Headlines
Loading...
مان کی مایا از قلم حورسحر قسط15آخری

مان کی مایا از قلم حورسحر قسط15آخری





قسط15آخری
اس نے سب سے پہلے احمد کو کال کیا
کال پک کرتے ہی ارمان نے کہا۔۔۔۔
احمد تم جلدی سے مجھے لینڈی لوتل لینے آجاٶ ۔۔۔۔
تم زندہ ہو احمد کو اپنے کانوں پہ یقین نہیں آرہا تھا۔۔۔
ہاں یار میں زندہ ہوں اور ٹھیک بھی ۔۔۔۔
بس تم مجھے لینے آجاٶ سب بتاتا ہوں پھر ۔۔۔۔
اچھا میں آرہا ہوں تم پورا ایڈرس سینڈ کردو مجھے ۔۔۔
میں ابھی ہی نکل رہا ہوں۔۔۔
اسنے کال کٹ کرتے پی ایڈرس بھیج دیا۔۔۔
جب کے احمد ابھی تک بے یقین تھا۔۔۔۔
احمد آر یو اوکے ۔۔۔
نعمان نے اسکی طرف دیکھ کے پوچھا۔۔۔۔
اور احمد نے اسے سب بتا دیا ۔۔۔نعمان بھی بے یقین سا تھا۔۔۔۔۔
احمد میں بھی چلتا ہوں تمہارے ساتھ ۔۔۔ اس گدھے کے کان کینچھنے ہیں ۔۔۔ نعمان نے اٹھتے ہوٸے کہا۔۔۔
احمد اسے منع کرنا چاہا ۔۔مگر وہ نہیں ماننا۔۔۔۔
اور اب وہ اسکے سامنے تھا۔۔۔
سر مجھے نہیں پتہ تھا ۔۔ارمغان نے سر جھکاتے ہوٸے کہا۔۔۔۔
جبکہ نعمان نے اسے گھوری نوازی ۔۔۔
اور پھر احمد نے اسے کےمرنے سے اب تک کے حالات گوشِ گزار کردٸیے۔۔۔
ابے کمینے ۔۔۔ تم نے پہچانا تک کے یہ میں ہوں یہ کوٸی اور ۔
اسنے احمد کو مکا مار کے کہا۔۔۔۔
تم اور راجیش ہی باہر نکلے تھے ۔۔
اور وہاں راجیش کے علاوہ دوسری لاش بھی تھی۔۔۔اور اسکے پاس تمارا بھیج بھی پڑا تھا۔۔۔۔
احمد نے دھیرے سے کہا۔۔۔۔
ہاں میں تھا ۔۔۔ مگر فاٸر کرتے وقت میں زرا لڑکھڑا گیا تھا اور نیچے کھاٸی میں جاگرا تھا۔۔۔
مگر دوسری لاش ۔۔۔۔
اس نے دماغ پہ زور دیتے کہا۔۔۔۔
ہاں دوسری لاش۔۔۔احمد نے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔۔۔
حسنین یاد آیا ۔۔۔ وہ آ رہا تھا میرے پیچھے ۔۔۔۔
اس نےسر اپنے دونوں ہاتھوں میں گرایا۔۔۔
احمد نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔۔۔۔
میں سمجھا تھا حسنین اندر ہی رہ گیا ۔۔۔اور یہ تم ہو۔۔۔۔
ارمان نے سر اٹھا کے اسے دیکھا۔۔۔۔۔
احمد نے نظریں چرا لٸے ۔۔۔۔
*******
ارمان مجھے لگتا ہے تمہیں گھر جانا چاہٸے اور ریسٹ کرو تا کے فٹ ہو جاٶ۔۔۔۔
نہیں یہ کیس ابھی مکمل نہیں ہوا ۔۔۔۔میں اب تب ہی گھر جاٶگا جب ان لڑکوں کو انکے انجام تک پہچا سکوں۔۔۔۔
احمد اور نعمان نے اک دوسرے کی طرف دیکھا۔۔۔۔۔
ارمان تمہیں پتہ بھی ہے کے تماری واٸف تمہں شہید سمجھ رہی ہے اور وہ بلکل ٹوٹ چکی ہے یہی حال تمہارے گھر والوں کا بھی ہے ۔۔۔۔
احمد نے اسے قاٸل کرنے کی کوشش کی۔۔
اچھا ہے وہ مجھے مرا ہوٸے سمجھ رہے ہیں میں اب آرام سے یہ کر سکونگا۔۔۔۔
نعمان نے اسے اجازات دی اور یوں وہ ارمان سے ارمغان بن کے کیڈٹ کالج آیا۔۔۔۔۔
مگر ارتضی کو کو فسٹ ٹاٸم دیکھنے کے بعد اس نے زبیر زبیر کو اسکا باٸیو ڈیٹا معلوم کرنے کو کہا۔۔۔۔
اور پھر مایا اور ارتضیٰ کو دیکھ کے اسے یقین ہوگیا۔۔۔۔۔
اب دور رہنا اور ممکن نہیں رہا تھا ۔۔۔۔
******* *******
آج وہ کامیاب ہوگیا تھا۔۔۔۔۔ پورے ساڑھے چھ سال بعد وہ اپنی سڑی ہوٸی بھنڈی کے پاس جا رہاتھا ۔۔۔۔
وہ بہت خوش تھا ۔۔۔۔۔
سب پیکنگ کرکے اس نے بیگ گاڑی میں رکھی اور زبیر اور حمزہ کے پاس آیا ۔۔۔۔
تم دونوں نے میرا بہت ساتھ دیا ۔۔۔
حمزہ تم نے اردگرد اچھے سے دھیان رہا ہے ۔۔۔ اس نے حمزہ سے کہا ۔۔۔۔
اور زبیر کو چلنے کا کہا۔۔۔
نہیں تم جاٶ میں فلحال یہی رکونگا سر نے کہاتھا کے تمارے جانے کے بعد میں کچھ دن یہاں گزاروں ۔۔۔
زبیر نے جانےسے منع کر دیا۔۔۔
ارمان دونوں سے مل کے گاڑی کی طرف آیا۔۔۔۔
*********
گھڑی پہ نظر ڈال کے وہ جلدی سے سب کچھ سمٹ کے اٹھ کھڑی ہوٸی ۔۔۔
سیرت بیگم نے آج زرا جلدی آنے کا کہا تھا ۔۔
اوہ نو ۔۔۔یہ تو تین بج گٸے ۔
آفس سے نکل کے پارکنگ ایریا میں آٸی ۔۔۔
پیچھے سے شزا بھاگ کے آٸی ۔۔
میم ۔۔۔
اس نے مڑ کے اسے دیکھا ۔۔۔۔ میم اس فاٸل پہ ساٸن کرتے جاٸے یہ آج ہر حال میں بھیجنا ہے ۔۔۔۔
شزا نے فاٸل کھول کے سامنے کردیا۔۔۔
مایا نے کچھ کہے بنا چپ چاپ ساٸن کر دٸے ۔۔۔
اور گاڑی میں بیٹھ کے چلی گٸی ۔۔۔۔
شزا اسے جاتے ہوٸے دیکھنے لگی اور سر جھٹک کے واپس ہو لی ۔۔۔۔۔
********* ******
ارمان کافی تیز ڈراٸیونگ کر رہا تھا ۔۔۔۔
جیسے ہی وہ یوں ٹرن لینے لگا سامنے آتی گاڑی سے ٹکرا گیا ۔۔۔
مایا کا دھیان بٹکا ہوا تھا اسلٸے وہ ٹرن لیتے ہوٸے سامنے سے آتی گاڑی کو دیکھ کے کنڑول نہ کر پاٸی ۔۔۔
دونوں گاڑیوں کے درمیان تصادم ہوا اور اک دوسرے میں گھس گٸی ۔۔۔۔
لوگ جمع ہوگٸے ۔۔۔ بہت مشلوں سے انکو باہر نکلا گیا ۔۔۔۔
سانس ابھی چل رہی ہے ۔۔۔ کسی نے نبض چک کرتے ہوٸے کہا۔۔۔
لہزا انکو ہسپتال جلد از پہچایا جاٸے ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ہسپتال پہنچ کر انکے گھروالوں کو اطلاع دی گٸی ۔۔۔

***** ****
پچھلےچارگھنٹوں سے وہ دونوں دونوں آٸی سی یو میں تھے ۔۔۔۔
ارمان کے بارے میں سن کے سب کو حیرت تھی۔۔۔۔۔
خوش بھی تھے اور اوردکھی بھی ۔۔۔۔
دونوں کی حالات نازک بتاٸی جا رہی تھی ۔۔۔
باہر سب انکی زندگی کی دعاٸیں کر رہے تھے ۔۔۔
سیرت بیگم جہاں اپنے بیٹے کے واپس لوٹنے کا سن خوش تھی وہی اب پھر سے موت کے منہ سے واپس آنے آنےکی دعاٸیں مانگ رہی تھی۔۔۔
روحی بیگم اپنے پرودگار رکے سامنے جھکی ہوٸی بچوں کی زندگی مانگ رہی تھی ۔۔۔۔۔
احمد زبیر نعمان تینوں آچکے تھے ۔۔۔۔
قسمت کے اس کھیل پہ سب افسردہ تھے ۔۔۔
آہیں بھر رہے تھے دعاٸیں کر رہےتھے۔۔۔۔
کیا تھی انکی قسمت ۔۔۔سب انجان تھے۔۔
******


ارتضیٰ جلدی کرو دیر ہورہی ہے ۔۔۔۔
الویرا نے اک نظر آٸنے میں خود کو دیکھ کے کہا۔۔۔۔
یار الویرا خدا کی بندی صبر نہیں ہوتا تم سے ۔۔۔ارتضیٰ نے واشروم سے نکلتے ہوٸے کہا۔۔۔۔
بلکل بھی نہٸں۔۔۔۔
اب جلدی آٶ ۔۔۔۔
الویرا کہہ کے باہر چلی گٸی ۔۔۔۔
ارتضیٰ بھی پیچھے ہی آیا۔۔۔۔
دادی یہ لڑکی مجھ معصوم کو پاگل کر دے گی ۔۔۔۔
ارتضیٰ نے منہ بنا کے کہا ۔۔۔۔
کوٸی بات نہیں بچے ۔۔جاٶ تم دونوں اللہ اپنے آمان میں رکھیے ۔۔۔۔
دونوں باہر کی طرف بڑھے ۔۔۔
سیرت بیگم نے انکو ساتھ جاتے دیکھ کے ہمیشہ اسی طرح ساتھ رہنے کی دعا دی ۔۔۔۔
آنکھوں میں آٸی نمی کو صاف کر کے وہ مسکرا دی
____________
کیا ملن یہی ہے کے بندہ اس دنیا میں ہی ساتھ ہو ۔۔۔
نہیں اصل ملن تو یہ ہے کہ آخری سفر بھی ساتھ ۔۔۔
ساتھ مرنے جینے کی قسمیں تو سبھی کھاتے ہیں ۔۔۔ مگر قسمت والے ہوتے ہیں جو آخری سفر میں ساتھ ہوت ہیں ۔۔۔ جو ایک دوسرے کے سنگ ایک دوسرے سے بےخبر ایک فانی سفر پہ روانہ ہوجاتے ہیں ۔۔۔
اللہ انسان کو اسکی برداشت سے زیادہ نہیں آزماتا۔۔۔
جتنا بندے میں سہنے کا حوصلہ ہوتا ہے اُتنا ہی اسکا رب اسے درد دیتا ہے ۔۔۔
****-
کوریڈور میں بیٹھے یہ سب اپنے رب سے رحم کی بھیک مانگ رہے تھے ۔۔۔
اپنے بچوں کی زندگی مانگ رہے تھے ۔۔۔
روما کسی مجرم کی طرح سر جھکاٸے کھڑی تھی ۔۔۔ کیا بد دعاٸیں یوں بھی قبول ہوتی ہے ۔۔۔
آج وہ اللہ اپنے رب سے ہاتھ جوڑ کے معافی مانگ رہی تھی ۔۔۔
نہ صرف اپنی بہن کی زندگی مانگ رہی تھی بلکہ آج وہ مایا کے مان کی زندگی بھی مانگ رہی تھی ۔۔۔۔
یا اللہ میری بہن نے اتنا عرصہ جس اذیت میں گزرا اب اسکا صلہ اسے مان کو اور اسے نٸی زندگی کی صورت میں دے ۔۔۔
وہ دونوں ہی اک دوسرے کے لٸے بنے ہیں ۔۔۔
اللہ پلیز انکو جدا نہ کرے ۔۔۔ وہ ہاتھوں میں چہرہ چھپا کے رو دی ۔۔۔۔
سچے دل سے مانگی ہر دعا قبول ہوتی ہے ۔۔۔
قبولیت کا وقت مقرر نہیں ہوتا ۔۔۔ اللہ جب چاہے کن کہہ دے ۔۔۔ اور وہ فیکون ہوجاٸے ۔۔۔۔
مگر بغض دعاٸیں اللہ اسلٸے اس وقت قبول نہیں کرتا کیونکہ انکا صلہ آخرت میں دینا ہوتا ہے ۔۔۔
*****
ڈاکٹر کو آپریشن ٹھیٹر سے باہر آتے دیکھ کے حارث صاحب اور عاشر اسکی طرف لپکیں۔۔۔
ڈاکٹر صاحب میرے بچے ۔۔۔۔
حارث شاہ نے غم سے چور لہجے میں پوچھا ۔۔۔۔ ۔۔
ڈاکٹر صرف اتنا ہی کہہ سکا۔۔۔
آٸی ایم سوری ۔۔۔۔
عاشر نے اگے بڑھ کے اسکا گریبان پکڑ لیا۔۔۔
کیا مطلب ہے تمہارا۔۔۔
دیکھٸے عاشر صاحب ۔۔۔
مہران انکی طرف آیا اور عاشر کو ہٹا کے خود پوچھا۔۔۔
کیا بات ہے ڈاکٹر صاحب صاحب ٹھیک ہے ناں ۔۔۔۔
دیکھٸے اس موقع پہ میں صرف اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ کوٸی معجزہ ہی انکو بچا سکتا ہے ۔۔۔۔
یہ کہہ کے وہ رکا نہیں۔۔۔۔
جبکہ پیچھے سب ایک دوسرے سے نظریں چرانے لگے ۔۔۔۔۔
کسی میں ہمت نہیں تھی کے اک دوسرے کو حوصلہ دے سکے ۔۔
*******
سر یہ دیکھٸے اسکی سانسیں رک رہی ہے ۔۔۔
نرس نے ڈاکٹر اسفند سے کہا جو مان کا آکیسسجن مسک چک کر رہا تھا ۔۔۔۔
وہ اک دم مان کو چھوڑ کے مایا کی طرف بڑھا ۔۔۔۔
مگر جو ہونا تھا وہ ہر حال میں ہونا تھا ۔۔۔۔
اسکی سانسیں اسکا ساتھ چھوڑ چکی تھی ۔۔۔۔
ڈاکٹر نے افسردہ سی نگا ہ اس پہ ڈالی ۔۔اور نرس کو کہا۔کہا۔۔۔
سسٹر یہ مسک اور ڈراپ وغیرہ ہٹا دو۔۔۔۔
وہ مان کی طرف مڑا مگر اسکی سانسیں بھی رک چکی تھی ۔۔۔۔۔
دونوں کی روحیں پرواز کر چکی تھی ۔۔۔۔
قسمت انکے اس انوکھے ملن پر مسکرا رہا تھا۔۔۔۔
وقت تمھنا چاہتا تھامگر وہ نہیں رک سکتا تھا۔۔۔۔
******* . *******
قبرستان میں یہ نٸی تازہ مٹی کی بنی قبریں کسی۔کے اس انوکھے ملن کی گواہی دے رہی تھی ۔۔۔۔۔
قبروں پہ تازہ سرخ پھول ماتم کر رہے تھے ۔۔۔۔
چاندنی ہر سو پھیلتی جارہی تھی ۔۔۔۔
چاند اپنے پورے جوبن پہ تھا ۔۔۔۔ ستاروں کے بیچ وبیچ وہ انکے ملن پہ مسکرا رہا تھا ۔۔۔۔
اک عجیب سی خوشبو تھی ۔۔۔۔ دو پیار کرنے والوں کی خون کی ۔۔۔۔جو پورے ماحول کو لپیٹ میں لے چکی تھی
مان کی مایا اسکے داٸیں جانب ابدی نیند سو رہی تھی ۔۔۔۔
بالاآخر مان اور مایا کی یہ کہانی اپنے اختتام کو پہچ چکی تھی ۔۔۔۔۔
ساتھ مرنےکا جو وعدہ انھوں نے کیا تھا ۔۔۔
آج وہ ایفإ ہوا تھا۔۔۔۔
جن کا نصیب جڑ چکا تھا جنکا قسمت انکو ایک کر گیا تھا۔۔۔۔۔
کیسی قسمت پاٸی تھی ۔۔۔
اتنی انوکھی تقدیر ۔۔۔۔ اللہ کم ہی لکھتا ہے کسی کا ۔۔۔۔۔
*******-- *****
منااور مہران نے ارتضیٰ کو اپنی بیٹی الویرا سے زیادہ پیار دیا۔۔۔
اسے محرومی کااحساس تک نہیں ہونے دیا۔۔
وہ اک کامیاب کپیٹن تھا اور الویرا کے ساتھ اپنی خوشگوار زندگی گزار رہا تھا ۔۔۔
سیرت بیگم انکو دیکھ کے جیتی تھی ۔۔۔
مان اور مایا جیسے واپس آٸے تھے ...یہی توانکی اور حارث شاہ کی زندگی کا اثاثہ تھا ۔۔۔کل کاٸنات تھی انکی۔۔۔
اورہر وقت انکی لمبی زندگی کے دعاگو رہتے تھے۔۔۔۔
وہ اس بات کو سمجھ چکے تھے کہ ہر آزماٸش کے بعد آسانی ہوتی ہے ۔۔۔۔
سارے دن سب کے لئے اچھے اور سب کے لئے برے نہیں ہوتے، نہ ہی اللہ ہر انسان کو ہر قسم کی تنگی دیتا ہے۔ کچھ چیزوں میں تنگی ہوتی ہے، کچھ میں آسانی۔ انسان پریشانیوں کی گنتی کرنے کا ماہر ہے، نعمتوں کا حساب کتاب رکھنا اُسے ہمیشہ بھول جاتا ہے۔۔۔۔۔
مگر وہ اپنے رب کی نعمتوں کو بھولنے والے نہیں تھے ۔۔۔وہ خوش تھے اسکی رضا میں ۔۔۔۔
انکی تمام پریشانیاں دور ہو چکی تھی ۔۔۔
حارث ولا( جو اب مان ولا کہلاتا تھا) کے درودیوار آج خوشی سے جگمگا رہے تھے ۔۔۔۔۔
*****
آج پندرہ سال بعد ۔۔۔۔۔
ارتضیٰ اور الویرا نے قبرستان میں قدم رکھا ۔۔۔۔
دونوں قبروں پہ سرخ پھول نچھاور کر کے فاتحہ خوانی کرکے وہ واپس چل دٸیے ۔۔۔۔
پچھلے پانچ سالوں سے ارتضیٰ اور الویرا روز صبح یہاں آکے تازہ پھول رکھتے تھے ۔۔۔۔
تاریخ خود کو دہرانا چاہ رہی تھی ۔۔۔مگر کاتب تقدیر نے اس بار پیار کرنے والوں کے لٸے کوٸی اور ہی تقدیر لکھی تھی ۔۔
***** ****
ارتضیٰ یار کہا ہو میں کب سے ویٹ کررہی ۔۔۔ہاں۔۔۔
کال پک کرتے ہی الویرا کی آواز اسکی سماعتوں سے ٹکراٸی ۔۔۔۔
کرسی کے پشت سے سر ٹکاتے اسنے ہنڈ واچ پہ نگاہ ڈالی
اور لہجے کو ہشاش بشاش رکھتے ہوٸے کہا۔۔۔۔
اگلے دس منٹ میں یہ بندہ ناچیز تمارے سامنے ہو گا۔۔
کیامطلب اگلے دس منٹ۔۔۔
الویرا نے چیخ کے کہا ۔۔۔۔
اف لڑکی کبھی تو انسانوں کی طرح آہستہ بھی بولا کرو ۔۔۔۔
میرے کان بہت نازک ہے ۔۔۔
ارتضیٰ کے بچے مرو گے تم آج ۔۔۔۔۔
ہاہاہا ۔۔۔ ابھی تو آٸے بھی نہیں اور تم نے مارنے کا کاارادہ بھی کر لیا۔۔۔۔
ابھی اسی وقت نکلو باٸے ۔۔۔
الویرا نے یہ کہہ کے کال کاٹ دی ۔۔۔
جبکہ ارتضیٰ مسکرا کے اٹھ کھڑا ہوا ۔۔۔۔
زندگی کافی خوشگوار تھی بس سڑی ہوٸی بھنڈی اور اورکرویلے کریلے کے بنا انکو ادھوری لگتی تھی ۔۔۔۔
ارتضیٰ نے اک نظر والٹ میں انکے تصویر پہ ڈالی جھک کر انھیں چوما
اورگاڑی سٹارٹ کی ۔۔
ختم شدہ

0 Comments: