Headlines
Loading...
روشن صبح قسط نمبر2

روشن صبح قسط نمبر2





#قسط_نمبر_02

شاہ بانو نے ایک اچٹتی نگاہ اس پر ڈالی،اس نے انہیں دیکھ کر نظریں جھکالیں۔ تم کہاں تھے ساری رات؟ وہ اسکے سر پر ہاتھ پھیرتے ہو ئے بولیں۔
ساری رات دل بہلارہا تھا مام۔وہ وارڈروب کی طرف بڑھا اور پٹ کھولا۔
تمھارے کپڑے یہاں تم نے رکھے ہیں۔ زاویار وارڈروب سے اسکے کپڑے زمین کی طرف پھینکتے ہوئے بولا۔
اس نے سہم کر اسکی طرف دیکھا لیکن کچھ بول نہ پائ۔
زاویار اسکے کپڑے پیر سے اچھالتے ہوئے بولا۔ میں یہاں تمہیں برداشت کر رہا ہوں نہ یہی کافی ہے، اگر تمہاری ایک بھی چیز مجھے یہاں پر نظر آئ تو مجھ سے برا کوئ نہیں ہوگا۔ یہ کہہ کر وہ واشروم کی طرف بڑھ گیا۔
اس نے سر جھکا کر ساری باتیں سنیں اور اپنے کپڑے سمیٹنے لگی۔
تم اس کمرے سے باہر نہیں نکلوگی، تمہارا کھانا یہں آجایا کرے گا۔ وہ اس پر ایک تلخ نگاہ ڈال کر باہر نکل گئیں۔
اور وہ خاموشی سے اپنے کپڑے سمیٹتی رہی۔
_*_*_*
مام میں سوچ رہی تھی کہ پاپا نے حیات کو زبردستی اس گھر کی بہو بنادیا ہے اور میرے مقابل لا کھڑا کیا۔ سحرش(زاویار کی بھابھی) شاہ بانو کیساتھ کشادہ لان میں بیٹھی نیل پالش لگا رہی تھی۔اور کہاں وہ لڑکی ایک ہفتہ پہلے تک ہمارے گھر میں کھانا پکاتی تھی۔
ہاں تم ٹھیک کہہ رہی ہو، میں نے زاویار کی دلہن کے لئے کیا کچھ نہیں سوچا تھا لیکن پتا نہیں نادر شاہ کو اس میں کون سی بہووں والی خوبی نظر آئ تھی۔ شاہ بانو تلخی سے بولیں۔
مام! پاپا تو اسکی شادی کروا کر ہی انگلینڈ ٹور پر نکل گئے تو کیوں نہ ہم اسے نوکرانی بنادیں اور اس سے اتنا کام کروایں کے یہ خود ہی بھاگ جائے۔
سحرش مسکراکر بولی۔
کہہ تو تم ٹھیک رہی ہو۔ وہ بھی مسکرائیں، نجمہ••• وہ ملازمہ کو آواز دینے لگیئں۔ نجمہ دوڑی دوڑی آئ۔
حیات کو بلاو۔ وہ بولیں اور ملازمہ اسے بلانے چل دی۔
آپ نے مجھے بلایا۔ تھوڑی دیر میں حیات انکے پاس آکر ڈرتے ہوئے بولی۔
ہاں ، آج سے تم اس گھر کے سارے کام کروگی جیسے نجمہ کرتی ہے۔وہ اسکی طرف دیکھے بنا بولیں۔
جی! وہ آہستہ سے بولی۔ اچھا ہے کچھ کام ہی کرلوں تاکہ زاویار کی باتیں تو سننے کو نہیں ملیں گی۔ اسنے دل میں سوچا اور کچن کی طرف بڑھ گئ۔
_*_*_*

مبارک ہو یار! آفتاب کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولا۔
کس چیزکی؟ زاویار سگریٹ کا کش لیتے ہوئے بولا۔وہ اپنے دوستوں کیساتھ ایک کلب میں بٹھا ہوا تھا۔
ابے تیری شادی کی اور کس چیز کی۔ وہ بھی سگریٹ جلاتے ہوئے بولا۔
تجھے بہت خوشی ہورہی ہے۔زاویار نے اسے گھورا۔
تجھے تیرا پیار مل گیا تو میں تو خوش ہونگ ہی۔وہ مسکرایا۔
وہ میرا پیار نہیں ہے اور نہ ہی میں کبھی اس سے پیار کر سکتا ہوں۔ وہ اسے شہادت کی انگلی دکھاتے ہوئے غصے سے بولا۔
تو اس رات کیا ہوا تھا پھر۔ وہ پھر مسکراکر بولا۔
اس رات کی یاد مت دلا۔ اس نے غصے میں کہا۔ اس رات کا جب بھی سوچتا ہوں نہ تو میرا خون کھولنے لگتا ہے۔اگر مجھے پتا ہوتا ک ایک رات کی لالچ میں ساری زندگی اسے جھیلنا پڑے گا تو کبھی اسکے پاس جاتا ہی نہیں۔
ابے وہ اچھی ہے یار۔ایک دن تو اسسے اپنی مان ہی لےگا آفتاب اسے سمجھاتے ہوئے بولا۔
تو کرلے شادی اگر تجھے اتنی پسند ہے تو۔ زاویار نے گھورتے ہوئے کہا۔ اور وہ بس مسکرا کر رہ گیا۔

🌸🌸🌸🌸🌸
roshan subah full novel

0 Comments: