Headlines
Loading...
روشن صبح قسط نمبر6

روشن صبح قسط نمبر6





#قسط_نمبر_06

زاویار اپنے روم میں آیا.حیات اسکے روم کی ڈسٹنگ کر رہی تھی. وہ آج روزانہ سے زیادہ نکھری نکھری لگ رہی تھی. گیلے بالوں کی وجہ سے اسکے سر سے ڈوپٹا بار بار اتر رہا تھا. اسنے بلیک کلر کی فراک پہینی ہوئ تھی.جو اسکے پیروں تک آرہی تھی.
زاویار اسے بے خودی میں تکتا رہا.وہ اسکے پاس گیا اور اسکا ہاتھ تھام لیا.
وہ چونک گئ. یہ... یہ...کیا کر رہے ہیں آپ... وہ غصے میں بولی.
آج تم بہت خوبصورت لگ رہی ہو.وہ شوخ ہوا.
ہاتھ چھوڑیں میرا..وہ ہاتھ چھڑاتے ہوئے غصے میں بولی.پر اسنے بہت مضبوطی سے اسکا ہاتھ پکڑا ہوا تھا.
مجھے تم سے ملنا ہے اکیلے میں... آج رات کو..
اسنے حیرت سے دیکھا..نہیں مجھے نہیں ملنا ولنا اپ سے اور ہاتھ چھڑیں میرا.
کیوں نہیں ملنا..وہ سنجیدگی سے بولا.مجھےصرف ایک رات گزارنی ہے تمہارے ساتھ.
آپکو شرم نہیں آتی ایسی بات کرتے ہوئے..میری شادی ہونے والی ہے.وہ ہاتھ چھڑوانے کی کوششوں میں لگی ہوئ مگر چھڑوا نہیں پارہی تھی.
تو کیا ہوا..میں نے کونسا شادی کرنی ہے تم سے.. صرف ایک رات کا تو بول رہا ہوں...
آپ ہاتھ چھوڑیں میرا.اس بار اسکے لہجے میں بے بسی تھی. تب ہی دروازے پر دستک ہوئ.
پلیز چھوڑیں میرا ہاتھ.وہ روہانسی ہوئ.
زاویار دروازہ کھولو.شاہ بانو باہر سے بولیں.
کھول رہا ہوں..یہ کہہ کر ,اسکا ہاتھ چھوڑ کر وہ دروازے کی طرف بڑھا.
کتنی دیر لگادی تم نے دروازہ کھولنے میں..وہ اندر آئیں.تم یہاں کیا کر رہی ہو. انہوں نے حیات کو دیکھ کر سخت لہجے میں کہا.
میں ڈسٹنگ کر رہی تھی. وہ نظریں جھکا کر بولی اور باہر نکل گئ.
تم نے دروازا کیوں بند کیا ہوا تھا.انہوں نے عجیب لہجے میں کہا.
ایسے ہی.. وہ بیڈ پر دراز ہوتے ہوئے بولا.
آح کل تم کچھ زیادہ ہی حیات کے آگے پیچھے نہیں گھوم رہے.وہ اسکے پاس آکر بولیں اور وہ خاموش رہا.یاد دکھنا وہ اس گھر کی نوکرانی ہے,تمہاری کسی بھی الٹی سیدھی حرکت پے اس بار نادر تمیں معاف نہیں کریں گے.
اُف مام.... کیا ہوگیا ہے بھئ پتہ ہے مجھے. وہ چڑا.
بس یاد رکھنا. یہ کہہ کر وہ باہر نکل گیئں.
_¤_¤_¤
حیات کچن میں آئ اسکی ڈھڑکنیں عجیب ہورہی تھیں.اسنے پانی پیا اور اپنی ڈھرکنیں درست کیں.زاویار کو کیا ہو گیا ہے. وہ دل میں خود سے بولی.
حیات! شاہ بانو نے کچن میں آکر اسے پکارا. تم اس گھر کی نوکرانی ہو بھولنا مت. وہ سختی سے بولیں.ڈسٹنگ کے علاوہ تم وہاں کیا کر رہی تھیں مجھے سب پتا ہے.
انٹی ایسا کچھ نہیں ہے.وہ ڈرتے ہوئے بولی.
بس یاد رکھنا.غصے میں یہ کہہ کر وہ کچن سے باہر نکل گئیں.اور وہ بےبسی سے انہیں جاتا دیکھتی رہی.
_¤_¤_¤
شہریار تم کوئ اور کام نہیں کر سکتے.رات کا وقت تھا.وہ اور حیات اس وقت اپنے گھر کی چھت پر موجود تھے.وہ اسکی بات سمجھ گیا تھا کہ وہ کونسے کام کی بات کر رہی ہے.
کیوں یار.. اتنے اچھے لوگ تو ہیں ہمارا کتنا خیال رکھتے ہیں اور تم چا رہی ہو کہ یہ جاب چھوڑ دوں.اور تم سب کہ ساتھ روڈ پر آجاؤں. وہ غصے میں بولا.
میرا یہ مطلب نہیں ہے.اسنے نظریں جھکائیں.
تمہارا جو بھی مطلب ہے مجھے پرواہ نہیں. تم نے بھی وہیں کام کرنا ہیے اور میں نے بھی. وہ غصے میں یہ کہہ کر نیچے چلا گیا. اور وہ اسے جاتا دیکھتی رہی.
_¤_¤_¤
شہریار کی ایسی کتنی ہی غلطیاں تھیں جن کو وہ اسکے ماں باپ سے چھپاتی تھی. بچپن سے اسکی صحبت غلط لڑکوں میں تھی, وہ سارا دن آوارہ گردیاں کرتا, ایک دن عثمان صاحب نے اسکو گلی کے کچھ آوارہ لڑکوں کے ساتھ نشہ کرتے ہوۓ پکڑا تھا. اس دن سے اس پر سختیاں شروع کردی گئیں اور اسکو اپنے آفس کے باس(نادر شاہ) کے پاس ڈرائیور لگوادیا. وہ جاب کے بعد کافی حد تک سنبھل گیا تھا برئیاں جلد ہی کسی کا پیچھا نہیں چھوڑتیں, تھوڑے دنوں بعد اسنے پھر وہی سب شروع کردیا تھا اور اسکا علم حیات کو تھا وہ رات میں کافی دفعہ اسے ڈرنک کرکے گھر میں آتا دیکھ چکی تھی. لیکن اسکے ڈر کی وجہ سے نہ اسسے کچھ پوچھ سکی اور نہ کسی کوکچھ بتایا. پر وہ اسے دل سے چاہتی تھی اور ہر نماز میں اسکے سدھرنے کی دعا کرتی تھی.
___________________________
سب لوگ کہاں ہیں؟ زاویار نے گھر میں آتے ہی حیات سے پوچھا.
سب گئے ہوئے ہیں...آپ کھانا کھا لیجیئے گا فریج میں رکھا ہے. حیات یہ کہتے ہوئے آگے بڑھ گئی.
اور تم کہاں جارہی ہو.اسنے مڑ کر حیات سے پوچھا.
میں گھر جارہی ہوں..شہریار میرا ویٹ کررہے ہوں گے. وہ رک کر بولی.
وہ تو چلا گیا.
چلے گئے پر مجھے چھوڑ کر. اسنے حیرت سے کہا.
ہاں...تم آج رات یہی رکوگی اور کھانا لےکر میرے روم میں آؤ. یہ کہہ کر وہ اپنے کمرے میں جانے لگا جب ہی حیات بولی.. پر مجھے تو گھر جانا ہے.
یہ بھی گھر ہی ہے.اور جلدی کھانا لےکر آؤ. یہ بول کر وہ اوپر چلا گیا. اور وہ کچن کی طرف مڑگئ کھانا گرم کرنے کےلیے.
تھوڑی دیر میں حیات کھانا لے کر اوپر اسکے روم تک پہنچی اور ڈرتے ہوۓ دستک دی. زاویار نے دروازہ کھولا.
کھانا لےلیں. اسنے ٹرے آگے کی.
اندر لاکر رکھو اتنی بھی تمیز نہیں سکھائ کسی نے. اس نے طنزیہ کہا. حیات اسے حیرت سے دیکھتی ہوئ نظر جھکا کر اندر آگئ, اور ٹرے میز پر رکھ دی. وہ جانے کے لیے مڑی پر زاویار نے دروازہ بند کردیا.
یہ آپ دروازہ کیوں بند کررہے ہیں.؟ وہ ڈرتے ہوۓ بولی.
تمہیں شہریار نے کچھ نہیں بتایا. وی اسکے پاس آیا.
کیا نہیں بتایا. وہ پیچھے ہوئ.
میں نے اسے 10 لاکھ دیے ہیں, وہ جوۓ میں ہار گیا تھا.اسے ضرورت تھی میں نے اسے دے دیے اور اسسے تمہیں ایک رات کے لیے مانگ لیا.وہ بہت پریشان تھا تو اسنے آج رات کو تمہیں دے دیا اور 10 لاکھ لے لیے. وہ اسکے پاس آکر سکون سے بولا.
وہ پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھتی رہی, اسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا. آپ جھوٹ بول رہے ہیں. وہ میرا منگیتر ہے, ہماری شادی ہونے والی ہے, ہونے والی بیوی ہوں میں اسکی وہ ایسا کبھی نہیں کر سکتا. جھوٹ بول رہے ہیں آپ. وہ چینخی.
مجھے کیا ضرورت ہے جھوٹ بولنے کی, جب وہ تمہیں لینے آۓگا نہ تو خود اسسے پوچھ لینا.
37188170_2019752461428483_5113002443826790400_o.jpg?_nc_cat=102&_nc_eui2=AeFDlLPvr1VJI-Apl-brbKGwJ5TYU1sYwkih__6XDZYxQ880ryw5fSMAC4bvqHUCpo0XbtYTOUCNYAVAJeENRL86BLuD_rWPnJt4OHJG2F7XqA&_nc_oc=AQnShyWTYCFvHOK2ao2DjwgxCCNsfur_AKy2B7rx-yEjpdSMF39nfpnOGeXYf43gk7k&_nc_ht=scontent.fkhi5-1

0 Comments: