Headlines
Loading...
روشن صبح قسط نمبر12

روشن صبح قسط نمبر12





قسط نمبر# 12

تھوڑی دیر بعد وہ تیار ہوکر نیچے آئی. سحرش بھی اپنے روم سے نکل کر آئی. سحرش نے لانگ شرٹ اور ٹائیٹز پہن رکھا تھا. گلے میں ہلکا سا مفلر تھا, ہاتھ میں خوبصورت سا ہینڈ بیگ پکڑا ہوا تھا. اسکے بال, جن میں اسٹیپ کٹنگ کی ہوئی تھی, کھلے ہوئے تھے. آنکھوں پر خوبصورت سا سن گلاسس تھا آور خوبصورت سی نازک سی ہینڈل پہنی ہوئی تھی. وہ خوبصورت لگ رہی تھی. حیات نے روٹین کی طرح سر پر ڈوپٹہ اوڑھ رکھا تھا, پر وہ سادگی میں بھی غضب ڈھا رہی تھی. احرش اتنی اسٹائلش اور ماڈرن تھی, اسے اسکے ساتھ جاتے ہوئے بلکل اچھا نہی لگ رہا تھا.
مام, دادو ہم جارہے ہیں, آپ لوگ روحان کا خیال رکھیئے گا. وہ سن گلاسس بالوں میں ٹکاتے ہوئے بولی.
ہاں ہاں تم لوگ جاؤ اور آرام سے شاپنگ کرو کوئی مسئلہ نہیں ہے. جہاں آراء نے کہا.
اوکے تھینک یو.... چلو حیات زاویار ویٹ کررہا ہوگا. باتیں سناۓ گا. اگر تھوڑی دیر اور ہوئی تو. وہ آگے بڑھتے ہوئے بولی. اور اسکے پیچھے حیات بھی آگے بڑھ گئی.
زاویار گاڑی سے ٹیک لگاۓ کھڑا تھا انکا انتظار کررہا تھا. وہ بلیک بلیزر اور بلیک ہی جینس میں بہت ڈیشنگ لگ رہا تھا.
کیا ہے بھابھی! کب سے ویٹ کررہا ہوں. وہ بے زاری سے بولا.
کیا ہوگیا زاویار, کیا تیار بھی نہیں ہوتی. سحرش ناراض ہوئی.
ایک تو لڑکیوں کو مارکیٹ جانے کے لیے بھی تیار ہونا ہے, نخرے ہی ختم نہیں ہوتے انکے. اسنے سر جھٹکا.
لو بھی ابھی تو تمہاری بیوی نے شاپنگ کی بھی نہیں ہے تو تمہارا یہ حال ہے.
اچھا بھئی! اب چلیں. اسنے گاڑی کا دروازہ کھولا.
چلو حیات آگے بیٹھ جاؤ.
نہیں نہیں بھابھی,آپ بیٹھ جائیں میں پیچھے ہی ٹھیک ہوں. وہ پیچھے کا دروازہ کھولتے ہوئے بولی.
ارے کیا ہوگیا بیٹھ جاؤ. اسنے دوبارہ کہا.
ابھی وہ کچھ بولنے ہی لگی تھی کہ زاویار نے اسکی بات کاٹی.
وہ نہیں بیٹھےگی بھابھی میں جانتا ہوں اسے, آپ بیٹھ جائیں. وہ نظریں جھکا گئی. اور اندر بیٹھ گئی. اور سحرش آگے.
اسنے گاڑی اسٹارٹ کی اور آگے بڑھادی. اب انکی گاڑی ایک کشادہ روڈ پر ڈور رہی تھی.
زاویار کی نگاہیں فرنٹ مرر کے ذریعے حیات پر ٹکی ہوئی تھیں. وہ گاڑی سے باہر دیکھ رہی تھی.
تھوڑی دیر بعد انکی گاڑی ایک ہائی فائی مال کے آگے رکی. زاویار نے گاڑی پارک کی. وہ تینوں مال میں داخل ہوئے. مال کا مینیجر انکے پاس آیا. وہ زاویار سمیت پوری شاہ فیملی سے واقف تھا. وہ ان تینوں کو ساڑھی سیکشن میں لے آیا. جہاں نہایت خوبصورت ساڑھیاں تھیں. سحرش نے حیات کے لیے خوبصورت ساڑھیاں کھلوائیں. حیات کو شاپنگ کرنے میں جھجک محسوس ہورہی تھی. زاویار نے اسکے لیے ایک پرپل اور سلور کلر کی ساڑھی پسند کی, جس پر ستاروں کا خوبصورت کام ہوا تھا. سحرش نے لال کلر کی ساڑھی پسند کی. پھر وہ لوگ ریڈی میڈ کپڑوں کے سیکشن میں گئے.
حیات سوٹ پسند کرو. سحرش نے خوشدلی سے کہا.
نہیں بھابھی بس کافی ہے. وہ جھجکی.
بھابھی چھوڑیں اسے میں پسند کرتا ہوں اسکے لیے. زاویار نے مسکرا کر کہا. اسنے نظریں جھکالیں.
پھر اسنے حیات کے لیے پانچ خوبصورت سے سوٹ لیے. پھر ان لوگوں نے جیولری اور سینڈل لی. شاپنگ کرکے وہ لوگ گاڑی میں بیٹھے. کچھ دیر میں وہ فائیو اسٹار ہوٹل کے سامنے رکے. اندر گئے, اور کھانا آرڈر کیا. کھانا بہت مزیدار تھا. کھانا کھا کر وہ لوگ گاڑی میں بیٹھے.
آج کا دن میری زندگی کا سب سے حسین دن تھا. حیات دل میں بول کر مسکرائی. اور اسکی یہ مسکراہٹ زاویار نے دیکھ لی.
_¤_¤_¤
روحان کی برتھ ڈے کا دن بھی آگیا. شاہ ہاؤس حوبصورتی سے سجا ہوا کسی محل سے کم نہیں لگ رہا تھا.
زاویار بلیو پینٹ کوٹ اور وائیٹ شرٹ پہنا ہوا تھا, کوٹ کی پاکٹ میں سلور رومال سجا تھا. وہ بہت حسین لگ رہا تھا. وہ آئینے کے سامنے کھڑا اپنے بالوں میں برش پھیر رہا تھا.
زاویار سب کرو کتنا تیار ہوگے, سحرش اسکے روم.میں آکر بولی. اسنے لال کلر کی ساڑھی پہنی ہوئی تھی, جس پر پارلر سے میک اپ اور ہیر اسٹائیل بنوایا تھا. وہ خوبصورت لگ رہی تھی.
کیا ہوگیا بھابھی. صبح سے کام ہی کررہا تھا. ابھی آیا ہوں. وہ تپ گیا.
اچھا بھئی, اب نیچے چلو کوئی تمہارا ویٹ کررہا ہے. وہ مسکرائی.
کون؟ وہ نا سمجھی سے بولا.
سحرش نے اسکا ہاتھ پکڑا اور کھنچتے ہوئے نیچے لاؤنج میں لائی. جہاں سب موجود تھے. حیات نے وہی ساڑھی پہنی ہوئی تھی جو زاویار نے اسے دلائی تھی, پارلر سے میک اپ اور ہیر اسٹائیل بنا ہوا تھا. وہ کہیں کی شہزادی لگ رہی تھی.
تم تو بہت پیاری لگ رہی ہو آج. جہاں آراء نے اسے پیار کیا.
ہاں حیات آج میں فخر سے کہوں گی کہ یہ میری دوسری بہو ہے. شاہ بانو نے مسکراکر کہا.
حیات کتنی اچھی ہے مجھے آج پتہ چلا ہے پر انسان کی خوبصورتی کچھ نہیں ہوتی اسکا دل صاف ہونا چاہیے اور آج حیار نے مجھے یہ بات سمجھادی ہے. وہ دل میں بولا.
ڈیڈ بلارہے ہیں سب کو. صارم لاؤنج میں آیا. سب مہمان آنا شروع ہوگئے ہیں.
ہاں ہاں چلو جہاں آراء نے کہا اور سب باہر نکل گئے.
حیات جاہی رہی تھی تبھی زاویار نے اسکا ہاتھ تھام کر اسے روکا.
اسنے اسے دیکھ کر نظریں جھکالیں.
آج تم بہت خوبصورت لگ رہی ہو. وہ اس پر نظریں جما کر بولا. وہ شرما گئی.
آج تم میری وائف لگ رہی ہو. وہ مسکرایا.
چلیں سب ویٹ کررہے ہونگے.
اسنے ہاں میں سر ہلایا اور وہ دونوں باہر آگئے.
شاہ بانو اسے اپنے ساتھ لےگئیں, اور اسے سب سے ملوانے لگیں. وہ بہت خوش تھیں آج.
آنٹی میں آتی ہوں. اسنے عثمان اور ثریا کو آتے دیکھا توشاہ بانو سے بولی. وہ مسکرا کر سر ہلاگئیں.
وہ اٹھ کر انکے پاس آئی اور انکے گلے لگ گئ.
کیسی ہیں آنٹی آپ. اسنے ہٹتے ہوۓ پوچھا.
ہم ٹھیک ہیں, تم تو بہت پیاری لگ رہی ہو.
ہاں آج ہماری بیٹی بہت خوبصورت لگ رہی ہے. عثمان نے اسکے سر پر ہاتھ پھیرا. وہ مسکرادی.
کیسے ہیں انکل آپ؟ زاویار انکے پاس آکر بولا.
ہم ٹھیک ہیں. عثمان اور ثریا اسکے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولے.
ائیں بیٹھیں میں مام ڈیڈ کو بلاتا ہوں.
عثمان صاحب زاویار کے رویے پر حیرت میں تھے وہ کبھی انکی طرف دیکھتا نہیں تھا ان سے بات نہیں کرتا تھا لیکن وہ اتنا بدل گیا ہے اس بات کی گواہی حیات کی مسکراہٹ سے رہی تھی.
_¤_¤_¤
37188170_2019752461428483_5113002443826790400_o.jpg?_nc_cat=102&_nc_eui2=AeFDlLPvr1VJI-Apl-brbKGwJ5TYU1sYwkih__6XDZYxQ880ryw5fSMAC4bvqHUCpo0XbtYTOUCNYAVAJeENRL86BLuD_rWPnJt4OHJG2F7XqA&_nc_oc=AQnShyWTYCFvHOK2ao2DjwgxCCNsfur_AKy2B7rx-yEjpdSMF39nfpnOGeXYf43gk7k&_nc_ht=scontent.fkhi5-1

0 Comments: