونے والی تهی. ......
جس چیز سے وہ خود کو ساری عمر بچاتی رہی وہ چیز کوئی بهوت بن کر پیچھے لگا تها اس کے. ..لیکن اس کے باوجود بھی اس نے کهبی حد پار کرنے کی کوشش نہیں کی وہ محبت بھی سمجھ کر ہی کر رہی تهی اور روہاب کی محبت اللہ کی محبت کے بعد ہی آتا تها وہ سب سے زیادہ عشق اس وقت بھی اللہ سے ہی کرتی تهی.....
روہاب کا قیام طویل سے طویل تر ہوتا جا رہا تها اس برفانی علاقے میں ..وہ صرف جنت کے لیے اس اجنبی علاقے میں رہ رہا تها .اور جنت بھی اس پردیسی سے یوں دل لگا بیٹهی تهی جیسے یہ دنیا اس انسان پر آ کر ختم ہو جاتا ہو ....روہاب کے ساتھ اس کا رابطہ ویسے ہی تها وہ گڑیا کے ذریعے اس تک خط پہنچاتی. ..گڑیا سکول جاتے وقت چپکے سے اس کا خط لے جا کر ایک جهاڑی میں رکھ دیتی اور اس کا جوابی خط اٹها کر جنت کو لا دیتی....یہ سب وہ سبهی گهر والوں سے چپکے چپکے کر رہے تھے کسی کو اس بارے میں علم نہیں تها....
رام عروج اور گڑیا کی زندگی بالکل ویسی ہی تهی. برسات کے دسمبر کے خوبصورت موسموں کو انجوائے کرتے وہ بچپن کے خوبصورت دنوں سے خوب لطف اندوز ہو رہے تھے. ...بچپن کی یہ بے خبری زندگی میں پهر کهبی ہاتھ نہیں آنے والا تها...لمحے گزر رہے تھے کهبی نہ واپس آنے کے لیے. .....
گڑیا اور رام کی لڑائی بھی ہمیشہ کی طرح جاری تهی عروج البتہ ان دونوں سے زیادہ لیے دیے ہی رہتی...وہ رام سے کهبی نہ لڑتی اسے اپنا چهوٹا بهائی سمجهتی تهی لیکن گڑیا ایک نمبر کی ضدی تهی وہ رام کی شیطانیاں کهبی معاف نہیں کرتی...اگر وہ سیر تها تو وہ بھی سوا سیر تهی. .
شرارتیں اپنی جگہ لیکن رام حقیقت میں ایک مچیور اور صاف دل لڑکا تھا مذاق تک ہی وہ سب کرتا تھا باقی گڑیا کو حقیقت میں وہ بالکل بھی ناپسند نہیں کرتا تها ...اور گهر لے ماحول کی وجہ سے بھی وہ کافی حد تک ڈسٹرب رہنے لگا....اکشے کا رویہ ویسے ہی تها مدهو کے ساتھ. ..مار پٹائی تو عام بات ہو گئی تھی کهبی کهبی رام کا دل چاہتا وہ اپنے باپ کو چهوڑ دے یا ماں کو کہیں دور لے جائے جہاں پیتا جی نہ ہوں لیکن آٹھ سال کا بچہ یہ سب صرف سوچ ہی سکتا تها. ...

مدهو اسلام کو لے کر کافی حد تک سنجیدہ تهی اور وہ جنت سے مزید معلومات بھی لے رہی تهی وہ قرآن پاک بھی سیکھ رہی تهی اور دن بہ دن اسلام قبول کرنے کا فیصلہ مستحکم ہوتا جا رہا تها. ......
جنت کے کہنے پہ اس نے ایک بار اکشے سے مذہب کی تبدیلی کے بارے میں بات کی اسے اندازہ تها اکشے غصہ ہوگا...لیکن وہ اس حد تک جنونی ہوگا یہ اس نے نہیں سوچا تها ...جس رات اس نے اکشے سے بات کی رام چوہدری افضل کے گهر سونے کے لئے گیا ہوا تھا ..اسے نہیں معلوم تها یہ بات اس کی بہت بڑی غلطی بن جائے گی اکشے اس کی بات سنتے ہی آگ بگولا ہوا تها اور اس نے مدهو کو پیٹنا شروع کر دیا. ......
وہ کوئی زیادہ مذہبی نہیں تها لیکن اپنے مذہب کے علاوہ وہ کسی دوسرے مذہب میں بھی دلچسپی نہیں لیتا تها...اور یہ بات اسے ایک گالی کی طرح لگی...وہ مسلمانوں کو کسی حد تک ناپسند کرتا تها .....اس نے مدهو کو سخت الفاظ میں وارننگ دی وہ دوبارہ کهبی اسلام قبول کرنے کی بات تو دور اسلام کے حوالے سے کوئی بات نہیں کرے گی ورنہ وہ اس کی جان لینے سے بھی گریز نہیں کرے گا...مدهو جانتی تهی یہ محض دهمکی نہیں ہے وہ ایسا کر سکتا ہے اور ایسا ہی کرے گا اس رات کے بعد مدهو میں دوبارہ اتنی ہمت پیدا نہیں ہوئی وہ اکشے سے اس موضوع پر بات کرتی.......لیکن اسلام میں اس کی دلچسپی ختم نہیں ہو رہی تهی. ..وہ روز بروز خود کو اسلام میں انوالو ہوتا پا رہی تهی. . .. اسے محسوس ہو رہا تها کوئی مقناطیسی قوت ہے اس مذہب میں جو اسے کهینچ رہا ہے. ....
پہلے اگر وہ سوچ رہی تهی اکشے اس معاملے میں اس کا ساتھ دے گا تو اب اس سوچ پر بھی پانی پهر چکا تها اکشے اس کا ساتھ تو دور اسے کهبی ایسا کرنے بھی نہیں دیتا.اب اسے جو کرنا تھا اکیلے ہی کرنا تها لیکن اکیلے اسلام قبول کرنے کے نتائج سے بھی وہ واقف تهی ایسا کرنے کی صورت میں اسے اکشے کے ساتھ ہر رشتہ ختم کرنا تها وہ اس کے ساتھ نہیں رہ سکتی تهی یہ اس کے لیے بہت بڑی قربانی تهی خاص طور پر تب جب اس کا کوئی دوسرا ٹهکانہ نہیں تها اور رام کی ذمہ داری بھی اسی کے سر پر تهی.تو ایسے میں کوئی بھی فیصلہ لینا کافی کهٹن تها اس کے لیے.............
_ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _
رام گڑیا اور عروج تینوں اپنے بهاری بیگ سنبهالے گهر سے باہر نکلے...سورج کی روشنی ہلکی ہلکی پڑ رہی تھی. ..جو تهوڑی ہی دیر بعد غائب بھی ہوجاتی یہاں کا موسم ہی کچھ ایسا تها..
برف کی سفید چادر میں چهپا وہ علاقہ کافی خوشگوار تاثر پیش کر رہا تها ..دور سے آنے والے سیاحوں کے لئے وہ جنت کا ٹکڑا تها لیکن مقامی لوگ کچھ زیادہ خوش نہیں تهے اس برف باری سے. ..سوائے ان بچوں کے جو برف کے گولے بناتے اور گهنٹوں بیٹھ کر اس برف پر کهیلتے......
وہ تینوں باتیں کرتے ہوئے سفر طے کر رہے تھے ..سکول میں بھی وہ تینوں ایک ساتھ ہی بیٹهتے. .ایک ہی بنچ پر ایک سائیڈ پر رام دوسری پہ گڑیا بیچ میں عروج بیٹھ جاتی...اگر وہ بیچ میں نہ ہوتی تو رام اور گڑیا لڑ جھگڑ کر پورا سکول ہی سر پر اٹها لیتے.....
اور عروج کافی حد تک تنگ تهی ان کے جھگڑوں سے. .نصیحت یا صلح بے کار تهی کیونکہ ان کی جنگ بہت پرانی تهی جسے ختم کرنا آسان نہیں تھا. .....
واپسی پہ وہ تینوں گول گپوں کی ریڑھی کے پاس گول گپے کهانے لگے وہ سکول سے ہی کچھ فاصلے پر کهڑی نظر آئی....رام نے جان بوجھ کر گڑیا کی پلیٹ میں کچھ زیادہ ہی مرچیں ڈال دیں....جس سے اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ وہیں کهڑے کهڑے رام کو برا بهلا کہنے لگی...رام ہنس ہنس کر دوہرہ ہو رہا تها. ..ایسی چهوٹی موٹی حرکتیں وہ ہمیشہ سے کرتا تها ..گڑیا کو تنگ کر کے وہ کافی انجوائے کرتا تھا ۔
واپس گهر آتے وقت سورج کو بادلوں نے چهپا دیا تها ان تینوں نے اپنی عادت کے مطابق ہمیشہ والی جگہ پر بیگز رکھ دیے اور وہیں بیٹھ کر برف کے گهر بنانے لگے...سکول سے چهٹی کے بعد ایک یا دو گهنٹے کهیلنا ان کی روزانہ کی روٹین میں شامل تها....
گڑیا گهر بناتی رام گرا دیتا.. گڑیا غصے میں آ کر اس پر برف کے گولے پهینکتی اور اسے بلی جیسی آنکھوں والے کہہ کر اپنے دل کا بهڑاس نکالتی.......
عروج البتہ ان دونوں کی نسبت کافی پرسکون مزاج کی لڑکی تھی .زیادہ ہلا گلا کرنا اس کی عادت نہیں تهی....اچانک کهیلتے کهیلتے گڑیا کو احساس ہوا اس نے اپنی زنجیر جو وہ گلے میں ہمیشہ پہنتی تهی گم کر دی....جس سے وہ کافی پریشان تهی وہ لاکٹ سونے کی نہیں تهی لیکن اس کے ساتھ اس کی جذباتی وابستگی تهی....اس لیے وہ اس کے لیے بہت قیمتی تهی...وہ تینوں اس وقت مل کر وہی ایک کام کر رہے تھے یعنی لاکٹ کو ڈهونڈ رہے تھے. ..اور کافی جدوجہد کے بعد زنجیر ملی بهی تو کس کو رام کو...اور وہ گڑیا کو تنگ کرنے کا کوئی موقع اتنی آسانی سے بهلا کیسے جانے دے سکتا تها. ...گڑیا اتنی پریشان لاکٹ گم ہونے پہ نہیں ہوئی تھی جتنی پریشان رام کے ہاتھ لگنے ہر ہوئی تھی. .... .
" اوئے بلی جیسی آنکھوں والے میرا لاکٹ واپس کرو...".اس نے انگلی اٹھا کر رام کو وارننگ دی تهی...وہ ہاتھ باندھ کر شرارت سے اسے دیکهنے لگا. ..
"کیوں کیوں ...دوں ...؟ تم میری کیا لگتی ہو "...؟ گڑیا نے غصے سے دانت پیسے.....اس کی سمجھ میں نہیں آیا وہ کیا کرے اس کا ....
"دیکهو ہم اچهے اچهے دوست نہیں ہیں پلیز واپس کر دو."..گهی سیدھی انگلی سے نہیں نکلی تو وہ انگلی ٹیڑھی کر چکی تهی یہ مجبوری تهی ورنہ رام کے سامنے جهکنا اس کی شان کے خلاف تها. ........
"نہیں ایسے نہیں. .بتاو شادی کرو گی مجھ سے". .. ؟
گڑیا کا غصہ آوٹ کر گیا...برف کا ایک گولا پوری قوت سے اس نے رام کی طرف اچهالا...جب بھی رام یہ کہتا اسے یہ بات ایک گالی لگتی......
" کهوتے کے بچے...دفع ہو جاو مجهے نہیں چاہیے. ...غصے سے چلا کر وہ بولی....".رام نے کندھے اچکا کر وہ لاکٹ بیگ میں ڈال دیا....گڑیا کو لگا تها وہ اسے خود ہی واپس کر دے گا اور ارادہ رام کا بھی یہی تها وہ اسے تهوڑی دیر تنگ کرنے کے بعد زنجیر واپس کر دینا چاہتا تھا مگر اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا وہ زنجیر ہمیشہ کے لیے اس کے بیگ میں رہ جائے گی...اور یہ بات گڑیا نے بھی نہیں سوچی ......
جب وہ واپس جانے لگے تو گڑیا ہمیشہ کی طرح ان دونوں کو اکیلا چهو کر اس جهاڑی کے پاس آئی جس پہ وہ ہمیشہ آتی تھی. ..اس نے رام اور عروج کو باتوں میں مصروف پا کر اپنی پرس سے جنت کا دیا ہوا خط نکال کر اس جهاڑی میں رکھ دیا اور وہاں رکها ہوا روہاب کا خط اٹها کر واپس پرس میں ڈال دیا....یہ سب وہ بڑی راز داری سے کرتی تهی...اس کا علم کسی اور کو تو کیا رام اور عروج کو بھی نہیں ہوتا.....
گهر آکر اس نے چپکے سے وہ روہاب والا خط جنت بوا کو دیا. ..جیسے یہ سب روٹین کے کام ہوں...جنت اس وقت درخت کے نیچے بیٹھ کر اسی کا انتظار کر رہی تھی وہ ہمیشہ ہی گڑیا کا یونہی انتظار کرتی....سکینڈ صدیوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں انتظار کافی کهٹن ہوتا ہے ...کئی کئی بار وہ دروازے سے جھانک کر دیکهتی اگر گڑیا لیٹ ہو جاتی تو وہ بن پانی کے مچھلی کی طرح تڑپنے لگتی...گڑیا سے خط پا کر جیسے برستی بارش میں کوئی سائبان آ گیا ہو....وہ بهاگتی ہوئی اندر اپنے کمرے میں گئی دروازہ بند کر اس نے خط کهولا.....
"اسلام و علیکم دنیا کی سب سے خوبصورت اور پیاری لڑکی...آپ کیسی ہیں امید ہے آپ اچهی ہوں گی اب اگر آپ میری خیریت چاہتی ہیں تو میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں میں بالکل بھی خیریت سے نہیں ہوں...ہماری اس داستان کو کئی دن گزرے اب ملاقات کا بھی شرف بخشیں....ورنہ آپ کا یا عاشق یہیں ان پہاڑوں میں دم توڑ دے گے..."..دهڑکن بے قرار ہوئی. ...آخر میں ایک غزل بھی لکها تها.......
" ﺩﮬﯿﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺁ ﮐﺮ ﺑﯿﭩﮫ ﮔﺌﮯ ﮨﻮ, ﺗﻢ ﺑﮭﯽ ﻧﺎ ...
ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺴﻠﺴﻞ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﮯ ﮨﻮ, ﺗﻢ ﺑﮭﯽ ﻧﺎ ...
ﺩﮮ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﻮ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﮐﺘﻨﮯ ﺭﻧﮓ ﻧﺌﮯ
ﺟﯿﺴﮯ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﻣﻠﮯ ﮨﻮ , ﺗﻢ ﺑﮭﯽ ﻧﺎ ...
ﮨﺮ ﻣﻨﻈﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﺏ ﮨﻢ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﻣﺠﮫ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﮯ ﺁﻥ ﺑﺴﮯ ﮨﻮ, ﺗﻢ ﺑﮭﯽ ﻧﺎ ...
ﻋﺸﻖ ﻧﮯ ﯾﻮﮞ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﮨﻢ ﺁﻣﯿﺰ ﮐﯿﺎ
ﺍﺏ ﺗﻮ ﺗﻢ ﺑﮭﯽ ﮐﮩﮧ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﻮ, ﺗﻢ ﺑﮭﯽ ﻧﺎ ...
ﺧﻮﺩ ﮨﯽ ﮐﮩﻮ, ﺍﺏ ﮐﯿﺴﮯ ﺳﻨﻮﺭ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﺁﺋﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﻮ, ﺗﻢ ﺑﮭﯽ ﻧﺎ ...
ﺑﻦ ﮐﮯ ﮨﻨﺴﯽ ﺍﻥ ﮨﻮﻧﭩﻮﮞ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﻮ
ﺍﺷﮑﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺗﻢ ﺑﮩﺘﮯ ﮨﻮ, ﺗﻢ ﺑﮭﯽ ﻧﺎ ...
ﻣﯿﺮﯼ ﺑﻨﺪ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺗﻢ ﭘﮍﮪ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﻮ
ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﺍﺗﻨﺎ ﺟﺎﻥ ﭼﮑﮯ ﮨﻮ, ﺗﻢ ﺑﮭﯽ ﻧﺎ ...
ﻣﺎﻧﮓ ﺭﮨﮯ ﮨﻮ ﺭﺧﺼﺖ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺩ ﮨﯽ
ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﮨﺎﺗﮫ ﻟﯿﮯ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﮨﻮ, ﺗﻢ ﺑﮭﯽ ﻧﺎ .."

اس نے خط آنکهوں سے لگا کر....اپنے پرانے صندوق میں رکها جہاں پہلے بھی کئی خطوط پڑے ہوئے تھے جنہیں وہ روزانہ رات کو سو سو بار پڑهتی......
وہ ملاقات کا کہہ رہا تها اور وہ اسی بارے میں سوچ رہی تھی ..محبت اور خطوط اور بات تهی لیکن اس طرح یوں کسی اجنبی نا محرم سے ملنا اس جیسی مذہبی لڑکی کے لیے ناممکن تها...دل اس کا بہت چاہ رہا تھا لیکن اس طرح یوں وہ اپنے اصولوں کی دهیجیاں نہیں اڑا سکتی تهی. .دل انسان کو بہت کچھ کرنے کو کہتا ہے لیکن انسان ہر وہ کام نہیں کر سکتا. ..نفس کو قابو رکهنا بہت ضروری ہے .. پہلا قدم نفس پر رکھ کر ہی دوسرا قدم جنت میں ہوگا....اور جنت جیسی لڑکی جو صبح جاگنے سے لے کر رات سونے تک کوئی ایک کام بھی مذہب کے خلاف نہیں کرتی یوں کسی اجنبی سے ملنا اس کے لیے مشکل تها. ...........
اس رات چاند کی روشنی میں اس نے روہاب کے خط کا جواب لکها اور اس میں اپنی وہ مجبوری بتائی جس کی وجہ سے اس کے لیے ملاقات کرنا مشکل تها. ..ہر رات سونے سے پہلے وہ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتی یہ سوچ کر جو وہ کر رہی ہے کہیں کچھ غلط تو نہیں ہے. ..وہ تو دوسروں کو دین سکهاتی تهی اور خود اپنے معاملے میں دل کے سامنے یوں کتنی بے بس ہو گئی. ...اگلی صبح اس نے گڑیا کو بستے میں وہ خط رکھ دیا..گڑیا یہ بات جانتی تهی اس لیے سکول جاتے وقت اس نے وہ خط جهاڑی میں رکھ دی...
اس کا جواب چهٹی کے وقت ہی آنا تها جو وہ اسی جهاڑی سے اٹها لیتی...روہاب چونکہ جانتا تھا یہ خط کا وقت ہے اس لئے وہ بے تابی سے جهاڑی تک آیا...اور بے ترتیب دهڑکن کے ساتھ وہ خط کهول کر پڑهنے لگا....
" اسلام و علیکم. ....
آپ نے ملاقات کی درخواست کی اس کے لیے میں تہہ دل سے آپ سے معذرت چاہتی ہوں ..ملنا میرے بس کی بات نہیں ہے ...آپ سے ملنے کے مجهے بہت کچھ قدموں تلے روند کر آنا پڑے گا جن میں میرے بهائی کی عزت بھی ہے...اور یوں نا محرم سے ملاقات میرے اللہ کو بھی نہیں پسند...میں کسی انسان کو راضی کرنے کے لیے اللہ کو ناراض نہیں کر سکتی..میں جانتی ہوں یہ اتنی بڑی بات نہیں ہے لیکن گناہ کی پہلی سیڑھی ہمیشہ چهوٹی ہوتی ہے. ....
اگر آج میں اپنے نفس پر قابو رکهوں تو یہ ہم دونوں کے لیے بہتر ہے محبت کرنا گناہ نہیں ہے لیکن محبت میں حدیں پار کرنا بہت بڑا گناہ ہے. ....خواہشات انسانوں کے لیے ہوتی ہیں انسان خواہشات کے لیے نہیں ہوتے ...میں نے آج تک کسی غیر مرد کو اپنا چہرہ نہیں دکهایا اور اب بھی دل کے ہاتهوں مجبور ہو کر میں ایسا نہیں کر سکتی. ..جس چیز کو چھپانے کا حکم میرے اللہ نے دیا ہے میں اسے ننگا نہیں کر سکتی. .......
روزانہ فرشتے ہمارا نامہ اعمال اللہ تعالیٰ کے سامنے لے جا کر پیش کرتے ہیں میں نہیں چاہتی کسی بھی پل کسی بھی لمحے میرے اعمال میں اللہ کی نافرمانی شامل کر دی جائے جس کی وجہ سے میں کهبی ان کے سامنے جانے کی ہمت بھی نہ کر سکوں.....وہ اللہ تعالیٰ جو اس وقت میری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے میں اس سے کهبی جهوٹ نہیں بول سکتی ناں ہی کهبی کچھ چهپا سکتی ہوں کیونکہ وہ سب دیکھ رہا ہوتا ہے. ..ہم انسان ساری دنیا سے چهپ کر گناہ کرتے ہیں مگر جس ہستی اور ہمارے درمیان کهبی کوئی پردہ نہیں ہوتا اس سے نہیں ڈرتے.....میں بهی ان لوگوں کی فہرست میں شامل نہیں ہونا چاہتی. ....اگر آپ مجهے دیکهنا چاہتے ہیں مجهے پانا چاہتے ہیں تو اس کا سب سے آسان طریقہ میرے دین میں نکاح ہے....اس کے لیے آپ میرے بهائی جان چوہدری افضل سے بات کریں...باقی میں بھی آپ سے اتنی ہی محبت کرتی ہوں جتنی آپ کرتے ہیں یا پھر اس سے بھی کہیں بڑھ کر لیکن میں ایک انسان کی محبت میں رحمن کو فراموش نہیں کر سکتی. .....دل سے ہاری. ..
جنت چوہدری. .".....
روہاب نے اس کاغذ کو ہونٹوں سے لگایا جس میں کسی کے دل سے نکلے الفاظ درج تهے. ..اس کی زندگی میں آنے والی وہ پہلی لڑکی جو اتنی مذہبی تهی...اس نے اپنے ارد گرد لوگوں کو ایسی معمولی باتوں پر تو کیا بڑی بڑی باتوں پر بھی گناہ کرتے دیکھا ہے اور وہ خود بھی یہی کرتا تها....اس کی تو پوری زندگی جهوٹ اور گناہ کے بوجھ تلے دبی تهی اور یہ لڑکی وہ تهی جس نے اپنی عزت کو نفس کے قدموں تلے نہیں کچلا. ..جو محبت بھی عبادت سمجھ کر کرتی تهی یہ لڑکی دین و دنیا میں اس سے کہیں زیادہ آگے کهڑی تهی اسے بے ساختہ رشک محسوس ہوا ....اپنی محبت پر ...محبت کا یہ انداز اس کے لیے بالکل نیا تها....اور بہت ہی خوبصورت. ......
_ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _
جنت قرآن پاک سامنے رکهے تلاوت کر رہی تهی.وہ آم کے درخت کے نیچے بیٹهی تهی اس نے دوپٹہ حجاب کے انداز میں لپیٹا ہوا تها.... بچے سکول گئے ہوئے تهے...اماں اور دادی اندر سوئی ہوئی تهیں...... ..
" (وہ )خدائے غزوجل( بہت ہی بابرکت ہے جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل فرمایا تاکہ اہل حال کوہدایت کرے ﴿۱﴾ وہی کہ آسمان اور زمین کی بادشاہی اسی کی ہے اور جس نے )کسی کو( بیٹا نہیں بنایا اور جس کا بادشاہی میں کوئی شریک نہیں اور جس نے ہر چیز کو پیدا کیا اور پھر اس کا ایک اندازہ ٹھہرایا ﴿۲﴾ اور )لوگوں نے( اسکے سوا اور معبود بنا لئے ہیں جو کوئی چیز بھی پیدا نہیں کرسکتے اور خود پیدا کئے گئے ہیں۔ اور نہ اپنے نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں اور نہ مرنا ان کے اختیار میں ہے اور نہ جینا اور نہ مر کر اُٹھ کھڑے ہونا ﴿۳﴾ )"
وہ زور زور سے تلاوت کر رہی تهی اس کی آواز بهرائی ہوئی تهی آنسو گریبان میں جذب ہو رہے تھے قرآن پاک کی تلاوت کے دوران اکثر اس کی یہی حالت ہوتی تهی.......
مدهو بنا کوئی آواز پیدا کیے دروازہ کھول کر اندر آئی اور وہیں بیٹھ کر تلاوت سننے لگی...جنت نے نہ اسے دیکها تها اور نہ اس کی طرف متوجہ تهی......
وہ جنت سے قرآن پاک سیکھ چکی تهی جس کی وجہ سے وہ اچهی طرح سمجھ سکتی تهی. ..لیکن جنت کے جیسی تلاوت وہ زندگی بهر نہیں کر سکے گی...یہ اسے یقین تها....
بیس منٹ بعد جنت نے تلاوت ختم کی اور قرآن پاک کو عقیدت سے غلاف میں لپیٹنے لگی...مدهو کو دیکھ کر وہ ہلکا سا مسکرائی....مدهو اسے دیکهے گئی...اس کی آنکھوں میں دور لک کہیں چهپی اداسی جنت سے پوشیدہ نہ رہ سکی.....
"ایسے کیا دیکھ رہی ہو."..؟ جنت نے خود پہ مرکوز مدهو کی نگاہوں کو حیرت سے دیکها. ...
" دیکھ رہی ہوں تم کتنی خوش قسمت ہو جو مسلمان گهرانے میں پیدا ہوئی ہو...."مدهو نے رشک سے اسے دیکها....
"تم بھی تو خوش قسمت بن سکتی ہو...میرے دین میں آنے کے لیے کوئی مخصوص وقت تو نہیں ہوتا تم کهبی بهی کہیں سے بھی شروع کر سکتی ہو......".
"لیکن میں ایسا نہیں کر سکتی جنت...میں نے اکشے سے بات کی ماننا تو دور وہ تو آگ بگولا ہو گئے ایسے میں اسلام قبول کرنا میرے لئے کافی مشکل ہوسکتا ہے. ."وہ اداسی سے بولی...
" زندگی ہمیں دو راستے دکهاتی ہے مدهو. مشکل اور آسان ..مشکل راستے کی منزل دور اور کهٹن نظر آتا ہے جبکہ آسان راستہ کافی سہل لگتا ہے. .جس پہ ہم با آسانی پہنچ سکتے ہیں. ..مگر مشکل راستے کی منزل جتنی بھی دور اور کهٹن ہو وہ کامیابی کی منزل ہوتی ہے. .....بالکل ایسے ہی شاید شروعات میں تمہارے لیے مسائل پیدا ہو جائیں لیکن اگر اللہ ہر بهروسہ کرو گی تو تمہاری سبهی مشکلات آسان ہو جائیں گی....."......وہ غور سے جنت کی آواز سن رہی تھی. ..دو چڑیاں اڑ کر منڈیر پر آ بیٹهیں تهیں.....
" مشکل نہیں جنت مشکل ترین راستہ ہے اسلام قبول کرنے کی صورت میں میں اکشے کے ساتھ نہیں رہ سکتی مجهے اس سے سارے رشتے ختم کرنے ہوں گے اور رام کی ذمہ داری الگ ہے...میں اکیلی کهبی گهر سے باہر نہیں نکلی اتنا لمبا سفر کیسے طے کروں گی. ..."...چڑیوں کی چوں چوں ماحول کی خاموشی کو توڑنے کی کوشش کر رہی تهیں..........
"تم وہ پہلی نہیں ہو جو آزمائی جاو گی...اور نہ ہی آخری ہو...آزمائشیں ہر انسان کے حصے میں آتی ہیں ان میں گرنا نہیں مستحکم رہنا ہے ....ہم سے پہلے لوگ بھی یونہی آزمائے گئے تهے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر. ..ہمارے پیارے نبی صلی علیہ والہ وسلم دونوں جہانوں کے سردار ہم سے ہزار گنا زیادہ آزمایا ان کو اللہ تعالیٰ نے ...کافروں نے کون کون سے مظالم نہیں کی تهے ان پر. ...پتهر پهینکنا کهبی کوڑا پهینکنا تو کهبی پیٹ پر پتهر باندهنا.....یا کربلا کی جنگ کے کئی واقعات میں تمہیں سنا چکی ہوں کیا ان سے بڑھ کر تمہیں آزمایا جائے گا..."...؟
مدهو کچھ بول نہ سکی.....
" تم اللہ کے راستے پر چلو اللہ تمہیں گرنے نہیں دے گا... اتنا یاد رکهنا وہ تمہیں کهبی ذلیل نہیں کرے گا ..اور وہ کهبی بهی اپنے بندوں کو حد سے زیادہ نہیں آزماتا......"..
مدهو کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے ...یہی وہ لمحہ تها جب وہ پهگل چکی تهی. ...دل پہ پڑا تالا کهل چکا تها. ....
"میں اسلام قبول کرنا چاہتی ہوں. مجهے کلمہ پڑھا دو.".جنت نے اسے خوشگوار حیرت سے دیکها....چڑیاں اڑ کر آسمان میں غائب ہو گئیں........
"کیا تمہیں پورا یقین ہے تم مستحکم رہو گی"...؟

"تم نے کہا تها اللہ تعالیٰ مجهے گرنے نہیں دے گا" ...مدهو نے جیسے اسے یاد دلایا...جنت نے مزید بحث نہیں کی.......
" بسم اللہ الرحمن الرحیم. ".....
"(شروع الله کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے )"
مدهو نے بھی اس کے پیچھے پیچھے ویسے ہی دہرایا ....
" لا الٰہ الا اللہ. ...".
" اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں. ....مدهو روتے ہوئے اس کے پیچھے دہرانے لگی..".....
" محمد رسول اللہ. "....
"( حضرت محمد صلی علیہ والہ وسلم اللہ کے رسول ہیں )"جنت کے بهی آنسو بغاوت کر گئے.....
جنت نے آگے بڑھ کر اسے گلے سے لگا لیا. ..اسے فخر ہوا اس لڑکی پر جو اسلام کے لیے اپنا سب کچھ چهوڑ رہی تهی. ......
"صرف کلمہ پڑھ لینے سے تم مسلمان نہیں بن جاو گی مدهو. .تمہیں نماز قرآن روزے اور اسلام کے باقی احکامات پر بھی عمل کرنا ہوگا ....بہت سارے مسلمان ہیں جو کلمہ پڑھ کر اللہ کے سوا دوسروں کو معبود بنا لیتے ہیں. .....".
" کلمہ پڑھ کر تم نے اپنی زبان سے اقرار کیا ہے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں. ..تو اس بات پر قائم رہو...واقعی اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں. .اگر تم نے اللہ کے علاوہ کسی اور کی عبادت شروع کر دی یا کسی اور کے دروازے پر کچھ مانگنے گئیں تو تم شرک کی مرتکب ہو گی...اور شرک سب سے بڑا گناہ ہے ہر گناہ معاف ہو سکتا ہے لیکن شرک نہیں. ..شرک مطلب شریک کرنا....یعنی نعوذبااللہ اللہ تعالیٰ کے برابر کسی کو لا کر کهڑا کرنا....کیا اللہ تعالیٰ کے برابر کوئی ہو سکتا ہے کیا ان جیسا کوئی ہو سکتا ہے کهبی نہیں مدهو. .....
ہم میں سے بعض لوگ اللہ کو مانتے ہیں پهر اپنی دعائیں منتیں مرادیں لے کر قبروں پہ یا جعلی پیر فقیروں کے پاس جاتے ہیں. ..یعنی وہ ان سے مدد مانگنے جاتے ہیں ...وہ کسی کی کیا مدد کر سکتے ہیں وہ تو خود اللہ تعالیٰ کے کن کے محتاج ہیں. ..جانے کیوں جاتے ہیں وہ پیروں فقیروں کے پاس آخر ایسا کون سا کام ہے جو ہمارے پروردگار سے نہیں ہوتا......نماز ادا کرتے ہوئے ہم کئی بار کہتے ہیں اللہ اکبر یعنی اللہ سب سے بڑا ہے لیکن پهر ہم خود ہی اپنی بات کو جهٹلا کر دنیا کی عیش و عشرت کو بڑا سمجهنے لگتے ہیں. زندگی صرف ایک دهوکہ ہے ایک رنگین دهوکہ. ...ایک پل ہے تو اگلے پل نہیں ہے اس چیز پر کهبی بهروسہ مت کرنا جو تمہاری ہو ہی ناں . .".؟
مدهو بنا پلکیں جهپکائے خود سے چهوٹی اس بیس سال کی لڑکی کو دیکھ رہی تھی جس نے اپنی زندگی میں وہ کچھ سیکها جو وہ زندگی بهر نہیں سیکھ سکی....
"یہ ایک خوبصورت امانت میں تمہیں سونپ رہی ہوں."..
جنت نے قرآن پاک مدهو کے ہاتھوں پر رکھ دیا جسے اس نے عقیدت سے آنکهوں سے لگایا. .مدهو کو قرآن پاک بہت بهاری محسوس ہوئی.......
" اس کتاب میں پوری دنیا ہے. ..اس کتاب میں تمہاری منزل ہے اس میں تمہارے ہر سوال کا جواب موجود ہے. ..اس کتاب پر عمل کرو گی تو کهبی ٹهوکر کها کر نہیں گرو گی....یہ کتاب تمہیں گرنے نہیں دے گا...لیکن اگر تم اسے چهوڑ دو گی اور دنیا کے دهوکے میں آو گی تو بہت پچهتاو گی..."........
مدهو نے قرآن پاک کو سینے سے لگایا اسے اندازہ ہو رہا تھا بہت بڑی زمہ دادی تهی جو اس نے اٹهائی ہے..
اور مدهو نے خود کو مکمل طور پر اسلام کے حوالے کر دیا...لیکن یہ فیصلہ اتنا بهی آسان نہیں تها...اب وہ ایک مسلمان تهی اور اکشے کے ساتھ نہیں رہ سکتی تهی اسے اکشے سے طلاق لینا تها...اسے یہ گهر بھی چهوڑنا تها .....وہ کہاں جائے گی کون پناہ دے گا اس وہ کچھ سمجھ نہیں پا رہی تهی. ...قرآن پاک ہاتهوں میں لیے وہ گهر سے باہر نکلی...سوچوں کا ایک انبہار تها اس کے دماغ میں. ...راستہ کا مشکل نطر آ رہا تھا اور کوئی منزل بھی وہ نہیں دیکھ رہی تھی. ...اس کے کانوں میں جنت کی آواز گونجی.....
" سہی منزل کا راستہ ہمیشہ مشکل ہوتا ہے. ."....
_ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _
آسمان اس دن خوب برس رہا تھا. برف کے چهوٹے چهوٹے ٹکڑے اس جنت جیسے علاقے میں پڑ رہے تھے ..ایسے جیسے روئی کو ٹکڑوں میں آسمان سے کوئی نیچے پهینک رہا ہو...وہ تینوں بچے برف باری میں بڑے مزے سے کهیل رہے تھے ......
گهر سے باہر اس خالی جگہ پر وہ لوگ بڑے مزے سے کهیل رہے تھے. ..اس بات سے انجان کہ کیا ہونے والا ہے اور کتنا بڑا طوفان آنے والا ہے ایک ایسا طوفان جو ان کی زندگیوں ان کے بچپن کو بکهیر دیتا......
برف کے گولے بناتے ان معصوم بچوں کو کیا معلوم تھا یہ دسمبر زندگی میں پهر کهبی لوٹ کر نہیں آئے گا بچپن کے یہ دن نہ آنے کے لیے گزر رہے تھے. ....
گڑیا کو ایک بڑا گولا رام نے بنا کر مارا.جس سے اس کی آنکهیں اور کپڑے برف سے بهر گئے اس نے بھی جواباً رام کو منہ پر گولا رسید کیا........
جنت دروازے سے نمودار ہوئی اور بچوں کی یہ حالت دیکھ کر اسے غصہ آیا. .ہاتھ اور کپڑے خراب کرنا تو معمولی بات تهی ان تینوں نے کچھ گرم لباس بھی نہیں پہنا تها جس سے وہ برف اور سردی کے زور سے محفوظ رہتے....جنت کا بس نہیں چلا ان تینوں کو کان سے پکڑ کر اندر کهینچ لائے......
"اندر آ جاو بچو یہ کیا کر رہے ہو. ."..؟ اس نے وہیں سے کهڑے کهڑے ہی آواز لگائی...بچوں نے سنی ان سنی کر دی جنت نے انہیں ایک بار پھر پکارا....لیکن وہ آج جوش میں تهے جنت کی ڈانٹ اور اس کا کوئی بھی لیکچر کم از کم آج کے دن ان پہ کوئی اثر نہیں کرنے والا تها......
...بهاگتے دوڑتے وہ لوگ بہت دور نکل آئے.....جنت بیچاری پیچھے سے آوازیں دیتی رہ گئی...جب بچے نظر کے سامنے سے دور ہو گئے تو ماتها پیٹتے وہ اندر چلی آئی اور کچن میں جا کر شام کے لیے روٹیاں بنانے لگی.......وہ تینوں بچے برف باری میں دوڑتے چهلانگیں لگاتے بہت آگے چلے آئے. ..ایک جگہ پر کافی ڈهلوان راستہ تها رام اور عروج تو با آسانی اتر گئے لیکن گڑیا ازلی ڈرپوک تهی اس لیے وہیں اٹکی رہ گئی......
رام اور عروج اس کے بنا تو جا نہیں سکتے تهے اور اگر وہ واپس جاتی تو سارا مزا خراب ہو جانا تها اس لیے رام نے اوپر چڑھ کر اس کا ہاتھ پکڑ لیا.
"شادی کرو گی مجھ سے ."..؟ اس کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ کر وہ شرارت سے بولا...کوئی اور موقع ہوتا تو گڑیا اسے کافی برا بھلا کہتی لیکن یہاں وقت کا تقاضا کچھ اور تها اس لیے اس نے معصومیت سے سر اثبات میں ہلا دیا. ......رام اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے نیچے لے آیا .. پهر وہ وہیں بیٹھ کر برف کے گهر بنانے لگے. .اوپر سے بھی برف گر رہی تهی ....شام کے سائے ڈهل رہے تھے تهوڑی دیر بعد مغ
رب ہو جاتی لیکن مجال ہے جو ان بچوں کو زرا بھی پرواہ تهی. .....
گڑیا نے ایک خوبصورت محل بنایا...عروج رشک سے اسے دیکهنے لگی رام چاہ کر بھی ویسا محل نہیں بنا سکا....اور یہی بات اسے بری لگی اس نے لات مار کر گڑیا کے محل کو بھی گرا دیا......جس پہ وہ بهائیں بهائیں رونے لگی. ..رام اس کے آنسو نہیں دیکھ سکا اس لیے اس کے ساتھ مل کر اس کے لیے نیا محل بنانے لگا....جب سورج مکمل طور پر غروب ہو چکا تھا تو عروج کو گهر جانے کا خیال آیا....وہ سب تیار نہ ہوتے اگر انہیں چوہدری افضل کا ڈر نہیں ہوتا......
" ابهی رک جا دسمبر. .....
زرا تهم تهم کر گزر.......
وقت کو یوں نہ دوڑا.......
کہ ابهی تو بہت تو کچھ باقی ہے. ....
کچھ باتیں ابهی ادهوری ہیں......
کچھ یادیں ابهی ادهوری ہیں......
ابهی تو سب کچھ ادهورا ہے.....".
جس طرح تینوں ساتھ گئے تھے ویسے ہی واپس بھی آگئے دسمبر کا ایک تاریخی اور خوبصورت دن اپنے اختتام کو پہنچ چکا تها. .. جب وہ گهر آئے اس وقت تک جنت کافی غصے میں تهی اور بجائے کوئی لیکچر سنانے کے ان کے کان پکڑ کر کهینچنے لگی. ..لیکچر سننے سے البتہ بچوں کو یہ سزا کافی بہتر لگی....کان کھچائی کے بعد اس نے سب کی گال پہ ایک ایک کس دیا .. ....
دادی نے تسبیح پڑهتے ہوئے ان سب کے لیٹ سے آنے کی وجہ دریافت کی رام نے بڑی مہارت سے جهوٹ بولا...
"دادی گڑیا واپس ہی نہیں آنا چاہتی تهی". ..گڑیا نے گهور کر اسے دیکها ...
"ارے یہ تو ہے ہی منحوس. ...اس کے رخسار پر جو کالا تل ہے یہ اسے کچھ اچها کرنے نہیں دے گا...".وہ خفگی سے بڑبڑائیں.....
"نہیں دادی یہ جهوٹ بول رہا ہے. "..گڑیا نے اپنی صفائی پیش کرنے کی کوشش لیکن رام کے مقابلے میں دادی اس کی کہاں سننے والی تهیں...اس کے دل میں رام کے لیے نفرت میں مزید اضافہ ہو گیا. .....
جنت ان کے لیے کهانا لگانے لگی..کهانے میں بچوں کی من پسند کهیر بنائی تهی اس نے جس پہ بچوں نے اس کا شکریہ ادا کیا. ......
"شکریہ میرا نہیں اللہ تعالیٰ کا ادا کیا کرو...کیونکہ ہمیں رزق اللہ تعالیٰ ہی عطا کرتا ہے. ..دنیا میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے پاس دو وقت کی روٹی تک نہیں ہوتی اور وہ اس بات پہ بحث نہیں کرتے آج کهانا میری پسند کا نہیں ہے انہیں بس روٹی کے لیے صبح سے شام محنت کرنی پڑتی ہے اور تم لوگوں کو بنا محنت کے اتنا اچها کهانا اللہ تعالیٰ دے رہا ہے اس پر تم لوگ ایک سکینڈ نکال کر اگر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو گے تو چهوٹے نہیں ہو جاو گے".. ......
جنت نے اپنا مخصوص لیکچر دہرایا جو وہ ہر کهانے پہ کہتی تهی اب تو بچے ان کی نصیحتوں کو حفظ کر چکے تھے. ...کهانے کے بعد وہ تینوں جنت سے کہانی سننے لگے۔
_ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _
مدهو کے لیے اسلام کی قبولیت آسان نہیں تهی..وہ اکشے کے سامنے کوئی بھی عبادت نہیں کر سکتی تهی ..اور نہ ہی وہ اس کے ساتھ کوئی رشتہ رکھ سکتی تهی ایک آخری کوشش وہ یہ کرنا چاہتی تهی اکشے کو ایک بار اسلام کی دعوت دیتی لیکن ایسا کرنے کے بعد کا نتیجہ وہ اچهی طرح جانتی تهی. ...
نماز اس نے اس وقت ادا کی جب اکشے گهر میں نہیں تها ...پہلے ہی دن مسلمان ہوتے ہی اس کے دل سے جیسے بہت بهاری بوجھ ہٹ گیا ہو...دل پر سکون تها لیکن دماغ میں آنے والے وقتوں کو لے کر کئی اندیشے تهے.........
دن کے وقت اس نے یہی سوچا رات کو اکشے کے گهر آتے ہی وہ اسے اسلام کی قبولیت والی بات بتائے گی یا دوسری صورت میں وہ اکشے کو چهوڑ کر کہیں اور چلی جائے گی لیکن اس نے جو نہیں سوچا تها وہی ہونے والا تها......
جب شام کا وقت ہوا تو وہ ترجمے والا قرآن پاک لے کر بیٹھ گئی ..جائے نماز پر بیٹهی وہ کئی گهنٹے تلاوت کرتی رہی ...ایک ایک لفظ اس کے دل میں اتر رہا تھا وہ اس وقت خود کو دنیا کی سب سے خوش قسمت انسان سمجھ رہی تھی. ..قرآن سننا اور بات تهی لیکن خود اپنے دل میں اتارنا الگ بات.رام باہر چهوٹے سے صحن میں اکیلے بیٹھ کر کنچے کهیل رہا تها اس نے مدهو کو قرآن پڑهتے نہیں دیکها...نہیں تو وہ اس بارے میں سوال ضرور کرتا........اکشے کے آنے میں ابهی وقت تها.....وہ عموماً مغرب اور عشا کے درمیان آتا تھا لیکن اس شام مدهو کی قسمت میں جانے کیا لکها تها وہ دهڑام سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا.......ہمیشہ کی طرح شراب کے نشے میں دهت...اس مدهو کے تلاوت کرنے کی آواز سنائی دی....وہ باہر چارپائی پر بیٹھ گیا اسے لگا تها مدهو شاید گیتا پڑھ رہی ہے لیکن بہت اچانک ہی اسے احساس ہونا شروع ہوا وہ گیتا نہیں کچھ اور پڑھ رہی ہے...وہ کچھ اور کیا ہے یہی دیکهنے وہ کمرے میں گیا....کمرے کا دروازہ کھلا تھا اس وقت..مدهو کا منہ دوسری طرف تها اور وہ بڑی عقیدت سے بلند آواز میں تلاوت کر رہی تهی. ...اکشے چند لمحے اس کی تلاوت پر غور کرتا رہا پهر اس کی نظر اس کتاب پر پڑی جو گیتا نہیں تهی.....ایک دهماکہ تها جو اس کے آس پاس پهٹا تها یا پهر کسی نے اس پر جلتا کوئلہ ڈال دیا ہو......ایک سکینڈ بھی ضائع کیے بنا وہ مدهو کے سر پر پہنچا.......
"کیا ہے یہ..؟" پوری قوت سے چلا کر اس نے مدهو سے سوال کیا جہاں وہ اس کی اچانک آمد پر چونکی تهی وہیں رام بھی بهاگتا ہوا اندر آیا...اور دروازے کے پاس سہم کر کهڑا ہو گیا.......مدهو نے قرآن پاک کو غلاف میں لپیٹا اس کے کسی بھی انداز سے یہ نہیں لگ رہا تها وہ ڈری ہوئی ہے یہ اسلام قبول کرنے کی طاقت تهی یا کچھ اور وہ سمجھ نہیں سکی...عام حالات میں وہ اکشے کو دیکھ کر ہی حواس باختہ ہو جاتی تهی....اور اس وقت اکشے غصے سے کهڑا اسے گهور رہا تها. .اور اپنی جواب کا منتظر تها.....اور جواب نہ پا کر اس نے مدهو کے بازو کو زور سے پکڑا اور کهینچ کر اسے اپنے سامنے کیا.......
" میں نے کچھ پوچها ہے تم سے ..".؟ وہ کسی زخمی شیر کے انداز میں دهاڑا...مدهو زندگی میں پہلی بار اس کے غصے سے نہیں ڈر رہی تهی. ...
" قرآن پاک. .."..مدهو نے اعتماد سے جواب دیا...یہ جواب نہیں تها ایک سلگهتا ہوا انگارہ تها جو اکشے کے وجود سے ٹکرایا. ..وہ پهٹی ہوئی نگاہوں سے مدهو کو دیکهے جا رہا تها. آٹھ سال کا وہ بچہ اس گفتگو سے انجان تها.اسے موضوع سے دلچسپی نہیں تهی وہ صرف اپنے پیتا اور ماں کو لڑتے ہوئے دیکھ رہا تها جیسے ہمیشہ دیکهتا تها......
جب شام کا وقت ہوا تو مدهو ترجمے والا قرآن پاک لے کر بیٹھ گئی ..جائے نماز پر بیٹهی وہ کئی گهنٹے تلاوت کرتی رہی ...ایک ایک لفظ اس کے دل میں اتر رہا تھا وہ اس وقت خود کو دنیا کی سب سے خوش قسمت انسان سمجھ رہی تھی. ..قرآن سننا اور بات تهی لیکن خود اپنے دل میں اتارنا الگ بات.رام باہر چهوٹے سے صحن میں اکیلے بیٹھ کر کنچے کهیل رہا تها اس نے مدهو کو قرآن پڑهتے نہیں دیکها...نہیں تو وہ اس بارے میں سوال ضرور کرتا........اکشے کے آنے میں ابهی وقت تها.....وہ عموماً مغرب اور عشا کے درمیان آتا تھا لیکن اس شام مدهو کی قسمت میں جانے کیا لکها تها وہ دهڑام سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا.......ہمیشہ کی طرح شراب کے نشے میں دهت...اس مدهو کے تلاوت کرنے کی آواز سنائی دی....وہ باہر چارپائی پر بیٹھ گیا اسے لگا تها مدهو شاید گیتا پڑھ رہی ہے لیکن بہت اچانک ہی اسے احساس ہونا شروع ہوا وہ گیتا نہیں کچھ اور پڑھ رہی ہے...وہ کچھ اور کیا ہے یہی دیکهنے وہ کمرے میں گیا....کمرے کا دروازہ کھلا تھا اس وقت..مدهو کا منہ دوسری طرف تها اور وہ بڑی عقیدت سے بلند آواز میں تلاوت کر رہی تهی. ...اکشے چند لمحے اس کی تلاوت پر غور کرتا رہا پهر اس کی نظر اس کتاب پر پڑی جو گیتا نہیں تهی.....ایک دهماکہ تها جو اس کے آس پاس پهٹا تها یا پهر کسی نے اس پر جلتا کوئلہ ڈال دیا ہو......ایک سکینڈ بھی ضائع کیے بنا وہ مدهو کے سر پر پہنچا........
"کیا ہے یہ..؟" پوری قوت سے چلا کر اس نے مدهو سے سوال کیا جہاں وہ اس کی اچانک آمد پر چونکی تهی وہیں رام بھی بهاگتا ہوا اندر آیا...اور دروازے کے پاس سہم کر کهڑا ہو گیا.......مدهو نے قرآن پاک کو غلاف میں لپیٹا اس کے کسی بھی انداز سے یہ نہیں لگ رہا تها وہ ڈری ہوئی ہے یہ اسلام قبول کرنے کی طاقت تهی یا کچھ اور وہ سمجھ نہیں سکی...عام حالات میں وہ اکشے کو دیکھ کر ہی حواس باختہ ہو جاتی تهی....اور اس وقت اکشے غصے سے کهڑا اسے گهور رہا تها. .اور اپنی جواب کا منتظر تها.....اور جواب نہ پا کر اس نے مدهو کے بازو کو زور سے پکڑا اور کهینچ کر اسے اپنے سامنے کیا.......
" میں نے کچھ پوچها ہے تم سے ..".؟ وہ کسی زخمی شیر کے انداز میں دهاڑا...مدهو زندگی میں پہلی بار اس کے غصے سے نہیں ڈر رہی تهی. ...
" قرآن پاک. .."..مدهو نے اعتماد سے جواب دیا...یہ جواب نہیں تها ایک سلگهتا ہوا انگارہ تها جو اکشے کے وجود سے ٹکرایا. ..وہ پهٹی ہوئی نگاہوں سے مدهو کو دیکهے جا رہا تها. آٹھ سال کا وہ بچہ اس گفتگو سے انجان تها.اسے موضوع سے دلچسپی نہیں تهی وہ صرف اپنے پیتا اور ماں کو لڑتے ہوئے دیکھ رہا تها جیسے ہمیشہ دیکهتا تها......
"تم. .تم یہ.."..؟ اکشے اگروال ابهی تک شاکڈ تها وہ سمجھ نہیں سکا کیا کہے اور کیا کرے.....
" میں اسلام قبول کر چکی ہوں.."....اکشے کے سر پر چهت گر پڑا....غصے سے اس کا چہرہ لال ہو گیا...ایک زناٹے دار تهپڑ اس نے مدهو کے چہرے پہ دے مارا...
" کیا کہا تم نے کمینی بدذات عورت.."...؟
" میں نے کہا میں اسلام قبول کر چکی ہوں.".وہ پہلے سے بھی زیادہ پر اعتماد ہو گئی....
ایک اور تهپڑ پڑا تها اسے...اور یوں تهپڑوں کی برسات شروع ہو گئی.....پهر اکشے نے اسے بالوں سے پکڑ کر پورے کمرے میں گهیسٹنا شروع کر دیا. .وہ زور زور سے اسے بری طرح پیٹ رہا تها. .....
" بولو جائے ماتا دی.".....

"کهبی نہیں. ...لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ." ...مدهو نے کلمہ پڑها...اکشے نے مار کی سپیڈ بڑها دی...رام ایک بے بس تماشائی تها.....
مدهو کے کانوں نے جنت کے الفاظ سنے. ...
" تم وہ پہلی نہیں ہو جو آزمائی جاو گی...اور نہ ہی آخری ہو...آزمائشیں ہر انسان کے حصے میں آتی ہیں ان میں گرنا نہیں مستحکم رہنا ہے ....ہم سے پہلے لوگ بھی یونہی آزمائے گئے تهے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر."
" میں تمہاری جان لے لوں گا.."..اس نے ایک زور دار لات مدهو کے پیٹ پر دے مارا....درد کی ایک لہر اس کے جسم سے نکلی...مگر اس کا جذبہ ختم نہیں ہوا....
چاہے ٹکڑے ہزار کر لو....لیکن میں اقرار کرتی ہوں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور حضرت محمد صلی علیہ والہ وسلم اللہ کے رسول ہیں. .....
"پاپی (گنہگار ) عورت ..نرگ ( دوزخ ) میں بھی جگہ نہیں ملے گی تمہیں". ...اکشے کا جنون بڑهتا چلا جا رہا تھا. .وہ منہ کے بل فرش پر پڑی ہوئی تھی ہونٹوں سے خون نکل رہا تھا. .....
"مجهے نرگ میں جگہ چاہیے بھی نہیں وہاں تم جیسے لوگوں کا ٹهکانہ ہے."...وہ ہذیانی انداز میں چلائی. .اسے نہیں یاد زندگی میں کهبی اس نے اکشے کے ساتھ اس طرح بات کی ہو.........
اکشے اسے مار مار کر تهک چکا تها اس کی سانس پهولی ہوئی تهی...رام کی آنکھوں میں بے بسی کے آنسو تهے....
"میں تمہیں آج رات کی مہلت دیتا ہوں.... مسلمیوں والا مذہب چهوڑ دو اور لوٹ آو....اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو کل کا سورج نہیں دیکهو گی." ....ایک آخری لات اس کے سر پر مار کر وہ باہر کی طرف بڑها.....رام کو دروازے پر دیکھ کر وہ ٹهٹک گیا...غصے کی ایک لہر اس کے وجود میں دوڑ گئی....اسے اندر دهکا دے کر اس نے دروازہ باہر سے بند کر دیا اور اس پہ تالا لگا دیا.....رام روتا ہوا ماں کے سینے سے آ لگا.....
کهڑکی کهلی ہوئی نظر آ رہی تھی اور باہر سے چاند کا خوبصورت منظر دکهائی دے رہا تها...جنت لیٹی ہوئی تھی اس کے دائیں جانب عروج اور بائیں جانب گڑیا لیٹی ہوئی تھی. ......وہ ان دونوں کو کہانی سنا رہی تھی. ...وہ لڑکا وہیں اس کے انتظار میں کهڑا تها اور وہ نہیں گئی... بچے توجہ سے اس کی کہانی سن رہے تھے بعض اوقات وہ کہانی سناتے سناتے کہیں اور نکل جاتی. ..جیسے ابهی وہ جنگل کے جانوروں کی کہانی سنا رہی تھی اور لڑکا لڑکی جانے کہاں سے بیچ میں آ گئی....عروج اور گڑیا نے حیرت سے ایک دوسرے کو دیکها......
"جنت بوا کهبی آپ کی یہ کہانی مکمل بھی ہوگی .."..؟گڑیا نے پوچها جنت چونک گئی .....
" مجهے نہیں معلوم. .شاید ایسا ہو...یا پھر شاید ایسا نہ ہو. ..کیونکہ زندگی میں سب کچھ تو پورا نہیں ہوتا کچھ خواب ادهورے رہ جاتے ہیں خواہشیں ادهوری رہ جاتی ہیں کچھ کہانیاں ادهوری رہ جاتی ہیں صرف زندگی مکمل ہوتی ہے" ......
" میں اللہ تعالیٰ سے دعا کروں گی یہ کہانی مکمل ہو جائے.."..جنت مسکرا دی.....عروج کو نیند آ رہی تھی اس لیے وہ تو نیند کی وادی میں اتر گئی......
" ایک بات سچ سچ بتاؤں بوا." ....؟
" ہوں.".جنت نے چاند کی طرف دیکهتے ہوئے کہا....
" مجهے آپ کی کہانی کا ہیرو بہت پسند ہے". ...جنت خاموش ہو گئی....
" ہیروئن بھی پسند ہے لیکن وہ تهوڑی زیادہ ہی نصیحتیں کرتی ہیں. ."... جنت نے چونک کر اسے دیکها وہ شرارت سے مسکرا دی. ...
" شش....چپ کرو..ج"نت نے عروج کی طرف دیکھ کر سرگوشی کے انداز میں کہا.. ...
"اچها آج رام کیوں نہیں آیا کہانی سننے."....کافی دیر بعد جنت نے پوچها. ....
" مجهے کیا پتا وہ بلی جیسی آنکھوں والا کیوں نہیں آیا..".وہ ہونٹ سکڑ کر ناگواری سے بولی.......
"بری بات ایسا نہیں کہتے..."...جنت نے اسے ٹوکا. ...
"وہ مجهے کتنا تنگ کرتا ہے آپ بھی اس کی سائیڈ لیتے ہو دادی کی طرح. "....وہ سچ مچ خفا تهی....
"وہ تمہیں تنگ نہیں کرتا. ..وہ تمہارے ساتھ صرف مذاق کرتا ہے کیونکہ اسے تم اچهی لگتی ہو..."
"لیکن مجهے وہ بہت برا لگتا ہے" .....
"ایسا ضروری تو نہیں جو چیز تمہیں بہت برا لگے وہ ہو ہی برا...ناریل کو دیکها ہے کهبی کتنا سخت نظر آتا ہے باہر سے جبکہ اندر کهولنے ہر کتنا نرم ہوتا ہے. ....ور ایک بات گڑیا تمہیں چہرے پڑهنا بالکل بھی نہیں آتا..".
گڑیا کو اس کی بات سمجھ نہیں آئی...جنت کو یقین تها وہ کهبی نہ کهبی اس کی بات ضرور سمجھ جائے گی....
_ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _
شام ڈهل چکی تهی رات ہو چکی تهی ہر طرف اندھیرا تها...دو گهنٹے ہو چکے تهے مدهو اور رام ابهی تک اس کمرے میں قید تهے...باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں تها. ..ایک چهوٹی سی کهڑکی تهی لیکن اس میں مضبوط لوہے کے سلاخ تهے...انہیں توڑنا مدهو کے بس کی بات نہیں تهی ..وہ وہیں دیوار سے ٹیک لگائے کلمے کا ورد کیے جا رہی تهی. ..رام اس کی گود میں تها وہ کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا نظر آیا...مدهو کو اپنا وجود کسی دلدل میں دهنسا ہوا محسوس ہوا جہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں تها. ....
مگر وہ نکلنا چاہتی تهی یہاں سے باہر نکلنا اس کے لیے بہت ضروری تها..دوسری صورت میں اکشے اسے پهر سے کافر بننے کے لئے کہتا اور وہ یہ ہرگز نہیں کرتی اور ایسا نہ کرنے پہ وہ اس کی جان لے سکتا تھا مگر اسے پرواہ اپنی جان کی نہیں تهی وہ تو رام کو لے کر پریشان تهی اس کے بعد رام کا اس دنیا میں کوئی نہیں تها. ....
دوسرا سوال اس کے ذہن میں یہ تها اگر وہ یہاں سے رام کو لے کر بهاگ بھی جائے تو کہاں جائے پاکستان میں وہ کسی کو جانتی ہی نہیں تهی شروع سے ہی وہ اس برفانی علاقے میں رہ رہی تهی....اس تو جگہوں کے نام بھی نہیں معلوم تهے...یہ کوئی بہت بڑا امتحان تها اس کے لیے. ..سب سے بڑا چیلنج جو اسے ہر حال میں پورا کرنا تها......
" ماں پیتا جی آپ کو کیوں مار رہے تھے." ....رام نے اداسی سے پوچها. ..اس سوال کا جواب وہ ابهی رام کو نہیں سمجها سکتی تهی....وقت آنے پر وہ رام کو ہر حقیقت سے آگاہ کر دیتی لیکن ابهی تو اسے صرف ٹال ہی سکتی تهی.....
" بس یونہی. "....اس جواب میں ایک مبہم سا درد چهپا تها..
"ماں ہم یہاں سے چلے کیوں نہیں جاتے"......
" کہاں جائیں." ...؟
"کہیں بھی بہت دور ....جہاں پیتا جی نہ ہوں. "..
"تم اللہ سے دعا کرو سب ٹهیک ہو جائے. " ...مدهو نے اس کی پیٹھ تهپکی....
:اللہ. .".؟ وہ حیران ہوا....جنت ، گڑیا اور عروج سے وہ اللہ کا ذکر اکثر سنا کرتا تها لیکن اپنی ماں کی زبان سے اللہ کا نام وہ پہلی بار سن رہا تھا. ....
" اللہ کون ہیں ماں"....؟
اللہ جو ہم سب سے بڑے ہیں..جنہوں نے ہم سب کو پیدا کیا. ...
" وہ کہاں ہیں..."..ایک اور معصومانہ سوال.....
" وہ ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں". .....
"شہ رگ کیا ہے...".؟ مدهو ہلکا سا مسکرائی. . پهر اس نے رام کی گردن پر انگلی رکھ کر بتایا......
ابهی ان کی باتیں جاری تهیں جب جهٹکے سے دروازہ کھول کر اکشے اندر آیا...اس کی آنکھوں میں ویسی ہی وحشت تهی جیسے دو گهنٹے پہلے نظر آئی مدهو کو....رام نے چونک کر اپنا سر مدهو کی گود سے اٹهایا....اور سہم مدهو سے چپٹ گیا.......

"بے غیرت عورت مجهے کهانا بنا دے...مدهو انکار کرنے والی تهی جب ایک خیال بجلی کی طرح اس کے دماغ میں آیا.....".اس نے سر اثبات میں ہلا دیا. ..شاید اسے بهوک لگی تهی اس لیے اس نے مزید کوئی بحث نہیں کی مدهو جانتی تهی وہ اس موضوع سے ہٹے گا نہیں. ..حکم دے کر وہ باہر نکل گیا. ....مدهو اپنے ٹوٹے ہوئے وجود کو دیوار کا سہارا دے کر کهڑی ہوئی ..رام بهی اس کے ساتھ کهڑا ہوا....پهر وہ دونوں آہستہ آہستہ چلتے ہوئے دوسرے کمرے میں بنے چهوٹے سے کچن میں آ گئے.......
اکشے باہر ٹهنڈ میں بیٹها تها...وہ وہیں کهانا بنانے لگی رام اس کے پاس بیٹها رہا...رات کافی ہو چکی تهی اس بات کا اندازہ کهڑکی سے نظر آتے چاند کو دیکھ کر اس نے لگایا. . .اس نے سب سے پہلے رام کی پلیٹ میں دال چاول نکالے تاکہ وہ بهوکا نہ رہ جائے . جانے زندگی کا سفر کہاں تک کا تها.....
رام کو کهانا دے کر وہ چپکے سے دوسرے کمرے میں آئی...وہاں اس نے الماری سے نیند کی گولیاں نکالیں جو اکشے اکثر سکون کے لئے استعمال کیا کرتا تھا. .دو گولیاں اس نے دل چاول کے اندر مکس کر دیں.اور پلیٹ لے کر اکشے کے پاس پہنچی.......اس نے اکشے کے پاس پانی بھی رکها وہ اسے غضب ناک انداز میں دیکھ رہا تھا. .....
"نیچ عورت تیرے پاس ایک گهنٹہ مزید ہے اپنا فیصلہ بدل نہیں تو جان سے جائے گی.."...اکشے نے ایک بار پھر اپنی دهمکی دہرائی.. .
"ایک گهنٹے بعد جانے زندگی مجهے کہاں لے جائے گی اور میں کہاں ہوں گی..."..وہ سوچ کر ہی رہ گئی اور خاموشی سے واپس کچن کی طرف چلی آئی...رام کے سامنے پلیٹ ابهی تک ویسے ہی رکها تها جیسے وہ رکھ کر گئی تھی. ...
"تم کهاتے کیوں نہیں رام ...."وہ پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر کہنے لگی......
مجهے بهوک نہیں ہے. ...
"تهوڑا بہت تو کها لو رام..."..مدهو نے اس کی گال پر چٹکی کاٹی اور وہیں اس کے پاس بیٹھ کر اسے اپنے ہاتهوں سے کهلانے لگی. ....کهبی وہ رام کے منہ میں نوالا ڈالتی کهبی رام اس کے منہ میں. .....
تهوڑی دیر بعد مدهو کو باہر سے اکشے کے خراٹے سنائی دینے لگے اس نے اللہ کا شکر ادا کیا..اور کهانے کے بعد وہ اپنے کمرے میں آئی....ایک چهوٹا سا بیگ نکال کر اس میں اپنا سامان رکهنے لگی...کچھ کپڑے کچھ پیسے اور کچھ رام کی چیزیں. .....
ان سب پیکنگ میں کافی وقت لگ گیا...جب سب کچھ تیار ہو چکا تو اس نے رام کی انگلی پکڑ لی......اور ایک آخری نظر مڑ کر اس گهر کو دیکها .....گهروں کو چهوڑنا آسان تو نہیں ہوتا.....
زندگی نے اس کے سامنے انتخاب ہی کچھ یوں رکها...
مذہب یا گهر.....اسلام یا شوہر.....اور مدهو نے انتخاب کر لیا تها...ایک نظر اس نے اکشے کو دیکها جس سے وہ کهبی بہت محبت کرتی تهی اور آج وہ اس سے زیادہ محبت اسلام سے کرتی تهی اس لیے اسلام کے لیے سب کچھ چهوڑنے پر تیار ہو گئی......اپنے گهر سے نکل کر وہ برابر والے چوہدری افضل کے گهر آئی....
ٹهنڈ بڑهتی ہی جا رہی تهی....چاند کی روشنی میں اسے سب کچھ نظر آ رہا تھا. ...اس کا ارادہ یہ تها وہ آج کی رات چوہدری افضل کے گهر پناہ لے گی اور صبح ہوتے ہی کہیں بہت دور چلی جائے گی. ..اس وقت اتنی رات کو وہ اکیلی کہیں نہیں جا سکتی تھی. .وہ کافی ڈرتی تهی ان سنسان جنگلوں سے. ...اس نے زور زور سے چوہدری کے گهر کا دروازہ بجایا...اتنی رات کو انہیں ڈسٹرب کرنا اسے بالکل بھی اچها نہیں لگ رہا تها لیکن اس کے علاوہ کوئی راستہ ہی نہیں تها اس کے پاس......دروازہ بجانے کے بعد وہ کافی دیر تک کهڑی رہی رام معصومیت سے ادهر ادهر دیکھ رہا تھا ..وہ تهوڑا ڈرا ہوا بھی تها اس کی آنکهیں نیند سے بوجھل نظر آ رہی تهیں...مدهو کو اس پہ کافی ترس آیا....اس نے ایک بار پھر دروازہ بجایا...اسے یہ بھی ڈر تها کہیں اکشے ہی نہ جاگ جائے...حالانکہ وہ اسے اپنے ہاتهوں سے نیند کی دوائی دے کر آئی تھی پهر بھی ایک انجانا سا خوف تها اسے....چاند کا سفر جاری تها......
وہ ہمیشہ کی طرح ہزاروں ستاروں کی سیکورٹی میں بے نیاز کهڑا نظر آ رہا تھا. ....دو منٹ بعد دروازہ کهولا گیا چوہدری افضل خود ہی دروازہ کهولنے آئے تهے...اتنی رات کو اسے وہاں دیکھ کر وہ حیران نہیں شاکڈ تهے....اور صرف وہی نہیں اندر سے پورا خاندان جاگ چکا تها ....گڑیا اور عروج بھی. ...چوہدری صاحب نے کرخت نگاہوں سے اسے دیکها. ....
تم اتنی رات کو یہاں کیا کر رہی ہو.....چوہدری صاحب نے ناگواری سے اسے دیکھ کر پوچها...ان کے چہرے سے ہی غرور عیاں تها. ....
"مہ...مہ...مجهے صرف ایک رات کے لیے پناہ چاہیے" ...وہ لرزتے ہونٹوں سے اپنی بات مکمل کر گئی.....جنت دادی سبهی کهڑے تهے.......
" ہم تمہیں اپنے گهر میں کیوں پناہ دیں...اپنے گهر واپس چلی جاو بی بی.".....
"میں وہ گهر چهوڑ آئی ہوں چوہدری صاحب. .صرف آج کی رات پناہ دیں صبح میں یہاں سے چلی جاؤں گی." ...اس کے لہجے میں ایک التجا تهی...رام یک ٹک گڑیا کو دیکهے جا رہا تها. ...گڑیا بھی حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی. ....
"اللہ کی پناہ...ہم ایک کافر عورت کو اپنے گهر میں کیوں پناہ دیں.."...چوہدری صاحب نے وہ کہا جو مدهو نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا. ..مدهو کو اپنی سانس اٹکتی ہوئی محسوس ہوئی بے ساختہ اس نے جنت کی طرف دیکها. .مگر وہ سب خاموش تهے چوہدری صاحب کے سامنے وہ کهبی بول نہیں سکتے تھے. .....
رام نے سر اٹها کر چوہدری کو دیکها اسے اپنی ماں پر ترس آیا.....
"میں اسلام قبول کر چکی ہوں چوہدری صاحب. .".مدهو کی آواز بهرائی ہوئی تهی. ....
"ہونہہ. ..یہ کوئی مذاق نہیں ہے. ..تم کافر کهبی بهی مسلمان نہیں بن سکتیں...دفع ہو جاو یہاں سے." ....چوہدری صاحب کو مسلمان ہونے ہر غرور تها اور وہ دوسروں کو ہمیشہ خود سے کمتر محسوس کرتے تھے. .جنت نے بے بسی سے اسے دیکها....وہ بہت کچھ کرنا چاہتی تهی لیکن کر کچھ بھی نہیں سکتی تهی. ..سبهی خاموش تماشائی تهے...عروج اور گڑیا بھی اس رات کچھ سمجھ نہیں پا رہے تھے گڑیا نے زندگی میں پہلی بار رام کی بلی جیسی آنکھوں میں ایک اداسی دیکهی تهی.....لیکن گڑیا کو یہ نہیں معلوم تها اس رات وہ رام کو آخری بار دیکھ رہی ہے...اگر اسے معلوم ہوتا تو شاید وقت کو وہ روک لیتی لیکن یہ سب اس کے بس کی بات نہیں تهی. .....
چوہدری صاحب اللہ کے واسطے مجهے صرف ایک رات کے لیے پناہ دیں. ..مدهو اب گڑگڑا رہی تهی. ..اس کی آنکھوں میں آنسو تهے. ..وہاں کهڑے سبهی اس کے آنسو پر ترس کھا رہے تھے لیکن چوہدری کا دل نہ تو پهگلا تها اور نہ ہی کهبی پهگلنا تها.......
" یہ ڈرامے مت کرو ہمارے سامنے اور دفع ہو جاؤ یہاں سے. ..ہم ہندو لوگوں کو اپنے گهر میں پناہ نہیں دیتے...کیا سوچ کر تم یہاں چلی آئیں...ہم نے تمہارے غریب بچے کو دو جوڑے کپڑے اور روٹی کیا دی تم نے تو جیسے اس گهر کو اپنی ملکیت ہی سمجھ لیا. ...چلی جاو یہاں سے اس گهر میں تمہارا سایا بھی نہیں پڑنے دوں گا میں. .."..چوہدری صاحب کی بلند آواز پورے علاقے میں گونجی...انہوں نے مدهو کو جو طعنہ دیا تها اس پہ مدهو تو کیا رام کا بھی دل رو دینے کو چاہا...ہر انسان نیکیاں کر کے جتاتا ہے. ....
"دادی آپ ہی کچھ کریں اللہ کے واسطے آپ تو رام سے بہت محبت کرتی ہیں ناں..."..مدهو نے بلکتے ہوئے دادی کو دیکها...انہوں نے اپنی نگاہیں چرائیں...رام کی آنکھوں میں ایک شکوہ تها دادی کے لیے. ..دادی وہ شکوہ نہیں دیکھ پا رہی تهیں. ..وہ اپنے بیٹے کے سامنے بے بس تهیں کچھ نہیں کر پا رہی تهیں.....
چوہدری صاحب ایک رات سے کیا ہو جائے گا میں اپنے اس معصوم بچے کو لے کر کہاں جاؤں گی. .ایک عجیب بے بسی تهی اس کی آنکهوں میں. ......
دنیا کا ہر انسان اس پر ترس کها سکتا تها لیکن چوہدری افضل کهبی نہیں. ..
" جہنم میں جاو...یہ ہمارا مسئلہ نہیں ہے ہم نے کہہ دیا ہم کسی کافر عورت کو پناہ نہیں دے سکتے." ...اس نے جنت کی طرف دیکها وہ اس سے پوچهنا چاہتی تهی یہ کس قسم کے مسلمان ہیں ..جنت نے اسے آنکهوں ہی آنکهوں میں جواب دے دیا. ...
"یہ انسان ہیں انسان سے رحم کی امید کهبی مت کرنا..اور نہ ہی انسانوں کے سامنے ہاتھ پھیلاو...اللہ سے مدد مانگو وہ ضرور تمہاری مدد کریں گے". ....جنت کی آنکهوں میں لکها پیغام پڑهنے کے باوجود بھی ایک بار پھر چوہدری صاحب سے وہ التجا کرنے لگی...چوہدری نے اسے دروازے کی چوکھٹ سے دهکا دے کر دور گرایا اور کهٹک سے دروازہ بند کر دیا. .وہ وہیں برف پر پڑی آنسو بہاتی رہی. ...یہ قیامت کے آغاز کا منظر تها انتہا ابهی باقی تها....
رام نے اپنی ماں کو اٹهانے کی کوشش کی. ..مدهو کے لیے سارے راستے بند تهے ایک واحد ٹهکانہ جس کا سوچ کر اس نے سب کچھ چهوڑ دیا وہ بھی ایسے غائب ہوا جیسے بادلوں میں سورج....مدهو کو اس رات خود پر ترس آ رہا تھا.آگے کنواں پیچھے کهائی والی کہاوت اس پر بالکل صادق نظر آ رہی تھی. ...وہ بهاری وجود کے ساتھ ایک بار پھر اٹھ کهڑی ہوئی ...جو ہوا اس نے سوچا ہی نہیں تها چوہدری صاحب کے گهرانے کے ساتھ ان کے تعلقات کئی سال پرانے تهے...چوہدری کے مزاج سے واقف ہونے کے باوجود بھی اسے لگا تها کم از کم وہ اسے ایک رات کے لیے پناہ ضرور دیں گے لیکن انسان کے ہزاروں اندازے غلط ثابت ہوتے ہیں. ..
رام کی انگلی پکڑ کر چلتی ہوئی جب وہ زرا آگے آئی تو اسے لگا وہ زندگی میں پهر کهبی چلنے کے قابل نہیں رہے گی. ..اکشے دروازے پر ہاتھ ٹکائے غضبناک نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا. .اس وقت اس کی آنکھوں میں جو وحشت تهی اسے دیکھ کر لگ رہا تها وہ سب کچھ ختم کر دے گا.....وہ یہ کیوں بهول گئی اکشے اکثر نشہ کرتا تها اس لیے اس پہ نیند کی گولیاں زیادہ اثر نہیں کرتی تهیں...وہ یہاں سے نکلتے وقت کم از کم باہر سے دروازہ ہی بند کر دیتی...لیکن سارے طوفان اس ایک رات میں آنے تهے.....اکشے نے آگے بڑھ کر اس کی کلائی پکڑی اور غصے سے اسے کهینچتا ہوا گهر کے اندر لے گیا...رام اس کے پیچھے پیچھے اندر آیا...اکشے نے اسے زور دار دهکا دیا جس سے وہ چارپائی سے جاکر ٹکرائی...ماتهے سے خون کا چشمہ ابل پڑا.....
"بے غیرت، بے حیا عورت....کہاں جا رہی تهیں تم."...؟ اب وہ ایک ڈنڈا ڈهونڈ رہا تها اور پھر اسے ایک لکڑی دکهائی دی جس سے وہ مدهو کی پٹائی کرنے لگا. ..رام کا دل چاہا وہ اس سارے منظر سے کہیں غائب ہو جائے .....
"اب بتا تو ہندو ہے یا مسلمان. ..."؟ اسے کافی مارنے کے بعد وہ پوچھ رہا تھا. .
"میں مسلمان ہوں اور آخری سانس تک مسلمان ہی رہوں گی."....وہ ایک بار پھر اس کی پٹائی کرنے لگا مدهو نے بے آواز اللہ تعالیٰ کو پکارا.....کیونکہ اس وقت اللہ ہی اس کی مدد کر سکتا تها.. ..
اکشے اسے زور سے مارنے کے بعد ایک بار پھر اس کا مذہب پوچھ رہا تھا اور وہ ہر بار ایک ہی جواب دیتی....اکشے کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا وہ بهاگتے ہوئے جنونی انداز میں اندر کمرے کی طرف گیا وہاں اس نے چهوٹے سائز کی پسٹل نکالی جو شروع سے ان کے پاس تها.......
پسٹل لیے وہ باہر آیا...اس نے وہ پسٹل مدهو کے ماتهے پر رکھ دی.....

"آج میں تیرے مذہب کا بهوت نکال کر ہی دم لوں گا..بتا اب دوبارہ پڑھے گی کلمہ". ..؟.وہ گرج کر بولا..مدهو کو اس سے ڈر نہیں لگا..
"ایک بار نہیں ہزار بار پڑهوں گی...لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ." ....اکشے نے اس کے پیٹ پر زور دار لات ماری....اور پسٹل مدهو کے ماتهے سے ہٹا کر رام کی طرف تان دی...اپنے بیٹے اپنے خون کی طرف. .مدهو کی آنکهیں خوف سے پهیل گئیں. ..رام بهی سہم کر اپنے پیتا جی کو دیکھ رہا تھا. ....
"اب اگر تم نے کلمہ پڑها تو میں تمہارے بیٹے کا خون کر دوں گا....."ایک عورت ایک بیوی کمزور ہو سکتی ہے لیکن ایک ماں تو کهبی کمزور نہیں ہو سکتی مدهو میں بھی جانے اتنی ہمت کیسے آ گئی....اور اس وقت اس نے یہ بھی نہیں سوچا سامنے کهڑے شخص پر جھپٹنے کی صورت میں نتیجہ کیا نکل سکتا ہے لیکن وہ اکشے پر اسے جهپٹی جیسے بهوکی شیرنی ہو......
اور اب وہ اکشے کے ہاتهوں سے وہ پسٹل چهیننے کی کوشش کر رہا تھا. ..دونوں میں زور سے ہاتها پائی ہونے لگی.....رام اس قسم کی لڑائی پہلی بار دیکھ رہا تھا. ..اس کے آنسو زمین میں جذب ہو رہے تھے. ....
ان دونوں کی مزاحمت سے ایک زور دار دھماکہ ہوا...اندهیری اور خاموش رات میں ایک زور دار آواز پورے علاقے میں سنائی دی....پسٹل سے گولی نکل چکی تھی رام نے اپنے کانوں پہ ہاتھ رکها. ...اس کی ماں کی آنکهیں بڑی ہو چکی تهیں...خوف کی ایک لہر اس کے وجود سے ٹکرایا. ....
پسٹل نیچے گر گیا...اور تهوڑی ہی دیر بعد اس کے پیتا جی کا وجود کسی پتے کی طرح لڑهک کر فرش پر گر گیا. ..گولی ان کے سینے پہ لگ چکی تهی....جسم سے خون نکل رہا تھا مدهو ابهی تک شاکڈ تهی...وہ پتهر بن کر ہلنا بهول چکی تھی. .....صرف کچھ لمحے لگے تهے اسے یہ یقین آنے میں اکشے مر چکا ہے اور یہ وقت وہاں رک کر آنسو بہانے کا یا ماتم کرنے کا نہیں تها...بلکہ وقت تو تها ہی نہیں. .....
"چلو رام.."..دوڑ کر اس نے رام کی انگلی پکڑی...یہاں رکے رہنے میں حماقت تهی..پیچهے صرف بربادی ہی نظر آنے لگی. .....
" کہاں.."...رام نے سوال کیا....
" بہت دور. "..وہ دونوں بهاگتے ہوئے گهر سے باہر نکل آئے. ..اور سفید برف پر چلتے ہوئے پہاڑوں کی طرف بڑھنے لگے..خالی ہاتھ. ....
مدهو کو صرف اتنا یاد تها اسے بهاگ کر یہاں سے دور جانا ہے اپنی اور رام کی زندگی بچانی ہے مگر وہ جلد بازی میں یہ بهول گئی سامنے بہت بڑا جنگل ہے جس میں کئی خونخوار قسم کے جانور پائے جاتے ہیں اور وہاں جانے پر وہ زندگی ہار سکتے ہیں.
_ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _
جو خطرناک طوفان ان کا منتظر تها اس کے بارے میں کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا. .اگلی صبح چوہدری خاندان کی زندگی کی اداس نہیں اداس ترین صبح تهی... . صبح صبح دروازے پر دستک ہوئی جنت روئی روئی سرخ آنکهیں لیے دروازے تک گئی ... ...
ایک بری خبر ہے. . .؟ وہ ان کے گاوں کا ایک بوڑھا شخص تها.... جنت نے سوالیہ انداز میں اسے دیکها....اس نے وہ خبر سنائی جنت اگر دروازہ نہ پکڑتی تو گر جاتی. ...اس کے قدموں سے جیسے جان ہی نکل گئی. ... ....
مدهو رام کو لے کر بهاگ گئی..لیکن بهاگتے وقت وہ یہ بهول گئی تهی اس کے سامنے ایک خطرناک جنگل ہے جس سے زندہ بچ نکلنا ناممکن ہے .....
جو خطرناک طوفان ان کا منتظر تها اس کے بارے میں کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا. .اگلی صبح چوہدری خاندان کی زندگی کی اداس نہیں اداس ترین صبح تهی... جب انہیں مدهو اور رام کے موت کی اطلاع ملی...یہ کوئی خبر نہیں تها ایک تیز دار خنجر تها جو سب کے دل میں پیوست ہو گیا. ...زندگی اتنی ظالم اور سفاک کیسے ہو سکتی ہے لمحہ بھر میں انسان سے سانسیں کیسے چهین سکتی ہے. ......
مدهو اور رام کی لاش اس بهیانک جنگل میں ملی تھی جس کے اندر جانے سے لوگ دن کو بھی ڈرتے ہیں وہاں ایسے ہی خطرناک بھیڑیے رہتے ہیں. ..اور ان دونوں کی ہڈیاں دیکھ کر سخت سے سخت دل انسان بھی کانپ جاتا...کچھ بے رحم جانوروں نے ان کے جسم سے سارا گوشت نوچ ڈالا تها اور جو ہڈیاں بچی تهیں وہ بهی جگہ جگہ زخمی نظر آئیں....ان دونوں کی موت ایک ناگہانی آفت تهی.... کسی کے لیے بھی اس بات کو قبول کرنا آسان نہیں تها....دادی کے آنسو ندی کی طرح بہتے چلے جا رہے تھے ..وہ ننها سا شرارتی رام جو ان کی زندگیوں اور گهر کا ایک اہم حصہ تها یوں ان کا ساتھ چهوڑ جائے گا....بس اتنی ہی زندگی لکهوا کر لایا تها وہ اوپر سے. ....جنت کا دل چاہا پهوٹ پهوٹ کر رو دے...کتنا افسوس کتنا دکھ ہوا تھا اسے....رام کو وہ معصومیت وہ بچپن سب کچھ یاد آنے لگا تها اسے....اور مدهو ان کے ساتھ ایسا کیسے ہو گیا....مدهو تو اللہ پر بهروسہ کر کے اپنا سب کچھ چهوڑ کر نکلی تھی پهر اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ ایسا کیوں کیا...کس گناہ کی سزا ملی تھی اسے....ضرور اس کا یقین ٹوٹا ہوگا ضرور اس نے شرک کیا ہوگا ...یا کوئی ایسا گناہ جس کی اسے اتنی بهیانک سزا ملی.......
پچهلی رات کتنی غضب کی رات تھی کسی ایک انسان کو سزا نہیں ملی...اکشے کا پورا خاندان اس ایک ہی رات میں قتل ہوا تھا ..صبح صبح ہی اکشے کے گهر سے کسی لاش کی بدبو آئی...چوہدری افضل نے جب اندر جا کر دیکها تو اکشے کی لاش دیکھ کر ٹهٹک گیا. ....اسے گولی لگی تھی ...کل رات انہوں نے گولی چلنے کی آواز سنی ضرور تهی مگر یہ نہیں سوچا تھا اس طرح اکشے کی موت ہوئی ہوگی. ...اکشے ایک ہندو تها اور چوہدری صاحب ہندو کے ساتھ کوئی بھی رشتہ نہیں رکهنا چاہتے تھے. ...انہوں نے لاش کو وہیں چھوڑ دیا اور گهر کا دروازہ تالا لگا کر بند کیا.....گهر آ کر انہوں نے یہ بات سب کو بتائی یہ بات سب کے لئے حیرانی کا باعث بنی.....ابهی وہ اس حیرت سے نکل نہیں پائے تهے جب رام اور مدهو کی موت کی خبر ان تک پہنچی ...یہ خبر پہلے سے بھی زیادہ دردناک تها ان کے لیے. ...اور اب جنت سمجھ رہی تھی مدهو کو کس گناہ کی سزا ملی...شاید شوہر کے قتل کی سزا....؟
جو بھی ہو لیکن ان کی موت دل چیر دینے والا انکشاف تها..دادی نے رو رو کر برا حال کر دیا جنت کو آج معلوم ہوا وہ رام سے کتنی محبت کرتی تهیں...مگر افسوس وہ اس کے لیے کچھ کر نہ سکیں...دادی کو حوصلہ تو وہ تب دیتیں جب خود کو سمجهانے میں کامیاب ہوتیں...وہ تو خود ہی اس صدمے سے باہر نہیں نکل پا رہی تهی. ...وہ کہانی سننے والا لڑکا ، وہ ان کے ساتھ لکڑیوں پہ جانے والا لڑکا ، وہ شرارتیں وہ یادیں کتنا کچھ تو ادهورا چهوڑ گیا وہ......
وہ دن تو چاہنے کے باوجود بھی بهلائے نہیں جا سکتے..اور زندگی میں ہمیشہ وہی کچھ تو نہیں ہوتا جو سوچا جاتا ہے۔۔۔
وقت گزر جاتا ہے لمحے بیت جاتے ہیں لیکن زندگیوں میں جو خالی پن آتا ہے وہ کهبی نہیں بهرتا....غم کا طوفان آ کر گزر چکا تھا لیکن ان کی زندگیوں کو متاثر بھی کر چکا تها. ..اور سب سے زیادہ ادهورا پن گڑیا کی زندگی میں آیا. ..وہ رام سے نفرت کرتی تهی شدید لیکن بہت اچانک ہی اس پہ یہ انکشاف ہوا وہ کهبی اس سے نفرت نہیں کرتی تهی اس سے کهبی کوئی نفرت کر ہی نہیں سکتا تها.......
اس معصوم بچی کو نہیں معلوم تھا اس کا وہ بچپن کا دوست اس سے یوں چهن جائے گا...انسانوں کی قدر ان کی زندگی کے بعد ہوتی ہے اور ان کی اچهائیاں بهی بعد میں سامنے آتی ہیں. . .اسے یاد تها وہ ہمیشہ رام سے جھگڑے کے بعد اس بد دعائیں دیتی تهی اس کے مرنے کے لیے دعائیں مانگتی تهی مگر وہ یہ نہیں جانتی تھی وہ بد دعائیں اسے لگ بھی جائیں گی. .وہ معصومانہ بچپن کی جنگ تهی جن میں ایسے چهوٹے موٹے جهگڑے تو ہوتے ہی رہتے تھے لیکن وہ سچ مچ اس سے یوں ہر ناطہ توڑ دے گا یہ بات کهبی وہ خواب میں بھی نہیں سوچ سکی..سکول جاتے ہوئے عروج اور گڑیا ہمیشہ اداس ہوتے. ..ان کے زندگی میں ایک بہت بڑی کمی آ گئی تهی..رام نے انہیں تهوڑا نہیں بہت متاثر کیا...
برف کے گهر بنانا ، گڑیوں سے کهیلنا ،چهپن چهپائی ، یہ سب کهیل تو کہیں بہت پیچھے رہ گئے تھے شاید زندگی ہی بہت پیچھے رہ گئی....وہ خوبصورت دن زندگی میں دوبارہ کهبی نہیں آنے تهے....
اس دن آسمان پر بادل تهے گڑیا اکیلی گهر سے باہر نکل آئی...اس کے چہرے اور آنکهوں میں ایک اداسی اتری نظر آئی...شرارتیں کرنے والا ہنسنے ہنسانے والا وہ بلی جیسی آنکھوں والا کہیں بھی نہیں تها.....
وہ چلتے ہوئے بہت آگے نکل آئی..برف چاروں طرف دکهائی دے رہی تهی اسے...ایک وہی نہیں نظر آ رہا تھا. ..وہ جهاڑیاں وہ دسمبر وہ برف سب کچھ تو وہیں تها پهر وہ کیوں نہیں تها وہاں پر. ...پوری کائنات ویسے تهی چڑیاں آج بھی اڑتے گنگاتے جهوم رہے تھے بادل آج بھی ویسے ہی آسمان پر تهے پهر بھی کچھ ادهورا تها...ایک کمی تهی بہت بڑی کمی. ..سب سے بڑی کمی...ایک وجود جسے وہاں ہونا چاہیے تھا اس لیے پاس مگر وہ نہیں تها.....
وہ تو صرف مذاق میں ہی اسے برا بهلا کہتی تهی ..اور وہ تو ہمیشہ کے لیے روٹھ گیا....وہ وہیں برف پر بیٹھ گئی...نم آنکهوں سے وہ برف کا گهر بنانے لگی ...جب وہ بنا چکی تو اس نے ادهر ادهر دیکها گهر توڑنے والا نہیں تها پهر بھی گهر ٹوٹ چکا تها. ...اس نے خود ہی برف کے اس گهر کو مٹا دیا ...بچپن کا وہ دوست جو ایک ایک پل اس کے ساتھ تها وہ ہمیشہ کے لیے اسے چهوڑ کر چلا گیا......
" شادی کرو گی مجھ سے. .."..؟پاس سے ہی کہیں آواز آئی مگر آواز دینے والا نہیں تها....
" تم کہاں ہو بلی جیسی آنکھوں والے .پلیز لوٹ آو میں پهر کهبی تم سے نہیں لڑوں گی پرامس". ...اس کا دل جسے پکار رہا تھا وہ کہیں نہیں تها...اس نے سچے دل سے دعا کی کاش وہ کہیں سے آ جائے اور اسے حیران کر دے کاش وہ کل کا دن لوٹ آئے......
وہ کهڑی ہو گئی .اسے برف سے وحشت ہونے لگی زندگی میں پہلی بار اسے آسمان سے بادل اچهے نہیں لگ رہے تھے. ..زندگی میں پہلی بار وہ اس کے لیے رو رہی تھی جس سے وہ شدید نفرت کرتی تهی...ایسا کیسے ہو سکتا ہے جس سے اس نے ساری زندگی نفرت کی ہو اچانک اس سے محبت کرنے لگ گئی ..یا پهر کهبی اس نے نفرت کی ہی نہیں .......
" یا اللہ پلیز مجهے رام لوٹا دیں...میں آپ کی ہر بات مانوں گی میری صرف یہی ایک بات مان لیں..وہ سجدے میں گر کر جسے میں مانگ رہی تھی وہ وہاں نہیں تها...وہ تو اب کہیں بھی نہیں تها.....وہ چلتی ہوئی تهوڑا آگے آئی....اسے خوبانی کا باغ نظر آیا جس سے وہ ہمیشہ خوبانی چراتے تهے....کل تک وہ کتنی خوش تهی اور آج"....؟
برف کا ایک گولا اس نے ہاتھ میں اٹهایا....اور نیچے پهینک دیا. ....
" دسمبر میں تمہیں معاف کهبی نہیں کروں گی تم نے مجھ سے میرا دوست چهین لیا. .".اس نے معصومیت سے کہا....ایک بے بسی تهی اس کی آنکهوں میں ..پهر وہ بهاگتے ہوئے واپس گهر چلی آئی.......
شام کے کهانے کا وقت اس کے سامنے کهانا یونہی پڑا ہوا تھا وہ اسے ہاتھ بھی نہیں لگا رہی تھی. ..اور یہ صرف اس دن نہیں ہو رہا تها ہمیشہ سے ہی یہی ہوتا...کهانے میں کهیلنے میں کسی بھی چیز میں اس کا دل نہیں لگتا. ...
کهیلنے اور پڑهنے میں بھی اس کا یہی حال تھا وہ بیٹهے بیٹهے کہیں کهو جاتی...پهر جنت کی صبر و استقامت والی لاکھ نصیحتیں بھی اس پر اثر نہیں کرتیں...آم کے درخت سے بندها وہ جهولا آج بھی ویسے ہی لٹک رہا تھا. .کهبی کهبی اسے لگتا اس کے ساتھ ساتھ پوری دنیا اداس ہے. ..وہ جهولا وہ بادل وہ موسم وہ برف سبهی اس لڑکے کو بلا رہے تھے مگر اس نے تو جیسے ضد باندھ لی وہ دوبارہ کهبی لوٹ کر نہیں آئے گا. ..گڑیا روزانہ گهنٹوں بیٹھ کر روتی رہتی اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتی........
.اس کی یہ اداسی سبهی گهر والے محسوس کر رہے تھے سبهی اسے خوش رکهنے کی پوری کوشش کر رہے تھے لیکن رام کی موت کے بعد وہ ایسے ٹوٹی پهر جڑ نہ سکی....وقتی طور پر سب کو غم تها سب پریشان بھی تهے اب بھی ہیں لیکن دادی اور اس نے تو یہ بات جیسے دل سے ہی لگا لی....
.دادی روتے ہوئے اسے سینے سے لگاتیں اور بہت پیار کرتیں....جس پیار اور لمس کے لیے وہ تمام عمر ترستی رہی وہ آج پا رہی تهی لیکن اسے دادی کی محبت نہیں چاہیے تهی...اسے وہ وقت دوبارہ چاہیے تھا اپنی زندگی میں جب رام دادی اور اس کا جھگڑا کرواتا......
رام ہمیشہ کہتا تها دادی اس سے زیادہ محبت رام سے کرتے ہیں اور گڑیا کو لگا وہ سہی کہتا تھا دادی کهبی اسے اپنے دل سے نکال ہی نہ سکی. ...اور وہ خود بھی تو اسے کهبی نہیں بهولی تهی اور نہ ہی کهبی بهول سکتی تهی......

_ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _
جانے والے چلے جاتے ہیں وقت بھی کسی کے لیے نہیں رکتا...اور وقت کی رفتار اتنی تیز ہو جاتی ہے انسان اپنے پیاروں کو بهول جاتا ہے....سبهی بیس دن پہلے ہونے والے سانحہ کو بهول چکے تهے لیکن گڑیا کے دل و دماغ سے وہ سب نکل ہی نہیں رہا تها. ..وہ معصوم چہرہ بار بار اس کی آنکھوں کے سامنے آ جاتا وہ اداس آنکهیں کچھ بھی تو ایسا نہیں تها جنہیں وہ بهول جاتی........
اس نے خط لکھ کر فولڈ کر دیا..اور خط اٹها کر جنت کے پاس لے گئی..جنت اس وقت آم کے درخت تلے بیٹھ کر کڑھائی کر رہی تهی. ....
" جنت بوا یہ خط کسے دوں.."...؟ جنت نے سر اٹها کر اسے دیکها پهر اس کے ہاتھ میں موجود اس سفید کاغظ کو...
" اس میں کیا ہے اور کس کے نام لکها ہے تو نے یہ خط."..؟ جنت نے حیران ہو کر سوال کیا.....
"اللہ میاں کے نام....".جنت کے ماتهے پہ شکنیں نمودار ہوئیں...اس نے جهپٹ کر وہ خط گڑیا کے ہاتهوں سے لے لیا...اور حیران ہو کر جلدی جلدی اسے کهولنے لگی...گڑیا وہیں معصومیت سے اسے دیکھ رہی تھی وہ خط کهول چکی تهی...تحریر اس کی آنکھوں کے سامنے تهی. ....
"اسلام و علیکم. ..پیارے اللہ تعالیٰ. ."..
" آپ سب سے بڑے ہیں آپ سب کچھ کر سکتے ہیں تو پلیز رام مجهے واپس کر دیں...میں پهر کهبی اس سے نہیں لڑوں گی...میں نماز بھی پڑهوں گی پلیز رام کو واپس بهیج دیں اللہ. ."....جنت کے ہاتهوں سے وہ تحریر گر گئی...اس میں جگہ جگہ کسی کے آنسو قید تهے. ..اس نے تهوک نگل کر گڑیا کو دیکها....اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے پاس بٹهایا.......
" گڑیا تمہیں معلوم ہے جانے والے کهبی واپس نہیں آتے....گڑیا معصومیت سے اسے دیکھ رہی تھی. ...
جو ایک بار مر جائیں وہ پهر زندہ نہیں ہو جاتے. .اور کهبی نہ کهبی سب کو مرنا ہے تو رونے دهونے کی بجائے تم اس کے لیے دعا کیا کرو.....کیونکہ رونے سے وہ واپس نہیں آئے گا....جب کوئی مر جائے تو صبر کرنا چاہیے بے شک اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے."......جنت نے اس کے گال پہ کس کیا...
" اسے میں نے مارا ہے میں نے اسے بددعا دی دی تهی.؟" وہ روہانسی ہو کر بتانے لگی......
$تم نے اسے نہیں مارا ..تم کوئی بزرگ یا ایسی پہنچی ہوئی ہستی نہیں ہو کسی کو بد دعا دو گی اور وہ مر جائے گا. .موت اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے اور اس کی موت یہیں پہ لکهی تهی ..اب تم صرف صبر کرو کیونکہ صبر کرنے والوں کے ساتھ اللہ ہے"
صبر کی جو تعریف جنت سمجها رہی تهی وہ کهبی نہیں سمجھ پاتی...ایسا کیسا ہو سکتا ہے جس سے محبت کی جائے اسے اتنی آسانی سے بهلایا کیسے جا سکتا ہے. ...اس نے جنت سے مزید بحث نہیں کی لیکن وہ مطمئن بھی نہیں ہوئی.....
کهبی کهبی وہ سوچتی کاش زندگی آگے کبھی چلتی ہی نہ...یا وقت کی سوئی اس شام رک جاتی جب وہ تینوں مل کر کهیل رہے تھے. ..اسے کیا معلوم تها وہ ان کے ساتھ کی آخری شام ہے. وہ روزانہ صبح اٹھ کر اللہ تعالیٰ سے دعا کرتی...گهر سے باہر نکل کر گهنٹوں چلا چلا کر بلی جیسی آنکھوں والے کو پکارتی....لیکن جو کهو جائیں وہ پهر کهبی نہیں ملتے....روزانہ وہ اس جگہ جاتی جہاں وہ برف کے گهر بناتے تهے وہ برف کا گهر بنا کر پهر گرا دیتی.....آم کا وہ درخت اس لڑکے کی یاد میں سوکھ رہا تها. ...
ہر بار آسمان سے بارش برستا دیکھ کر وہ رو کر بادلوں کی طرف دیکھتی. .....
"تم چاہے کتنے بهی آنسو بہا لو میں تمہیں معاف کبھی نہیں کروں گی"....
اگلی صبح جب وہ سکول جارہی تھی تو آم کے درخت پر اسے دو چڑیاں بیٹهی دکهائی دیں..وہ بڑی محبت سے ایک دوسرے کے پاس بیٹهے تهے وہ ان کا ملاپ نہیں دیکھ سکی ...جب اس کا دوست اس کے ساتھ نہیں تها تو وہ چڑیاں کیوں ساتھ بیٹهی تهیں ... اسے بہت غصہ آیا اس نے ایک پتهر اٹها کر انہیں اڑا دیا....
اب اگر وہ دنیا کا ایک ایک کونا بھی تلاش کرتی ناں جسے کهویا تها اس نے وہ کهبی نہیں ملنا تها...
وہ گهر سے باہر نکل آئی اس نے منہ پر ہاتھ رکھ کر زور سے صدا لگائی.....
"بلی جیسی آنکھوں والے. ."..اس کی آواز بهرا گئی...
" آو تمہیں موسم بلاتے ہیں. ."..
_ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _
جنت اور روہاب کی محبت ویسے ہی جاری تهی. .ان دونوں کی محبت کا سلسلہ ابهی تک خطوط پر ہی مشتمل تها گڑیا ہمیشہ کی طرح ان کے پیغام ادهر سے ادهر منتقل کرتی.......
جنت کو انتظار تها کب وہ رشتہ لے کر ان کے گهر آئے گا ..اور وہ ہمیشہ کے لیے اس کی ہونا چاہتی تهی بالکل ایسی ہی بے تابی روہاب بھی محسوس کر رہا تھا. .اتوار کا دن تها...شام دنیا کو الوداع کہہ رہا تها...گڑیا اس وقت اداس سی جهولے پر بیٹهی تهی آنکهوں میں دنیا بهر سے بیزاری نظر آ رہی تھی جنت اس کے پاس آئی...اور اسے خط دے کر روہاب کے پاس لے جانے کے لیے بولی ....گڑیا کا ارادہ کہیں بھی جانے کا نہیں تها لیکن جنت کو وہ انکار بھی نہیں کر سکی ......
خط لے کر وہ گهر سے باہر نکلی. ..اگر اسے معلوم ہوتا آج کی رات اتنا بڑا طوفان آنے والا ہے تو وہ کهبی خط لے کر نہ جاتی..لیکن غائب کا علم کسی کو نہیں ہوتا....آہستہ آہستہ چلتی وہ برف پر اپنے قدم رکھ رہی تهی ہر جگہ ہر کونے میں اسے رام دکهائی دیتا...مسکراتا کهیلتا لیکن وہ نہیں تها......
اسے اپنے علاقے سے وحشت ہونے لگی تهی کهبی کهبی اس کا دل چاہتا وہ کہیں دور بهاگ جائے ایک ایسی جگہ جہاں نہ بلی جیسی آنکھوں والا ہو اور نا ہی اس کی یادیں ہوں.......
اسے ان جانوروں پر بہت غصہ تها جنہوں نے رام کو اس سے چهینا تها. .برف پر چلتے چلتے اس کے قدم بهاری ہونے لگے...وہی راستے وہی سب کچھ. .پهر بھی کچھ ادهورا تها...کچھ بہت ادهورا....وہ اس جهاڑی کے پاس پہنچی جس کی طرف وہ ہمیشہ آتی تھی. ..
روہاب سامنے ہی کهڑا دکهائی دیا اسے...وہ بھی اسی کا منتظر تها اور اسے دیکھ کر اس کے جان میں جان آئی...کهبی کهبی وہ نہیں سمجهتی تهی آخر جنت بوا اور روہاب کا رشتہ کیا ہے وہ کیوں ایک دوسرے کے لیے اس طرح بے تاب ہوتے ہیں لیکن اب وہ سمجھ رہی تھی کچھ رشتے انجانے ہوتے ہیں. ..بے نام....دل کے بہت قریب......
اس نے جنت کا دیا ہوا خط روہاب کو دیا...جسے روہاب نے اپنے ہونٹوں سے لگایا ...اور پھر وہیں بیٹھ کر وہ جنت کے لیے خط لکهنے لگا...وہ تب تک اس جگہ کو دیکهتی رہی جہاں وہ رام کے ساتھ کئی بار گهر گهر کهیل چکی تهی. ..اس جگہ کو اس نے سنسان پایا بالکل اپنے دل کی طرح. ....
" یہ لو پیاری گڑیا. ..".
روہاب نے خط اس کی طرف بڑهایا اور جیب سے ایک چاکلیٹ نکال کر اسے دینے لگا...وہ چاکلیٹ ہمیشہ اسے پسند تهے لیکن اب پسند ناپسند کے لیے کچھ بھی باقی نہیں رہ گیا تها......
وہ خط لے کر اسی خاموشی سے واپس چل دی جس خاموشی سے وہ آئی تهی...اس نے ایک بار پلٹ کر دیکها روہاب وہ خط پڑھ رہا تھا ایک بار. .بار بار. ...
محبت ایسی ہی ہوتی ہے محبت کو ایسا ہی ہونا چاہیے. .ہر جگہ سے اسے رام دکهائی دینے لگا. .اس کی روح پر علاقے کی سیر کر رہا تھا جیسے. ..چاروں طرف اس کی آوازیں تهیں ...وہ بهاگتی ہوئی گهر تک آئی ان آوازوں کو پیچھے چهوڑ کر کچھ آوازوں کو ساتھ لیے.....وہ اتنی مگن تهی کہ خط چهپانا بھی بهول گئی اور یہی اس کی سب سے بڑی غلطی ثابت ہوئی...گهر پہنچتے مغرب کی اذانیں کانوں میں پڑ رہی تھیں. ...وہ دروازہ عبور کر کے اندر آئی سامنے اپنے ابو چوہدری افضل کو دیکھ کر ٹهٹک گئی. ...جسم میں جان باقی نہ رہنا اسی منظر کو کہتے ہوں گے....ڈرتے ڈرتے اس نے فوراً وہ خط پیچھے چهپا لی.....لیکن چوہدری صاحب کی نظر اس خط پر پڑ چکی تھی. ......
گهر میں خاموشی اترتی محسوس ہوئی اسے.....دادی اور اماں چارپائی پر بیٹهی تهیں...چوہدری صاحب آہستہ آہستہ چلتے ہوئے اس کے پاس آئے....وہ سہم کر کهڑی تهی کسی بے بس شکار کی طرح. ..چوہدری صاحب کے چہرے پر کرختگی تهی......

" کیا چهپا رہی ہو....."؟
چوہدری صاحب کی گرج دار آواز کهلے صحن میں گونجی اسے پہلے بار اپنے اندر سناٹا محسوس ہوا...اس نے کوئی جواب نہیں دیا........
" بتاو کیا ہے تمہارے ہاتھ میں. "...؟ اب کی بار لہجہ غصیلا تها...ہمیشہ کی طرح. ..اماں اور دادی حیرت سے کهڑی ہو گئیں اور ایک دوسرے کے چہرے تکنے لگیں..گڑیا کو اپنی حماقت پر جی بهر کے افسوس ہوا...مگر جو ہونا تھا وہ تو ہو کر ہی رہتا ہے. ....
چوہدری صاحب نے آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ آگے کیا. .اور اس کی مٹهی میں بند وہ مرڑا کاغظ جو کافی بوسیدہ نظر آ رہا تھا کهینچ کر اپنے ہاتهوں میں لے لیا...گڑیا کو ایک خطرناک طوفان کو اندیشہ تها ...یہی ڈر باقی سب کو بھی تها...چوہدری صاحب نے وہ خط کهولا اسی لمحے گڑیا کو آسمان اپنے سر پر گرتا ہوا محسوس ہوا.....جوں جوں چوہدری صاحب وہ خط پڑهتے جا رہے تھے ان کے چہرے کا رنگ بدلتا جا رہا تها. ...
خط انہوں نے مٹهی میں بهینچ کر دور پهینک دی...اور چلا کر جنت کو پکارا....گڑیا کو اپنی ریڑھ کی ہڈی میں خوف اترتا محسوس ہوا........دادی اور اماں الگ حیران تهیں....
" کیا ہوا افضل دادی نے پوچها .."..مگر انہوں نے نہیں سنا...وہ دوڑ کر کمرے میں گئے...پہلے دوسرے پهر تیسرے جنت وہاں نہیں تهی...پهر وہ گهر کے پچهلے حصے میں بنے صحن کی طرف آئے جہاں جنت جائے نماز پر نماز پڑهنے میں مصروف تهی..چہرے پہ مکمل اطمینان اور سکون تها...اماں اور دادی گڑیا عروج بهاگ کر سب اس کے پیچھے پیچھے آئے....چوہدری کا غصے سے برا حال تها...
"بد کردار بے حیا...نماز کا ڈھونگ کرتی ہے اور یوں سر عام ہماری عزت اچهال رہی ہے". ...وہ پوری قوت سے چلائے..جنت نے جیسے سنا ہی نہیں تها وہ نماز پڑهنے میں مصروف تهی.......گڑیا نے عروج کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیا انہیں اپنے باپ سے اتنا خوف پہلے کهبی نہیں آیا جتنا وہ اس وقت محسوس کر رہے تھے. ....
"بند کرو اس نماز کا ناٹک اور کهڑی ہو جاو آج ہم تمہیں زندہ نہیں چهوڑیں گے بے غیرت". ... خاموشی کو چیرتی ان کی آواز پورے علاقے میں گونج اٹهی . آج کیا ہونے والا تها. ...دادی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے...اماں الگ پریشان تهیں انہیں پوری بات نہیں معلوم تهی لیکن پهر بھی وہ کچھ کچھ سمجھ رہے تھے. .یہ آنکھ مچولی اس طرح ختم ہو جائے گی گڑیا نے تصور بھی نہیں کیا تها.....رات کی چادر نے زمین کو ڈهانپ دیا صرف چاند کی روشنی تهی.....
چوہدری کسی زخمی شیر کی طرح وہاں سے بهاگتے ہوئے کچن کی طرف آیا...مٹی تیل کا ڈبہ اور ماچس اٹهائی....سبهی گهر والوں کی چیخیں نکل گئیں....اماں نے چوہدری صاحب کا ہاتھ پکڑ لیا. .لیکن وہ جیسے کچھ دیکھ اور سن نہیں رہے تهے......
جهٹکے سے انہوں نے اپنے پاوں آزاد کیے اور آگے بڑھے. ...دادی روتے ہوئے ان کے قدموں میں گر گئی...اور اپنے بیٹے سے بیٹی کی زندگی بهیک میں مانگنے لگی....لیکن اس پر جنون سوار تھا ...آج کی رات وہ کم از کم کسی کی نہیں سننے والا تها...انہوں نے دادی کو گهیسٹ کر خود سے الگ کیا اور انہیں زبردستی کهینچتے ہوئے کمرے میں لے جانے لگا. ...دادی کو کمرے میں دهکا دے کر انہوں نے دروازہ باہر سے بند کر دیا....جنت سجدے میں تهی . .اس سب تماشے سے لاتعلق. ...
پهر گڑیا نے انہیں غصے سے اماں کی طرف آتے دیکها. .انہوں نے اماں کو بازوؤں سے پکڑا...اماں روتے ہوئے ان سے رحم مانگ رہی تهیں...پهر اماں نے زور سے ان کے قدم جکڑ لیے تا کہ انہیں جنت تک جانے سے روک سکے......جنت ابهی بهی نماز پڑھ رہی تھی وہ بچے ڈرے ہوئے ایک طرف کهڑے تهے.....
" خدا کے لیے اتنا بڑا ظلم مت کریں."..
" بے غیرت عورت میرے پاوں چهوڑو"......
"جنت اٹهو بهاگ جاو یہاں سے." ...انہوں نے جنت کو آواز دی...دادی گرل والی کھڑکیوں سے باہر کا منظر روتے ہوئے دیکھ رہی تهیں....
" جنت بیٹا...نماز چهوڑو اور بهاگ جاو.."...دادی نے زور سے چلا کر جنت کو کہا..لیکن جنت نے جیسے سنا ہی نہیں وہ ابهی تک نماز پڑھ رہی تھی. .چہرے پہ ہمیشہ والا سکون تها...چوہدری صاحب اپنے قدم چھڑانے کی کوشش کر رہے تھے. ....چاند دور آسمان پر کهڑا ہو کر بے بسی کا یہ تماشا دیکھ رہی تها ...آج بنا طوفان کے بجلی گرنے والی تهی. . ...
"جنت اللہ کے واسطے نماز توڑ ڈالو اور بهاگو یہاں سے. .اپنی زندگی بچاو"....
گڑیا روہاب کا دیا ہوا خط لیے اندر داخل ہوئی لیکن بد قسمتی سے وہ خط چوہدری افضل کے ہاتھ لگا ...وہ غصے سے جنت کو مارنے کے لیے آگے بڑهے......
دادی روتے ہوئے ان کے قدموں میں گر گئی...اور اپنے بیٹے سے بیٹی کی زندگی بهیک میں مانگنے لگی....لیکن اس پر جنون سوار تھا ...آج کی رات وہ کم از کم کسی کی نہیں سننے والا تها...انہوں نے دادی کو گهیسٹ کر خود سے الگ کیا اور انہیں زبردستی کهینچتے ہوئے کمرے میں لے جانے لگا. ...دادی کو کمرے میں دهکا دے کر انہوں نے دروازہ باہر سے بند کر دیا....جنت سجدے میں تهی . .اس سب تماشے سے لاتعلق. ....
پهر گڑیا نے انہیں غصے سے اماں کی طرف آتے دیکها. .انہوں نے اماں کو بازوؤں سے پکڑا...اماں روتے ہوئے ان سے رحم مانگ رہی تهیں...پهر اماں نے زور سے ان کے قدم جکڑ لیے تا کہ انہیں جنت تک جانے سے روک سکے......جنت ابهی بهی نماز پڑھ رہی تھی وہ بچے ڈرے ہوئے ایک طرف کهڑے تهے.....
" خدا کے لیے اتنا بڑا ظلم مت کریں."..


0 Comments: