Headlines
Loading...
دسمبر لوٹ آنا تم تحریر ناصر حسین پارٹ 1

دسمبر لوٹ آنا تم تحریر ناصر حسین پارٹ 1





" میں لندن جانا چاہتی ہوں امی " ____
عمارہ بیگم کے ماتھے پر بل پڑے __وہ پهٹی ہوئی نگاہوں سے اسے دیکهنے لگیں___
" پاگل تو نہیں ہو گئی آیت یہ کس طرح کی باتیں کر رہی ہے___؟" انہوں نے بے یقینی سے پوچها ___
" امی آپ جانتی ہیں لندن جانا میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش ہے _"_وہ متلجائیہ انداز میں عمارہ بیگم کا ہاتھ پکڑ کر بولی___
ہوا کے تیز جھونکے سے بند کهڑکی کهل گئی__ٹهنڈی ہوا کا جھونکا راستہ بناتا ہوا اندر داخل ہوا __
" تو جانتی ہے یہ ممکن نہیں ہے اور انسان کی ہزاروں خواہشات ہوتی ہیں ہر خواہش پوری ہو ایسا ضروری نہیں جو پوری ہوتی ہے اسے زندگی کہتے ہیں خواہشات نہیں_"_وہ اپنا ہاتھ چهڑا کر خفگی سے بولیں___
" آپ نے ایک بار مجھ سے وعدہ کیا تها"___وہ روہانسی ہوتے ہوئے بولی ___
" وہ وعدہ میں نے تمہیں صرف بہلانے کے لیے کہا تھا وہ کوئی باقاعدہ وعدہ نہیں تها __تم سمجهتی کیوں نہیں یہ نا ممکن ہے_"___
" کچھ بھی نا ممکن نہیں ہوتا مما_ہم انسان ہر شے کو ناممکن بنا دیتے ہیں__ویسے بھی یہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں ہے"____
" اتنی بڑی بات نہیں ہے"__؟ عمارہ بیگم نے خفگی سے اسے دیکها____
" آیت تو اسلام آباد سے کراچی جانے کی بات نہیں کر رہی __پاکستان سے لندن جانے کی بات کر رہی ہے اور تمہیں اچهی طرح معلوم ہے ایسا نہیں ہو سکتا پهر بھی بے کار میں مجھ سے بحث کیے جا رہی ہے"____
" امی والدین تو اپنی اولاد کی خواہشات پوری کرنے کے لیے کیا کچھ نہیں کرتے آپ صرف مجهے اجازت نہیں دے سکتیں _"_؟ وہ بهرائی ہوئی آواز میں بولی
""اجازت میں نے نہیں دینا__اجازت تیرے ابو نے دینا ہے اور وہ کهبی نہیں دیں گے"____
"تو آپ مناو ناں انہیں__"_وہ ان کا ہاتھ پکڑ کر پر امید انداز میں بولی__
"ہوش میں تو ہے وہ مجهے دو باتیں سنا کر چپ کرا دیں گے __پتا تو ہے ناں تمہیں وہ کتنے دقیانوسی خیالات کے ہیں" ___
"مجهے یقین ہے امی آپ انہیں قائل کر لیں گی_یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے میری ساری فرینڈز جا رہی ہیں_صرف ایک سال کی ہی تو بات ہے __ آپ لوگوں نے مجهے اجازت نہیں دی تو میرا مستقبل برباد ہو جائے گا ___اگر آپ لوگوں نے میرے ساتھ ایسا ہی کرنا تها تو اب تک مجهے اتنی تعلیم کیوں دلوائی"____وہ ناراض ہوتے ہوئے بولی ____
" یہی ہماری سب سے بڑی غلطی تھی __نہ تجهے شہر میں تعلیم کے لیے بھجواتے اور نہ ہی تم اتنے اونچے خواب دیکهتی__ دنیا کیا کہے گی زمانہ کیا کہے گا __ہمارے خاندان میں تو دور پورے گاؤں میں لڑکی تو کیا کوئی لڑکا بھی لندن نہیں گیا اور تم سات سمندر پار کر کے اس اجنبی ملک جانا چاہتی ہے _اور دنیا والے بھی کیا سوچیں گے اکیلی بیٹی کو بهیج دیا ملک سے باہر"____
عمارہ بیگم صوفے پہ سر تهام کر بیٹھ گئیں وہ سمجھ نہیں پا رہی تهیں آیت کو کیسے سمجهائے ___آیت بھی ان کے برابر جا کر صوفے پہ بیٹھ گئی___
" مجهے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ گاوں والے میرے بارے میں کیا سوچیں گے میرے لیے یہ بات زیادہ معنی رکهتا ہے کہ میرے اپنے میرے بارے میں کیا سوچتے ہیں __ مجهے تعلیم گاوں والوں نے نہیں دلوائی مجهے شہر انہوں نے نہیں بهیجا مجھ پہ خرچا انہوں نے نہیں کیا تو میں ان کے بارے میں کیوں سوچوں امی " ___
" یہ سب افسانوی باتیں ہیں آیت __اصل زندگی میں ایک عورت کے لیے اس کا گهر اس کا خاندان سب سے بڑھ کر ہوتا ہے__تمہارے ابو تمہارے لیے لڑکا ڈهونڈ رہے ہیں کچھ ہی دنوں میں تمہاری شادی ہو جائے گی __بچے ہوں گے تب تمہیں یاد بھی نہیں ہوگا تم نے ایسی کوئی خواہش کی ہے _یہ صرف وقتی خواب ہوتے ہیں جن چیزوں کو حاصل کرنا انسان کے بس میں نہ ہو ان کے بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہیے"____وہ اب اسے پیار سے سمجهانے لگیں___
ان سب کے لئے پوری زندگی پڑی ہے مما_میں شادی کے لیے اپنا مستقبل اپنا کیرئیر نہیں برباد کر سکتی ___ میں بهی ہر عورت کی طرح اپنی زندگی دوسروں پہ وقف کر دوں گی ساری زندگی بچوں اور شوہر کے نام کر دوں گی __اور میرا اپنا کیا ؟ میری خواہشات کا کیا __؟ کچھ تو ایسا کروں جس سے مجهے لگے میں نے بھی اپنی زندگی کے کچھ پل جیے ہیں___
زندگی صرف ایک بار ملتی ہے اور میں اپنی زندگی دوسروں کے نام وقف نہیں کر سکتی __اتنا بڑا ظرف نہیں ہے میرا امی" ___
" بس زندگی کے کچھ پل پهر ملیں نہ ملیں یہ موقع پهر ہاتھ آئے یا نہ آئے اس لیے میں ان لمحوں کو گوانا نہیں چاہتی"_____
وہ خوابوں خیالوں میں کهو گئی___
" اتنا پڑھ لکھ کر کیا کرنا ہے تونے __سب کچھ تو ہے تمہارے پاس " ___اس کی مما نے اسے ٹوکا ___
" مما تعلیم دولت کے لئے کوئی حاصل نہیں کرتا اور پیسہ ہی زندگی میں سب کچھ نہیں ہوتا __کچھ چیزیں کچھ خواہشات جو پیسے سے نہیں خریدے جاتے __آخر مسئلہ کیا ہے کوئی اکیلی تو نہیں ہوں گی وہاں اور بھی لڑکیاں ہوں گی"_____
""تجهے تو اللہ سمجھائے لڑکی "__ عمارہ بیگم ماتهے پہ ہاتھ مارتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئیں__
وہ دوپٹہ شانوں پر پهیلائے کهڑکی تک آئی __ہوا کے زور کی وجہ سے کهڑکی کهبی کهلتی اور کهبی بند ہوتی__وہ ہاتھ باندھ کر دور آسمان پہ موجود چاند کو دیکهنے لگی__لاکهوں ستاروں کے بیچ وہ چاند ایک شان سے ہی سر اٹهائے نظر آ رہا تها__اس چاند کو اپنے آپ پہ آخر غرور کیوں نہ ہوتا آسمان پہ موجود سبهی ستارے تو اس کی پہرے دادی کر رہے تهے__جیسے ایک تخت پہ بیٹها بادشاہ اور اس کے ارد گرد ہزاروں کی تعداد میں رعایا ______
لیکن چاند میں ایک خامی ہے یہ کهبی مستحکم نہیں رہتا ہمیشہ بهاگتا رہتا ہے__انسانوں کی بستی سے دور دل والوں کی دنیا سے دور جانے کہاں اس کا سفر مکمل ہوتا ہے ___
کیا چاند کی کوئی منزل بھی ہے ____
پهر سے ہوا نے زبردستی اندر داخل ہونے کی کوشش کی لیکن اس بار وہ اس کے سامنے ڈٹ کر کهڑی تهی__ہوا کو اندر جانے کے لیے اس کا مقابلہ کرنا تها __
" میں لندن ضرور جاوں گی"___ اس نے چاند کو بتانے کی کوشش کی __
_"_جس دیس میں میرا دل ہے جہاں میرے خوابوں کی دنیا آباد ہے __جہاں میرے سپنوں کا تاج محل ہے میں وہاں آ رہی ہوں"____
""میرا انتظار کرنا لندن میں جلد ہی تیری سر زمین پہ اپنے قدم رکهوں گی" _____وہ ہلکا سا مسکرائی اور ایک بار پھر چاند کو دیکهنے لگی یہ سوچ کر کہ لندن میں بھی یہی چاند روشنی پهیلا رہا ہوگا ____
[ دسمبر لوٹ آنا تم تحریر ناصر حسین]

_ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _
ہوا کے ایک جھونکے سے خوبصورت سرسبز کهیت لہلانے لگتے ان میں زندگی کی ایک لہر دوڑ پڑتی __ درخت بھی ان کهیتوں کے ساتھ رقص کرنے لگتے اور کچھ ایسا ہی حال پرندوں کا بھی تها __وہ اپنی مدهر آواز میں گانا گاتے اس ٹہنی سے اس ٹہنی تک پرواز کرتے____
لیکن اسے سب اداس لگا __آسمان زمین ہوا کا ہر جهونکا ، ندی میں بہتا وہ پانی وہ کهیتوں میں کام کرتے لوگ ___ کیونکہ وہ خود اداس تهی _انسان ہر احساس کو جیسے اپنے اندر محسوس کرتا ہے وہی اسے دوسرے کے اندر محسوس ہوتا ہے جیسے وہ محسوس کر رہی تهی_____
وہ اس وقت کسی سایا دار شجر کے نیچے رجو کے ساتھ بیٹھ کر قلفی کها رہی تهی__اور آس پاس کنویں سے پانی بهرتی ان دیہاتی عورتوں کو دیکھ رہی تھی __ہائے ان کی بهی کیا زندگی تهی ایک ایک لمحہ پانی بهرتے اور گهاس کاٹتے گزر جانا تها __وہ تاسف سے انہیں دیکھ رہی تھی اور رجو قلفی ایسے کها رہی تهی جیسے پہلی بار کها رہی ہو یا آخری بار__رجو اور اس کا ساتھ بہت پرانا تها وہ خوش مزاج اور زندہ دل چہکنے والی لڑکی تهی __پڑهی لکهی نہیں تهی لیکن انگلش سیکھنے کی شوقین تهی اور اس شوق کی وجہ سے وہ انگلش کی بینڈ بجا دیتی ___وہ بالوں کی لمبی سی چوٹی بنائے رکهتی اور پنجابیوں کی طرح کهلی شلوار اور تنگ قیمض پہنتی__البتہ دوپٹے سے بے نیاز___
" اوئے تیرا کیا بنا آیت"___؟ رجو کی آواز پہ وہ چونکی اور نگاہیں ان عورتوں سے ہٹا کر رجو کی طرف پهیر لیں ___
"کیا "؟ اس نے سنا نہیں تها ___
" ارے تو وہ جانے والی تهی ناں جہاز پہ بیٹھ کر ڈنڈن" ___وہ مسکرا دی
"ڈنڈن نہیں لندن رجو __ابهی پتا نہیں کیا ہوگا امی نے بات کی بھی ہے یا نہیں"___وہ افسردگی سے بولی __"وہاں جانا تیری بڑی خواہش ہے کیا" __؟ رجو نے تجسس سے پوچها ___
" ہاں بڑی سے بھی بڑی خواہش" ___
" اور اگر تو نہ جا سکی تو" ___؟ رجو نے قلفی کا آخری حصہ منہ میں ڈالا___
"تو میں مر جاؤں گی"__رجو منہ پہ ہاتھ رکھ کر حیرانی سے اسے دیکها___
" ہائے ربا ایسا کیا ہے وہاں __؟ کہیں تیرا دل تو وہاں کسی پہ نہیں آیا " ___
" چپ کر بکواس مت کر ایسا کچھ بھی نہیں میں بس پڑهنا چاہتی ہوں"___وہ خفگی سے بولی اور درخت کے منڈیر سے کهڑی ہو گئی اور آہستہ آہستہ چلنے لگی __رجو بھی جمپ کها کر اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگی __
" اور اگر وہاں تجهے تیرے سپنوں کا شہزادہ مل گیا تو __؟ واپس کهبی نہیں آئے گی کیا" __؟ اس نے رجو کو گهور کر دیکها___
"ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا رجو یہ سب فلمی باتیں ہیں اور میں وہاں صرف پڑهنے کے لیے جانا چاہتی ہوں کاش میں کوئی پرندہ ہوتی تو اڑ کر پہنچ جاتی" __اس نے کهیت سے گهاس کا ایک تیلا کهینچا___
رجو کچھ نہیں بولی__وہ دونوں آہستہ آہستہ چلتی ہوئی گهر کی طرف جا رہی تهیں ویسے بھی وہ کافی دور نکل آئیں تهیں __ہوا بدستور تیز تیز چل رہا تھا بچے درختوں کے اوپر بندروں کی طرح چڑھ رہے تهے کچھ بچے پاس ندی میں نہا رہے تهے وہاں کی مقامی عورتیں گهاس کاٹنے میں مصروف تهیں __وہ منظر دیکهنے میں بہت خوبصورت تها لیکن محسوس کرنے میں وہ کافی تکلیف دہ تها__جو نظارہ اس کی آنکھوں کو خوبصورت لگ رہا تها وہاں کام کرتی عورتوں کے لیے ایک تکلیف تها جس سے وہ جلد ہی جان چهڑانا چاہتی تهیں __
" ہائے ربا چوڑیاں"___رجو چلائی اس نے چونک کر پہلے رجو کو پهر چوڑیوں کے ٹهیلے کو دیکها__وہ بے اختیار مسکرا دی چوڑیوں کو دیکھ کر رجو کا ہمیشہ یہی حال ہوتا تھا اور اس وقت بھی وہ بهاگتی ہوئی ٹهیلے تک گئی اور رنگ برنگی چوڑیوں کو الٹ پلٹ کر دیکھ رہی تھی__وہ بهی آہستہ سے چلتی ہوئی ٹهیلے تک گئی اسے چوڑیوں کا خاص شوق نہیں تها____اس لیے وہ بس رجو کو دیکھ رہی تھی____
لیکن رجو کے کافی اسرار پر اسے چوڑیاں خریدنی ہی پڑیں اس نے پیلے رنگ کی چوڑیاں ہاتهوں میں پہنی اور رجو سے وداع ہو کر گهر کی طرف روانہ ہو گئی ___
لیکن اچانک چلتے چلتے اس نے محسوس کیا جیسے کوئی اسے دیکھ رہا ہو اس نے رک کر پیچھے دیکها مگر کوئی نہیں تها __دائیں بائیں بھی کوئی نہیں تها وہ سر جهٹک کر ایک بار پھر سے چلنے لگی اسے اپنا وہم لگا _____
سامنے ایک بیری کا بہت بڑا درخت تها جس کے نیچے پانی کی چهوٹی سی ندی __وہ وہیں ندی کے پاس رک کر پاوں دهونے لگی ___وہ پاوں دهونے میں مگن ہو گئی پهر اس نے ہاتھ منہ بهی دهوئے ___پانی کافی ٹهنڈا محسوس ہوا اسے ____
اچانک کسی نے جیسے اس کی پیٹھ پہ زور سے پتهر مار دیا ہو __ وہ کرنٹ کها کر کهڑی ہو گئی اس کے منہ سے ہلکی چیخ برآمد ہوئی___ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا مگر دور دور تک کوئی نہیں تها __دائیں بائیں بھی آس پاس کوئی نہیں تها تو پھر___؟
اس نے نیچے پڑے ہوئے پتهر کو دیکها لیکن وہ پتهر نہیں تها کسی اخبار کو گول کر کے لپیٹا گیا تها___حیران ہوتے ہوئے اس نے وہ اخبار اٹهایا اس کے اندر کچھ تها __ادهر ادهر دیکهتے ہوئے اس نے اخبار کو کهولا اور ایک بار پھر اسے حیرت ہوئی اخبار کے اندر لال رنگ کی چوڑیاں تهیں ____
اور ان کے ساتھ ہی ایک چهوٹی سی پرچی__چوڑیوں سے توجہ ہٹا کر اس نے پرچی کهولی __اس پہ اردو میں کوئی تحریر لکهی تهی _____
" پاگل لڑکی لال رنگ کے کپڑوں کے ساتھ پیلی چوڑیاں کوئی نہیں پہنتا "
اس کی آنکھیں حیرت سے پهیل گئیں__ہونٹ بهینچے وہ سوچ میں پڑ گئی یہ پرچی اور یہ چوڑیاں کس نے پهینکی ہوں گی __اس کا مطلب جب وہ چوڑیاں خرید رہی تهی تب کوئی اسے دیکھ رہا تھا مگر کون ___؟ اور اب یہ چوڑیاں کہاں سے پهینکی گئیں تھیں __کس طرف سے آئیں یہ چوڑیاں چاروں طرف کوئی نہیں تها__اس پہ حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ رہے تهے ایسا پہلی مرتبہ ہوا تها اس کی زندگی میں____
وہ برف بن چکی تهی__ سوچ سوچ کے بهی وہ کچھ سمجھ نہیں پا رہی تهی___لیکن کچھ تو تها جو نظر نہیں آ رہا تها __ وہ یہ بهی نہیں سوچ سکتی تهی یہ سب کسی اور کے لیے تها اور غلطی فہمی کے بنا پہ اسے مل گیا کیونکہ لال رنگ کے کپڑے اور پیلی چوڑیاں اس نے ہی پہن رکھی تهیں__کوئی اس کا پیچھا کیوں کر رہا تها اور سب سے بڑی بات یہ کہاں سے پهینکی گئیں تهیں کیونکہ چاروں طرف دور دور تک کوئی نہیں تها__اور اگر کوئی دور تها بھی تو وہ اتنی دور سے نشانہ نہیں لگا سکتا تھا__اگر وہ پڑهی لکهی نہ ہوتی تو یہ سوچتی یہ سب کسی جن بهوت کا کام ہے لیکن اب وہ ایسا بھی نہیں سوچ سکتی تهی ___دماغ کام کرنا چهوڑ رہا تها____
" جو بھی ہے بهاڑ میں جائے " وہ جب سوچنے میں ناکام ہوئی تو غصے سے بڑبڑائی ___ وہ چوڑیاں اس نے غصے سے ندی میں پهینک دیں _____اور گهر کی طرف روانہ ہو گئی____
رات کے وقت وہ کھڑکی کے سامنے بیٹھی تھی اس کے ہاتھ میں ایک ناول تها .وہ پورے انہماک کے ساتھ ناول پڑھ رہی تھی جب اس کی بڑی بہن عروہ اندر آئی..اس کے ہاتھوں میں ایک ٹرے تها وہ اس کے لیے کهانا لے کر آئی تھی رات کا کھانا وہ دونوں اکثر کمرے میں کهاتی تهیں.....
عروہ نے خونخوار نظروں سے اسے اور اس کے ناول کو دیکها...اسے یاد تها یہ ناول وہ کافی عرصہ پہلے خرید لائی تهی اور اس کے بعد وہ ہمیشہ ایک ہی ناول میں کھوئی رہتی..اس کے اوراق بوسیدہ ہو چکے تهے جلد بهی کافی پرانی ہو چکی تھی لیکن آیت جیسے اس ناول سے عشق کرتی تهی........
دراصل وہ ناول سے نہیں ناول کے ہیرو کو پسند کرتی تهی...وہ اکثر اس ہیرو کا ذکر اس کے سامنے کرتی اس کی آنکھیں ایسی ہیں اس کا انداز ایسا ہے...یہ سب کرتے ہوئے اسے اپنی چھوٹی بہن احمق ترین لڑکی لگتی.. .. . ..

آیت اس ناول کو بند کرو اور آ کر کهانا کهاو... اس نے غصے سے آیت کو ٹوک دیا...وہ گہری سانس لے کر بے بسی سے مسکرائی جیسے یہ کافی مشکل کام ہو ...پھر ناول کو دراز میں رکھ کر بیڈ پر آ کر اس کے پاس بیٹھ گئی........
تم پاگل ہو کیا...؟ تمہیں معلوم ہے اس ناول میں جو ہیرو ہے وہ تمہیں نہیں ملے گا....بلکہ وہ تو کہیں بھی نہیں ملے گا وہ محض ایک فرضی کردار ہے پھر بھی تم اسے پسند کرتی ہو.....عروہ نے اسے جهڑک دیا...وہ اب چاولوں کا چمچ منہ میں ڈال رہی تهی.....
کچھ بھی نا ممکن نہیں ہے اگر کسی کو سچے دل سے چاہو تو وہ ضرور ملے گا.......عروہ نے اسے گھور کر دیکھا اس وقت وہ احمقوں کی ملکہ لگ رہی تھی. ..
امی نے ابو سے بات کر لی کیا. ..؟ وہ موضوع تبدیل کرتے ہوئے بولی.....
کس بارے میں. ..؟
میرے لنڈن جانے کے بارے میں. ..
نہیں اور مجھے نہیں لگتا وہ کریں گی...اور کر بھی لیا تو ابو کھبی نہیں مانیں گے. ..لنڈن جانے کا خواب چھوڑ دو......عروہ نے اسے مشورہ دیا......
نہیں ایسا کبھی نہیں ہو سکتا. ..وہ ہٹ دھرمی سے بولی. ..
تو کیا کرو گی تم..؟ جو چیز ناممکن ہے وہ تم ممکن نہیں بنا سکتیں...ابو جماعت اسلامی کے اتنے بڑے رکن ہیں یوں اکیلے بیٹی کو لنڈن بهیج دیں..ایسا ہو ہی نہیں ہو سکتا. ..اور وہ تمہارے لیے لڑکا بھی ڈھونڈ رہے ہیں جلد تمہاری شادی ہو جائے گی اور.....آیت نے غصے سے اس کی بات کاٹ دی....
شادی کے علاوہ بھی ایک زندگی ہے ..اور ان سب چیزوں کے لیے پوری زندگی ہے یوں اپنے آپ کو شادی کے بندھن میں باندھ کر میں اپنی لائف برباد ہرگز نہیں کروں گی.....میں کسی کے اصولوں کے لیے اپنا فیوچر خراب نہیں کروں گی. ..زندگی میں ایسے موقعے بار بار نہیں آتے...چاہے کچھ بھی ہو جائے لنڈن تو میں جا کر ہی رہوں گی. ..کوئی من مجھے نہیں روک سکے گا........وہ غصے میں کهانا نہیں کها رہی تھی. .عروہ اسے تاسف اور بے بسی سے دیکھتی رہ گئی..
آسمان سیاہ تها اور سیاہ اس لیے تها کیونکہ بادلوں کی چادر نے آسمان کو لپیٹ رکها تها__وہ کهڑکی کے پاس بیٹھ کر باہر کے نظارے کو دیکھ رہی تھی___
ہاتهوں میں جو اردو ناول تها وہ اس کی توجہ کا منتظر تها مگر وہ بیٹهے بیٹهے جانے کہاں کهو گئی___
وہ چونکی تو تب جب اس نے دروازہ کھلنے کی آواز سنی __اس کی امی آ کر اس کے سامنے صوفے پر بیٹھ گئیں __ان کا انداز ایسا تها جیسے کچھ کہنا چاہ رہی ہوں لیکن کہہ نہیں پا رہی تهیں وہ شاید کوئی تہمید سوچ رہی تهیں ____
آیت خاموشی سے انہیں دیکهے گئی پهر اس نے ہی ان کی یہ مشکل آسان کر دی___
" کیا بات ہے امی کچھ کہنا چاہتی ہیں آپ" ___اور اسی بات سے انہیں حوصلہ ملا___
"دیکھ آیت __بیٹا جو بات میں تم سے کہنے جا رہی ہوں اس پہ کوئی تماشا مت کهڑا کرنا"___ ایسا کیا کہنے والی ہیں اس نے سوچا____
عمارہ بیگم کچھ پل خاموش رہیں یہ سوچنے کے لیے کیسے بات شروع کرے ___
ویسے ان کی دو بیٹیاں تھیں لیکن آیت سے وہ بہت زیادہ محبت کرتی تهیں __اس کی وجہ وہ خود تهی _تهوڑی شرارتی تهوڑی جذباتی اور تهوڑی نرم دل... ان کی دوسری بیٹی عروہ تهی جو خاموش اور تحمل مزاج..__ ویسے تو ماں باپ کے لیے ہر اولاد خوبصورت ہوتی ہے____
لیکن آیت کی بات ہی کچھ اور تهی وہ صرف اپنی ماں کے لیے ہی نہیں سب کے لئے پرکشش تهی __
"پتا ہے آج تمہارے ابو ایک لڑکے کی بات کر رہے تهے_"___آیت نے خشک اور سوالیہ نظروں سے انہیں دیکها وہ نہیں جانتی تھی امی کس لڑکے کی بات کر رہی ہیں لیکن ایک گهنٹے سے امی نے کسی روحل آفتاب نامی ایک لڑکے کی تعریفیں کر کر کے اس کے کان پکا دیے _وہ اس سے کهبی نہیں ملی نہ ہی اس نے اسے دیکها __اور ایسا بھی نہیں تها وہ اس کی باتیں سننے میں دلچسپی رکھتی تھی پهر بھی جانے امی کے پاس اس ٹاپک کے علاوہ دوسرا کوئی ٹاپک کیوں نہیں تها __جیسے دنیا جہان میں ایک وہی لڑکا ہی باقی رہ گیا ہو بس____اس کا نام روحل آفتاب تها___
بقول امی کے وہ پہلی بار ابو کو کہیں ملا تها ایک مہینے پہلے اور اس نے پہلی نظر میں ابو کو متاثر کیا ہوگا اور ابو نے یہ بات امی تک پہنچائی اور امی اس کے کانوں میں انڈیلنے کی کوشش کر رہی تهیں__لیکن اس کے کانوں میں کہاں جوں رینگنے تهے _____
اور امی اس میں وہ وہ خوبیاں نکال رہی تهیں جو اس میں شاید ہوں گی بھی نہیں... اسے بهلا کیا دلچسپی ہو سکتی تهی یہ جاننے میں وہ کتنا اچها کتنا باشعور اور کتنا امیر کتنا خوبصورت ہے___
وہ اتنی نادان تو نہیں تهی جو مما کی ان باتوں کا مطلب ہی نہ سمجهتی لیکن وہ جان کر انجان بن رہی تهی اس معاملے میں اسے رتی بهر بھی دلچسپی نہیں تهی__
" تمہیں پتا ہے آیت وہ بہت خوبصورت لڑکا ہے __آہستہ مدهم آواز__نماز قرآن پابندی سے ادا کرتا ہے __سلجها ہوا انداز__ وہ آج کی لڑکوں سے بہت مختلف ہے اور بہت مذہبی بهی ہے _اور تو اور تمہارے ابا بتا رہے تهے وہ حافظ قرآن بھی ہے" _مما جانے کہاں کهو گئیں اور وہ انہیں" یہ کهبی باز نہیں آئیں گی " والی نگاہوں سے دیکهنے لگی مگر بولی کچھ نہیں ایک بار امی یونہی دو کسی کی تعریفیں کرتی رہی ان تعریفوں کے بعد اس نے صرف اتنا کہا " تو میں کیا کروں "
اس کے بدلے میں امی نے اسے آس پاس کے پڑوسیوں کی مثالیں دینی شروع کر دیں فلاں لڑکی کی عمر اتنی ہے اور فلاں کے اتنے بیٹے ہو چکے ہیں فلاں عورت نواسے نواسیوں کے مزے لے رہی ہے. .اور فلاں لڑکی ہنسی خوشی زندگی گزار رہی ہے____یہ سب سننے سے بہتر تها وہ خاموش ہی رہتی__
"اور ایک مزے کی بات بتاوں؟" انہوں نے پوچھا اور اگر وہ نہ بھی کہتی تب بهی وہ اپنی بات بتا کر ہی رہتیں__
[ دسمبر لوٹ آنا تم تحریر ناصر حسین ]
اسے ایک بار گردن گهما کر انہیں دیکهنا ہی پڑا __
"تمہارے ابو کو وہ تمہارے لیے بہت پسند آیا __پڑها لکها ہے شہر میں رہتا ہے اور کل شام وہ تمہیں دیکهنے آ رہے ہیں"____
دهڑاز ___
کے ٹو کی پوری پہاڑی اس کے سر پہ گر گئی___
_اس کی امی نے مسکرا کر کہا تھا اگر یہ مذاق تها تو بہت گهٹیا مذاق تها _ کچھ لمحے لگے تهے اسے کانوں سنی بات پہ یقین کرنے کے لیے پہلے وہ حیران ہوئی پهر شاکڈ اور پھر کرنٹ کها کر کهڑی ہو گئی.
" واٹ "

وہ حلق کے بل چلائی عمارہ بیگم بھی کهڑی ہو گئیں__اس کا چہرہ یک دم سرخ ہو گیا__اب اس کی یہی اوقات رہ گئی تهی کسی بھی راہ چلتے لڑکے کو اس کے لیے پسند کیا جاتا _جسے نہ وہ جانتی ہو نہ اس نے دیکها ہو __ابهی تو اس کی شادی کی عمر ہی نہیں تهی چوبیس سال شادی کی کوئی عمر نہیں ہوتی اور اس کا دور دور تک کوئی ارادہ بھی نہیں تها وہ ابهی پڑهائی کرنا چاہتی تهی _لندن والا مسئلہ ابهی تک حل نہیں ہوا اور یہاں ایک اور بکهیڑا کهڑا ہو گیا_لندن جانا اس کی زندگی کا سب سے بڑا خواب تها _اور یوں اس طرح یہ سب ___وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی ابو ایسا کچھ کریں گے اتنی بڑی بے وقوفی کی توقع اسے ان سے نہیں تهی__وہ ان کی حاکمانہ طبیعت سے واقف تهی لیکن اس نے یہ نہیں سوچا تها ابو یوں کسی کو بھی اس کے گلے کا ڈهول بنا کر پیش کریں گے _____
امی آپ ایسا کیسے کر سکتی ہیں. ..؟
اس نے آس پاس دیکھ کر کوئی چیز ڈهونڈنے کی کوشش کی تهی جس پہ وہ اپنا غصہ نکالتی __پهر اس نے ناول کو اٹها کر دور پهینک دیا____عمارہ بیگم ہکا بکا ہو کر اسے دیکهنے لگیں اتنے غصے کی توقع وہ اس سے نہیں کر رہی تهیں ___
اس کی آنکھوں سے ایک سمندر رواں ہو گیا وہ ابهی بهی بے یقین تهی دو دن پہلے تو اس نے لندن جانے کی بات کہی تھی ___اس بارے میں تو کسی نے نہیں سوچا_____
"آیت ابهی صرف "___جانے ان کے منہ سے کیا نکلنے والا تها لیکن آیت غصے میں کهبی ان کی بات پوری نہیں ہونے دیتی تهی ___
"نو .....نو...نو....امی نو." ...وہ پهوٹ پهوٹ کر رو پڑی عمارہ بیگم کے دل کو کچھ ہونے لگا__لیکن وہ بھی کیا کرتیں شوہر کے سامنے ان کی بهی نہیں چلتی تهی ___
وہ غصے سے مٹهیاں بهینچے آئینے کے سامنے جا کر بیٹھ گئی_اس کی آنکهیں لال ہو چکی تهیں _جن سے آنسو بہہ رہے تهے_ماتهے پہ پسینہ تها بال تهوڑے آگے کو بکهرے ہوئے تھے __وہ یک ٹک بنا پلکیں جهپکائے آئینے میں اپنے عکس کو دیکهے جا رہی تهی ___پهراس نے آئینے کے سامنے رکھا ہوا وہ آخری خوبصورت جاپانی کلاک بھی زور سے دیوار پر دے مارا____
ایک چهنک کی آواز پورے کمرے میں گونج اٹهی اور وہ کلاک کئی حصوں میں تقسیم ہو کر ادهر ادهر پهیل گیا __ کچھ لمحے وہ یونہی کهڑی اسے دیکهتی رہیں __
اور اس کے پاس چلی آئیں ___انہوں نے اس کے سر پہ ہاتھ رکھ بڑی محبت سے اسے دیکها مگر وہ انہیں نہیں غصے سے آئینے کو دیکهے جا رہی تهی_____
" آیت "___
" آیت میری بات سنو"___
وہ اس کا چہرہ اپنی طرف گهما کر بولیں __ایک لمحہ صرف ایک لمحہ وہ انہیں دیکهتی رہی پهر ان کا ہاتھ جهٹک کر کهڑی ہو گئی__
" چلی جائیں یہاں سے مما _"__وہ جیسے بہت ضبط کر کے بولی تهی__اگر وہ اس کی ماں نہ ہوتی تو یقیناً وہ چلا کر گیٹ لاسٹ کہہ دیتی ___مگر رشتے انسان کو کمزور بنا دیتے ہیں _دل کو ان کے سامنے جهکنا پڑتا ہے _____
" لیکن _"__
" میں نے کہا چلی جائیں یہاں سے _آپ مجھ سے زرا پیار نہیں کرتیں آپ کو اپنی اس بیٹی سے بالکل بھی محبت نہیں ہے_"..اس کی آواز میں بلا کا دکھ تها ___اور آج تو تکلیف کی وجہ بھی زیادہ تهی __عمارہ بیگم کا دل تڑپ اٹها ___
[ دسمبر لوٹ آنا تم تحریر ناصر حسین]
" میں نے کچھ نہیں کیا آیت یہ سب تمہارے ابو نے کیا ہے اور تم جانتی ہو میں تم سے کتنا پیار کرتی ہوں" ___وہ بے بسی سے بولیں___
" یہ پیار کرتی ہیں آپ" ___وہ پهٹ پڑی
" آپ لوگ میری زندگی برباد کر دینا چاہتی ہوں یوں کیریئر کے آخری سٹیج پہ لا کر آپ سب ختم کر دینا چاہتی ہیں __آپ لوگ ایسا کیسے کر سکتے ہیں__کیا بیٹیاں واقعی بوجھ ہوتی ہیں کیا والدین ان سے محبت بالکل بھی نہیں کرتے ____ہر قدم پہ بیٹی ہی کیوں قربانی دے" _____
اس نے شکوے سے عمارہ بیگم کو دیکها ___
" کیونکہ ایک عورت پیدا ہی قربانی دینے کے لیے ہوتی ہے بچپن سے لے کر بڑھاپے تک اسے قربانی دینی ہی پڑتی ہے مرد کهبی قربانی نہیں دیتا وہ صرف حکومت کرنا جانتے ہیں سمجھوتہ ہمیشہ عورتوں کو ہی کرنا پڑتا ہے"_____
" عورتوں کو ہی کیوں مما __کیا وہ انسان نہیں ہیں کیا ان کے پاس دل نہیں ہے __آپ سوچیں تو سہی آپ میرے ساتھ کیا کر رہے ہیں جہاں سب کچھ شروع ہونا تها آپ وہیں آ کر سب ختم کر رہی ہیں___یوں کسی بھی راہ چلتے لڑکے کو آپ لوگ کیسے میرے لیے منتخب کر سکتے ہیں__پسند کی جیون ساتھی کا انتخاب تو اسلام میں بھی دیا گیا ہے"_____
اس کی آواز جیسے خلا سے کہیں آ رہی تهی____
" دیکهو آیت جن سے ہم محبت کرتے ہیں ان کے ساتھ ہماری کئی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں ہم ان پہ اپنا حق سمجھتے ہیں ہم انہیں اچهی چیزیں اس لیے بھی دینا چاہ رہے ہوتے ہیں تا کہ وہ کسی غلط شے کی تمنا نہ کریں......اور والدین کهبی اپنی اولاد کا برا نہیں چاہ سکتے تم جانتی ہو ہر ماں باپ کی طرح ہماری بھی تمنا ہے تمہیں دلہن بنی دیکھوں. ..اگر ہم نے ایسی کوئی خواہش کی بهی ہے تو اس میں کیا غلط ہے. کیا ایک ماں باپ کو اتنا بھی حق نہیں ہوتا وہ اپنے بچے کے لیے جیون ساتھی کا انتخاب کرے"........
وہ آہستہ آواز میں بولیں ان کی آواز میں نمی تهی....آیت انہیں دیکهے جا رہی تهی. .ایسا کیسے ہو سکتا ہے کوئی باپ ایسا کیسے کر سکتا ہے ملکیت اور محبت اپنی جگہ لیکن یوں اسے زندگی کے سب سے بڑے فیصلے سے دستبردار کر دینا یہ کہاں کا انصاف تها......جو تعریف وہ انہیں سمجها رہی تهیں وہ بالکل بهی سمجھ نہیں پا رہی تهی____
" میں تو صرف اتنا چاہتی ہوں کہ تمہاری جیون ساتھی بہت اچها ہو جیسی تم ہو. ...اور یقین جانو تمہارے ابو کہہ رہے تھے اس جیسا لڑکا تمہیں پوری دنیا میں کہیں نہیں ملے گا "... ....
( اف پهر سے وہی لڑکا وہی شادی... یہاں یہ بات معنی نہیں رکھتا میں سب سے پہلے لندن جانا چاہتی ہوں اس کے بعد کچھ سوچوں گی ان جهیملوں کے بارے میں )
[ دسمبر لوٹ آنا تم تحریر ناصر حسین ]
اس نے خاموشی سے اپنی مما کو دیکها سکینڈ کے ہزارویں حصے میں ایک خیال بجلی کی طرح اس کے دماغ میں کوندا ___اور اس نے اپنے آنسو صاف کر کے مما کے ہاتھ پہ ہاتھ رکها_____
" آپ اور ابو جو چاہتے ہیں وہیں ہوگا امی لیکن.."....وہ ان کے ہاتهوں کو مضبوطی سے دباتے ہوئے بولی....
" لیکن؟" عمارہ بیگم نے سوالیہ نگاہوں سے اسے دیکها__
" لیکن میری ایک شرط ہے امی " ___؟ وہ ان کی گود میں سر رکھ کر کافی دیر بعد بولی___عمارہ بیگم نے اسے اسے دیکھا وہ ان کی گود سے سر اٹھا کر ان کی آنکهوں میں دیکهنے لگی_____
" مجهے لندن جانا ہے " ___ عمارہ بیگم کے چہرے پہ ایک رنگ آیا _کافی دیر تک وہ خاموشی سے اسے دیکهتی رہیں__
آیت کو سمجھ نہیں آیا والدین کو کیسے راضی کرے _
آپ لوگ میری زندگی برباد کر دینا چاہتی ہیں یوں کیریئر کے آخری سٹیج پہ لا کر آپ سب ختم کر دینا چاہتی ہیں __آپ لوگ ایسا کیسے کر سکتے ہیں__کیا بیٹیاں واقعی بوجھ ہوتی ہیں کیا والدین ان سے محبت بالکل بھی نہیں کرتے ____ہر قدم پہ بیٹی ہی کیوں قربانی دے" _____
اس نے شکوے سے عمارہ بیگم کو دیکها ___
" کیونکہ ایک عورت پیدا ہی قربانی دینے کے لیے ہوتی ہے بچپن سے لے کر بڑھاپے تک اسے قربانی دینی ہی پڑتی ہے مرد کهبی قربانی نہیں دیتا وہ صرف حکومت کرنا جانتے ہیں سمجھوتہ ہمیشہ عورتوں کو ہی کرنا پڑتا ہے"_____

" عورتوں کو ہی کیوں مما __کیا وہ انسان نہیں ہیں کیا ان کے پاس دل نہیں ہے __آپ سوچیں تو سہی آپ میرے ساتھ کیا کر رہے ہیں جہاں سب کچھ شروع ہونا تها آپ وہیں آ کر سب ختم کر رہی ہیں___یوں کسی بھی راہ چلتے لڑکے کو آپ لوگ کیسے میرے لیے منتخب کر سکتے ہیں__پسند کی جیون ساتھی کا انتخاب تو اسلام میں بھی دیا گیا ہے"_____
اس کی آواز جیسے خلا سے کہیں آ رہی تهی____
" دیکهو آیت جن سے ہم محبت کرتے ہیں ان کے ساتھ ہماری کئی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں ہم ان پہ اپنا حق سمجھتے ہیں ہم انہیں اچهی چیزیں اس لیے بھی دینا چاہ رہے ہوتے ہیں تا کہ وہ کسی غلط شے کی تمنا نہ کریں......اور والدین کهبی اپنی اولاد کا برا نہیں چاہ سکتے تم جانتی ہو ہر ماں باپ کی طرح ہماری بھی تمنا ہے تمہیں دلہن بنی دیکھوں. ..اگر ہم نے ایسی کوئی خواہش کی بهی ہے تو اس میں کیا غلط ہے. کیا ایک ماں باپ کو اتنا بھی حق نہیں ہوتا وہ اپنے بچے کے لیے جیون ساتھی کا انتخاب کرے"........
وہ آہستہ آواز میں بولیں ان کی آواز میں نمی تهی....آیت انہیں دیکهے جا رہی تهی. .ایسا کیسے ہو سکتا ہے کوئی باپ ایسا کیسے کر سکتا ہے ملکیت اور محبت اپنی جگہ لیکن یوں اسے زندگی کے سب سے بڑے فیصلے سے دستبردار کر دینا یہ کہاں کا انصاف تها......جو تعریف وہ انہیں سمجها رہی تهیں وہ بالکل بهی سمجھ نہیں پا رہی تهی____
" میں تو صرف اتنا چاہتی ہوں کہ تمہاری جیون ساتھی بہت اچها ہو جیسی تم ہو. ...اور یقین جانو تمہارے ابو کہہ رہے تھے اس جیسا لڑکا تمہیں پوری دنیا میں کہیں نہیں ملے گا "... ....
( اف پهر سے وہی لڑکا وہی شادی... یہاں یہ بات معنی نہیں رکھتا میں سب سے پہلے لندن جانا چاہتی ہوں اس کے بعد کچھ سوچوں گی ان جهیملوں کے بارے میں )
اس نے خاموشی سے اپنی مما کو دیکها سکینڈ کے ہزارویں حصے میں ایک خیال بجلی کی طرح اس کے دماغ میں کوندا ___اور اس نے اپنے آنسو صاف کر کے مما کے ہاتھ پہ ہاتھ رکها_____
" آپ اور ابو جو چاہتے ہیں وہیں ہوگا امی لیکن.."....وہ ان کے ہاتهوں کو مضبوطی سے دباتے ہوئے بولی....
" لیکن؟" عمارہ بیگم نے سوالیہ نگاہوں سے اسے دیکها__
" لیکن میری ایک شرط ہے امی " ___؟ وہ ان کی گود میں سر رکھ کر کافی دیر بعد بولی___عمارہ بیگم نے اسے اسے دیکھا وہ ان کی گود سے سر اٹھا کر ان کی آنکهوں میں دیکهنے لگی_____
" مجهے لندن جانا ہے " ___ عمارہ بیگم کے چہرے پہ ایک رنگ آیا _کافی دیر تک وہ خاموشی سے اسے دیکهتی رہیں__
" تم جانتی ہو یہ نا ممکن ہے تمہارے ابو کهبی اس بات کی اجازت نہیں دیں گے "......
" نا ممکن کچھ نہیں ہوتا مما دنیا میں ہر شے ممکن ہے آپ ایک بار ابو سے بات تو کریں کیا پتا وہ مان جائیں"___
" ٹهیک ہے میں ایک بار کوشش کروں گی"___عمارہ بیگم نے اسے امید دلائی وہ خوشی سے ان کے گلے لگ گئی ___
وہ جانتی تھی وہ جهوٹ بول رہی ہے وہ ایسا کهبی بهی نہیں کر سکتی یوں کسی سے شادی وہ خواب میں بھی نہیں کر سکتی لیکن وہ اپنی مما کو مزید دکھ نہیں دینا چاہتی تهی جو اس نے سوچا تها وہ وہی کرنا چاہتی تهی____ اور اس مسئلے کا حل وہ بعد میں آرام سے سوچنا چاہتی تهی. ..........
اپنے کمرے میں آ کر بهی وہ یونہی ٹہلتی رہی تقریباً آدها مسئلہ تو وہ حل کر چکی تهی لیکن پهر بھی وہ ٹیشن میں تهی ____پہلے اگر سوچنے کے لیے صرف لندن تها تو اب اس کی سوچ میں ایک اجنبی لڑکے کا بھی اضافہ ہو گیا____
لندن کا خواب اپنی جگہ لیکن وہ اپنی سب سے بڑی خواہش کی تکمیل کے لیے اتنی بڑی قربانی تو کهبی نہیں دے سکتی تهی__
یوں راہ چلتا کوئی بھی لڑکا اس کی زندگی میں یوں تو نہیں آسکتا تھا. ...اپنی زندگی اور اپنے جیون ساتھی کو لے کر ہر انسان کے دل میں کئی خواب ہوتے ہیں ___
اس کا سر درد سے پهٹا جا رہا تھا. ..وہ سر تهام کر جیسے بے بس ہو گئی اور صوفے پہ بیٹھ گئی.تهوڑی دیر پہلے تک وہ بالکل پرسکون تهی لیکن آنے والے کچھ لمحے کچھ گهڑیاں انسان کی زندگی کو کہاں سے کہاں لے جاتی ہیں........
اچانک اس کے دماغ میں ایک خیال بجلی کی طرح آیا ...گو کہ یہ کام کافی حد تک رسکی تها لیکن اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ بھی تو نہیں تها........اس آئڈیے کے تحت اسے یقین تها اب کچھ نہ کچھ تو ہو ہی جائے گا. .اس لیے اس کی ٹینشن میں کافی حد تک کمی آئی......
دوپٹہ اتار کر وہ بیڈ پہ سونے کے لیے لیٹی لیکن کهلی آنکهوں سے وہ سو نہیں سکتی تھی وہ خاموشی سے چهت کو دیکهے جا رہی تهی. . ...
ابو کی عجیب اور احمقانہ ضد کی وجہ سے اسے کتنا خوار ہونا پڑ رہا تها..پاپا سے ٹکر لینے کا وہ سوچ بھی نہیں سکتی تهی وہ کافی غصیلے اور سخت تهے مگر اس سب کے باوجود بھی وہ کسی بھی لڑکے کو شادی کے لئے منتخب نہیں کر سکتی تهی...
اب اسے کوئی ایسا طریقہ نکالنا تها جس سے سانپ بھی مر جاتا اور لاٹهی بھی نہ ٹوٹتی............
_ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _

شام کا وقت تھا__
آیت نے موبائل چارجنگ سے نکال کر وقت دیکها...شام کے پانچ بج رہے تھے اس وقت ابو یقیناً نماز پہ گئے ہوں گے یہی سہی موقع تها اپنے کام کو سر انجام دینے کا..وہ جو کل سے سوچ رہی تھی اس کام کو کرنے کا وقت آ چکا تها. ..لیکن یہ کام کافی رسکی تها کچھ بھی ہو سکتا تها مگر زندگی میں کهبی نہ کهبی رسک لینا ہی پڑتا ہے. ....وہ اپنے کمرے سے باہر نکل آئی...سام سامنے اسے مما دکهائی دیں جو صوفے پہ بیٹھ کر ٹی وی پہ کوئی اسلامی پروگرام دیکھ رہی تهیں. ...اسے مما کو کسی کام میں مصروف کرنا تها تبهی وہ اپنا کام آسانی سے کر سکتی تهی. ....وہ صوفے پہ ان کے برابر آ کر بیٹھ گئی. ....
" کیا دیکھ رہی ہیں آپ امی..."؟ سوال بے تکا تها لیکن بات شروع کرنے کے لیے اس سے بہتر جملہ اسے نہیں مل سکتا تها ......
" بس یونہی. "....اس کی مما نے ریموٹ رکھ کر اسے غور سے دیکھا. .....
"عروہ آپی کہاں ہے ..".؟اس نے اپنی بڑی بہن کا پوچها. ....
" وہ نادیہ کے گهر گئی ہے خیر تو ہے." ...عمارہ بیگم کو اس کا یہ عجیب و غریب انداز دیکھ کر تشویش ہونے لگی.....
" جی امی".....اچها امی آج موسم کافی اچها ہے ناں تو کیوں نہ آپ میرے لیے بریانی بنائیں". ....
" یہ اچانک بریانی کا خیال کیسے آیا تمہارے دل میں". ..؟

" بس ویسے ہی پلیز بنا دیں ناں".... عمارہ بیگم گہری سانس لے کر کچن میں چلی گئیں....اور اس نے بھی اطمینان کا سانس لیا اور بهاگتی ہوئی ابو کے کمرے میں آئی....ان کا موبائل اس وقت کمرے میں ہی ہوتا تھا وہ نماز پہ جانے سے پہلے موبائل چارجنگ پہ لگا کر جاتے تھے____اس نے دروازہ بند کر کے موبائل کو چارجنگ سے نکال کر بیڈ پہ بیٹھ گئی____
کنٹیکٹ اوپن کر کے وہ روحل آفتاب کا نمبر ڈهونڈنے لگی....
اور جلد ہی اس نے وہ نمبر حاصل کر لیا پھر وہ نمبر اپنے موبائل میں نوٹ کرنے لگی. .اس نے گهبرا کر دروازے کی طرف دیکها اور موبائل چارجنگ پہ لگا کر کمرے سے باہر نکل کر اپنے کمرے میں آئی......
سب سے پہلے اس نے اس نمبر پہ ایس ایم ایس کیا جس میں اس نے صرف سلام لکها....اس نے جواب کا انتظار کیا جو آدهے گهنٹے بعد ملا......
" Wa salam Kon..?"
اس نے میسج کو پڑها اور اس کا رپلائی لکهنے لگی.....
" I am Ayat and I want to meet you."
( میں آیت ہوں اور تم سے ملنا چاہتی ہوں )
دوسری طرف سے جواب آیا...جو کافی دیر بعد دیا گیا تها. ......
" Why...?"
وہ جنجھلاہٹ کا شکار ہونے لگی. ....اس کا مطلب وہ اسے جانتا تھا اس لیے اس نے یہ نہیں پوچها کون آیت...
پهر اسے وہ چوڑیاں یاد آئیں __اب ساری بات وہ سمجھ چکی تهی ضرور اس لڑکے نے کہیں اسے دیکها ہوگا اور پسند کیا پهر وہ ابو کو متاثر کرنے کے لیے ان کا من پسند روپ دهارنے لگا ___اور اس دن وہ چوڑیاں بھی اسی نے ہی پهینکی تهیں مگر کہاں سے پهینکی گئیں تهیں یہ سمجهنا اس کی سوچ سے باہر تها __وہ جو بھی تها اس کے لیے وہ اپنے دل میں غصہ محسوس کرنے لگی تھی___
" Kal Subh 10 Bje city park me Thumara wait karon gi Aa jana...Why ka jawab thumen wohin mily ga...bye.. .."
دهڑکن کی رفتار بے قابو تهی اسے ڈر تها کہیں کسی کو پتا نہ چل جائے.......
" Ok....."
اس نے ایک ماتهے پہ آیا پسینہ صاف کیا..ایک کام تو وہ کر چکی تهی اب جانے آگے کیا ہونا تها...جو وہ سوچ رہی تهی وہ ممکن تها بھی یا نہیں. ...لیکن کل کی کل دیکهی جائے گی اس نے سوچا.......
_ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _
نیلے آسمان کی چادر تلے دور دور تک پهیلا وہ خوبصورت پہاڑی علاقہ جو قدرتی حسن سے مالا مال تها ...برف کی خوبصورت سفید چادر سے ڈهکے وہ پہاڑ اور ان کے درمیان درخت اس علاقے کی خوبصورتی میں چار چاند لگا رہے تهے........
وہ گویا زمین پہ ایک جنت کا ٹکڑا ہو...خوبصورت پانی کے آبشار صبح صبح پرندوں کی خوبصورت چہچہاہٹ. .,
آنکهوں میں رنگ بهر دینے والا تھا وہ علاقہ..دل کو مسحور کر دینے والا وہ منظر. .......
[ دسمبر لوٹ آنا تم تحریر ناصر حسین ]
وہ ایک خوبصورت صبح تهی جب آسمان کو بادلوں نے اپنی لپیٹ میں لے رکها تها جو کسی بھی پل اس پہاڑی علاقے کو بهگو سکتے تھے. ..ٹهنڈی ٹهنڈی ہوا چل رہی تهی ..اس علاقے میں آبادی تقریباً نہ ہونے کے برابر تهی زیادہ سے زیادہ چالیس پچاس گهرانے تهے وہ بھی ایک دوسرے سے اتنے فاصلے پہ کہ سب کے درمیان ایک دوری حائل رہتی.........
یہ گاوں شہر سے کافی دور ایک روپوش علاقے میں واقع تهی یہاں شہروں جیسی مصروف اور مشینی زندگی نہیں تهی سادہ سے لوگوں کی سادہ سی زندگی. ....
ایسا نہیں تها یہاں کے لوگ جاہل یا گوار تهے وہ سبهی نہایت سلجھے ہوئے اور نئے طرز سے زندگی گزارنے والے لوگ تھے لیکن پھر بھی شہری زندگی اور اس زندگی میں زمین و آسمان کا فرق تها...شاید یہی وہ فرق اس علاقے کو ایک خوبصورت گاوں بنا رہا تھا. ....

اور اسی گاوں کے ڈھلوان میں واقع وہ خوبصورت اور بڑی حویلی جو دو کنال کے رقبے پر پھیلی ہوئی تھی جس کے چاروں طرف چار فٹ کی دیوار تهی.......
اس حویلی کے آنگن میں ایک بہت بڑا آم کا درخت تها .ویسے عموماً ایسے علاقوں میں عام کے درخت ہوتے نہیں تهے لیکن کئی کئی مقامات پر پائے جاتے ...
اسی بڑے درخت کی ایک ٹہنی پہ ایک کوئل اپنی خوبصورت آواز میں کوئی گانا گا رہا تها.. اور بهی کئی پرندے اس درخت کے اوپر اپنا آشیانہ بنائے ہوئے تهے اور اس درخت کی ایک شاخ پہ بہت بڑا جهولا بندها ہوا تها. .......
اور اس جھولے پہ ایک آٹھ سال کی خوبصورت بچی بڑے مزے سے جهولے لے رہی تهی __ہوا میں اڑتے کسی پرندے کی طرح مسکراتی__دنیا اور غموں سے بے خبر __وہ زور زور سے جهولے لینے میں مصروف تهی اتنی بے خبر تهی کہ اسے معلوم ہی نہیں ہو سکا اس کے پیچھے کون کهڑا شرارت سے اسے دیکھ رہا ہے__
کئی لمحے وہ اسے یونہی دیکهتا رہا پهر وہ آٹھ سال کا شرارتی لڑکا چپکے سے بنا کوئی آواز پیدا کیے آم کے درخت کے اوپر چڑھ گیا___وہ بچی ابهی بهی جهول رہی ہے اس نے نہ کسی کی آمد کو محسوس کیا اور نہ ہی محسوس کر سکتی تهی کیونکہ وہ اتنے مگن انداز میں جهولے لے رہی تهی _____
وہ لڑکا بالکل اسی شاخ پہ جا پہنچا جس سے جهولا بندها ہوا تها اس نے آہستہ سے جیب میں ہاتھ ڈال کر چهوٹا سا چاقو نکالا اور جهولے کی رسی کاٹنے لگا __اس کے ننھے اور شریر ہاتھ بڑی پھرتی سے رسی پہ چل رہے تھے_____
وہ لڑکی بے نیاز تهی __اور کوئی نغمہ گنگناتے ہوئے بڑے مزے لے رہی تهی نہیں جانتی تھی اگلے لمحے اس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے__اس لڑکے نے مسکراتے ہوئے ایک آخری بار اس لڑکی کو دیکها اور اگلے ہی پل رسی ٹوٹ کر شاخ سے چهلک گئی اور وہ لڑکی زور سے جهولے کهاتے ہوئے اڑتی ہوئی منہ کے بل زمین پہ جا گری __ایک دلخراش چیخ اس کے منہ سے برآمد ہوا ___
" ہائے میں مر گئی "__وہ کراہتے ہوئے بولی اور اٹهنے کی کوشش کرنے لگی __کپڑے سارے خراب ہو گئے پاوں میں بھی ہلکے ٹیس کا احساس ہوا اسے___
وہ لڑکا زور زور سے قہقہے لگانے لگا __اس لڑکی نے قہقہہ سن کر پیچھے دیکها اور پهر درخت کے اوپر وہ بڑی بے نیازی سے امرود کها رہا تها اور ہنستے ہوئے اسے دیکھ رہا تھا__وہ کپڑے جھاڑتے ہوئے کهڑی ہوئی اس نے غصے سے مٹهیاں بهینچ لیں اور آنکهیں نکال کر اس لڑکے کو دیکهنے لگی____
" اوئے موٹے کهوتے دے پتر _بلی جیسی آنکھوں والے تیری ہمت کیسے ہوئی رسی کاٹنے کی"___اس نے زور سے چلا کر اپنا غصہ نکالنا چاہا لیکن اس لڑکے پہ جیسے بالکل اثر ہی نہیں ہوا ____
" دادی__دادی __"_اس بچی نے زور زور سے چلا کر دادی کو آواز دی ___
" ارے کیا مصیبت ہے کم بخت__اب کون سی آفت آ گئی کیوں گلا پهاڑ پهاڑ کر چلا رہی ہے _"__دادی لاٹهی سنبهالتی بہ مشکل باہر نکلیں __اس کی چیخ سن کر پورا گهر اکهٹا ہو گیا ___اماں، عروج، جنت اور دادی بھی___
" یہ دیکهیں دادی آپ کے لاڈلے نے کیا کر دیا"؟ گڑیا روتے ہوئے بولی اس کے ٹانگ میں ابهی بهی درد تها سب نے چہرہ گهما کر رام کو دیکها____
" ارے میں نے کیا کیا" __؟ وہ دنیا بهر کے معصوم لوگوں کا ریکارڈ توڑتے ہوئے بولا....
" تم نے جهولے کو کاٹ دیا اور میں نیچے گر گئی_اب معصوم بن کے ایکٹنگ کر رہے ہو__"وہ اسے چبانے کے لیے تیار کهڑی تهی __سب کی سمجھ میں نہیں آ رہا تها کیا کریں ____
" تم ثابت کیا کرنا چاہتی ہو گڑیا میں نے تمہیں گرایا ہے __ وہ تو تم زور زور سے جهولے لے رہی تهی رسی ٹوٹ گئی اور تم گر گئیں "____گڑیا کے تلے لگی اور سر پہ آن بجهی ___
" اچها تو درخت کے اوپر کیا کرنے گئے تھے _"گڑیا نے ہاتھ کمر سے ٹکا کر غصے سے اسے دیکها __ایک پل کے لیے رام شرمندہ نظر آیا مگر اگلے ہی پل اس نے چہرے کے تاثرات نارمل کیے ایسا کرنے میں وہ مہارت رکهتا تها _____
" وہ ....وہ....تو ....میں امرود کهانے گیا تها....".؟
اس نے گڑبڑا کر جواب دیا......
" اور آم کے درخت پہ امرود کہاں سے آئے.."...سب نے سوالیہ نگاہوں سے رام کو دیکها. ....
" وہ تو میں نیچے سے لے کر گیا تھا. ..یہ دیکھیں دادی..." اس نے ہاتھ میں پکڑا ہوا امرود دکهایا.....
" یہ...یہ جهوٹ بول رہا ہے دادی.."....وہ دهواں دهار آنسو بہاتے ہوئے بولی......
" ارے چپ کر منحوس. ....رام کهبی جهوٹ نہیں بولتا.یہ سب تمہارے اس منحوس تل کی وجہ سے ہوا ہے. .کہا بھی تها مت کها اتنے لمبے لمبے جهولے مگر تو کسی کی سنے نہ تب....اور اس معصوم پہ الزام لگانا بند کر...کتنا پیارا بچہ ہے"... دادی نے آگے بڑھ کر اسے گلے سے لگایا لیا...اس نے کها جانے والی نگاہوں سے رام کو دیکها....رام فاتحانہ انداز میں مسکرا رہا تھا. .....
اور سب گهر والے واپس اپنے کاموں میں مصروف ہو گئے. .ان کے لیے یہ شاید کوئی بہت بڑی بات نہیں ہوگی ..اس کے ساتھ ہمیشہ یہی ہوتا ہے اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں تهی دادی کهبی بهی رام کے سامنے اس کی سائیڈ نہیں لیتیں تهیں...ویسے بھی دادی کی نظر میں وہ دنیا جہان کی نکمی اور منحوس لڑکی تهی اور اس کی سب سے بڑی وجہ رام تها......
اس برفانی خوبصورت علاقے کے دامن میں چوہدری افضل کا خوبصورت گهر تها جو تقریباً دو کنال کے رقبے پر مشتمل تها .پکا گهر اور ایک بہت بڑا آنگن اور آنگن میں آم کا بہت بڑا درخت تها....چوہدری افضل اس گاوں کے سرپرست مانے جاتے تھے ایک طرح سے وہ وڈیرہ تهے جو دوسروں کے فیصلے کرتے اور ان کے جهگڑے سلجهاتے ..غرور انہیں وراثت میں ہی ملا تها وہ خود کو خدا سمجهنے والوں میں سے تها جو کهبی بهی اپنی غلطی تسلیم نہیں کرتے تهے کیونکہ ان کی نظر میں وہ کهبی غلط ہو ہی نہیں سکتے. ..پیسہ انسان کے کئی عیب چهپاتا ہے اور چوہدری صاحب بھی پیسے کا استعمال چادر کے طور پر کر رہے تهے. .......
والدین میں سے ان کی ماں حیات تهیں والد کافی عرصہ پہلے دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے. ..ان کے بعد ساری ذمہ داری اور ساری جاگیر ان کے ہاتھ آگئی جسے انہوں نے اپنی مرضی سے استعمال کیا. ..وہ بیوی بچوں کو بھی دبا کر رکهتے تهے اور پورے گهر میں ان کی وحشت ہوتی.........
ان کا نام سن کر ان کے بچے ڈر جاتے...ان کی صرف دو بیٹیاں تهیں عروج اور گڑیا.. ..گڑیا کو پیار سے گڑیا کہا جاتا تها کیونکہ ایک تو وہ عروج سے ایک سال چهوٹی تهی اس کی دوسری وجہ خوبصورتی تهی. ..وہ معصوم گول مٹول سی لڑکی واقعی ہی کوئی گڑیا تهی....اور ان کی ایک جوان بہن جنت بھی ان کے گهر کا حصہ تهی. ...وہ اپنے آپ میں مگن رہنے والی ایک مذہبی لڑکی تهی...اسلام اور اللہ سے محبت کرنے والی ...ہر وقت اسکارف اوڑهے رکهتی وہ کام ہرگز نہیں کرتی جو اللہ کو پسند نہیں ہوتا......
ہر بات میں ہر پہلو میں وہ اسلام کے دلائل ڈهونڈ لاتی ..وہ زیادہ پڑهی لکهی نہیں تهی لیکن قرآن پاک ترجمے کے ساتھ وہ حفظ کر چکی تهی. ......نماز روزے کی پابند تهی سال میں تقریباً چھ مہینے وہ روزے رکهتی اور رات کے آدهے حصے تک وہ عبادت کرتی..وہ نہایت نرم مزاج اور خوش اخلاق سی معصوم لڑکی تهی......
چوہدری صاحب کے برابر والا گهرانہ ایک ہندو اکشے اگروال کا تها..وہ گهر ان کے گهر سے کچھ ہی میٹر کے فاصلے پر تها اور ان دو گهروں کے علاوہ وہاں آس پاس کوئی گهر نہیں تها.......
ن ]
ان دونوں گهروں میں کوئی پردہ نہیں تها..ان کا رشتہ ایسا تها جیسے خونی رشتے ہوں ...اکشے کی بیوی مدهو نامی ایک صابر و شاکر عورت تهی...ان دونوں کا ایک ہی آٹھ سال کا بیٹا رام اگروال تها جو زیادہ تر وقت چوہدری صاحب کے گهر میں ہی گزراتا...اس کی وجہ ایک تو ان دونوں گهرانوں میں بے تکلفی تهی اور دوسری وجہ ان کے آس پاس کوئی ایسا گهر نہیں تها جہاں وہ کهیلتا یا وقت گزارتا...دور وہ جا نہیں سکتا تھا اور یہاں سارا دن وہ ان دونوں لڑکیوں کے ساتھ ہی کهیلتا.....وہ بہت شرارتی تها اور سب سے زیادہ تنگ وہ گڑیا کو کرتا....گڑیا کی اور اس کی جنگ برسوں سے چلی آ رہی تهی وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ مقابلے بازی میں لگے رہتے. ...لیکن اکثر رام ہی جیتتا....کیونکہ وہ بہت ہوشیار تها اور گڑیا دادی کے سامنے کهبی ثابت نہیں کر پاتی تهی فلاں شرارت رام نے کی ہے...
دادی کی نظروں میں وہ ہمیشہ فرشتہ تها اس گهر میں سب سے زیادہ دادی ہی اسے پسند کرتی تهیں..کیونکہ وہ ان کی سو سال پرانی کہانیاں بڑی دلچسپی سے سنتا تها جن میں گڑیا کو کهبی دلچسپی محسوس نہیں ہوئی...دادی اسے پسند کرتی ہے اس حد تک سب ٹهیک تها لیکن وہ دادی کو گڑیا کے خلاف الٹی سیدھی پٹیاں پڑهاتا اور خود کو اچها بناتا......
اور دادی اتنی بهولی تهیں اس کی بات پہ آنکھ بند کر کے یقین کرتیں جیسے اس نے کچھ عرصہ پہلے کہا تھا اس کے انگلش میں چار سو نمبر آئے اور گڑیا کے ستر ...اسی بات پہ دادی نے یقین کر کے گڑیا کو نالائقی کے کئی طعنے دیے...وہ بیچاری چپ چاپ سنتی رہتی اگر کچھ بولنے کی کوشش کرتی تو رام اسے جهوٹا ثابت کرتا..اب دادی کو یہ بات کون سمجهاتا کہ انگلش میں تو کیا پورے کورس بک میں بھی چار سو نمبر کسی کے نہیں آئے......اور بالکل ایسے ہی کچھ مہینے قبل اس نے دادی کے کانوں میں یہ بات پهونک دی کہ گڑیا کے رخسار پہ جو کالا تل ہے وہ بد بختی کی علامت ہے اور دادی نے لگے ہاتهوں اس بات پہ یقین بھی کر لیا اب تو وہ اٹهتے بیٹهتے اسے تل کے طعنے دیتیں. ..گهر میں جو بھی چهوٹا بڑا نقصان ہوتا اس کا ذمہ دار وہ تل ہوتا.....بلی چوزے کها گئی تل کی منحوسیت کی وجہ سے....کسی کو بخار ہو گیا تل کی وجہ سے. ..اور اگر کسی کو نزلہ بھی ہوا تو اس کا ذمہ بھی اس تل کے سر پہ ہوتا. ..تل نہ ہوا گویا کالا سانپ ہو گیا...رام کی پڑهائی پٹی اتنی ہی مضبوط ہوتی کہ دادی اس کے علاوہ کچھ دیکھ ہی نہ پاتیں.....
[ دسمبر لوٹ آنا تم تحریر ناصر حسین ]
دادی اتنے یقین سے کہتیں کهبی کهبی وہ خود بھی سوچ میں پڑ جاتی واقعی یہ تل کوئی منحوس ہے..لیکن تعجب کی بات تو یہ تهی اس تل کی دیوانی اس کی ساری سہیلیاں تهیں وہ جب سکول جاتی تو سبهی اس پہ رشک کرتے ہائے گڑیا تیرے گالوں پہ کتنا خوبصورت تل ہے. .....اب وہ انہیں کیا کیا بتاتی اسی تل کی وجہ سے گهر میں کئی نقصانات ہو چکے ہیں جن کی وجہ سے اس کا دل چاہتا وہ تل نوچ کر کہیں دور پهینک دے وہ تل کسی آسیب کی طرح اس کے پیچھے پڑا تها......

مگر اس سب کے باوجود وہ جانتی تھی یہ سب رام کی کارستانی ہے اور اسی وجہ سے اس کے اور رام کے بیچ نفرت کی دیوار کهڑی تهی ..
عروج البتہ ان دونوں کے مقابلے بازی سے ہمیشہ دور ہی رہتی اسے ان معاملات میں بالکل بھی دلچسپی نہیں تهی مگر ہاں وہ رام کی شرارتوں سے واقف تهی لیکن گڑیا کی طرح اس کے پاس بھی کوئی ثبوت نہیں ہوتے تهے جنہیں وہ دادی کو دکها کر اسے دادی کی نگاہوں سے گراتی........
عروج اور گڑیا اسے جتنا ہی نا پسند کیوں نہ کرتے مگر وہ کھیلنے کے لیے انہی دونوں کے پاس آتا کیوں ان دونوں کے علاوہ اس کا کوئی دوست ہی نہیں تها...وہ بعض دفعہ ان دونوں کے ساتھ گڑیاں اور گهر گهر بھی کهیلتا......
گڑیا اکثر غصے سے اسے موٹے کہتی...کیوں وہ تهوڑا بهرا ہوا جسم رکهتا تها گوری رنگت اور سنہری آنکهیں. ..اور انہی آنکهوں کی وجہ سے وہ اسے بلی جیسی آنکھوں والا کہتی...جس پہ وہ ناراض ہونے کی بجائے کهلکلا کر ہنس پڑتا ........
اس وقت بھی جب وہ دادی کے سامنے اس کے لاڈلے کی غلطی ثابت نہیں کر پائی تو آم کے نیچے آ کر بیٹھ گئی. ..اور اس نے ایک ہاتھ سے اپنے پاوں کو چهوا جو تهوڑا بہت درد کر رہا تها. ......
کیا بہت درد کر رہا ہے. ...اس کے پاس سے ہی کہیں آواز ابهری.....اس نے سر کو اٹها کر سامنے دیکها. .غصے کی ایک لہر اس کے وجود میں پیدا ہو گئی....
" تم ."..؟ وہ زور سے چلائی. ..
" دفعہ ہو جاو یہاں سے." ..وہ ایک بار پھر پاوں مسلنے لگی......
" آئم سوری. ...".وہ کان پکڑ کر بولا. ..کهبی کهبی وہ معافی مانگ لیا کرتا لیکن وہ اسے معاف نہیں کرتی کیا فائدہ معاف کرنے کا تهوڑی دیر بعد اسی نے وہی شرارتیں شروع کر دینی تهیں...
""گڑیاں کهیلو گی".....؟ عروج پاس ہی کهڑی تهی اس کے ہاتهوں میں گڑیاں تهیں...وہ کھیلنے کے لئے تیار ہو گئی ....اور درخت کے تنے کا سہارا لیتی ہوئی کهڑی ہو گئی....رام ابهی بهی وہیں کهڑا اسے دیکھ رہا تھا.......
" میں بهی آپ کے ساتھ کهیلوں گا....".وہ پرجوش ہو کر بولا....گڑیا نے غصے سے اسے دیکها.....
نہیں کوئی ضرورت نہیں. .....وہ پیر پکڑ کر لنگڑاتی ہوئی جا رہی تهی. ...رام کو افسوس ہوا......
" اپنی گڑیا کی شادی مجھ سے کرو گی."...؟ اس نے پیچھے سے آواز دی ......
" بالکل نہیں. ."...وہ چلتے ہوئے بولی تهی. ..رام مسکرا دیا اس کی آنکھیں چمک اٹهیں.....
" اچها تم شادی کرو گی مجھ سے". ....اس نے شرارت سے پوچها....یہ بات کہہ کر وہ ہمیشہ اسے چڑاتا تها اور وہ ہمیشہ چڑتی تهی......اس وقت بھی وہ کهڑی ہو کر زمین پہ متلاشی نگاہوں سے دیکھ رہی تھی رام جانتا تھا وہ اسے مارنے کے لیے کچھ ڈهونڈ رہی ہے پهر اسے فرش پہ ربڑ کا بال نظر آیا جو اس نے اٹها کر رام کی طرف اچهال دی...وہ جانتی تھی وہ بهاگ جائے گا اور بال اسے نہیں لگے گی لیکن وہ غلط ثابت ہوئی وہ وہیں کهڑا رہا اور بال سیدھا جا کر اس کے منہ پہ لگی...رام تو مسکرا دیا مگر وہ شرمندہ ہوئی. .یہ سہی تها اس نے نشانہ درست لگایا مگر اسے یقین تها وہ بهاگ جائے گا مگر آج وہ پہلی بار کهڑا رہا....اور بال بهی اسے لگ گئی اور وہ غصہ ہونے کی بجائے مسکرا رہا تھا ....عروج بھی ان دونوں کے تماشے کو انجوائے کر رہی تهی. ......
" تم بهاگے کیوں نہیں بلی جیسی آنکھوں والے" ...؟ اس نے حیران ہو کر پوچها .....
" تا کہ تمہارا بدلہ پورا ہو....." وہ کندهے اچکا کر بولا. ..وہ سر جهٹک کر ایک بار پھر اپنے گڑیوں والے گهر کے پاس جا رہی تهی جب اندر سے جنت بوا کی آواز آئی ......
" گڑیا ، عروج اندر آ جاو....پکوڑے بنائے ہیں .".وہ دونوں پرجوش ہو گئیں اور گڑیا رکھ کر اندر جانے لگیں....
" رام کو بھی لیتے آنا..."...دادی کی آواز بھی زور سے گونجی جو رام نے سن لیا....اور اندر کی طرف بهاگا. ..یہ اس کی اچھی عادت تھی جب تک اسے کچھ کهلانے کے لیے بلایا نہیں جاتا وہ کهبی نہیں جاتا....وہ لاکھ فری تها لیکن اس معاملے میں اس کے اندر ایک جهجک تهی اور یہ جهجک اس کے اندر اس کی ماں نے پیدا کیا تها..اس کی پرورش لاجواب تهی........
[ دسمبر لوٹ آنا تم تحریر ناصر حسین ]
_ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _
دوپہر کا وقت تھا عروج اور گڑیا چپکے سے گهر کے اندر داخل ہوئیں ان کی جهولیاں خوبانی سے بهرے ہوئے تهے__جو وہ اپنے ہی باغیچے سے چوری کر کے لائے تھے اور چوری انہوں نے اس لئے کیا تها کیونکہ وہ ابهی کچے تهے اور اگر پکے بھی ہوتے تب بھی دادی انہیں ہاتھ لگانے نہیں دیتی تھی __جیسے وہ خوبانی نہ ہوئے کوئی سونے کا انڈہ دینے والی مرغی __اس وقت دوپہر کا وقت تھا کهانے کے بعد سبهی سو چکے ہوں گے یہی سوچ کر وہ باغیچے میں گئیں جہاں بیٹھ کر انہوں نے خوب پیٹ بهرا اور باقی بچا ہوا مال جهولیوں میں ڈال کر گهر لائے تھے یہ سوچ کر کہ بعد میں کهائیں گے _______
چهپ وہ اس لیے رہے تهے کیونکہ دادی کا سامنا کرنے پہ انہیں ڈانٹ کے ساتھ لاٹهی کا وار بھی سہنا پڑتا اور اگر سامنا جنت سے ہو جاتا تو وہ دنیا بهر کے اقوال اور احادیث سنا دیتی تهی ____اور جس سے وہ بچنا چاہ رہے تھے وہی ہوا __سامنے سے جنت بوا آتی نظر آئی دونوں کی ہوائیاں اڑ گئیں اور وہ ایک دوسرے کا منہ دیکهنے لگیں_____
جنت ان کے پاس آئی اور ایک ایک نظر دونوں پہ ڈال کر اس نے ان دونوں کی جهولیوں کو دیکها____
' تم لوگوں کی جهولی میں کیا ہے_"__؟ دونوں نے تهوک نگلا ___
" بوا اگر ہم آپ کو بتا دیں کہ ہماری جهولی میں خوبانی ہیں تو آپ ہمیں ڈانٹیں گی___" گڑیا بهر پور معصومیت سے بولی جنت نے اپنی مسکراہٹ چھپائی___
" اور اگر تم لوگ نہیں بتاو گی تو میں زیادہ ڈانٹوں گی" __وہ مصنوعی غصے سے بولی __
" یہ خوبانی ہیں _"__اب کی بار عروج نے بتایا جیسے پہلے گڑیا نے تو پتا ہی نہیں لگنے دیا __
" تم لوگوں نے چوری کی ہے___"؟ وہ گهٹنوں کے بل ان کے سامنے بیٹھ گئی _ دونوں نے نگاہیں جهکا لیں البتہ انہیں یقین تھا اب جنت کا لیکچر شروع ہو جائے گا___
" نہیں چوری نہیں کی وہ گرے پڑے تهے تو __"_گڑیا نے جهوٹ بول کر صفائی دینے کی کوشش کی لیکن جنت نے اسے گهور کر " مجهے سب پتا ہے " والی نگاہوں سے دیکها__وہ مزید شرمندہ ہو گئی____
" بس چهوٹی سی چوری کی ہے_'"__وہ گردن جهکائے مدهم آواز میں بولی___ جنت نے اس کے گالوں پہ ہاتھ رکھ کر اسے پیار سے دیکها ____
'" چوری تو چوری ہے چهوٹی ہو یا بڑی ___اور
چوری کرنا بہت بری بات ہے___چوری کرنے والا کهبی نہ کهبی ضرور پکڑا جاتا ہے __چوری مطلب کسی بھی چیز کو غلط طریقے سے حاصل کرنا اور جو چیز غلط طریقے سے ہم حاصل کر لیں وہ کهبی بهی ہمارے لیے سہی نہیں ہو سکتی__غلط راستے کی منزل ہمیشہ غلط ہوتی ہے گڑیا یاد رکهنا __اور تم نے صرف چوری ہی تو نہیں کی تم نے کچے خوبانی توڑ کر نقصان بھی کیا ہے اور جهوٹ بهی بولا ہے __ جهوٹ معلوم ہے کیا ہوتا ہے جهوٹ برف کی طرح ہوتا ہے جو آہستہ آہستہ پهگل کر ختم ہو سکتی ہے جهوٹ کهبی بهی کامیاب نہیں ہو سکتا اور جهوٹ بولنے والا کهبی بهی سہی منزل نہیں پا سکتا ___اور جهوٹ بولنے والے سے اللہ تعالیٰ بھی ناراض ہوتا ہے_"__
[ دسمبر لوٹ آنا تم تحریر ناصر حسین ]

" مجهے ڈر لگا اگر میں سچ بولوں گی تو آپ مجهے ڈانٹیں گی "___وہ رونے والی شکل بنا کر بولی__
" کچھ بھی ہوتا___لیکن تمہیں جهوٹ نہیں بولنا چاہیے تھا جهوٹ بولنا بری بات ہے....چاہے انسان کتنی مشکل میں ہی کیوں نہ ہو اسے ہمیشہ سچ کا ساتھ دینا چاہیے. جهوٹ کے پاوں نہیں ہوتا اس لیے یہ زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی..اور جهوٹ بولنے والا کهبی نہ کهبی زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر ٹهوکر کها کر گر ہی جاتا ہے".___
وہ دونوں خاموشی سے اسے سن رہی تهیں __
" چلو میں تمہیں ایک کہانی سناتی ہوں __قادر جیلانی جب چهوٹا سا تها تبهی اس کی ماں نے اسے تلقین کی تهی کہ زندگی میں کچھ بھی ہو جائے لیکن کهبی جهوٹ مت بولنا __اور ایک رات وہ کسی قافلے کے ساتھ سفر پہ روانہ تها اس کی قیمض کے اندر اس کی ماں نے چالیس دینار باندھ دیے تهے __اچانک اس قافلے کو ڈاکوؤں نے لوٹ لیا اور سبهی سے ان کا مال پیسہ سب چهین لیا __ایک ڈاکو قادر جیلانی کے پاس آ کر اس سے پوچهنے لگا کیا تمہارے پاس کچھ ہے تو قادر جیلانی کو اپنی ماں کی نصیحت یاد آئی اور اس نے سچ سچ بتا دیا کہ اس کے پاس چالیس دینار ہیں___اس آدمی کو یقین نہیں آیا وہ ڈاکوؤں کے سردار کے پاس گیا اور اسے سارا ماجرا سنایا تو ڈاکوؤں کے سردار نے آ کر اس کی تلاشی لی__اور چالیس دینار بر آمد کیے __پهر اس سردار نے قادر جیلانی سے پوچها تم نے سچ کیوں بولا تم جهوٹ بول کر بھی اپنے دینار بچا سکتے تھے تب قادر جیلانی نے معلوم ہے کیا کہا "___؟
دونوں نے سوالیہ نگاہوں سے جنت کو دیکها___
" اس نے کہا میری ماں نے مجهے نصیحت کی تھی کهبی جهوٹ مت بولنا ...یہ بات سن کر سردار کو پچهتاوا ہوا ایک معصوم بچہ سچ بول سکتا ہے اور وک کیا کر رہے تهے تبهی انہوں نے سب کا چهینا ہوا مال واپس کر دیا"___
" یہ تها سچ کا انعام __اگر وہ جهوٹ بولتا تو وہ ڈاکو ناں تو خود سیدهے راستے پہ آتا اور نہ ہی وہ کسی کا مال واپس کرتا.".....
وہ دونوں بور نظر آنے لگی تهیں جنت کا لیکچر کافی لمبا ہو چکا تھا. .. ...
" ﺷﺮﻭﻉ ﺷﺮﻭﻉ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﺗﻢ ﻏﻠﻂ ﮐﺮﻭ ﮔﯽ ﺗﻮ ﺿﻤﯿﺮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻣﻨﻊ ﮐﺮﮮ ﮔﺎ __ ﭘﻬﺮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻟﻌﻨﺖ ﻣﻼﻣﺖ ﮐﺮﮮ ﮔﺎ __ ﭘﻬﺮ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﺎ ﻭﻗﺖ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ ﺟﺐ ﺿﻤﯿﺮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﮐﻬﺒﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﻭﮐﮯ ﮔﺎ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺩﻝ ﭘﮧ ﺗﺎﻟﮯ ﭘﮍ ﭼﮑﮯ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ___ﺍﻭﺭ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﻮ ﺟﺐ ﺿﻤﯿﺮ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ
ﺳﻨﺎﺋﯽ ﻧﮧ ﺩﮮ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻦ ﺳﮑﺘﺎ ___ ﺟﺐ ﻭﮦ ﺧﺪﺍ ﺳﮯ ﻧﮧ ﮈﺭﮮ ﺗﻮ ﻭﮦ ﮐﺴﯽ ﺳﮯ ﮈﺭﮮ ﻧﮧ ﮈﺭﮮ ﮐﯿﺎ ﻓﺮﻕ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ. .آئی بات سمجھ میں. ".... ...عروج اور گڑیا نے سر اثبات میں ہلا دیا. ....
جنت نے دونوں کے گال کی چٹیاں کاٹیں اور کهڑی ہو گئی. ..پهر وہ اندر چلی گئی اور ان دونوں نے اس کے جانے پہ خدا کا شکر ادا کیا اور وہیں آم کے درخت کے نیچے خوبانی کے مزے لینے لگیں .....
گاوں میں چوہدری افضل کا خوبصورت گهرانہ ہوتا ہے ان کی ماں دو بیٹیاں عروج اور گڑیا ہوتی ہیں اور ایک بہن جنت بھی ان کے ساتھ ہوتی ہے ان کے برابر والا گهرانہ ایک ہندو کا ہوتا ہے جس میں اکشے اس کی بیوی اور ان کا چهوٹا بیٹا رام ہوتا ہے_____
````````````````````````````````````````````````
اکشے اپنی بیوی مدهو کو غصے سے ڈانٹ رہا تھا. .
تم ایک نمبر کی بے غیرت پتنی ( بیوی) ہو."....رام نے اپنے پتا ( باپ ) کو اونچی آواز میں چلاتے سنا اور کنچے پهینک کر بهاگتے ہوئے کمرے میں آ گیا __جہاں اس کے پتا بری طرح سے اس کی ماں پہ چلا رہا تھا اور ماں خاموش تهی وہ ہمیشہ ہی خاموش رہتی رام نے کهبی انہیں پتا جی کو جواب دیتے نہیں سنا. ...
" تم سے وواہ ( شادی) میری زندگی کا سب سے بڑا پاپ ( گناہ ) ہے" .....اس کے پتا نے زور دار تهپڑ اس کی ماں کے گالوں پہ مار دیا ماں تب بهی خاموش رہیں...پتا جی کمرے سے باہر نکل گئے وہ دوڑتے ہوئے ماں کے قدموں سے لپٹ گیا. ..مدهو اس کے سر کو سہلانے لگا.....اسے ہمیشہ دکھ ہوتا جب اس کے پتا اس کی ماں پہ چلاتے ...اور ماں تهوڑی دیر آنسو بہانے کے بعد پهر سے وہی پہلے جیسی بن جاتیں...پهر سے وہی گهر کے کام کرتیں .......
وہ کئی بار سوچتا ماں بولتی کیوں نہیں وہ بھی پتا جی کی طرح زور سے کیوں نہیں چلاتی لیکن اس سوال کا جواب اسے کهبی نہیں ملا.....جب پہلی بار اس نے پتا کو ماں پہ ہاتھ اٹهاتے دیکها تو وہ حیران ہوا....پتا جی زور زور سے ماں کو مار رہے تھے اور وہ برف کی طرح جم چکی تهیں اسے کافی برا لگا.. .وہ اپنی ماں سے بہت محبت کرتا تھا لیکن پتا جی سے وہ کچھ کہہ نہیں سکتا تها اس دن پہلی بار اس نے ماں سے پوچھا. [ دسمبر لوٹ آنا تم تحریر ناصر حسین ] ...
" پتا جی نے آپ کو کیوں مارا ماں"....؟ اس نے معصومیت سے ان کی گود میں سر رکھ کر سوال کیا. ..."بس یونہی. ..".وہ دوپٹے سے آنسو صاف کرتے ہوئے بولیں.....
"پتا جی بہت برے ہیں ناں...".؟ اس نے اپنی ماں کی آنکهوں میں دیکها. ....
" ایسا نہیں کہتے رام...وہ برے نہیں ہیں بس زرا غصہ والے ہیں. "...اس کی ماں نے اسے تسلی دی تهی لیکن وہ جانتا تھا ماں جهوٹ بول رہی ہے پتا جی بہت برے ہیں. ...اس کے بعد اس نے ماں سے کهبی نہیں پوچها وہ انہیں کیوں مارتے ہیں وہ چپ چاپ کهڑے ہو کر ایک تماشائی کی طرح سب دیکھتے کچھ روکنے یا بدلنے کی ہمت اس آٹھ سال کے لڑکے میں نہیں تهے..اسے سب برا لگتا لیکن زندگی میں بہت کچھ برا لگتا ہے لیکن سب کچھ بدلا نہیں جا سکتا....وقت کے ساتھ ساتھ اسے ہر شے کی عادت ہونے لگی شروع شروع کے کچھ دن اس نے پتا جی کو صرف ماں پہ غصہ کرتے دیکھا ہے لیکن پهر وہ اسے بھی بات بات پہ ڈانٹنے لگتے اور کهبی کهبی اسے مارتے بھی تهے لیکن وہ بھی ضدی تها وہ جس کام سے منع کرتے وہ بھی جان بوجھ کر وہی کرتا......وہ اسے جتنا مارتے لیکن وہ اپنی ضد سے کهبی نہیں ہٹتا ....وہ نہ روتا تها اور نہ جواب دیتا بس خاموشی سے مار کهاتا ...ہمیشہ ماں اسے چهڑانے کی کوشش کرتیں اور پھر پتا جی اسے چھوڑ کر ماں کو مارنا شروع کر دیتے یہ بات اسے اور بھی بری لگتی. ...وہ چاہتا تھا وہ اسے جتنا ماریں لیکن ماں کو کچھ بھی نہ کہیں...مگر وہ صرف سوچ سکتا تھا کهبی کهبی وہ سوچتا اس کے پاس کوئی جادو کی چھڑی ہوتی یا اللہ دین کا کوئی چراغ ہوتا جیسا گڑیا کی دادی کہانیوں میں بتاتی تهی جس سے وہ سب ٹهیک کرتا .....لیکن اصل زندگی میں ایسا کچھ نہیں ہوتا نہ جادو کی چھڑی اور نہ ہی اللہ دین کا چراغ یہاں سب خود اپنے بازوؤں سے حاصل کرنا ہوتا ہے ...... ...
مدهو اور اکشے اگروال کی شادی دس سال پہلے ہوئی تھی مدهو اس سے پہلی بار رکشے میں ملی.وہ دونوں بهارت کے ایک گاؤں درگا نگر میں رہتے تھے ..اکشے رکشہ چلاتا تها اور وہیں سے ہی ان کی دوستی کا آغاز ہو گیا. ..اور پھر رفتہ رفتہ دوستی محبت میں بدل گئی پهر ایک دن اکشے نے اسے شادی کے لئے پرپوز کیا...اور مدهو نے یہ بات اپنے گهر والوں تک پہنچائی مگر انہوں نے صاف انکار کر دیا. ..انکار کی وجہ جہاں ذات اور برداری تهی وہیں انہیں اس بات پہ بھی انکار تها اکشے آٹو چلاتا ہے جبکہ ان کا شہر میں ایک بہت بڑا نام تها...جسے وہ یوں گوانا نہیں چاہتے تھے ..جوانی کا پہلا پیار تها اور پہلے پیار کا نشہ ہی کچھ ایسا ہوتا ہے دیکهنے اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت چهن جاتی ہے یہی ان کے ساتھ بھی ہوا....جب انہیں ہر راستہ بند نظر آیا تو اکشے کے کہنے پہ ہی ان دونوں نے بهاگنے کا فیصلہ کیا. ...مگر یہ فیصلہ اتنا آسان نہیں تها وہ گهر سے تو بهاگی مگر بهاگنے کے بعد اس کے گهر والوں کو علم ہو گیا...اب جو لوگ سوسائٹی میں اتنا اونچا نام رکهتے تهے وہ یہ کیسے برداشت کرتے ان کی بیٹی بهاگ گئی. ...انہوں نے اپنے اثر و رسوخ کا خوب استعمال کیا جہاں تک کر سکتے تھے ان کی پہنچ کافی دور تک اور کافی بلندی تک تهی ..وہ اکشے اور مدهو کو ڈهونڈنے میں کامیاب ہو جاتے اگر وہ بهارت میں ہوتے....وہ دونوں تو اپنا تهوڑا بہت سازو سامان لے کر ریل گاڑی کے اوپر(اس دور میں آمد رفت کے لیے زیادہ ریل گاڑی کا استعمال ہوتا تھا) پاکستان چلے آئے. یہاں آنے کے بعد انہیں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا. ..اجنبی ملک تها اجنبی لوگ..وہ کسی کو جانتے بھی نہیں تهے یہاں قدم قدم پر ٹهوکریں ان کی منتظر تهیں.پهر بھی انہیں اپنے فیصلے پہ پچهتاوا نہیں تها....کچھ دن تک تو ان کے پاس رہنے کے لیے پیسے وغیرہ تهے لیکن بعد میں اکشے نے دماغ کا استعمال کر کے ایک بہت بڑے وکیل کے بنگلے پہ کام کرنا شروع کر دیا. .مدهو بھی اس کے ساتھ تهی یہاں سب سے بڑی بات تو یہ تهی انہیں شہریت قومیت کے ساتھ ساتھ اپنا مذہب بھی سب سے چهپانا تها...وہ اگر کسی کو بتاتے کے وہ بهارت سے آئے ہندو ہیں تو پاکستانی شاید نہ تو انہیں کام دیتے اور نہ ہی ان کی مدد کرتے....اس لیے اس وکیل کی کوٹھی پہ بھی انہوں نے خود کو مسلمان کے طور پر پیش کیا....وہاں کوئی ان سے مسلمان ہونے کا ثبوت نہیں مانگتا...اور رہی بات نماز قرآن کی تو وہ تو آج کل کے اصل مسلمان بھی نہیں پڑهتے تهے تو ان سے کسی نے کیا سوال کرنا تها. .....

ایک سال تک وہ اس کوٹھی میں کام کرتے رہے پهر اچانک ہی ان پہ انکشاف ہوا وہ دو نہیں تین ہونے والے ہیں. .یہ بات جان کر جہاں مدهو خوش ہوئی وہیں اکشے کی خوشی کا بھی ٹھکانہ نہیں تها......
پهر اکشے کو اپنے کندھوں کا بوجھ مزید بهاری ہوتے ہوئے محسوس ہوا...اور ایک رات اس نے ساری لحاظ سارے احسانات فراموش کر کے وکیل کے گهر پہ ڈاکا مارا....دس لاکھ کی نقدی اور تین تولہ سونا لے کر وہ اس کوٹهی کو ہمیشہ الوداع کہہ گیا. ..گو کہ یہ بات مدهو کو سہی نہیں لگی مگر اس نے مدهو کو جهڑک کر چپ کرا دیا...ان کے درمیان پہلا جهگڑا اسی ڈاکے کو لے کر ہوا تها اور اس کے بعد آہستہ آہستہ تلخیاں بڑهتی گئیں. ...اکشے نے مری کے پاس ہی ایک برفانی علاقے میں اپنے لیے ایک چهوٹا سا گهر خریدا...یہ رپوش اور کافی سنسان علاقہ تها بس ان کے گهر کے پاس ایک مسلمان گهرانہ چوہدری افضل کا تها....شروع شروع میں انہوں نے چوہدری کے سامنے بهی خود کو مسلمان ظاہر کیا مگر وقت کے ساتھ انہیں معلوم ہوا اس خاندان سے انہیں کوئی خطرہ نہیں ہے تو انہوں نے کچھ نہیں چهپایا.......
اور پهر ان کے درمیان اجنبیت کی دیوار ختم ہو گئی.وہ پڑوسیوں جیسے نہیں رشتے داروں جیسے ہو گئے اس کی اصل وجہ چوہدری صاحب کی ماں اور بیوی تهی جو کافی خوش مزاج اور ملنسار تهیں.....
یہاں آنے کے عرصہ بعد ان کے ہاں رام کی پیدائش ہوئی...وہ دن بہت خوبصورت دن تها...اکشے کو لگا اب چهوٹا موٹا کاروبار شروع کر کے عیش سے زندگی گزارے گا اور مدهو کی خوشی کا کوئی ٹهکانہ نہیں تها اسے لگا اس نے زمین پہ ہی جنت پا لیا کیونکہ جنت اس کے قدموں تلے آ گئی...لیکن اس کی یہ خوشی وقتی تهی بہار کے دن ہمیشہ مختصر سے ہوتے ہیں. .......اکشے نے تمام پیسہ ایک دکان پہ لگایا جو پانچ سال تک تو سہی چلتا رہا لیکن ایک دن شارٹ سرکٹ کی وجہ سے دکان کے ساتھ ساتھ ان کی امیدیں بھی جل گئیں...اس دن کے بعد اکشے نے نشہ شروع کر دیا اور نشہ بھی سگریٹ سے شروع ہو کر ڈرگز اور ڈرگز سے شراب تک جا پہنچا....وی کافی چڑ چڑا ہونے لگا تها اور پهر وہ مدهو کے ساتھ بھی بری طرح پیش آنے لگا تھا. محبت کا بهوت اتر چکا تها سب ختم ہو چکا تها خواب خیال ٹوٹ چکے تھے اصل زندگی خوابوں سے بہت مختلف تهی...مدهو نے جو زندگی میں خوش رہنے کے خواب دیکهے تهے وہ تو بہت پیچھے کہیں رہ گئے. ..اکشے نے اس پہ ہاتھ اٹهانا شروع کیا تھا وہ کچھ نہیں کر رہی تهی اور کر بھی کچھ نہیں سکتی تھی پیچھے سے ساری کشتیاں جلا کر نکلی تهی اب راستہ صرف آگے جاتا تھا پیچھے تو دهواں ہی باقی رہ گیا. ...
وہ صبر کرنے والی عورت تهی اور صبر کر رہی تهی اکشے کے مظالم دن بہ دن بڑهتے ہی جا رہے تھے دکان کے بعد وہ دستی مزدوری کرتا جو کهبی ہوتا اور کهبی نہیں. ...لیکن اللہ بهلا کرے ان پڑوسیوں کا جو ان کے دکھ سے غافل نہیں تهے اور دادی ہر مہینے کچھ نہ کچھ پیسے اسے دیا کرتی.... عروج اور گڑیا کے لیے بھی جب وہ کوئی نئی چیز خردیتیں تو رام کو نہ بهولتیں....مدهو ہر پل ان کی مشکور تهی اس کی اپنی زندگی کہیں کهو گئی تهی اب وہ صرف رام کے لیے زندہ تهی.......
یہ غریبی بڑی ظالم شے ہوتی ہے انسان کو عزت خوداری ، جیسے الفاظ پل میں بهلانے ہر مجبور کر دیتی ہے ...لیکن اس نے زندگی سی امید نہیں چهوڑی اسے یقین تھا کهبی نہ کهبی صبح ضرور ہوگی........
_ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _
دهوپ کچھ زیادہ تیز تهی اس دن...جنت آم کے درخت کی چھاوں تلے چار پائی پر بیٹهی تهی اس کے سامنے مدهو بیٹهی تهی. ..وہ اسے موت کا منظر کتاب میں سے کوئی اسلامی واقعہ سنا رہی تھی. .....
گڑیا جهولے پہ جهول رہے تھے. .عروج اور رام سکول گئے ہوئے تھے گڑیا بخار کا بہانہ بنا کر گهر میں رک گئی. .جانے جهولے پہ جهول کر کیسے ٹمپریچر کم ہوتا تها.....اماں اور دادی بھی گهر پہ نہیں تهیں وہ دونوں پاس کے گاؤں میں کسی قران خانی پہ گئی ہوئی تهیں.....گهر پہ وہ تینوں ہی تهیں.....
گڑیا اونچی آواز میں جهولتے ہوئے گانا گا رہی تهی جب جنت نے جنجھلا کر اسے ٹوکا.....
" گانا گانا بری بات ہے گڑیا..."..اس نے تنبیہی نگاہوں سے اسے دیکها. ..
" کیا گانا گانا بھی گناہ ہے تم لوگوں کے مذہب میں." ..؟ مدهو نے تجسس سے پوچها. .....
"ہاں ہر وہ چیز جو انسان کو جہنم کی طرف لے جائے وہ گناہ ہے.".......مدهو ابهی مزید بحث کرنا چاہتی تهی جب دروازہ کسی نے کهٹکٹایا......
گڑیا جهولے سے اتر کر دروازے تک گئی...وہ دونوں بھی اسی طرف دیکهنے لگیں...دروازے پہ کوئی فقیرنی کهڑی تهی. .وہ میلے پرانے پهٹے کپڑوں میں ملبوس تهی...اس کے بال الجھے ہوئے تهے......
وہ اندر آ گئی..ویسے جس علاقے میں وہ رہتے تھے وہاں فقیرنی زیادہ آتے تو نہیں تهے کیوں کہ ان علاقہ آبادی سے تهوڑا فاصلے پر تها مگر پھر بھی کهبی کهبی آ ہی جاتے تھے. .....
.جنت اٹھ کر اندر چلی گئی جب واپس آئی تو اس کے ہاتھ میں آٹے کا ایک کٹورہ تها جو اس نے فقیرنی کے تھیلے میں ڈال دیا. ....
" اللہ تم لوگوں کا بهلا کرے"...جنت نے مسکرا کر شکریہ ادا کیا.....
" ویسے میں نجومی بھی ہوں ..".ہاتھ دیکھ کر قسمت کا حال بتاتی ہوں..".....اس فقیرنی نے کہا تها. .....
" مجهے ان سب باتوں پہ یقین نہیں ہے. ..غائب کا علم صرف ایک ہی ہستی کو ہے. "یہ صرف شرک ہے. .شرک یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا "....جنت نے رسانیت سے اسے جواب دیا. .....
" غائب کا علم واقعی اوپر والے کو ہے...ہم صرف وہی بتاتے ہیں جو لکیروں میں لکها ہوتا ہے. .اور لکیریں کهبی جهوٹ نہیں بولتیں......"
وہ پراسرار انداز میں بولی. ..مدهو بھی ان کی گفتگو سن رہی تھی. ....
"قسمت تو ان کی بهی ہوتی ہے جن کے ہاتھ نہیں ہوتے...اور لکیریں کیا کہتی ہیں یہ معلوم ہو بھی جائے تو فائدہ نہیں کیونکہ اس سے صرف مستقبل کا حال معلوم ہو جاتا ہے یہ یہ نہیں بتاتے مستقبل کو بدلا کیسے جا سکتا ہے. " ..........
" چل تیری مرضی..".وہ جانے کے لیے مڑی تبهی مدهو نے اسے آواز دی. ...
"ارے ہاتھ دکھانے میں حرج ہی کیا ہے. ."مدهو نے کہا وہ کچھ نہیں بولی اور واپس آ کر چار پائی پر بیٹھ گئی....
اس نجومی نے مدهو کے ہاتھ کو دیکها. .اس کے چہرے پہ ایک رنگ آیا...اور آنکهیں پهیل گئیں...پهر اس نے نفی میں سر ہلاتے جنت کے ہاتھ کو پکڑا بالکل وہی تاثرات اس کے چہرے پہ دوبارہ آئے.....خوف وحشت، ڈر کچھ ایسے ہی تاثرات تهے.....مدهو اور جنت ایک دوسرے کو الجھ کر دیکهنے لگے. ....وہ فقیرنی گردن ہلانے لگی جیسے کسی بات پہ افسوس کر رہی ہو....وہ دونوں ابهی بهی کچھ سمجھ نہیں پا رہی تهیں...پهر اس نے جهٹکے سے جنت کا ہاتھ چهوڑ دیا. ...اور ساتھ بیٹهی گڑیا کا ہاتھ پکڑا....
اس کا ہاتھ دیکهتے ہوئے بھی وہ وہی تاثرات لیے ہوئی تھی .اس نے یہ نہیں بتایا ان کے ہاتهوں کی لکیریں کیا کہتی ہیں. ...وہ بہت پریشان اور الجهی ہوئی نظر آنے لگی.......
وہ جانے کے لئے اٹهی اور جانے لگی...تبهی مدهو نے اسے پیچھے سے آواز دی...
"ارے بتائیں تو سہی کہا کہتی ہیں ہماری لکیریں. .".؟جنت نے بھی اسے دیکها.....
" تم لوگوں کی لکیریں جو کہتی ہیں وہ بتانے کے لیے میرے پاس ہمت نہیں ہے. .بس اللہ تعالیٰ سے رحم مانگا کرو. ....تم تینوں کی زندگی میں کچھ نہ کچھ منفرد ہے. ..تم تینوں میں سے ایک جی کر مرے گی دوسری مر کر جیے گی اور تیسری کے ہاتهوں کسی کی بربادی لکهی ہے. .."..
" لیکن کس کے ساتھ کیا ہوگا یہ میں نہیں بتا سکتی. قسمت صرف اللہ تعالیٰ ہی بدل سکتا ہے تو دعا کرو...باقی ابهی تم لوگوں کو میری باتیں سمجھ نہیں آ رہی ...لیکن ایک وقت آئے گا جب تم سب سمجھ جاو گی....چلتی ہوں..رب راکها.."....

وہ تینوں بنا سانس لیے اس فقیرنی کو جاتا ہوا دیکهتے رہے....کیا کہہ گئی وہ اس کی باتوں کا کیا مطلب تها..کس بارے میں بات کر رہی تهی آخر کیا ہونے والا تها. ..وہ کچھ سمجھ اور جان نہیں پائے..
_ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _
مدهو اس وقت چوہدری صاحب کے گهر میں آئی __شام کا سورج غروب ہونے والا تها_وہ رام کو ڈهونڈنے آئی تهی اس کا سارا دن یہیں پہ گزرتا __گهر کے اندر قدم رکهتے ہی اس سامنے جنت قرآن پاک کی تلاوت کرتی ہوئی نظر آئی وہ اونچی اور سریلی آواز میں تلاوت کر رہی تهی___وہ قرآن سننا نہیں چاہتی تھی مگر جانے کیوں جنت کی خوبصورت آواز سن کر وہ کهچی چلی جاتی__ اس وقت بھی وہ یونہی چلتی ہوئی جنت کے پاس آ کر بیٹھ گئی__اور غور سے اسے سننے لگی ایک حرف بھی وہ نہیں سمجھ سکی مگر اس کی آواز وہ سن رہی تهی___
[ دسمبر لوٹ آنا تم تحریر ناصر حسین ]
""کیا تم مجهے اس کا ترجمہ اردو میں سنا سکتی ہو ...؟" دس منٹ بعد جب جنت قرآن پاک کو غلاف میں لپیٹنے لگی تبهی مدهو بولی. ..وہ مسکرا دی اسے ترجمہ حفظ تها .......
" اے اللہ تو بادشاہ ہے حقیقی ہے وہ بادشاہ کی کوئی عبادت کے لائق نہیں مگر تو تو میرا رب ہے اور میں تیرا بندہ ہوں میں نے برا کام کیا اور اپنے نفس پہ ظلم کیا میں اپنے گناہوں کا اقرار کرتا ہوں میرے گناہ بخش دے تمام کے تمام....کیونکہ نہیں بخش سکتا گناہ مگر تو ہی اے اللہ اے رحمن اے رحیم اے رب اے غفور اے شکور اے حلیم اے کریم اے حکیم اے اللہ میں تیری حمد کرتا ہوں اور تو ہی حمد کے لائق ہے تونے مجهے خاص کیا اپنی عمدہ نعمتوں کے عطیات سے اور تو نے پہنچائے میری طرف قدرتوں کے فضائل اور تو نے مجهے عطا کیا ساتھ اس کے احسان سے..."... .....
" تم بہت محبت کرتی ہو اپنے اللہ سے."....؟ جنت قرآن پاک غلاف میں لپیٹ کر اسے ہونٹوں سے لگا رہی تھی دوپٹہ اس نے حجاب کے انداز میں اوڑھ رکها تها___
" ہاں کیونکہ میرا پروردگار ہے ہی عبادت اور محبت کے لائق_"___
"تم لوگوں کے اس قرآن میں کیا ہے."....؟ اس نے تجسس سے پوچها. ...ایسے کئی سوالات وہ اکثر جنت سے کرتی رہتی تھی. .....
"یہ اللہ کی کتاب ہے جو ہمارے پیارے نبی صلی علیہ السلام پہ نازل کی گئی اس میں سب کچھ ہے دنیا کی ہر شے .....یہ ایک مکمل کتاب ہے مدهو ...اس میں سیکھنے کے لیے ہر چیز ہے ....اب تو انگریز اور بڑے بڑے سائنسدان بھی قرآن پاک کے معجزات کو ماننے لگے ہیں. اس میں ہر کسی کی زندگی ہے..".....
وہ بڑی عقیدت سے بولی تهی. ....
"کیا اس میں میری بهی زندگی ہے..."..جنت مسکرانے لگی....
" ہاں سب کی ...تمہاری بھی اگر تم اسے سمجهنا چاہو."..وہ مدهو کے کاندھوں پہ ہاتھ رکھ کر بولی.....
"لیکن اسے اپنانے کے بدلے میں مجهے کیا ملے گا ...؟"
" سب کچھ. ...اگر تم نے اسے پا لیا تو سب کچھ پا لیا اسے کهو دیا تو سب کچھ کهو دیا....یہ کتاب ایک راستہ ہے جو تمہیں اور ہم سب کو سہی راستے تک پہنچائے گی.....اس سے تم دنیا میں بھی سب کچھ پا لو گی اور آخرت میں بھی". ...
آسمان پہ پرندے گنگناتے ہوئے اپنے آشیانوں کو واپس لوٹ رہے تهے. .....
" کیا اسے پڑهنے سے میری تمام پریشانیاں دور ہو جائیں گی. ."...اس نے ایک اور سوال کیا.......
"اس پہ عمل کرنے سے تمہاری تمام پریشانیاں دور ہو جائیں گی." ...اس نے تصیح کی. ......
"اس پہ عمل کرنے کے لیے مجهے کیا کرنا ہوگا."....
"تم اسلام قبول کر لو..."...مدهو کو جهٹکا لگا...وہ خشک چہرے کے ساتھ جنت کو دیکهے گئی اتنی بڑی بات وہ کتنی آسانی سے کہہ گئی......
"نہیں میں ایسا نہیں کر سکتی. ...اب ایسا نہیں ہو سکتا اب بہت دور ہو گئی. ..."..وہ ہم کلامی کے انداز میں بڑبڑانے لگی......
"واپس جانے کے لیے دیر کهبی نہیں ہوتی...تم آج بھی وہیں کهڑی ہوگی جہاں سے تمہارا سفر شروع ہوگا...تمہاری پچھلی زندگی کو نہیں یاد رکها جائے گا .تم آگے کیا کرو گی یا دیکها جائے گا. ..اللہ تعالیٰ کے نناوے ناموں میں سے ایک نام یا تواب ہے جس کے معنی توبہ قبول کرنے والے ہیں....اور تم سچے دل سے توبہ کرو وہ تمہیں نہیں ٹهکرائیں گے.."...
"نہیں. ..نہیں. ...نہیں ایسا ممکن نہیں ہے جنت..اکشے اس بات کے لیے نہیں مانیں گے. ...میں بکهر جاوں گی". ...
وہ ڈرتے ہوئے بولی. ..اس کے دل میں اکشے کا ڈر بیٹها ہوا تها وہ جانتی تھی اگر اس نے ایسی کوئی بات کی تو وہ اسے جان سے مار دیں گے. .....
"اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام رقیب بھی ہے جس کا مطلب ہے نگہبانی کرنے والا.....تم بس اللہ پہ بهروسہ کرو راستہ تمہیں خود بخود نظر آئے گا. ..اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کرو کهبی ٹهوکر نہیں کهاو گی.".......
وہ ہلکا سا مسکرائی. ...جبکہ مدهو گهبرا کر کهڑی ہو گئی جیسے وہ جنت نہیں تهی کوئی مقناطیس تهی جو اسے اپنی طرف کهینچ رہی تهی. .کیا کہہ رہی تهی وہ کیوں کہہ رہی تھی ایسا کیسے ہو سکتا ہے. ..یوں مذہب بدلنا کوئی آسان تها کیا.....وہ الٹے قدم چلتی ہوئی پیچھے کی طرف جا رہی تهی ....وہ واقعی بهول گئی تھی وہ یہاں کیا کرنے آئی تهی........
" تہ....تہ.....تم مجهے گمراہ کر دو گی....".وہ لرزتی ہوئی آواز میں بولی..جنت بھی قرآن پاک ہاتهوں میں لیے کهڑی ہو گئی. ....
" میں تمہیں گمراہ نہیں کر رہی مدهو. ...تم خود ہی گمراہی کے رستے پر ہو."...وہ تاسف سے بولی اور مدهو بهاگتی ہوئی حویلی سے باہر نکل گئی. . . ....
وہ اگلے کچھ دن تک جنت سے دور رہی کیونکہ جنت کی باتوں میں ایسی تاثیر تهی جس سے وہ خود کو روک نہیں پاتی تهی ...مدهو نے پہلے بھی کئی بار اسے اسلامی واقعات سنائے اسلام کی اہمیت بتائی اسے یہ بتایا یہ کتنا خوبصورت دین ہے. . لیکن اسلام قبول کرنے والی بات اس نے پہلی بار کہی تھی تو اس کا یوں ری ایکٹ کرنا لازمی تها..........
[ دسمبر لوٹ آنا تم تحریر ناصر حسین ]
_ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _

اس دن اتوار کا دن تھا. .عروج اور گڑیا کو سکول سے چهٹی تهی اور وہ وہیں گهر پہ بیٹھ کر ہی آم لے نیچے گهر گهر کهیل رہی تهیں....چوہدری صاحب گهر پہ نہیں تهے وہ زیادہ وقت ادهر ادهر ہی گزارتے تهے....دادی رام کو اپنے زمانے کی کوئی کہانی سنا رہی تھیں اور وہ بھی ایسے ہی تاثر دے رہا تها جیسے اسے واقعی وہ کہانی سننے میں دلچسپی تهی......
اماں اپنے سر پہ خود ہی تیل لگا رہی تهیں...آسمان پہ پهر سے بادل چھائے ہوئے تھے ...یہاں کا موسم ہی کچھ ایسا تها چوبیس گھنٹوں میں سے دس گهنٹے تو لازماً بادل نظر آتے.....
جنت نے اسکارف کو درست کر کے رسی اٹهائی اور پھر کلہاڑی....وہ لڑکیاں کاٹنے جا رہی تهی اسے تیار ہوتا دیکھ کر عروج اور گڑیا بھی تیار ہو گئیں اور رام بهلا کیوں پیچھے رہتا وہ بھی کهڑا ہو گیا. .....
اکثر اوقات وہ یوں ہی اس کے ساتھ لڑکیاں کاٹنے جاتے رہتے تھے. ..یہ الگ بات ہے پهر وہاں پہ بھی لڑائی شروع کر دیتے.. لڑائی ہمیشہ رام اور گڑیا کے بیچ ہی ہوتی عروج البتہ صرف انجوائے ہی کرتی..
جب وہ گهر سے نکلیں تو بادل مزید سیاہ ہوگئے...ہر طرف برف پڑی ہوئی تھی ...اس علاقے کو سفید چادر نے مکمل طور پر ڈھانپ رکها تها. ..یہ کوئی نئی بات نہیں تهی یہاں ہر دوسرے دن برف باری ہوتی تهی...وہاں کے مقامی لوگ خیر اس برف باری سے زیادہ خوش نہیں تهے لیکن دور دراز سے آئے سیاہ اس منظر کو دیکهنے کے لیے پاکستان کے مختلف علاقوں سے آتے رہتے تھے. .........
عروج نے گڑیا کا ہاتھ پکڑ رکها تها اور رام نے جنت کی انگلی مضبوطی سے پکڑ رکهی تهی...اچانک رام کو شرارت سوجهی اس نے پاوں کو زرا سا پیچھے کیا وہ دونوں بہنیں بے خیالی میں ادهر ادهر دیکهتی آ رہی تهیں لیکن رام کے ٹانگ اڑانے سے گڑیا منہ کے بل گر پڑی...رام نے فوراً معصومیت کا روپ دھار لیا. .اور گڑیا بهائیں بهائیں شروع کر چکی تهی. ...رام نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اٹهایا جیسے اسے گرانے والا کوئی اور تها. ..اور اٹهانے کے بعد وہ بڑی سنجیدگی سے کہنے لگا. .دهیان سے چلا کرو گر جاو گی. ..
گڑیا کا غصہ آسمان کو چهونے لگا..
دیکها آپ نے بوا کیسے اس بلی جیسی آنکھوں والے نے مجهے گرایا..وہ بنا آنسو کے رونا شروع کر چکی تهی. ......
"ارے میں نے کہاں گرایا . .".؟ .رام بهر پور معصومیت سے کہنے لگا لیکن گڑیا بهلا کہاں سننے والی تهی..وہ اپنے ہاتھ رام کی گریبان تک لانے ہی والی تھی جب جنت نے اس کے ہاتھ پکڑ لیے.......
"بری بات ہے رام..."...جنت نے اسے تنبیہی نگاہوں سے دیکھا. .....
"چلو معافی مانگو گڑیا سے....".اس نے مزید کہا. .رام کے لیے جیسے یہ بے عزتی کی بات ہو ...وہ آنکهیں نکال کر گڑیا کو دیکھ رہا تھا. .جنت نے اس کے گال اپنے ہاتهوں میں لے کر اسے بڑی محبت سے سمجهایا...
"معافی مانگنے سے کوئی چهوٹا نہیں ہو جاتا رام. .اور جب غلطی انسان کی اپنی ہو تو اسے معافی مانگنے میں شرم نہیں کرنی چاہیے. ..معافی مانگنے سے دلوں کے میل دور ہو جاتے ہیں. ."......
"اوکے سوری..."..وہ جیسے خود پہ جبر کر کے بولا تها. .لیکن گڑیا اس معافی سے بھی کچھ خاص خوش نظر نہیں آ رہی تهی. ..اسے نصیحت کر کے وہ گڑیا کی طرف گهومی.....
"اب تم بھی اسے معاف کر دو...معاف کرنا بہت بڑی نیکی ہوتی ہے ...ناراضگی کهبی بهی کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتا بدلہ لینے سے بھی کچھ پہلے جیسا نہیں ہو سکتا ایسے میں معافی ہی وہ واحد شے ہے جو سب ٹهیک کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے. ."...
اس نے گهور کر رام کو دیکها اور نہ چاہتے ہوئے بھی اسے معاف کرنا پڑا...یقیناً وہ جنت کے مزید لیکچرز سننے میں دلچسپی نہیں رکهتی تهی.......
انہوں نے ایک بار پھر اپنا سفر شروع کیا. ..وہ چاروں کافی دور نکل آئے تهے...پهر ایک جگہ جنت کو خشک لڑکیوں کی ایک جھاڑی نظر آئی اس نے رسی وہیں پهینک دی اور کلہاڑی لے کر اس جھاڑی کے پاس پہنچ گئی.......آدهے گهنٹے میں ہی اس نے کافی لکڑیاں کاٹ لیں ...ٹهنڈی ٹهنڈی ہوا سے سردی کا زور بڑهتا جا رہا تها لیکن وہ سبهی گرم لباس میں ملبوس تهے اس لیے انہیں زیادہ سردی محسوس نہیں ہو رہی تھی. ...,
جنت نے بچوں کے لیے تین گهٹڑیاں بنائیں وہ تب تک برف کے گهر بناتے رہے ....
"میری ماں کہتی ہیں میں بہت شکتی شالی ( بہادر) ہوں جنت بوا اس لیے میں بڑی والی گهٹڑ اٹهاوں گا..".. جب گهٹڑیاں تیار ہوئیں تبهی رام بولا. ..وہ مسکرا دی جبکہ گڑیا نے ناک چڑائی پهر وہ تینوں نے اپنے اپنے گهٹڑ اٹها کر گهر کی طرف روانہ ہوئے. ..وہ ابهی تک وہیں لکڑیاں کاٹ رہی تهی اس کی گهڑی ابهی ادهوری تهی .....وہ زور زور سے لکڑی پہ کلہاڑی سے وار کر رہی تهی ...اس کے ماتهے پہ گرمی کے باوجود پسینہ تها وہ کافی تهک چکی تهی. ..وہ آج بھی روزے کی حالت میں تهی ..اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے وہ رمضان کے مہینے کا ہی انتظار نہیں کرتی تهی اللہ تعالیٰ کی عبادت تو ہمیشہ کرنی چاہیے پهر کیا مخصوص دن اور کیا مخصوص راتیں......
بادل برس سکتے تھے مگر اس سے پہلے وہ گهر لوٹنا چاہتی تهی ..اس علاقے میں اس وقت اس کے علاوہ دور دور تک کوئی نہیں تها ہر طرف خوبصورتی سے پهیلا برف پڑا تها..
اور برف کے درمیان میں کچھ خوبصورت درخت بھی تهے ....پرندوں کی آوازیں دور سے سنائی دے رہی تهیں .وہ پورے انہماک اور محنت سے اپنا کام کر رہی تهی ....ابهی اسے زیادہ وقت نہیں ہوا تھا جب اچانک اس کے کانوں میں ایک زور دار آواز گونجی.......
وہ آواز اتنی دلخراش تهی کہ اسے کے چلتے ہاتھ اچانک رک گئے بے ساختہ گردن موڑ کر وہ دائیں بائیں دیکهنے لگی مگر دور دور تک کوئی نظر نہیں آ رہا تها. ..وہ آواز کسی کے چلانے کی آواز تهی جیسے کوئی رو رہا ہو یا پھر چیخ رہا ہو ایسا ہی کچھ تها.....کچھ دیر تک جب وہ آس پاس سے کچھ کھنگالنے میں ناکام ہوئی تو ایک بار پھر سے کام میں مصروف ہو گئی یہ سوچ کر کہ اس کا وہم ہو سکتا ہے. ........
مگر ابهی کچھ ہی لمحے اور گزرے تهے جب وہ آواز آسمان کو چیرتی ہوئی ایک بار پھر اس کے کانوں میں پڑی....اسے ایک بار پھر کام روکنا پڑا. ریڑھ کی ہڈی میں خوف کی ایک لہر دوڑ گئی..پهر سے وہ ہر طرف دیکهنے لگی لیکن اس بار بھی اسے آواز دینے والا نہیں ملا....وہ کسی مرد کی آواز تهی اور آواز سے ہی اسے اندازہ ہو رہا تها وہ کسی مصیبت میں تها مگر کون اور کہاں تها.......؟
" Any Body please help me......"
اب کی بار آواز صاف صاف سنائی دی وہ کلہاڑی رکھ کر کهڑی ہو گئی. ..آواز اوپر پہاڑی سے ہی آ رہی تهی ..وہ سب کچھ وہیں چهوڑ کر پہاڑی کے اوپر چڑهنے لگی.....اور ساتھ ہی ساتھ درود پاک کا بھی ورد کر رہی تهی. .....
" کوئی ہے بچاو مجهے."......
آواز مسلسل آ رہی تهی. خاموش ویران جگہ پہ وہ آواز پہاڑوں سے ٹکرا کر عجیب وحشت پیدا کر رہی تهی ..اس نے اپنے قدموں کی رفتار بڑها دی..اور تیزی سے اوپر چڑهنے لگی دل گهبرا رہا تها .....
دس منٹ بعد وہ پہاڑی کے اوپر تهی...اس نے آس پاس دیکها کوئی نظر نہیں آیا...پہاڑی کے اوپر نیچے کا پورا منظر صاف نظر آ رہا تها. ..اس نے اسکارف کو اچهی طرح اپنے گرد لپیٹ لیا ...سردی کی وجہ سے اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے اور وہ تشویش سے ادهر ادهر دیکھ رہی تھی. .......
وہ خالی آسمان تلے کهڑی تهی پرندے اڑتے ہوئے دور کہیں جا رہے تھے. ....
"کوئی ہے.."....آواز ایک بار پھر سے گونجی لیکن وہ اندازہ نہیں کر سکی کس طرف سے آئی.....وہ دوڑتی ہوئی بائیں جانب گئی جہاں ڈهلوان سا تها مگر وہاں پہنچ کر بھی اسے کچھ نہیں ملا......کچھ سوچ کر اس نے اپنے منہ کے گرد ہاتهوں کا گولا بنایا اور زور سے آواز دینے لگی......
" کہاں ہو. "....

" کہاں ہو....".اس کی آواز بھی ان اونچے اونچے برف کے پہاڑوں کے درمیان گونج اٹهی. ....کچھ پل خاموشی رہی....پهر اس نے اس مرد کی آواز سنی.....
میں. ..میں. ..یہاں اس جهاڑی کے پاس.....اس کی آواز میں تهکاوٹ اور خوشی محسوس کی جا سکتی تهی. ...اس نے آنکهوں کو حرکت دے کر جهاڑی کو تلاش کیا اور دور ہی اسے جهاڑی دکهائی دی...وہ بهاگتی ہوئی وہاں تک گئی جہاں گہری کھائی تهی نیچے نیچے دور دور تک اور جهاڑی کی ایک شاخ کو پکڑے ہوئے وہ گورے سے ہاتھ جن میں خوبصورت ہینڈ واچ بندهی تهی...اس کا چہرہ نظر نہیں آ رہا تها وہ بری طرح سے لٹکا ہوا تھا جهاڑی پر سے اس کے ہاتھوں کی گرفت کسی بھی پل چهوٹ سکتی تهی. .وہ جهاڑی اس پہاڑی کے اختتام پہ کچھ اس انداز سے تهی جسے پکڑ کر وہ لٹک تو سکتا تها مگر اس کا سہارا لے کر وہ اوپر نہیں چڑھ سکتا تها .........
.ایک لمحہ کهڑی وہ اس کے ہاتھ کو دیکهتی رہی پهر اس نے اسکارف سے چہرے کو ایسے لپیٹا جس سے صرف دونوں آنکهیں نظر آتیں....وہ ابهی بهی بری طرح ہاتھ پاؤں مار رہا تھا ...اسے یہاں تک کس نے پہنچایا یہ سوچنے کا وقت نہیں تها اور نہ ہی وہ سوچنا چاہتی تهی وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی آگے بڑهی تبهی اسے کهائی کی گہرائی کا اندازہ ہوا....وہ اس لڑکے کی وحشت سمجھ سکتی تهی لیکن سوال یہ تھا وہ اسے کیسے وہاں سے نکالتی.......اسے دیکھ کر اس لڑکے کی جان میں جان آئی ہوگی یقیناً وہ بہت خوش ہوا تها مگر وہ اس کے چہرے کو نہیں دیکھ رہی تھی ..وہ بس اسے نظریں چرا رہی تهی غیر مردوں کو وہ کهبی نہیں دیکهتی تهی لیکن یہاں معاملہ کچھ الگ تها. ..........
کیا کرتی وہ ....؟ اگر اسے ہاتھ دیتی اور وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر کهینچتا تو کوئی شک نہیں تها اس کے ساتھ وہ خود بھی اس کهائی میں گر جاتی کیونکہ وہ کافی مضبوط اعصاب کا توانا مرد تها اور وہ ایک نازک سی لڑکی....
وہ اس کے ہاتهوں کو دیکهتے ہوئے اسے وہاں سے نکالنے کے لیے کوئی راستہ سوچ رہی تهی. ..وہ اسے رسی کے ذریعے با آسانی نکال سکتی تهی ...لیکن رسی وہ اس پہاڑی سے نیچے اس گهٹر کے پاس چهوڑ آئی وہاں وہ نہیں جا سکتی تھی اگر جاتی اور یہاں جهاڑی کا حصہ ٹوٹ جاتا یا اس کے ہاتهوں کی گرفت چهوٹ جاتی تو.....؟
وہ یہاں اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ سیر کرنے آیا تھا وہ پاس ہی ایک بہت بڑے ہوٹل میں ٹھہرے تهے ..
اس دن بارش اور برف باری کا امکان تها تو وہ سب اسی طرف پہاڑوں پہ نکل آئے ....آہستہ آہستہ سبهی اپنی مرضی کے نظارے دیکهنے کے لیے ادهر ادهر بکهر گئے .....روہاب بھی سب سے الگ ہو کر اس طرف آ گیا وہ یہاں وہاں کئی مقامات پر قدرتی حسن سے لطف اندوز ہوتا رہا اور کئی خوبصورت منظر تصویر کی شکل میں اس نے اپنے موبائل میں بھی قید کیے......
پہاڑی کا اختتام دیکهنے کا اسے تجسس ہوا...اور وہ اس طرف چلا آیا....ایسا نہیں تها اسے کهائی نظر نہیں آئی وہ کهائی دیکھ چکا تھا اور وہ کهائی اب تک کہ سبهی جگہوں سے اسے خوبصورت لگا....جب اس نے اتنی ساری تصویریں بنائیں تو وہ اس خوبصورت کهائی کو بهلا کیوں مس کر دیتا....یہی سوچ کر اس نے مختلف انداز میں چار پانچ تصاویر نکالیں.....پهر اس کے دل میں خواہش ابهری اس خوبصورت کهائی کے ساتھ کیوں نہ اپنی بهی تصویر بنائی جائے. .البتہ وہ یہ نہیں جانتا تھا وہ تصویر اس کے لیے سب سے زیادہ خطرناک ثابت ہونے والی ہے... سوچ آتے ہی اس نے کیمرے کو فرنٹ پہ لگا دیا اور خود جا کر کهائی کے سر پہ کهڑا ہو گیا جہاں سے وہ کسی بھی پل گر سکتا تها اور وہ گرا تها.....اس کا توازن اچانک ٹوٹ گیا اور سب سے پہلے موبائل اس کے ہاتهوں سے چهوٹ کر اس کهائی میں جا گرا ابهی تک وہ مکمل حیران بھی نہیں ہو پایا جب اس کا پاؤں پهسلا اور وہ اڑتا ہوا کسی پتنگ کی طرح اس کهائی میں گرنے لگا.....ہاتھ پاؤں زور سے مارتے ہوئے اس کے ہاتهوں میں جو چیز آئی وہ ایک کانٹے دار جهاڑی تهی جس سے اس کے ہاتھ بھی زخمی ہوئی مگر اس معمولی زخم کے بارے میں سوچنے کی فرصت اسے کہاں تهی...........
موت اسے بالکل اپنے پاس دکهائی دینے لگی...ایسے مناظر اب تک وہ صرف انگلش فلموں میں ہی دیکهتا آیا تھا مگر اس دن افسوس کی بات یہ تهی وہ کوئی فلم نہیں تها وہ ایک حقیقت تهی....اور وہ خود کو قبر میں محسوس کرنے لگا ..اس نے نیچے کهائی کی طرف دیکها اس کی آنکھیں خوف سے پهیل گئیں. ......
وہ کهائی کسی اژدھے کی طرح منہ کهولے اس کا منتظر تها.....جو کسی بھی پل اسے نگل سکتا تها اس وقت اسے کهائی سے یہاں تک وہاں موجود ہر شے سے وحشت ہونے لگی. ....تهوڑی دیر پہلے وہ کهائی اسے دنیا کا سب سے خوبصورت مقام لگ رہا تها لیکن اب وہ موت کا سماں پیش کر رہا تها. ....
اسے اپنا دل بند ہوتے ہوئے محسوس ہوا...موت سے کون نہیں ڈرتا وہ بھی اسے اتنے پاس دیکھ کر. . وہ جتنی زور سے چلایا سکتا تها چلایا .....اس کی آواز کے میں جواب صرف پہاڑ بول رہے تھے. ...کسی انسان کا دور دور تک کوئی نشان نہیں تھا. .......
کچھ لمحوں پہلے وہ زندگی کے حسین لمحوں کو کتنی خوبصورتی سے انجوائے کر رہا تها اور کچھ لمحوں بعد. [ دسمبر لوٹ آنا تم تحریر ناصر حسین ] ..؟
اسے وقت اسے آسمان پر اڑتے ہوئے کووں پر بھی رشک آیا...اسے آس پاس موجود ہر شے پہ رشک آ رہا تها. ..ترس اسے صرف اپنے آپ پر آ رہا تها. ...وہ اگر رونا چاہتا تو رو بهی نہیں سکتا تھا. ..یہاں ان ویران برف کی پہاڑیوں میں کون اس کے آنسو دیکهتا...کون اس کی فکر کرتا....وہ بھی کچھ دیر بعد اسی برف کا حصہ بن جاتا اور کسی کو اس کی لاش بھی نہیں ملنی تھی. ...
وہ ناکامی کے باوجود بھی خاموش نہیں ہوا...چلاتا رہا اپنی پوری طاقت لگا کر. . شاید کوئی مسیحا آ جائے شاید کوئی اس کی آواز سن لے.....
امید. ..امید. ...اور امید. ...وہاں ان پہاڑوں کے درمیان صرف یہی وہ واحد چیز تهی جو موت سے لڑتے ہوئے اس لڑکے کے پاس باقی تهی....اپنی ہر کوشش کر لینے کے بعد اسے کوئی اور آ گیا جو اسے دیکھ رہا تھا ..جو اس کے پاس تها...پهر اس نے اسے بھی پکارا جی جان لگا کر. ...رو رو کر...ایک ایک نیکی ایک ایک عبادت جتا کر. .....تب آدهے گهنٹے بعد اس نے ایک لڑکی کی آواز سنی.....وہ آواز اس کے کانوں میں ایک خوبصورت سر کی طرح پڑی...اور تب اسے پہلی بار احساس ہوا اس کی دعا قبول ہو گئی. ..
جنت جنجھلائے ہوئی کهڑی تهی. . اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تها وہ کیا کرے...پهر اسے ایک خیال آیا....
اگر وہ اپنا اسکارف اتار کر اسے جهاڑی سے باندھ دے تب شاید وہ اس کی مدد کر سکتی تهی لیکن. ..؟
لیکن میں نے تو آج تک کسی بھی غیر مرد کو اپنا چہرہ نہیں دکهایا اور یہاں ایسے....نہیں نہیں یہ نا ممکن ہے میں ایسا نہیں کر سکتی میں اپنا اسکارف نہیں اتار سکتی......
" What You Doing help me..."
( کیا کر رہی ہو میری مدد کرو )
کافی دیر اس کی مدد کا انتظار کرنے کے بعد وہ زچ ہو کر بولا...وہ ابهی بهی ہاں اور ناں کے کشمکش میں تهی اور اس کی آنکھوں میں ایک امید تهی ....وہ اپنا اسکارف نہیں اتار سکتی اور ناں ہی کسی غیر مرد کو اپنا چہرہ دکها سکتی تهی....مگر وہ اسے یوں مرتا ہوا بھی نہیں دیکھ سکتی تهی. ......
جس نے ایک انسان کی جان بچائی گویا اس نے ساری انسانیت کی جان بچائی......یہ جملہ کسی اسم اعظم کی طرح اس کے کانوں میں گونجا اور اس نے ایک بهی سکینڈ مزید ضائع کیے بنا اسکارف اتار کر اس جهاڑی سے باندھ دیا...
پهر اس نے جهاڑی سی بندهی اسکارف کو ایک ہاتھ سے مضبوطی سے قابو کیا اور لیٹنے والے انداز میں وہ کهائی کی آخری حد تک پہنچی. ......
اس نے بنا روہاب کی طرف دیکهے ہاتھ نیچے کیا... اسے ایک بار سرسری سا دیکهنے کے علاوہ اس نے ایک بار بھی اس غور سے نہیں دیکها.......
لیکن اس لمحے روہاب کو کیا ہوا جب اس نے اپنا ہاتھ آگے بڑهایا تها وہ کیوں برف بن گیا..وہ اس کے ہاتهوں کو نہیں اس جهاڑی کو ٹوٹتے ہوئے نہیں وہ تو صرف جنت کو دیکهے جا رہا تها. ...کیا تهی وہ کوئی انسان. .یا پریوں کے دیش سے آئی کوئی پری. ...
ایسا صاف شفاف چمکتا چہرہ اس کی آنکھوں نے کهبی نہیں دیکها..دنیا جانے کس جنت اور کن حوروں کی باتیں کرتے ہیں. ..وہ جو اللہ کی تخلیق کی اس خوبصورت نقش و نگاری کو دیکھ رہا تھا کیا پریاں اور حوریں اس سے بھی خوبصورت ہوتی ہیں. .....
.اور یہاں اس وقت اس لمحے وہ کیا دیکھ رہا تھا. ...
جنت کو دیکهتے ہوئے اسے ایک پل بھی یہ یاد نہیں تها وہ اس وقت کہاں تها اور اسے کیا کرنا چاہیے تھا. .تهوڑی دیر پہلے جو وہ رو رو کر اپنے لیے زندگی مانگ رہا تھا تو اب کیوں کوئی تمنا باقی نہیں رہی تھی. ..
" تیرے انکھیاں جادو میرے دل تے کیتا ____
بهر کے زہر پیالہ میں تے آپے پیتا_____"
تو کیا وہ سبهی شاعر سہی کہتے تھے. ..
" ہاتھ پکڑیں میرا....".جنت کی آواز آئی. .اس کے ہونٹ ہلتے ہوئے دکهائی دیے مگر اس کے سماعتوں کو کیا ہوا وہ کچھ سن کیوں نہیں پا رہا تها. .......
جلدی کریں جهاڑی ٹوٹ رہی ہے .....اور یہ وہ پہلا جملہ تها جو اسے سنائی دیا...اس کے سماعت واپس لوٹ آئے اب اسے پرندوں کی چوں چوں اور جھینگروں کی آوازیں بھی سنائی دینے لگیں......اس نے جنت کے ہاتھ کو دیکھ کر اپنا ہاتھ آگے بڑهایا اور اس ہاتھ کو مضبوطی سے تهام لیا....اس وقت کون سا لمحہ تها یہ صرف وہی محسوس کر سکتا تها اندر کہیں جنگ جاری ہو چکی تهی. ...جنت نے سکارف کے ذریعے خود کو اوپر کهینچا اور وہ بھی زور لگا کر اپنے آپ کو اوپر کی طرف گهسیٹ رہا تھا .دو منٹ کی جدوجہد کے بعد وہ اس پہاڑی کے اوپر تها .....
اس نے اپنے آپ کو نہیں دیکها اس نے یہ نہیں دیکها وہ بچ گیا موت کے منہ سے جاتے جاتے لوٹ آیا...وہ تو بس یک ٹک بنا پلکیں جهپکائے جنت کو دیکهے جا رہا تها جو جلدی جلدی اسکارف جهاڑی سے علیحدہ کر رہی تهی. ......
[ دسمبر لوٹ آنا تم تحریر ناصر حسین ]

پهر اس نے اس لڑکی کو اسکارف چہرے پر باندھتے دیکها. ..وہ اب بھی وہیں کهڑی تها اسے دیکهتے ہوئے ...آس پاس وقت کی سوئی جیسے رک سی گئی ہو. ..کائنات کی ہر شے تهم گئی ہو اس لمحے. ...
پهر اس نے اس لڑکی کو پلٹتے اور اپنی طرف گھومتے دیکها...اس نے جونہی پیچھے پلٹ کر دیکها اس کی آنکھیں سیدها اس لڑکے کی آنکهوں سے ٹکرائیں...وہ ہلنا بهول گئی یہی وہ قیامت کا لمحہ تها .اس نے اپنی دهڑکن کو دهک دهک کرتے سنا..پهر اس نے اپنے وجود کو برف ہوتے دیکها ..بس کچھ پل محض کچھ پل وہ اسے دیکهتی رہی. .. اور پهر اس سے نگاہیں ہٹا کر یوں بهاگی جیسے وہ کوئی سانپ ہو.....
جیسے وہ کوئی گلیشیر ہو جو ٹوٹ کر اس کے پیچھے بہتا چلا آ رہا ہو...وہ بهاگتی ہوئی بنا آگے پیچھے دیکهے پہاڑی سے نیچے اتر رہی تهی. ...اسے نصیحت معلوم وہ زندگی میں کهبی کسی شے سے اتنا ڈری ہو جتنا وہ اس وقت اس لمحے اس لڑکے سے ڈر کر بهاگ رہی تهی. ....اور شاید وہ اس سے نہیں اپنے آپ سے اپنے دل سے دور بهاگ رہی تهی وہ دل کی آواز سننا نہیں چاہتی تھی لیکن دل پہلی بار کچھ بول رہا تھا. ...
" تیرے انکھیاں جادو میرے دل تے کیتا ____
بهر کے زہر پیالہ میں تے آپے پیتا_____"
وہ وحشت زدہ ہو کر بهاگی جا رہی تهی. ..جتنی تیز وہ بهاگ سکتی تهی. ..یہ فاصلہ اوپر جاتے ہوئے اس نے دس منٹ میں طے کیا اور نیچے آنے کے لیے اسے صرف ایک منٹ لگا _____
اسے یاد نہیں تها وہ لکڑیاں کاٹنے آئی تهی اسے یاد نہیں تها وہ گهٹر اور رسی یہیں چهوڑ کر جا رہی تهی اسے یاد تها تو صرف اتنا کہ اسے بهاگ کر جانا ہے دور بہت دور. ..دل کی آواز سے دور.......
" یا اللہ مجهے گمراہ ہونے سے بچا " .....
وہ دوڑتی ہوئی گر پڑی اور پهر سے کهڑی ہو کر دوڑنے لگی زیادہ دوڑنے کی وجہ سے اس کے پاوں شل ہو چکے تهے سانس پهولا ہوا تها. .مگر اس میں حساسیت کی حس ختم ہو چکی تهی. .....
" یا اللہ میرے دل میں نور بهر دے." ....گالوں پہ کوئی سمندر تها جو بہتا جا رہا تھا اس نے بهاگتے ہوئے ایک بار بھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکها اگر مڑ کر دیکهتی تو پتهر ہو جاتی........
_ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _
دس بجنے میں پندرہ منٹ باقی تھے. ..آیت اس وقت سٹی پارک کے ایک بنچ پر بیٹهی تهی .... اور بار بار موبائل پہ ٹائم دیکھ رہی تھی. .وہ اس وقت نیلے فراک میں ملبوس تهی کاندھوں پہ سفید دوپٹہ تها...بالوں کو پونی میں قید کر کے وہ پیچھے کندهے پہ دھکیل چکی تهی. .اس کے چہرے سے ہی اضطراب واضح نظر آ رہا تها. اس نے روحل کو اسی پارک میں ملنے کے لیے بلایا تها لیکن وہ ابهی تک نہیں آیا...اور اس لیے نہیں آیا کیونکہ مقررہ وقت سے وہ بیس منٹ پہلے آئی تهی اور پہلے اس لیے آئی تهی کیونکہ اس کے دل دماغ پہ ایک بوجھ تها........
مگر وہ ڈر بھی بہت رہی تهی اسے نہیں معلوم تها آگے کیا ہونے والا ہے وہ جو کرنے آئی تهی وہ کافی حد تک رسکی کام تها لیکن کچھ کام رسک لیے بنا نہیں ہو سکتے. ......
بہرحال یہ تو اسے کرنا ہی تها وہ اپنے لندن جانے والے خواب کے ساتھ سمجهوتہ کهبی نہیں کر سکتی تهی اور حالیہ دور میں اس کی راہ کی رکاوٹ یہی رشتہ تها __
اس نے بے تابی سے ایک بار پھر وقت کو دیکها__صرف پانچ منٹ ہی وقت آگے بڑها __پتا نہیں کهبی کهبی گهڑی کی سوئیاں اتنی سست ہو جاتی ہیں یا انسان بہت تیز ہو جاتا ہے__بہرحال وقت انسان کا محتاج نہیں ہے انسان کو وقت کے ساتھ ساتھ چلنا پڑتا ہے ___
پارک میں بیٹهے لوگ کهیلتے بچے __وہ درخت جس کے سائے تلے وہ بیٹهی تهی پہلی بار ان سب سے وہ الجهن محسوس کرنے لگی__ جب کچھ اچھا نہیں ہوتا تو کچھ اچها نہیں لگتا __
اور اس وقت جب موبائل نے وقت مکمل ہونے کی اطلاع دی تبهی اسے پارک کے دروازے سے ہی ایک شخص اپنی طرف آتا دکهائی دیا ___
جانے وہ کهڑی کیوں ہو گئی __اس کے چلنے کا انداز کافی حد تک متاثر کون تها __آنکهوں پہ سن گلاسز چڑھائے ہوئے تهے اس نے___ ہلکی سی چهوٹی داڑھی اور درمیانہ قد ___کافی گڈ لکنگ تها __لیکن اس حد تک بھی نہیں جہاں تک مما نے تعریف کی __
اس نے پاس آتے ہی اسے سلام کیا سلام کا جواب دینے کے بعد آیت نے اسے بیٹهنے کی آفر کی وہ بے تکلفی سے بیٹھ گیا وہ بھی جهجکتے ہوئے بیٹھ گئی سامنے والا بندہ کافی پر اعتماد نظر آ رہا تها لیکن اسے اپنا اعتماد کیوں رخصت ہوتا نظر آیا وہ چاہ کر بھی پہلے جیسا خود کو ریلکس نہیں کر پا رہی تهی___
دل کی حالت خراب ہوتی جا رہی تهی جو بات وہ کہنے جا رہی تهی اس کے لیے اسے ہر قسم کے ری ایکشن کے لیے تیار ہونا تها_____
وہ اسے سوالیہ نگاہوں سے دیکھ رہا تھا ملنے کے لیے اس نے بلایا تها تو بات بھی اس نے ہی شروع کرنی تهی __اگر وہ لندن کے خواب کو الگ رکھ کر سوچتی تو اس میں بظاہر کوئی خامی نہیں تهی وہ ایک اچها جیون ساتھی ہو سکتا تها __لیکن لندن جانے کا خواب ہر شے کے بیچ میں آ رہا تها _
کچھ سکینڈز اسے دیکهنے کے بعد اس نے گلہ کهنگار کر بات شروع کرنے کی کوشش کی ___اور وہ خود کو پہلے کی نسبت پرسکون کر چکی تهی ___
" دیکهے جو بات میں کہنے جا رہی ہوں ہو سکتا ہے آپ کو عجیب لگے یا آپ کو برا لگے لیکن مجهے یقین ہے آپ میری مجبوری سمجهیں گے "___
بنا تہمید کے ہی اس نے صاف صاف بات کرنے کا فیصلہ کیا تها__وہ غور سے اسے سن رہا تھا اور اس کے منہ سے نکلنے والے اگلے جملے کا منتظر نظر آ رہا تها ...
"میں آپ کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں بنانا چاہتی ...یہ رشتہ میرے گهر والے میری مرضی کے خلاف کر رہے ہیں جس شخص کو میں نے دیکها نہیں جس سے ملی نہیں اس کے ساتھ میں اپنی زندگی کهبی نہیں گزار سکتی". ......
دس بجنے میں پندرہ منٹ باقی تھے. ..آیت اس وقت سٹی پارک کے ایک بنچ پر بیٹهی تهی .... اور بار بار موبائل پہ ٹائم دیکھ رہی تھی. .وہ اس وقت نیلے فراک میں ملبوس تهی کاندھوں پہ سفید دوپٹہ تها...بالوں کو پونی میں قید کر کے وہ پیچھے کندهے پہ دھکیل چکی تهی. .اس کے چہرے سے ہی اضطراب واضح نظر آ رہا تها. اس نے روحل کو اسی پارک میں ملنے کے لیے بلایا تها لیکن وہ ابهی تک نہیں آیا...اور اس لیے نہیں آیا کیونکہ مقررہ وقت سے وہ بیس منٹ پہلے آئی تهی اور پہلے اس لیے آئی تهی کیونکہ اس کے دل دماغ پہ ایک بوجھ تها........
مگر وہ ڈر بھی بہت رہی تهی اسے نہیں معلوم تها آگے کیا ہونے والا ہے وہ جو کرنے آئی تهی وہ کافی حد تک رسکی کام تها لیکن کچھ کام رسک لیے بنا نہیں ہو سکتے. ......
بہرحال یہ تو اسے کرنا ہی تها وہ اپنے لندن جانے والے خواب کے ساتھ سمجهوتہ کهبی نہیں کر سکتی تهی اور حالیہ دور میں اس کی راہ کی رکاوٹ یہی رشتہ تها __
اس نے بے تابی سے ایک بار پھر وقت کو دیکها__صرف پانچ منٹ ہی وقت آگے بڑها __پتا نہیں کهبی کهبی گهڑی کی سوئیاں اتنی سست ہو جاتی ہیں یا انسان بہت تیز ہو جاتا ہے__بہرحال وقت انسان کا محتاج نہیں ہے انسان کو وقت کے ساتھ ساتھ چلنا پڑتا ہے ___
پارک میں بیٹهے لوگ کهیلتے بچے __وہ درخت جس کے سائے تلے وہ بیٹهی تهی پہلی بار ان سب سے وہ الجهن محسوس کرنے لگی__ جب کچھ اچھا نہیں ہوتا تو کچھ اچها نہیں لگتا __
اور اس وقت جب موبائل نے وقت مکمل ہونے کی اطلاع دی تبهی اسے پارک کے دروازے سے ہی ایک شخص اپنی طرف آتا دکهائی دیا ___
جانے وہ کهڑی کیوں ہو گئی __اس کے چلنے کا انداز کافی حد تک متاثر کون تها __آنکهوں پہ سن گلاسز چڑھائے ہوئے تهے اس نے___ ہلکی سی چهوٹی داڑھی اور درمیانہ قد ___کافی گڈ لکنگ تها __لیکن اس حد تک بھی نہیں جہاں تک مما نے تعریف کی __
اس نے پاس آتے ہی اسے سلام کیا سلام کا جواب دینے کے بعد آیت نے اسے بیٹهنے کی آفر کی وہ بے تکلفی سے بیٹھ گیا وہ بھی جهجکتے ہوئے بیٹھ گئی سامنے والا بندہ کافی پر اعتماد نظر آ رہا تها لیکن اسے اپنا اعتماد کیوں رخصت ہوتا نظر آیا وہ چاہ کر بھی پہلے جیسا خود کو ریلکس نہیں کر پا رہی تهی___
دل کی حالت خراب ہوتی جا رہی تهی جو بات وہ کہنے جا رہی تهی اس کے لیے اسے ہر قسم کے ری ایکشن کے لیے تیار ہونا تها_____
وہ اسے سوالیہ نگاہوں سے دیکھ رہا تھا ملنے کے لیے اس نے بلایا تها تو بات بھی اس نے ہی شروع کرنی تهی __اگر وہ لندن کے خواب کو الگ رکھ کر سوچتی تو اس میں بظاہر کوئی خامی نہیں تهی وہ ایک اچها جیون ساتھی ہو سکتا تها __لیکن لندن جانے کا خواب ہر شے کے بیچ میں آ رہا تها _
کچھ سکینڈز اسے دیکهنے کے بعد اس نے گلہ کهنگار کر بات شروع کرنے کی کوشش کی ___اور وہ خود کو پہلے کی نسبت پرسکون کر چکی تهی ___
" دیکهے جو بات میں کہنے جا رہی ہوں ہو سکتا ہے آپ کو عجیب لگے یا آپ کو برا لگے لیکن مجهے یقین ہے آپ میری مجبوری سمجهیں گے "___
بنا تہمید کے ہی اس نے صاف صاف بات کرنے کا فیصلہ کیا تها__وہ غور سے اسے سن رہا تھا اور اس کے منہ سے نکلنے والے اگلے جملے کا منتظر نظر آ رہا تها ...
"میں آپ کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں بنانا چاہتی ...یہ رشتہ میرے گهر والے میری مرضی کے خلاف کر رہے ہیں جس شخص کو میں نے دیکها نہیں جس سے ملی نہیں اس کے ساتھ میں اپنی زندگی کهبی نہیں گزار سکتی". ......
لمحہ بھر کو وہ رکی اس کے تاثرات دیکهنے کے لیے وہ تهوڑا غمگین نظر آ رہا تها .....لیکن وہ اپنی بات جاری رکهتے ہوئے بولی. ....
" میں ایک پڑهی لکهی لڑکی ہوں اور ہمارے مذہب میں لڑکی کو بھی اپنی مرضی کا شوہر چننے کا اتنا ہی اختیار ہے جتنا ایک لڑکے کو ہے یہ مت سوچیے گا آپ اگر پیچھے نہیں ہٹیں گے تو یہ رشتہ ہو جائے گا ..میں آپ کے ساتھ شادی کهبی بهی نہیں کروں گی اگر آپ منع نہیں کریں گے تب بھی نہیں. ...اور مجهے لگتا ہے آپ بھی پڑهے لکهے ان فضول کے جهیملوں میں پڑ کر اپنا وقت ضائع نہیں کریں گے. ..بعد کے مسائل سے بہتر ہے ابهی سے ہی اس راستے پہ نہ چلا جائے جس کی منزل نہیں. ..."....
اپنی بات پوری کر کے وہ خاموش ہوئی ....اور اس کے بولنے کا انتظار کرنے لگی ....کافی دیر تک وہ بھی ہونٹ بهینچے خاموش رہا..پهر اس کے موبائل پہ بیپ ہوئی شاید کوئی میسج آیا تھا جسے اوپن کر کے وہ پڑهنے لگا...وہ اس پر سے نگاہیں ہٹا کر بظاہر ادهر ادهر دیکهنے لگی....
" کیا آپ صرف اس وجہ سے یہ رشتہ نہیں کرنا چاہتیں کیونکہ آپ مجهے پسند نہیں کرتیں...."؟ اس نے موبائل واپس جیب میں ڈالتے ہوئے پوچها تها......
" نہیں کیونکہ میں کسی اور کو پسند کرتی ہوں." ...
اس نے سراسر جهوٹ بولا.یہ ترپ کا وہ آخری پنا تها جس پہ اس بازی کی جیت یا ہار کا فیصلہ ہونا تها. ..
اس کے پاس ہی درخت کے اوپر ایک پرندہ پهڑپهڑاتا ہوا زمین پہ آ گرا اور پهر اڑتا ہوا ایک بار پھر خلا سے باتیں کرنے لگا. ...اس نے روحل کے چہرے کو مرجهاتے دیکها ....اس نے مٹهیاں بهینچ لیے....اسے غصہ تها یا غم وہ سمجھ نہ سکی.......
" اوکے میں آئندہ آپ کے راستے میں نہیں آؤں گا ."...
وہ اٹھ کهڑا ہوا...وہ بھی پرس سنبهالتی کهڑی ہو گئی اس نے سن گلاسز لگائے جبکہ آیت نے اسے مشکور نگاہوں سے مسکرا کر دیکها...جو اس نے سوچا بھی نہیں تها وہ ہو گیا. ..سامنے کهڑا شخص حساس تها سلجها ہوا تها عقل مند تها یا بے وقوف وہ بالکل بهی نہیں جان سکی .......
وہ ایک قدم الٹا چلتا ہوا گهوما ....آیت کو کچھ یاد آیا...
" چوڑیوں کے لیے تهینکس." .....وہ جاتے جاتے رک گیا ..اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا ...
" چوڑیاں. ..".؟ اس نے سن گلاسز اتارتے ہوئے حیران ہو کر سوالیہ انداز میں لفظ دہرایا......
" ہاں جو وہ آپ نے دیں تهیں مطلب پهینکی تهیں بائی دی وے تهینکس." ......
اس کے ماتهے پہ بل پڑتے ہوئے دکهائی دیے. ..
" میں نے کوئی چوڑیاں نہیں دی تهیں آپ کو..."اب کی بار حیران ہونے کی باری آیت کی تهی....
جواب دے کر وہ رکا نہیں. ..لمبے لمبے ڈگ بھرتا پارک سے باہر نکل گیا جب کہ وہ وہیں کهڑی تهی..ایک نئی سوچ ایک نئی الجهن کے ساتھ. ...؟
پھر سے ایک نیا سوال جنم لینے لگا اگر وہ چوڑیاں اس نے نہیں بهیجیں تو پھر. ........؟
_ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _

وہ اگر کوئی خواب تها تو کوئی بہت ہی خوبصورت خواب تها اگر حقیقت تهی تو اس سے حسین حقیقت کوئی ہو ہی نہیں سکتی ___لیکن خواب تو بند آنکهوں سے دیکهے جاتے ہیں جبکہ اس کی آنکهیں تو کهلی تهیں اور اسے سب کچھ نظر آ رہا تها .....
اس نے آنکهوں کو مسلتے ہوئے بے یقینی سے سامنے والے منظر پر یقین کرنے کی کوشش کی اور بس ایک لمحہ لگا تها اسے یقین آنے میں____اور اگلے ہی پل اس نے مسکراتے ہوئے دائیں بائیں اپنے ہاتھ ایسے پهیلائے جیسے شاہین اپنے پر پھیلاتا ہے ..........
اور پهر ایڑی پر زور دے کر دائرے کی صورت میں گول گول گهومی....اس کا سیاہ فراک بھی اس کے ساتھ گھومنے لگا........
" یا ہو.....میں آ گئی لندن. ...." وہ اتنی زور سے چلائی کہ ائیر پورٹ پہ کهڑے سیکڑوں کے حساب سے وہ انگریز اور سیاہ فام لوگ اسے دیکهنے پر مجبور ہو گئے. ...وہ انگلینڈ کے سب سے بڑے شہر کی سب سے بڑے ائیر پورٹ کے اندر کهڑی تهی. .......
انگلینڈ کی سر زمین کو وہ اپنے پاوں تلے محسوس کر رہی تهی ....آس پاس گزرتے لوگوں کو اس کی دماغی حالت پہ شبہ ہونے لگا لیکن رک کر اس پاکستانی لڑکی کا تماشا دیکھتے اتنی فرصت کسی کو نہ تهی........
میں نے کہا تها ناں میں آؤں گی تیری جاگیر پر......
اس نے اتنی ہی زور سے کہا جتنی زور سے وہ چیخ مار چکی تهی ...پهر اس کے منہ سے ایک بے اختیار قہقہ گونج اٹھا. ...
خواب اتنے بهی حسین ہوتے ہیں اور یوں بھی پورے ہو جاتے ہیں یہ اس نے نہیں سوچا تھا سب کتنا آسان تها ...وہ اس وقت اپنے خوابوں کے شہر اپنے سپنوں کے لندن کهڑی تهی...
دنیا کے اتنے بڑے ائیر پورٹ میں ہزاروں انگریزوں کے درمیان میں کهڑی وہ پاکستانی لڑکی سب سے نمایاں تهی اس وقت وہ سیاہ جالی دار آستینوں والے فراک میں ملبوس تهی ....دوپٹہ گردن میں رسی کے انداز میں پڑا ہوا تھا اس کا دراز قد اور پتلی جسامت تقریباً سبهی کو اپنی طرف متوجہ کر رہا تها. ......
مگر وہ سب سے بے نیاز کسی پاگل کی طرح عمارت کے اندر آرائش و زیبائش کو اور وہاں ٹہلتے لوگوں کو دیکهنے میں مصروف تهی....
" Excuse me You are Ayat From Pakistan "
( آپ آیت ہیں پاکستان سے )
اسے اپنے پاس ہی کسی لڑکی کی آواز سنائی دی وہ گهومی اور اس کی نگاہیں اس لڑکی کے چہرے سے ٹکرائیں بے اختیار اس کی چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی. ..
وہ کوئی سیاہ فام تهی بڑے بڑے موٹے موٹے ہونٹ..چهوٹے سے بال ....آواز کے علاوہ کسی بھی انداز سے وہ لڑکی نہیں لگتی تهی......
اس کے ہاتھ میں آیت نام کی تختی تهی...
( اف...تو یہ نمونے انگلینڈ میں بھی ہوتے ہیں)
وہ شاید یونیورسٹی کی طرف سے آئی تهی جس میں اس نے اپلائی کیا تها...
وہ سیاہ فام لڑکی آگے آگے چل رہی تهی اور وہ اس کے پیچھے پیچھے چل کم اور ادهر ادهر زیادہ دیکھ رہی تھی ...کئی بار وہ لوگوں سے ٹکراتے ٹکراتے بچی تهی .........پهر وہ ائیر پورٹ کے اندرونی احاطے سے باہر نکل آئے..
اس نے سر اٹها کر اوپر کی طرف دیکها کئی گهنٹوں بعد اسے آسمان دیکهنا نصیب ہوا تها....آسمان بالکل ویسا تها جیسے پاکستان میں ہوتا تھا اور یہ وہ واحد چیز تهی جو مشابہت رکهتی تهی ورنہ وہاں کی ایک ایک چیز مختلف تهی....
اس کا دل چاہا زور سے چیخ چیخ کر آسمان کو بتا دے میں انگلینڈ آ گئی ہوں. ..کالے بادلوں کو . ..اڑتے پرندوں کو ......لندن کی بڑی بڑی عمارتوں کو......
پهر اس نے ایسا کیا بهی..جانے کیوں وہ خود بھی قابو نہ رکھ سکی اور اس کے منہ سے نکلنے والی چیخ لندن کی فضا میں گونج اٹهی......
اس سیاہ فام لڑکی نے مڑ کر تشویش سے اسے دیکها. .یہ پاکستانی اس کے لیے ہمیشہ عجیب ہوتے تھے. .
" What Happened. ..?"
اس نے ناگواری سے پوچها......
" Nothing. ..."
وہ خجالت سے مسکراتی گاڑی میں آ کر بیٹھ گئی حالانکہ ابهی اس کا قید ہونے کا کوئی ارادہ نہیں تها وہ وہاں کی ایک ایک چیز کو چهو کر محسوس کرنا چاہتی تهی. ...لیکن خیر ابهی بہت وقت تها لندن کو دل اور آنکهوں میں قید کرنے کے لیے. .......
لندن اس کا خواب تها اور یہ اس خواب کی تعبیر. .ایک ہفتہ پہلے جب اس نے روحل کو رشتے کے لیے منع کیا تھا تو گهر میں اس موضوع پہ دوبارہ بات نہیں کی گئی اسے سر سے منوں بوجھ ہٹتا دکهائی دیا ...گلے کا کانٹا وہ نکال چکی تهی لیکن لندن جانے والی بات ابهی بهی وہیں کهڑی تهی...مما نے وعدہ کیا تھا وہ ابو سے بات کریں گی لیکن بات کرنے کی ان کی ہمت ہی نہیں ہو رہی تهی ابو ہمیشہ سے ہی کچھ سخت مزاج اور غصیلے تهے...
مما بہت ڈرتی تهیں ان سے. ..لیکن وہ اٹهتے بیٹهتے مما کو ان کا وعدہ یاد دلاتی بہرحال ایک دن عمارہ بیگم نے اپنے اندر ہمت پیدا کر کے بات کرنے کی ٹهانی. ..
وہ ان کی بیٹی تهی اور سب سے پیاری بهی والدین اولاد کی خوشی کے لیے آخری حد کو بهی چهو لیتے ہیں تو وہ کیوں نہ کرتیں.... اولاد کی محبت ہے ہی ایسی ظالم شے... ..
مگر جس دن انہوں نے آیت کے ابو سے بات کی تو ان کی سوچ کے مطابق وہ بهڑک اٹهے...ان کا بهڑکنا لازمی تها وہ اکیلی بیٹی کو بیرون ملک بھیجنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے تھے. ..ہر بات کے بیچ میں ذات برادری حائل رہی....
عمارہ بیگم کافی دیر تک تحمل مزاجی اور رسانیت کے ساتھ ان سے بحث کرتی رہیں ..وہ یہ کہہ کر ان کے دل میں نرم گوشہ پیدا کرنے لگیں. ..
کہ گاوں والے ان پہ فخر کریں گے ان کی بیٹی لندن سے پڑھ کر آئی ہے....
ان کی عزت ہوگی کتنا اونچا نام ہوگا...جس گاوں میں کسی لڑکے نے بھی لندن میں تعلیم حاصل نہیں کی وہاں ہماری بیٹی تعلیم حاصل کر کے ہماری عزت کو چار چاند لگائے گی.....اور بهی کچھ ایسی باتیں وہ ان کے دماغ میں ڈالتی رہیں...شوہر تها ان کا ساری زندگی ساتھ گزرا تھا ان سے بڑھ کر ان کے مزاج کو کون سمجھ سکتا تھا. .....
وہ سوچ میں ضرور پڑ گئے لیکن پوری طرح رضامند نہیں ہوئے ..اور ایسے ہی کچھ دن مزید کوششوں کے بعد انہوں نے ان کو مطمئن کر ہی لیا....آیت اتنی ہی خوش تهی جتنا اسے ہونا چاہیے تھا. ....
اس کی ٹکٹ ہو گئی پاسپورٹ بنا. .یہ سب ایک سپنا لگ رہا تها اسے....اس نے اسی دن سے ہی سامان کو پیک کرنا شروع کیا. ..اس کے قدم گویا زمین پہ ہی نہیں ٹک رہے تهے. .....
اور وقت کی سوئیوں نے زندگی کو تهوڑا آگے دهکیلا اور وہ دن بھی آ گیا جب وہ پاکستان ایئر پورٹ پر کهڑی تهی. ..اسے وداع کرنے اس وقت مما ابو اور اس کی بہن آئے تهے...اسے اس وقت سب کچھ اچها لگ رہا تها. ..آخری بار اسے اللہ حافظ کہتے وقت اس کے باپ نے اسے کرختگی کے ساتھ کچھ نصیحتیں کی تهیں....
تمہیں معلوم ہے آج تک ہمارے خاندان میں کوئی بیرون ملک نہیں گیا ہم تمہیں رعایت دے رہے ہیں اس کا مطلب یہ نہیں تم ہماری عزت اور ہمارے بهروسے کا خون کرو...بہت یقین کے ساتھ تمہیں بهیج رہے ہیں ہمارا یقین کهبی مت توڑنا.....

اس وقت وہ اتنی خوش تهی کہ اسے اپنے باپ کی نصیحت بھی بری نہیں لگی جو اسے ہمیشہ سے ہی برے لگتے تھے. ......
پهر یوں ہوا خوابوں خیالوں میں رہنے والی وہ دیوانی سی لڑکی لندن پہنچ گئی...وہ سیاہ فام لڑکی گاڑی خود ڈرائیو کر رہی تهی اور وہ پچھلی سیٹ پہ بیٹهی منہ کهولے سڑکوں کو اور بڑی بڑی عمارتوں کو دیکھ رہی تھی. ....ٹی وی ڈراموں میں دیکهنا الگ بات تهی لیکن سب کچھ اپنی آنکھوں کے سامنے دیکهنا کس قدر دلکش تها یہ کوئی آیت سے ہی پوچهتا.......
اس کی بڑی بڑی آنکھیں ان خوبصورت مناظر کو اپنے اندر قید کرنے کی کوشش کر رہی تهیں...اسے روڈ پہ ایک چهوٹے بالوں والی بوڑھی نظر آئی....جس نے جینز کے اوپر ٹی شرٹ پہنی تهی وہ اس لباس میں کافی عجیب لگ رہی تهی ..وہ کافی دیر تک اسے دیکھ کر مسکراتی رہی .......
وہ سیاہ فام لڑکی البتہ بے نیازی سے ڈرائیونگ کرنے میں مصروف تهی... دوسرے ملکوں سے آئے لوگ کیسے پاگل ہو جاتے ہیں یہ تجربہ وہ پہلے بھی کافی بار کر چکی تهی خصوصاً پاکستانیوں کے بارے میں وہ کچھ اچهے خیالات نہیں رکهتی تهی......
اور ایسے ہی ایک آدھ بار اس نے بیک ویومر میں سے اس عجیب احمق لڑکی کو دیکها جو ونڈو سے زرافے کی طرح سر باہر نکال کر جانے کیا کھوجنے میں مصروف تهی........
گاڑی ایک عالیشان اونچی بلڈنگ کے سامنے آ کر رک گئی. وہ منہ کهولے حیرت سے ایسے بلڈنگ کو دیکھ رہی تھی جیسے اس کے سامنے ہزار سال پرانا ڈائنو سار کا مجسمہ رکها ہوا ہو....سیاہ فام لڑکی نے اسے تین بار آواز دی مگر وہ بنا سانس لیے یونیورسٹی کی عمارت کو دیکهے جا رہی تهی. ...لندن کی بڑی بڑی عمارتوں کے درمیان میں وہ عمارت ایک شان سے سر اٹهائے کهڑی نظر آ رہی تهی. ..سب سے الگ سب سے منفرد. ...
[ دسمبر لوٹ آنا تم تحریر ناصر حسین مکمل ناول گوگل پر بھی دستیاب ہے ]
" ایکسکیوزمی...."..اس لڑکی نے زور سے گاڑی پہ ہاتھ مار کر اسے ہوش میں لانے کی کوشش کی اور وہ ہوش میں بھی مکمل طور پر نہیں آئی اس لیے ونڈو کهول کر نکلنے کی بجائے کهڑکی سے نکلنے کی کوشش کر رہی تهی ....اس سیاہ فام کو وہ واقعی پاگل لگی اس نے ونڈو کو اوپن کیا اور وہ شرمندہ شرمندہ سی باہر نکلی.....
وہ بالکل اس عمارت کے سامنے کهڑی تهی اس عمارت کی قد اس کی قد سے کہیں زیادہ اونچی تهی... جب پیسہ ہو تو کیا نہیں ہوتا...کاغذ کے وہ ٹکڑے واقعی بہت طاقتور تهے.......
پهر اچانک اسے اپنا بیگ یاد آیا وہ دوڑتی ہوئی ڈگی سے بیگ نکالنے لگی جو کافی حد تک بهاری لگی اسے...مما نے ٹهوس ٹهوس کر اس میں جو دنیا جہان کی چیزیں بهری تهیں ان سے بیگ کو بهاری ہی ہونا تها...بیگ کو نکال کر اس نے ایک امید بهری نگاہ سے اس لڑکی کو دیکها .اگر اس وقت وہ یہ سوچ رہی تھی کہ وہ لڑکی بیگ اٹهانے میں اس کی مدد کرے گی تو وہ احمق ترین تهی یہ پاکستان نہیں تها جہاں مروت کے ڈهول پہن کر لوگ ایک دوسرے کی مدد کرتا وہ اس وقت لندن میں کهڑی تهی جہاں جس کا کام اسی کو ساجهے کے تحت کام ہوتا تھا. .....
اس غصے سے گهور کر دیکهنے کے بعد وہ اپنا بیگ گھسیٹی اندر داخل ہوئی ...اور اندر آ کر وہ ایک بار پھر برف بن گئی. ...ہزاروں فیٹ دور دور تک پهیلا وہ خوبصورت لان ، وہ بڑا سا خوبصورت تالاب ،وہ فوراہ ،وہ خوبصورت سر سبز گهاس ، وہ پهولوں کے باغ .....
آہ کیا منظر تها...وہ بهاری بیگ کو کهینچتی گهاس کے درمیان بنے راستے سے سامنے والی بلڈنگ میں جا رہی تهی .اس عمارت کے اندر بھی کئی اور عمارتیں تهیں آس پاس گهاس پہ بیٹهے ہوئے سٹوڈنٹس آنکهیں اٹها اٹها کر اس پاکستانی لڑکی کو دیکھ رہے تهے. ..
مگر وہ انہیں نہیں اس وسیع و عریض خوبصورت عمارت کو دیکهے جا رہی تهی جو اس کی سوچ سے بھی زیادہ خوبصورت تهی...نیٹ پہ جو تصاویر اس نے دیکهی تهیں وہ تو کچھ بھی نہیں تهیں اس لائیو منظر کے سامنے جو اس کی کالی کالی آنکهیں دیکھ رہی تهیں....
وہ سیاہ فام لڑکی رک رک کر اسے گهور کر دیکهتی اور وہ خجل سے سر جهٹک کر پهر سے چلنے لگتی.
ہونہہ ایک تو بیگ نہیں اٹهاتی کم بخت اور اوپر سے کچھ دیکهنے بھی نہیں دیتی ...یہ تو روز دیکهتی ہو گی میں دیکهوں یا نہ دیکهوں اسے کیا پرواہ. .....
وہ بری طرح زچ ہو کر سوچنے لگی.....
وہ اسے دوسری منزل پہ ایک کمرے میں لے آئی...وہ بیگ کے ساتھ اس کمرے تک کیسے پہنچی یہ بڑی لمبی کہانی ہے...وہ کمرہ کافی بڑا اور خوبصورت تها یہ سرسری سا دیکهنے پہ ہی اسے اندازہ ہوا....لیکن پہلے کی طرح وہ منہ کهولے دیکهنے نہیں کهڑی ہوئی بس اس لڑکی سے کچھ انفارمیشن لینے لگی .....
انفارمیشن کے مطابق اسے اپنا کهانا خود بنانا تها یہ پہلا دھچکا تها ...اچهی سی لنچ کا خواب پهر سے اڑ گیا....
دوسرا دھچکا اسے تب لگا جب اسے بتایا گیا اس کمرے میں وہ اکیلی نہیں ہے. ..اور تیسرا دھچکا سب سے زیادہ خطرناک تها اس کے مطابق اس کمرے میں ایک اور افریقن لڑکا بھی اس کے ساتھ رہے گا. ...وہ منہ کهولے بنا پلکیں جهپکائے اسے دیکھ رہی تھی یہ کیسے ممکن تها وہ اپنا کمرہ کسی لڑکے کے ساتھ کیسے شئر کرتی. ....تهوڑی سی مزید انفارمیشن دینے کے بعد وہ گدھے کے سر سینگ والے محاورے کی طرح غائب ہوئی....کافی عجلت میں لگ رہی تهی. ...لیکن اس کی سب سوچوں کے درمیان یہی ایک سوچ آ رہا تها وہ کسی لڑکے کے ساتھ کیسے رہے گی....یہ تو نا ممکن سی بات تهی ...اس لڑکی کے سامنے وہ اس لیے کچھ نہیں بولی کیونکہ ان کے لیے یہ غیر معمولی بات نہیں تهی..مگر اس پاکستانی لڑکی کے لیے یہ سب سے بڑا مسئلہ تها.........
_ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _
شام کا وقت ہو رہا تها سورج کی سنہری سنہری روشی پورے لندن کو اپنے رنگ میں رنگ رہی تهی. .وہ شال اوڑهے کهڑکی کے پاس کهڑی نیچے کے منظر کو دیکھ رہی تھی کهبی کهبی زندگی کتنی حسین لگتی ہے عام لوگ بھی کتنے خوبصورت لگنے لگتے ہیں ..جیسے اس وقت وہاں سے نظر آتے وہ سٹوڈنٹس، وہ پهولوں کو پانی دیتے مالی ، آسمان پہ گول گول چکر کاٹتے وہ رنگ برنگے پرندے. ...ایک گهنٹے سے وہ وہاں کهڑی سب دیکھ رہی تھی لیکن ابهی بهی اس کا دل نہیں بهرا ایسے خوبصورت مناظر سے بھی بهلا کسی کا دل بهر سکتا ہے. ...لندن تو لندن ہے لندن کی کیا ہی بات ہے.... ..
اسے بهوک کا احساس ہوا ..ائیر پورٹ سے یہاں آ کر بھی اس نے کچھ نہیں کهایا اور وہ سیاہ فام عادتاً کچھ ایسی بد اخلاق واقع ہوئی اس نے ایک بار مروتا بھی نہیں پوچها کچھ کهاو گی. ....
وہ جو پاکستان سے بڑے بڑے لنچ کا سوچ کر نکلی تهی اس کی ہر سوچ پر پانی پهر چکا تها. ...اس لڑکی نے صرف اتنا بتایا یہ کچن ہے یہ سامان اور یہ ہو تم.....اب آگے تم جانو تمہارا کام جائے اور وہ ایسے بهاگی جیسے اس کے پیچھے افریقہ کے کوئی شکاری کتے پڑ گئے ہوں.....
انداز سے ایسا لگ رہا تها وہ صبح سے جان چھڑانے کے چکروں میں تهی......
اف اگر اتنی ہی بد اخلاق تهی تو ائیر پورٹ تک ہی کیوں آئی وہ وہاں سے یہاں خود بھی آ سکتی تهی اس نے غصے سے سوچا اور کچن میں چلی آئی....کچن کیا تها کمرے سے اٹیچ ایک چهوٹا سا حصہ جسے کچن کی شکل دے رکهی تهی انہوں نے. .....

پورا آدها گهنٹہ وہ چیزوں کو اٹها اٹها کر دیکهتی رہی جیسے کچن میں نہیں کسی میوزم میں پہنچ گئی ہو...ایک چیز مختلف. ..وہ جتنی ہی پڑهی لکهی اور ماڈرن کیوں نہ تهی یہاں آ کر اس کی بهی عقل دنگ ہو رہی تهی. ...نئی نئی چیزیں اور انہیں استعمال کرنے کے بهی نئے نئے طریقے. ....اسے سامنے منی فریج نظر آئی جیسے پاکستان میں چهوٹے واٹر فلٹر مشین ہوتے ہیں. ..اس وقت اس نے شدت سے دعا کی کاش فریج میں سے کچھ بنا بنایا مل جائے مگر وہ ایک حقیقی فریج تهی کسی ڈرامے کا نہیں. ..البتہ اگر ڈرامے کا ہوتا تو وہاں ڈھیر ساری فروٹس کے ساتھ ساتھ کئی قسم کے سالن بھی ہوتے مگر افسوس اس فریج میں کچے گوشت کے علاوہ کچھ نہیں تها......
اس گوشت کو دیکها وہ بهی کچھ الگ قسم کا محسوس ہوا جانے کس چیز کا تها اسے مفت میں ہی کراہت ہونے لگی. ...
انہیں واپس اپنی جگہ پر رکھ کر اس نے فریج کو ڈهکن بند کر دیا. ..اور کاونٹر کی طرف گهومی سامنے چولہا رکها تها اور اس نے چولہے کے بٹن کو آن کیا..اور متلاشی نگاہوں سے ہر طرف کا جائزہ لے کر کهانے کے لیے کچھ ڈهونڈنے لگی....الماری پر بھی کئی قسم کے مثالہ جات رکهے تهے مگر کهانے کے لیے کچھ نہیں تها....اس سیاہ فام لڑکی نے اسے یہ بتایا کہ اسے کهانا خود بنانا ہے مگر اس نے یہ نہیں بتایا سامان بھی اسے ہی خود ہی منگوانا ہے..
وہ بیچاری خواہ مخواہ ہی لندن کی تعریف کر رہی تهی اتنے بڑے ملک کے اتنے بڑے شہر کی سب سے بڑی یونیورسٹی میں کهانا خود بنانا تها. ..لو یہ انسانیت ہے پتا نہیں یہ انگریز چاہتے کیا ہیں. ...خیر کهانے کے لیے کچھ نہیں تها مگر وہ چائے تو بنا ہی سکتی تهی ناں ...چینی تو وہ سکینڈز میں پا چکی تهی لیکن اب پتی کی تلاش تهی ...اس لڑکی نے بتایا یہاں ایک افریقن لڑکا بھی ہوتا ہے پتا نہیں وہ انسان تها یہ جانور ہر چیز ادهر ادهر بکهری پڑی تهیں...پورے کچن کی بینڈ بجی ہوئی تھی . دو چار گالیاں اسے نوازنے کے بعد وہ پھر سے پتی کی تلاش میں لگ گئی....مگر اس وقت پتی اور عید کے چاند میں کوئی فرق نظر نہیں آ رہا تها. .چلو میری قسمت بنا پتی والی چائے ہی بنا لیتی ہوں .جب وہ کافی دیر تک ڈهونڈنے میں ناکام نظر آئی تبهی کندهے اچکا کر بولی..سردی کا زور بڑهتا جا رہا تها اس نے سیاہ شیشے والے شال کو اپنے گرد اچهی طرح لپیٹ لیا اور ایک برتن میں پانی ڈال کر چولہے پہ رکھ دیا. ...
اس کے بعد وہ مشن ماچس سرچ میں لگ گئی..اسے تلاشنا بھی اتنا ہی مشکل تها جتنا پتی کو..مگر وہ ایک ضروری ایٹم تها ہونا تو چاہیے تها. .اس لیے اس نے امید نہیں چهوڑی اور سٹول کے ذریعے اوپر نیچے ہو کر اس نے ایک ایک خانہ دیکھ لیا نہ ماچس ملا اور نہ ہی اسے ملنا تھا. .اسے پہلی بار اپنے آپ پر ترس آیا..یہ خواہشات انسان کو کہاں سے کہاں لے آتی ہیں یہی تو انسان کو زندگی سے موت تک کا سفر بهلا دیتی ہیں. ..اس کی خوش قسمتی تھی یا خدا کو اس پہ ترس آ گیا جب اس کی نظر چولہے پہ رکهے پستول پر پڑی..پہلے وہ چونکی پهر بدک کر پیچھے ہٹی اور پھر ذہن کو استعمال کرتے ہوئے اسے یاد آیا یہ پستول نما ماچس پاکستان میں بھی ہوتے ہیں. ..لیکن اس کا شیپ بالکل اصل پستول جیسا تها اس لیے وہ ڈر رہی تهی کہیں اصلی پستول ہی نہ ہو....وہ اسے ہاتھ میں اٹها کر دیکهنے لگی تهوڑا بهاری محسوس ہوا اس کے شک کو تقویت ملی.....
ہاتھ میں لینے کے باوجود بھی وہ ٹریگر دبانے سے ڈر رہی تهی. .پهر اس نے کچھ یوں کیا کانوں میں بهر بهر کے روئی ٹهوس لی اور پستول کا رخ آسمان کی طرف کیا...ٹریگر دبانے سے پہلے وہ بسم اللہ پڑهنا نہیں بهولی ...نہ کوئی دھماکہ ہوا نہ کوئی گولی چلی بس ہلکا سا آواز پیدا ہوا اسے تهوڑا حوصلہ ملا...یہ عمل تین چار بار کرنے کے بعد جب وہ مکمل طور پر یہ جاننے میں کامیاب ہوئی کہ وہ کوئی پستول نہیں ہے تو اس نے اس کا رخ چولہے کی طرف کیا...اور ٹریگر دبانے کے لیے انگلی اس پہ رکها ...وہ پاگل لڑکی یہ بهول چکی تهی اس نے بیس منٹس پہلے گیس آن کیا تها اب ماچس جلانے کی صورت میں آگ بهڑک سکتا ہے. ...
اس نے جهک کر ٹریگر دبایا اور وہی ہوا جو ہونا چاہیے تھا ..ایک بہت بڑا شعلہ اوپر کو اٹها اور تیزی سے اس کی شال کو اپنی لپیٹ میں لے لیا....
وہ زور دار چیخ مار کر پیچھے ہٹی شال ابهی بهی اس کے کندھوں پر تها جس پہ آگ بهڑک رہی تهی. ..چیخ پر چیخ مارتی اس نے شال کو اتار کر دور پهینکا وہ احمق اتنا نہ دیکھ سکی شال بجلی کی تار پر جا گرا جس سے تهوڑی دیر بعد شارٹ سرکٹ ہو کر پورے ہوسٹل کو آگ لگ سکتا تها. .....اور اسے اپنی حماقت کا احساس تب ہوا جب یہ سب ہو چکا تها...شال کے ذریعے آگ تار تک پہنچ گئی اور پھر آہستہ دوسرے تاروں تک....
وہ بے یقینی سے کهڑی دیکھ رہی تھی. ..
" کیا یہ سب سچ میں ہو رہا تها. ." ..اور اسے یہ یقین تب آیا جب پورے کچن میں چاروں طرف آگ پهیل چکی تهی یہاں تک باہر جانے والا راستہ بھی بند نظر آ رہا تها. ...پورے کمرے میں دهواں پهیل گیا اور وہ حواس باختہ ہو کر ادهر ادهر دیکھ رہی تھی. ..دهواں ناک سے اندر داخل ہو کر سانس لینے کا راستہ بند کر رہے تهے وہ ڈری سہمی کهڑی سب دیکھ رہی تھی. .......
" بچاو .....بچاو کوئی ہے."....وہ حلق کے بل چلائی پهر اسے یاد آیا وہ انگریزی ملک میں ہے...
"ہیلپ می..."...وہ پوری شدت سے چلا رہی تھی موت کو بالکل پاس ہی کهڑی وہ دیکھ رہی تھی بالکل قریب. ..اس کا دم گهٹ رہا تها...اور آگ کو دیکھ کر اسے وحشت ہونے لگی آگ سے وہ ہمیشہ سے ڈرتی تهی کیونکہ آگ سب کچھ جلا کر راکھ کر دیتا ہے..جس طرح وہ راکھ بن جاتی کچھ پلوں میں کچھ لمحوں میں وہ اس آگ لے سمندر میں غائب ہو جاتی...اور پھر.....
ڈر اور گهٹن اتنا زیادہ تها کہ وہ غش کها کر وہیں گر پڑی. .اس کی آنکھیں بند ہو رہیں تهیں..لا شعور کی دنیا میں جانے سے پہلے اس نے کچھ آوازیں سنی کچھ شور سنا اور کچھ محسوس کیا.....پهر وہ بے ہوش ہو گئی. ....
رات کے وقت وہ سر جهکائے پرنسپل آفس میں بیٹهی تهی. ..اس کی آنکھوں میں ندامت کی لکیر واضح نظر آ رہی تهی.ادهیڑ عمر پرنسپل نے عینک کے اوپر سے گهور کر اسے دیکها........
" ہمیں آپ سے اتنی حماقت کی توقع نہیں تهی...".
وہ انگریزی میں بولے تهے. ...اس کا سر مزید جهک گیا...
" اگر آپ کی شال کو آگ نے پکڑ بھی لیا تو آپ اسے فرش پر پهینک کر کسی بڑے نقصان سے بچ سکتی تهیں...اس بے وقوفی کا نتیجہ معلوم ہے آپ کو. .آپ مر سکتی تهیں آپ کی جان بهی جا سکتی تهی شکر ادا کریں اس لڑکے کا جس نے اپنی جان بچا کر آپ کی جان بچائی ....."
اس نے معذرت خواہ انداز میں سر اٹھا کر پرنسپل کو دیکها ...
" آئم سوری سر آئندہ ایسا نہیں ہوگا...."..وہ واحد جملہ جب سب ٹهیک کر سکتا تها...آفس سے نکل کر وہ باہر آئی...آنسو تهمنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے وہ پہلے دن ہی اپنا امیج خراب کر چکی تهی سب کی نظروں میں آ چکی تھی. ..لوگوں کا یہ خیال پاکستانی بے وقوف ہوتے ہیں سہی ثابت کر چکی تهی. ..وہ تو اپنے آپ سے نگاہیں ملانے کے قابل بھی نہیں رہی تھی ....
" اگر وہ جل جاتی تو.."..؟
اور وہ لڑکا....؟ وہ کون تها جس نے اپنی جان پر کھیل کر اس کی جان بچائی. .اس اجنبی ملک میں اجنبی لوگوں میں اس کا ہمدرد کون تها جو اپنی جان کی پرواہ کیے بنا اس کے لیے آگ میں کود گیا........
وہ تو یہاں اس ملک میں کسی کو نہیں جانتی تھی. .پهر. ..؟وہ جب بے ہوش تهی اور کچھ سٹوڈنٹس اس کے ارد گرد کهڑے تهے سبهی اس لڑکے کی تعریفیں کر رہے تھے اس وقت اس نے توجہ نہیں دی مگر اب..جب وہ سوچ رہی تهی تو کچھ سمجھ نہیں پا رہی تهی. ...
" چلو جو بھی تها اللہ اسے خوش رکهے."...وہ اسے صرف دعا ہی دے سکتی تهی جو وہ دے رہی تهی..لیکن اپنی بے وقوف پر اسے رہ رہ کر غصہ آ رہا تها. ..وہ کمرے میں آ کر بهی کافی دیر تک روتی رہی. .رات کا اندهیرا پهیل چکا تها کهڑکی کهول کر وہ چاند کو دیکهنے لگی.وہ ہمیشہ کی طرح ستاروں کی جهرمٹ میں سر تانے ہوئے تها مگر جانے کیوں اسے آج چاند بهی اداس لگا...کافی دیر وہ وہیں بیٹهی رہی .لندن کا شہر اندهیرے میں ڈوبا ہوا تها....اور یہی اندهیرا اس وقت وہ اپنے اندر محسوس کرنے لگی تھی. .....بڑے وقت کے بعد وہ خود کو نارمل کرنے میں کامیاب ہوئی....
کتنا مختصر وقفہ تها زندگی کا ..زیادہ وقت تو نہیں لگا اسے وہاں سے یہاں آنے میں. .کل صبح اس نے گهر پہ اپنی آنکھ کهولی تهی جبکہ آج اس اجنبی ملک اجنبی شہر اجنبی کمرے میں. ....بس کچھ لمحے. ..پاکستان اب اس کے لیے صرف ایک یاد تها....
سرد ہوائیں اندر داخل ہونے لگیں اس نے کهڑکی بند کر کے آخری بار چاند کو دیکھ کر ناک منہ چڑایا.....
آ گئے ناں تم میرے پیچھے پیچھے لندن.....چاند مسکرا دیا. ..اس نے دروازہ بند کر دیے. .پیچھے مڑتے ہی اسے یاد آیا یہ کمرہ اکیلا اس کا نہیں ہے. . اور یہ سوچ سوچ کر اسے وحشت ہونے لگی جانے وہ کون ہوگا...کیسا ہوگا....
ایک تو آج پہلے ہی دن اتنا بڑا مسئلہ کهڑا کر چکی تهی اور اوپر سے اس لڑکے کی وجہ سے کافی پریشان تهی.اس نے سوچا یہی تها رات کو پرنسپل سے بات کر کے اپنا کمرہ بدلوا دے گی یا اس کا لیکن قسقسمت نے اس کے لیے کچھ اور ہی سوچ رکها تها اس کی سوچ سے الگ ..رات دس بجے تک وہ نیند کو دور بھگاتی رہی پهر جب وہ اپنی کوشش میں ناکام ہوئی تو اس نے جا کر دروازہ اندر سے اچهی طرح بند کر دیا. .اور بیڈ پہ سونے کے لیے لیٹی اب اسے کچھ بھی اچها نہیں لگ رہا تها. ..اچانک ہر شے سے دل اچاٹ ہو گیا. ..
وہ کروٹ بدل کر نیند کو بلانے کی ناکام کوشش کر رہی تهی...وہ صبح سے بهوکی ہے یہ بات بھی وہ بهول گئی کیونکہ اس کے پاس سوچنے کے لیے بہت کچھ تها....جن میں سر فہرست یہ روم شئیرنگ والا
مسئلہ تها... ............
سارے مسائل حل ہو جاتے سب ٹهیک ہو جاتا..اگر بیچ میں یہ آگ والا سین نہ آیا ہوتا..مگر اب کیا ہو سکتا تها یہ تو اچھی بات تهی اسے کوئی نقصان نہیں ہوا ...اگر اسے کچھ ہو جاتا تو....؟
" لندن تم میرے خوابوں کے شہر ہو پلیز مجھ سے میرا کچھ مت چهیننا......".اس نے آنکهیں میچ کر سچے دل سے دعا کی......
اگلی صبح اس کی آنکھ دیر سے کهلی دیر سے سوئی تهی تو دیر سے ہی اسے جاگنا تها...واش روم میں منہ ہاتھ دهونے کے بعد وہ آئینے کے سامنے بال بنانے لگی وہ ابهی تک کل والے سیاہ فراک میں ملبوس تهی اور فی الحال اسے چینج کرنے کا اس کا ارادہ تها بھی نہیں. ...
[ دسمبر لوٹ آنا تم تحریر ناصر حسین مکمل ناول گوگل پر بھی دستیاب ہے ]
آج اس نے ناشتے کا انتظار نہیں کیا..یہ پاکستان نہیں تها اور نہ ہی مما یہاں موجود تهیں جو صبح صبح ہی اس کے لیے کمرے میں ناشتہ لاتیں...اب اس کا پیٹ بال خالی تهی بهوک کی وجہ سے دل بیٹها جا رہا تها چوبیس گھنٹے سے پانی کے سوا کچھ پیٹ میں نہیں گیا خود سے بنانے کے بارے میں وہ سوچ بھی نہیں سکتی تهی. ..جو ہوا تها اس کے بعد شرمندگی کے ساتھ ساتھ وہ ڈر بھی رہی تهی. ....
لیکن بهوک بهی برداشت سے باہر ہوتی جا رہی تهی. .

کینٹین سے ہی کچھ کها لوں گی....یہی سوچ کر وہ کمرے سے باہر نکل آئی....اس کے ساتھ رہنے والا افریقن لڑکا رات کو نہیں آیا..اور کیوں نہیں آیا یہ اسے نہیں معلوم تها اس نے فقط اس کے نہ آنے پہ اللہ کا شکر ادا کیا.....ہو سکتا ہے وہ آیا ہو اور دروازہ کھٹکھٹاتا رہا ہو مگر وہ گہری نیند میں تهی....
لیکن وہ اس کے بارے میں نہیں سوچنا چاہتی انفیکٹ اس وقت تو وہ کهانے کے علاوہ کچھ اور سوچ بھی نہیں سکتی تهی. ..خوبصورت سی سنگ مرمر کی سیڑهیاں جو شیشے کی طرح چمک رہی تهیں جن میں اسے اپنا عکس بھی نظر آرہا تها عبور کرتی وہ نیچے لان کی طرف آئی....اس وقت سٹوڈنٹس کا ایک سمندر وہاں کهڑا تها کسی میلے کا سماں پیش کر رہا تها وہ یونیورسٹی. ....
ان سٹوڈنٹس میں تقریباً سبهی سفید فام ہی تهے مگر بیچ بیچ میں کچھ سیاہ فام بھی گهومتے نظر آ رہے تهے ..ایسے جیسے بهیڑوں کی منڈی میں کچھ سیاہ بهیڑ بھی شامل ہوں..سبهی جینز اور ٹی شرٹس میں تهے کسی نے چهوٹے سکرٹس پہنے ہوئے تھے ان سب سے عجیب وہی تهی جو پورے کپڑوں میں ملبوس تهی اور گلے میں دوپٹہ ڈالے ہوئے کهڑی تهی. ...جس طرح پاکستان میں کوئی انگریز آ جاتا تو اسے سبهی پاکستانی آنکهیں نکال کر دیکهتے کیوں کہ وہ سب سے عجیب لگ رہا ہوتا آج وہ بھی بالکل ایسے ہی عجیب لگ رہی تهی لیکن یہاں کے لوگ بہت مصروف تهے ان کے پاس اتنا وقت نہیں تها جو گردن اٹها کر اس منفرد لڑکی کو دیکهتے.....
..اف وہ تو انسانوں کے اس ریلے میں گم ہی ہو جاتی پهر اپنے آپ کو ڈهونڈنا بھی مشکل تها...ہزاروں سٹوڈنٹس میں سے کون اسے جانتا تھا کسے کیا معلوم وہ کون تهی........
[ دسمبر لوٹ آنا تم تحریر ناصر حسین مکمل ناول گوگل پر بھی دستیاب ہے ]
وہ گهاس پر چلتی ہوئی کینٹین کی طرف جانے لگی___ لیکن اسے کیا معلوم کینٹین کہاں ہے لنڈن کے اتنے بڑے یونیورسٹی میں کینٹین کو ڈهونڈنا آسان تها کیا_______؟
یہی سوچ کر وہ ایک سرخ بالوں والی لڑکی کے پاس آئی جس کی آنکھیں چائنیز کی طرح چهوٹی چهوٹی تهیں_____وہ ہاتهوں میں کوئی کتاب لیے مصروف نظر آ رہی تهی_______
Excuse me Can you tell me about Canteen....?
( کیا آپ مجهے کینٹین کے بارے میں بتا سکتی ہیں )
اس لڑکی نے سرسری سا سر اٹها کر اسے دیکها____نہ وہ برف بنی اور نہ ہی اسے گهورنے کهڑی ہو گئی_____
سوری آئم بزی_____
اس نے معذرت کرتے ہوئے انکار کر دیا____حد ہے ایسی بھی کیا بے مروتی _____دور سے آئی مہمان کو کوئی یوں اتنی رکھائی سے جواب دیتا ہے کیا_____؟
اٹس اوکے_____
وہ یہی کہہ سکتی تهی اب جنگ تو کرنے سے رہی_____اسے بهر پور غصے سے دیکهنے کے بعد وہ آگے چل کر ایک اور لڑکے کے پاس آئی اور اپنا مدعا پیش کیا_____
بزی ڈارلنگ _____
ڈارلنگ____؟ اگر پاکستان ہوتا تو وہ کہتی گهر میں ماں بہن نہیں ہے کیا لیکن ان کم بختوں کو اب کیا کہنا____یہاں جسے دیکھو بزی ہے____
بزی ____بزی____بزی_____وہ جنجھلاہٹ کا شکار ہونے لگی کیا بزی کون سا جہاز اڑاتے ہیں یہ_____اس پر بهر پور لعنت بهیجنے کے بعد وہ آگے بڑهی اور گهاس پہ بیٹهی ایک لڑکی سے وہی پوچهنے لگی جو اب تک پوچهتی آ رہی تهی_______
اس نے محض اشارہ کر کے کینٹین کے بارے میں بتانے کی کوشش کی اور اشارہ بھی ایسا کیا کہ آیت کی سات نسلوں کو سمجھ نہیں آ پاتا______اس نے جب اسے ساتھ چلنے کے لئے کہا تو اس نے یہ کہہ کر منع کیا______
آئم بزی_____اور اس کا دل چاہا یونیورسٹی کی عمارت اٹها کر اس کے سر پہ دے مارے____
انگریز اتنے بد اخلاق بهی ہو سکتے ہیں اس نے ایک پل بھی نہیں سوچا______اس لڑکی پہ اپنا غصہ اس نے کچھ یوں اتارا ____
اٹس اوکے____یو آر اے گدها____
اس نے دانت چبا کر کہا _______
اردو اس کے باپ کو بھی سمجھ نہیں آنی تهی_____؟
" گادا_____؟ " اس لڑکی نے سوالیہ انداز میں وہ لفظ دہرایا______
گدها مین سویٹ گرل_____اس نے فوراً غلط تصیح کی جس پہ وہ ایسے مسکرا دی جیسے دنیا بھر کی اچھائی اس پہ آ کے ختم ہوتی ہو_____
Thanks You Are Also A Ghadha ____
-- ہونہہ--- وہ پیر پٹختی وہاں سے دور نکل آئی____یہ کیسی یونیورسٹی تهی جہاں کوئی کسی کی مدد ہی نہیں کرتا. ..سبهی مصروف ہیں حد ہے ویسے____اتنے بد اخلاق انگریز_____اللہ معافی دے ان گوروں سے______
وہ اب کسی سے پوچهنا نہیں چاہ رہی تھی خود اپنی مدد آپ کے تحت وہ کیٹین ڈهونڈنا چاہ رہی تھی مگر بیس منٹ خوار ہونے کے بعد اسے اندازہ ہو گیا تھا یہ سب اتنا بھی آسان نہیں____پیٹ میں چوہے نہیں ہرنی دوڑ رہے تهے ____سپنوں کے شہر میں یہ کیا ہو رہا تها اس کے ساتھ______
سفید اینٹوں والے راستے پہ وہ چلتی جا رہی تهی جن کے آس پاس خوبصورت پهول والے گملے لگے ہوئے تھے ایک بار اس کا دل چاہا کوئی پهول توڑ لے مگر اس کے بدلے اس کی ٹانگیں توڑ دی جاتیں______
اچانک سامنے درخت کے پاس اسے ایک اور انگریز لڑکا دکهائی دیا وہ اکیلا تها اور مصروف بھی نہیں تها____ایک بازو درخت پر ٹکائے وہ دوسری طرف دیکھ رہا تھا سیاہ شرٹ اور سیاہ لیدر کی جیکٹ اس نے پہن رکهی تهی_____وہ کافی دراز قد تها______
وہ اس کے پاس آئی_____
[ دسمبر لوٹ آنا تم تحریر ناصر حسین ]
ایکسکیوزمی _____
وہ لڑکا چونک کر پلٹا اور اسے دیکھ کر وہ واحد لڑکا تھا جو حیران نظر آ رہا تها______
اس کے بال اتنے بڑے نہیں تهے. .وہ کلین شیو کرتا تها مگر اس وقت چہرے پہ تهوڑی داڑھی نظر آ رہی تهی آنکهیں بهی اس کی تهوڑی مختلف تهیں____اس نے ہاتھ پہ ایک خوبصورت بلیک گهڑی باندھ رکهی تهی آستین فولڈ کر رکهے تهے اس نے ___ گڈ لکنگ تها چہرے سے ہی وہ کافی سنجیدہ اور روکهے مزاج کا لگ رہا تها______
یس____وہ مدهم آواز میں بولا...اور وہ اس کے نقوش کا جائزہ لے کر فارغ ہو چکی تهی______
Can you tell me about Canteen....?
( کیا آپ مجهے کینٹین کے بارے میں بتا سکتے ہیں )
اس سوال پہ وہ رٹا لگا چکی تهی اس شخص نے تیکھی نظروں سے اسے دیکها______
سوری آئی ڈونٹ نو_____
اس نے اتنے ہی روکهے پن سے جواب دیا جتنا روکها اس کا چہرہ تها____اب کی بار اس کا غصہ آسمان کو چهو چکا تها______
( بد اخلاقی بے مروتی تو کوئی ان انگریزوں سے سیکهے ..کسی کی مدد کرنا تو گناہ سمجهتے ہیں..)
اچها بهاڑ میں جاو____وہ اردو میں کہتے ہی پیر پٹخ کر پلٹی____اسے یقین تھا اردو اسے تو کیا اس کے باپ کو بھی سمجھ نہیں آئے گی______
کیا کہا آپ نے _____؟ آواز پیچھے سے ہی آئی___ اور سامنے والا منظر تحلیل ہو گیا___ تیز تیز چلتے اچانک اس کے قدموں کو بریک لگ گئی____ وہ مگر مچھ کی طرح منہ کهولے ایڑی کے بل گهومی____ایک سکینڈ کے لیے بھی اس نے نہیں سوچا تھا سامنے کهڑا شخص پاکستانی ہو سکتا ہے____اور اب جب اسے معلوم ہوا تو گهڑوں پانی کو نہیں پورے سمندر کو اپنے اوپر محسوس کر رہی تهی____
اس نے زبان دانتوں تلے دبا کر خجالت سے اس شخص کو دیکھا______
وہ کینٹین ڈهونڈ رہی تهی____
سفید اینٹوں والے راستے پہ وہ چلتی جا رہی تهی جن کے آس پاس خوبصورت پهول والے گملے لگے ہوئے تھے ایک بار اس کا دل چاہا کوئی پهول توڑ لے مگر اس کے بدلے اس کی ٹانگیں توڑ دی جاتیں.....
اچانک سامنے درخت کے پاس اسے ایک لڑکا دکهائی دیا وہ اکیلا تها اور مصروف بھی نہیں تها..ایک بازو درخت پر ٹکائے وہ دوسری طرف دیکھ رہا تھا سیاہ شرٹ اور سیاہ لیدر کی جیکٹ اس نے پہن رکهی تهی...وہ کافی دراز قد تها .. ...
وہ اس کے پاس آئی.......
"ایکسکیوزمی. ."..وہ لڑکا چونک کر پلٹا اور اسے دیکھ کر وہ واحد لڑکا تھا جو حیران نظر آ رہا تها. ..
اس کے بال اتنے بڑے نہیں تهے. .وہ کلین شیو کرتا تها مگر اس وقت چہرے پہ تهوڑی داڑھی نظر آ رہی تهی آنکهیں بهی اس کی تهوڑی مختلف تهیں...اس نے ہاتھ پہ ایک خوبصورت بلیک گهڑی باندھ رکهی تهی ..آستین فولڈ کر رکهے تهے اس نے . گڈ لکنگ تها ..چہرے سے ہی وہ کافی سنجیدہ اور روکهے مزاج کا لگ رہا تها. ........
یس.......وہ مدهم آواز میں بولا...اور وہ اس کے نقوش کا جائزہ لے کر فارغ ہو چکی تهی. .....
" Can you tell me about Canteen....?"

( کیا آپ مجهے کینٹین کے بارے میں بتا سکتے ہیں )
اس سوال پہ وہ رٹا لگا چکی تهی اس شخص نے تیکھی نظروں سے اسے دیکها......
"سوری آئی ڈونٹ نو...."..اس نے اتنے ہی روکهے پن سے جواب دیا جتنا روکها اس کا چہرہ تها.....اب کی بار اس کا غصہ آسمان کو چهو چکا تها. ...
( بد اخلاقی بے مروتی تو کوئی ان انگریزوں سے سیکهے ..کسی کی مدد کرنا تو گناہ سمجهتے ہیں..)
"اچها بهاڑ میں جاو...."..وہ اردو میں کہتے ہی پیر پٹخ کر پلٹی......
"کیا کہا آپ نے ...."؟ اور سامنے والا منظر تحلیل ہو گیا وہ مگر مچھ کی طرح منہ کهولے ایڑی کے بل گهومی. ..ایک سکینڈ کے لیے بھی اس نے نہیں سوچا تھا سامنے کهڑا شخص پاکستانی ہو سکتا ہے. ...اور اب جب اسے معلوم ہوا تو گهڑوں پانی کو نہیں پورے سمندر کو اپنے اوپر محسوس کر رہی تهی. .......
کسی نے ﺍﯾﻠﺰﺑﺘﮫ کی ٹاور اس کے اوپر گرا دی ہو....وہ شخص خفگی سے اسے گهورتا ہوا جانے کے لیے مڑا...اور وہ وہیں جم گئی...افسوس اور شرمندگی اپنی جگہ لیکن انگلینڈ جیسے ملک میں اپنے کسی پاکستانی کو دیکھ کر محسوس ہونے والی خوشی اپنی جگہ تهی...اس اجنبی ملک میں کوئی سایا دار شجر اس کے ہاتھ آیا تو وہ اسے یوں کیسے جانے دے سکتی تهی. .وہ بهاگتی ہوئی اس کے پیچھے گئی اور اس کے برابر چلنے کی ناکام کوشش کرنے لگی. ..وہ آگے دیکهتا ہوا بڑی سنجیدگی سے چلتا جا رہا تها. ..
"سنیں..سنیں...سنیں ....سنیں .....پلیز. ....".
اس نے حواس باختہ سی ہو کر اسے آواز مگر وہ رکا نہیں. ....
"آپ پاکستانی ہیں...؟"اس کی سنجیدگی کے باوجود وہ خود کو بات کرنے سے روک نہیں پا رہی تهی. ...
"نہیں. ."..ایک لفظی جواب دیا گیا اسے تھوڑا حوصلہ ملا...
"تو آپ کو اردو کیسے آتی ہے. "...؟ یہ کوئی احمقانہ سوال تها جس سے سامنے والے شخص نے اسے گهورنا مناسب سمجها مگر رکنے کا وقت نہیں تها اس کے پاس شاید. ...
"کیوں اردو صرف پاکستانیوں کو ہی آتی ہے.' ...؟ چہرہ بے تاثر تها.......
"تو آپ کہاں سے ہیں...".؟ وہ اس کے برابر چلنے کی کوشش کر رہی تهی. .اور اس کوشش میں وہ کافی تهک گئی. .....
"انڈیا.....". وہی ایک لفظی جواب.....
"کیا آپ مسلمان ہیں. ..."؟ وہ سوالات کا سلسلہ ختم نہیں کرنا چاہتی تهی خواہ مخواہ ہی گفتگو کو طول دیے جا رہی تهی. ...
"الحمدللہ." .....
"یہاں کیا کر رہے ہیں. "..؟ پهر سے بے تکا سوال...وہ اتنی خوش تهی کہ اس کے منہ سے بے ربط جملے نکل رہے تھے. .....
"جو آپ کرنے آئی ہیں. .".؟ وہ یقیناً اس احمق لڑکی کے سوالوں سے زچ ہو چکا تها.......
" آپ اتنا تیز تیز کیوں چل رہے ہیں میں تهک گئی ہوں".
؟ وہ واقعی تهک چکی تهی ..سامنے والے نے پهر سے مخاطب کو گهور کر دیکها. .جیسے وہ یہاں چہل قدمی کے لیے آئے ہوں. ..اس نے کوئی جواب نہیں دیا. ...
"یہ لندن والے اتنے بد اخلاق کیوں ہوتے ہیں. ..".؟ ایک اور سوال پوچها گیا....
"مصروف ہوتے ہیں. .".اس نے تصیح کی. ..
"اچها یہ کینٹین کہاں ہے."؟..اصل سوال اس نے سب سے آخر میں پوچها. ....
"اسی یونیورسٹی میں...".....اس کا مزاج کافی روکها تها....لیکن وہ اس کے انداز پہ کہاں غور کر رہی تهی.
زیادہ دور ہے کیا. ...؟
"پتا نہیں. ...".
"وہاں سے کچھ کهانے کے لیے تو مل جائے گا ناں. "..؟. .اس کا بهوک کے مارے برا حال تها......
" ظاہر ہے... کینٹین کا مطلب کیا ہے. ."؟ وہ عاجز نظر آ رہا تها. ....
"وہاں بسکٹ وغیرہ تو ہوں گے .."...؟
" شاید. ...'.وہ اس کی طرف دیکهے بغیر جواب دیتا جا رہا تها. ...
" اور اگر کینٹین بند ہوا تو.."..؟ اسے تشویش ہوئی. ..
" تو میں کیا کر سکتا ہوں.."..جانے وہ اور کتنے سوال پوچهنے والی تهی......
اس نے آسمان کی طرف دیکھ کر دعا کی. .اگر آج کینٹین بند ہوا تو وہ ضرور مر جائے گی. ...
"آپ پلیز مجهے کینٹین کا پتا بتائیں." ...دو منٹ خاموشی کے بعد اس نے ایک بار پھر بات شروع کی. ..."ہم اسی طرف جا رہے ہیں. "...اس نے چبا چبا کر الفاظ ادا کیے. ..
"کس طرف. .".وہ بے دھیانی سے بولی. ..جبکہ اس کا چہرہ سرخ پڑ گیا. .اور وہ اس گفتگو میں پہلی بار رک کر اس لڑکی کی طرف دیکهنے لگا...جو کافی گھبرائی ہوئی سی معلوم ہو رہی تهی. .....
" کینٹین کی طرف. '". .اب آپ نے کوئی سوال نہیں کرنا...آئی بات سمجھ میں. "....وہ زرا اونچی آواز میں بولا اور آیت نے خاموشی میں ہی بهلائی جانی....اور چپ چاپ اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگی.... حالانکہ وہ اس سے کئی اور سوالات پوچهنا چاہ رہی تھی مگر وہ بھی شاید انگریزوں کے ساتھ رہ رہ کر ان کے جیسا بد اخلاق ہو گیا....دو منٹ بعد وہ رک گیا اسے بھی رکنا پڑا. ....
"وہ ہے کینٹین. "...؟ اس نے انگلی کے ذریعے سامنے اشارہ کیا. ..جہاں کافی رش تھا بہت سارے لوگ تهے...وہ تو دیکھ کر ہی گهبرا گئی....
" اوکے تهینکس"........


0 Comments: