Headlines
Loading...
مان کی مایا از قلم حورسحر سیکنڈ لاسٹ14 قسط

مان کی مایا از قلم حورسحر سیکنڈ لاسٹ14 قسط





سیکنڈ لاسٹ14 قسط

رات کو جب مان روم میں آیا تو وہ بے دلی سے اسکی پیکنگ کر رہی تھی ۔۔۔۔
مایا ۔۔۔۔ مان نے اسے پکارا ۔۔۔۔
ہوں ۔۔۔
ابھی تک ناراض ہو ۔۔۔۔
نہیں تو ۔۔۔ مایا نے سر اٹھا کے اسے دیکھا۔۔۔
پھر اتنی چپ چپ کیوں ہے میری سڑی ہوٸی بھنڈی ۔۔۔۔
بس ویسے ہی۔۔ پکنگ مکمل کر کے وہ اٹھ کھڑی ہوٸی۔۔
وہ چلتا ہوا اسکے قریب آیا ۔۔۔۔ جبکہ وہ دو قدم پیچھے ہوٸی ۔۔
چاٸے پیو گے یا کافی ۔۔۔۔ اس نے ہڑبڑا کے پوچھا ۔۔۔۔
کافی پلا دو۔۔۔۔کیا پتا پھر کبھی پینی نصیب ہوگی بھی یا نہیں ۔۔۔ مان نے شرارت سے کہا۔۔۔۔
جبکہ مایا غصے سے چلی گٸی ۔۔۔۔
وہ ارتضیٰ کی طرف بڑھا ۔۔جو سو رہا تھا۔۔۔۔
جھک کر اسکا ماتھا چوما۔۔۔بابا کی جان ۔۔۔۔ لو یو ۔۔۔۔
وہ اسکے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگا۔۔۔
ارتضیٰ ہلکا سا کسمایا۔۔۔۔
وہ بس یک ٹک اسے دیکھے جارہا تھا ۔۔۔۔ اس سے پہلے وہ کسی کمزور لمحے کی گرفت میں آتا وہ چلتا ہوا بلکونی آیا۔۔
بادلوں کے ساتھ ڈھکا چھپی کرتے چاند کو دیکھنے لگا ۔۔۔مایا کافی لے کے آٸی ۔۔۔ تو اسے کمرے میں نہ پا کے افسردہ ہوٸی مگر پھر سامنے بلکونی کے شیشے میں اس پہ نظرپڑی تو چلتی ہوٸی آٸی ۔۔۔۔
یہاں کیاکر رہے ہو۔۔۔۔ چلو یہ پیو اور سو جاٶ۔۔۔۔
مایا نے کپ بڑھایا۔۔۔
مایا ۔۔۔۔ میرے ارتضیٰ کا اور مما بابا کا خیال رکھنا ۔۔۔۔
مان نے کپ لیتے ہوٸے کہا۔۔۔۔
مایا کچھ کہے بنا چاند کو دیکھتی رہی ۔۔۔۔
مایا ۔۔۔۔ مان نے اسے پکارا ۔۔۔۔
ہوں۔۔۔ مایا نے مختصرًا کہا۔۔۔۔
بس میری رہنا ۔۔۔ میں رہوں نا رہوں ۔۔۔مان کی مایا رہنا۔۔
تھوڑی دیر بعد مایا نے اسکے کندھے پہ سر رکھا۔
مان مایا کل بھی مان کی تھی آج بھی اور کل بھی رہے گی۔۔۔
مایا اگر میں زندہ نہ لوٹا ۔۔۔۔تو ۔۔۔۔
تو جب بھی میری یاد آٸے میری قبر پہ آنا اور پھول رکھ کے مس یو کہہ دینا ۔۔
مایا نے اسکے کندھے پہ مکا جڑ دیا۔۔۔۔
بادلوں کے ساتھ ڈھکاچھپی کرتا چاند انکو ساتھ دیکھ کے مسکرا رہاتھا۔۔۔
*********** *******
میجر ارمان تم نے کسی بھی حال میں انکو بارڈر کراس نہیں کرنے دینا ۔۔۔۔
سمجھ رہے ہو ناں ۔۔۔۔
جی اچھی طرح سمجھ رہاہوں۔۔۔۔
ہمارا مقصد انکو اس پاک سر زمین پہ قدم نہیں رکھنے دینا ہے ۔۔۔۔ نلکہ انکے ناپاک قدموں سے اس سرزمین کو بچانا ہے
کرنل احمد نے نقشے پہ نشان بناٸے ۔۔۔۔۔۔۔
ان جہگوں سے انکے آنے کا خطرہ ہے ۔۔۔
احمد میں کچھ سپاہیوں کو لے کے پہاڑویوں کے پیچھے سے ان پہ حملہ کرونگا ۔۔۔ تم اگے سے نظر رکھنا ان پہ کسی بے گناہ کی جان نہ جاٸے ۔۔۔
تم جلالہ آباد سے اگے نہیں جاٶ گے ارمان ۔۔۔۔
احمد نے اسے دیکھ کے کہا۔۔۔
کیونکہ اگے جانے سے ہمیں منع کیا گیا ہے ۔۔۔ ہمارا کام بس انکو ختم کرنا ہے ۔۔۔
نہیں احمد صرف ختم ہی نہیں کرنا بلکہ ان ایجنڈوں کے اگے کیا ارادے ہیں انکو بھی جاننا ہے ۔۔۔
ہوں ٹھیک ہے ۔۔۔۔۔
احمد نے کچھ سوچتے ہوٸے کہا۔۔۔۔
#######
راجیش تم نے ہر حال میں انکو چکما دے کے دشمن کے سرحد میں داخل ہونا ہے بہت مشکلوں سے ہم یہاں تک پہچے ہیں اب کچھ بھی کر کے ہم نے اگے بارڈر کراس کرنی ہے ۔۔۔۔ویسے بھی انکو پتہ نہیں چلنا کہ ہم افغان بارڈر کے راستے سے بھی آسکتے ہیں ۔۔۔۔
اوکے ۔۔بے فکر رہو میں سب کچھ سوچ چکا ہوں اور ویسے بھی ان دس بچوں کو میں افغان نشنلسٹ کے طور پہ پہلے ہی بھیج چکا ہوں کسی کو شک نہیں پڑھنے والا ۔۔۔
وہ دس وہی انکے آنکھوں کے سامنے انکے ہی آرامی کالجوں میں پڑھ کے انکو منہ کے بل گراٸے گے ۔۔۔۔
سب نے زور دار قہقہہے لگاٸیے ۔۔۔
مگر اس بات سے بے خبر کے انکی آخری گھڑی آپہنچی ہے ۔
#####$#
ارمان کچھ سپاہیوں کو لے پہاڑوں کے پیچھے چلے گٸے۔۔۔
اور انکی بکواس سن کے اسکا خون کھول رہا تھا۔۔۔
مگر جو بھی کرنا تھا ٹھنڈے دماغ سے کرنا تھا ۔۔۔۔
ارمان نے سب ساتھیوں کو الگ الگ سرنگ سے داخل ہونے کا کہا اور خود اس سرنگ کی طرف بڑھا ۔۔۔ جس میں یہ لوگ بیٹھ کے جشن منا رہے تھے ۔۔۔۔
مگر انکو کیا پتہ تھا کے یہ خود کو جتنا سمارٹ سمجھ رہے ہیں یہ پہلے ہی بچوں کو افغان شہری بنا کے پاک بھیجنے اور پھر کیڈٹ کالج میں ایڈمٹ کروانے کی بڑی غلطی کرچکے ہیں ۔۔۔۔
اور یہی غلطی اب انکو مہنگی پڑنے والی تھی ۔۔۔۔
####
جبکہ احمد اور اس کے ساتھیوں نے سامنے کی طرف سے حملہ آوار ہونے کے لٸے خود کو تیار کیا۔۔۔ سگنل ملتے ہی احمد اپنے ساتھیوں کو لے کے اگے بڑھا ۔۔۔۔
دونوں طرف سے وہ گھیرے جاچکے تھے اب بھاگنا ناممکن تھا ۔۔۔۔ یہ سب ایک ساتھ اندر داخل ہوٸے وہ بوکھلا گٸے ۔۔۔
سب کو باندھ کے اک طرف کر دیا۔۔
ارمان اگے انکی طرف آیا اور کرسی کینھچ کے بیٹھا ۔۔۔
ہاں تو مسڑ راجیش کیاکرو میں تم سب کے ساتھ ۔۔۔
ارمان نے اسکی کنپٹی پہ پستول رکھ کےکہا۔۔۔۔
جبکہ وہ بلکل چپ رہا ۔۔۔۔
ارمان نے اردگرد دیکھا ۔۔۔۔ پھر احمد کی طرف دیکھا۔
احمد تم یہ سب لیپ ٹاپز اور یہ باقی کی تمام ضروی چیزیں سمٹ کے جلدی سے لے جاٶ ۔۔۔
احمدنے کچھ کہنا چاہا مگر مان نے اسے آنکھوں ہی آنکھو ں میں کچھ کہنے سےمنع کیا۔۔۔
سو احمد نے سب ضروی چیزیں اٹھاٸی اور باہر چلا گیا۔۔۔
اندر انے سے مان نے اردگرد باروی مواد نصب کردیا تھا ۔۔۔
مان نے سب کو باہر جانے کا کہا اور خود اندر ہی رہا۔۔۔ راجیش کو پتہ تھا اگر ہم پھنس گٸے تو زندہ انکے ہاتھ نہیں لگیں گے ۔۔۔اسلٸے اسنے اپنے شرٹ کےاندر خودکش جیکٹ پہن ر کھا تھا ۔۔۔
انکے سب ساتھیوں کو اندر ہی چھوڑ کے مان نے اک ریموٹ کنڑول بم انکے پاس پینکا۔۔۔
اور راجیش کو پکڑ کے باہر نکلا باہر نکلتے ہی ارمان نےبٹن دبایا اور زوردار دھماکہ ہوا ۔۔۔
فضا میں ہر طرف دھواں ہی دھواں تھا ۔۔۔ باہرنصب بارودی مواد نے بھی آگ پکڑ اور سب کچھ منٹوں جل کر راک ہوگیا۔۔۔
راجیش یہ برداشت نہ کر سکا اور خود کو چھیڑانے کی کوشش کرنے لگا کرنے لگا ۔۔۔
اور اس میں کامیاب بھی ہوا ۔۔جیسے ہی وہ بھاگنے لگا۔۔۔
مان نے آٶ دیکھا نہ تاٶ اس پہ فاٸر کر دیا۔۔۔گولی لگتے ہی بارودی مواد جو اسکے جیکٹ میں تھا پٹ گیا زوردار آوازسے دھماکہ ہوا ۔۔سپاہی حسنین جو راجیش کو بھاگتے دیکھ کے میجر ارمان کے پاس آیا تھا ۔۔۔
وہ خود کو نہ بچا سکا ۔۔۔۔
اور اوریوں میجر ارمان اور حسنین دونوں نے جامِ شہادت نوش کر لیا۔۔۔
احمد فضامیں بلند شعلوں کو دیکھنے لگا۔۔
وہ ارمان کے پاس آنا چاہتا تھا ۔۔۔ مگرسب نے اسے روکا۔روکا۔۔
***** *****


مان کوگٸے ہوٸے دس دن ہوگٸے تھے۔تھے۔۔ مایا کو عجیب سی بے چینی ہورہی تھی۔۔۔
صبح سے سےوہ پورے گھر میں دبے پاٶں گھوم رہی تھی مگر بے چینی کم ہونے کے بجاٸے بڑھ رہی تھی ۔۔۔
وہ لان میں آ کے بیٹھ ہی گٸی تھی کے گھرکے باہر گاڑیاں رکنے کی آواز آٸی ۔۔۔جبکہ فضامیں ہیلی کاپٹر مسلسل چکرکاٹ رہا تھا ۔۔۔
حارث شاہ مہران اور عاشر کےساتھ کرنل نعمان بھی آرامی یونی فوم میں ملبوس اندر آیا مایا اپنی جگہ ساکت کھڑی تھی ۔۔۔
نعمان نے اگے بڑھ کے اسے گلے لگایا اوراندرکیطرف بڑھا۔۔۔
ہیلی کاپٹر کو اترنے کی سگنل مل چکی تھی ۔۔۔۔
آرامی کے چاک وچوبند دستے نے آگے بڑھ کے تابوت نکلا ۔۔۔۔
ماموں مایا نے نےکچھ کہنا چاہا مگر الفاظ جم گٸے ۔۔۔ نعمان نے نظریں چرا لٸے ۔۔۔
مایا نے جیسے ہی تابوت کو دیکھا وہ لڑکھڑا گٸی نعمان نے اسے تھام لیا۔۔۔۔
میجرارمان علی شاہ اس دنیا سے چلا گیا تھا ۔۔۔
مایا رونا چاہتی تھی مگر رو نہیں پا رہی تھی۔۔۔۔وہ بس یکے ٹکے دیکھے جا رہی تھی
مان کی آدھی سے سےزیادہ باڈی جل چکی تھی چہرے کا کاپتہ ہی نہیں چل رہا تھا۔۔۔
فوجی اعزاز کےساتھ اسے سپرد خاک کر دیاگیا۔۔
احمد کے آنسو رک ہی نہیں رہے تھے ۔۔۔ کاش وہ ارمان کو بھیج کے خود پیچھے رہتا ۔۔۔۔
وہ نعمان کا سامنا نہیں کر پا رہا تھا۔۔۔۔
آج چاند اپنی پوری اب وتاب کے ساتھ روشن تھا ۔۔۔۔
تازہ قبر کو دیکھ کے افسردہ سا تھا ۔۔۔ جبکہ وقت نے کروٹ بدلی ۔۔۔۔ یہ ہونا تھا ۔۔۔۔ یہ لکھا جا چکا تھا۔۔۔۔۔
مان کی مایا مکمل طور پہ بکھری ہوٸی تھی ۔۔۔۔
ارتضیٰ کو خود سے لپیٹے وہ بس ویران نظروں سے خلاٶں کو تک رہی تھی ۔۔۔۔۔
کیا مان کی مایا جی سکے گی ۔۔۔۔۔۔
******
وہ حال میں لوٹی ۔۔۔۔ کاش ارمان میں تمہیں روک لیتی ۔۔۔
آج پورے ساڑھے چھ سال ہوگٸے ۔۔۔۔
میں کیاکرو مان۔۔۔
وہ پھوٹ پھوٹ کے رو دی ۔۔۔۔
آج یہ خاکی لفافہ اور اسکے اندر وہی بریسلٹ جو مان نے اسے برتھ ڈے پہ دیا تھا اور لفافے کے اندر یہ خط مان کی ہی ہینڈ راٸٹنگ تھی یہ ۔۔۔ جس میں لکھا تھا یہ تمارے ہاتھ میں ہی اچھا لگتا ہے نہ کہ دراز میں پڑا ہوا۔۔۔اور نیچے ڈبل اے لکھا ہواتھا۔۔۔ ۔۔۔
اف اللہ یہ کیا ہے ۔۔۔
وہ اک دم اٹھ کے ڈریسنگ ٹیبل کے پاس آٸی اور دراز کھول کے بریسلٹ چیک کیا جو غاٸب تھا ۔۔۔۔
واپس موڑی اور بیڈ پہ گر گٸی ۔
دیکھو حمزہ اب ان پہ کھڑی نظررکھنی ہوگی ۔۔۔۔
اور ہر وقت انکی نگرانی کرنی ہوگی ۔۔۔۔
ارمغان نے بچوں کو اک ایسی جگہ پہ رکھا تھا جہاں کوٸی پہنچتا تو دور ۔۔۔ پرندہ پر تک نہیں مار سکتا ۔۔۔
اور اب کپیٹن حمزہ کو ہدایات دے رہا تھا۔۔۔
اوکے سر ۔۔۔ آپ بے فکر رہے ۔۔۔
اب ہم نبٹ لیں گے ان سے ۔۔۔
گڈ حمزہ یہی امید تھی تم سے۔۔۔۔
اتنے میں ارمغان کے سیل پہ کال آٸی ۔۔۔
سیل پاکٹ سے نکال کے دیکھا ۔۔۔ہٹلر کالنگ جگمگا رہا تھا۔۔۔۔
اس نے حمزہ کو جانے کا اشارہ کیا ۔۔اور کال کرتے ہی سلام کیا۔۔
السلام علیکم سر ۔۔۔
وعلیکم السلام برخوردار ۔۔۔۔
کیا بنا ان بچوں کا۔۔۔بریگیڈٸر صاحب نے سلام کے بعد سیدھی مطلب کی بات پوچھی ۔۔۔
سر اب سب سٹ ہوگیا۔۔۔۔
انکو ایسی جگہ لایا ہوں کے یہ یہاں سے بھاگنا تو دور پر بھی نہیں ہلا سکیں گے ۔۔۔
ہمم ۔۔۔ تو مسڑ ارمغان اب تمہارا پلین ٹو بھی سکس رہا تو اگے کا کیاارادہ ہے ۔۔۔
سر ابھی کچھ یہاں رہ کے انکو اپنے سامنے لاٸن پہ لا کے پھر چار پانچ ماہ کے کے لٸے رسٹ پہ جانے کا سوچ رہا۔۔۔۔
اس نے آخر میں شرارت سے کہا۔۔۔۔
گڈ ۔۔۔چلو تمہیں عقل تو آٸی ۔۔۔ میں بھی چاہ رہاکے اب زرا گھومو پھرو ۔۔۔
جی سر ۔۔۔ ایسا ہی ہوگا۔۔۔
اوکے برخوردار ۔۔۔مجھے حالات سے آگاہ کرتے رہنا۔۔۔۔
جی سر میں وقفے وقفے سے آپ کو آگاہ کرتا رہوں گا۔۔۔۔
چلو ٹھیک ہے میں زرا زبیر سے مل لوں اس نے کافی مدد کی ہماری ۔۔۔بریگیڈٸر نعمان نے یہ کہہ کے کال کاٹ دی ۔۔۔۔
********** ********
ارتضیٰ کیا ہوا ٹھیک تو ہو ناں۔
شہرام نے اسکا اترا ہوا چہرہ دیکھ کے فکر مندی سے پوچھا
ہاں یار میں ٹھیک ہوں
بس ہلکا سا فلو ہوا ہے ۔۔۔
تو چلو پھر ڈسپنسری چلیں ۔۔شہرام اٹھ کے اسکی طرف آیا
نہیں تم یہی رہو میں جاتا ہوں ۔۔۔
ارتضی باہر جانے لگا تو شہرام بھی پیچھے آنے لگا مگر ارتضیٰ نے اسے واپس بھیج دیا۔۔۔۔
وہ سیدھا زبیر صاحب کے روم میں آیا۔۔
دروازہ ناک کیا ۔۔۔۔ زبیر صاحب نے اندر آنے کی اجازات دی ۔۔۔
ارتضیٰ اندر آیا ۔۔۔
زبیر نے اسے اپنے کمرے میں ایسے دیکھا تو حیران رہ گیا۔۔۔
ارتضیٰ بچے بیٹھو ۔۔۔
ارتضی نے بیٹھتے ہوٸے تھینک یو کہا۔۔۔۔
زبیر اب بھی حیران تھا کہ یہ آیا کیوں ہے ۔۔۔
سر نے تھوڑی دیر بعد پوچھا ۔۔۔
سر کچھ پوچھ سکتا ہوں آپ سے ۔۔۔
ہاں بچے پوچھ سکتے ہو ۔۔پوچھو کیا پوچھنا ہے ۔۔۔
سر کل رات آپ لوگوں نے ان بواٸز کو کیوں کڈ نیپ کیا
ارتضیٰ نے بنا تہمید کے ہی پوچھا ۔۔۔
زبیر نے کھانستے ہوٸے کہا ۔۔۔ارتضی کونسے لڑکے ۔۔۔
وہی جن کو آپ اور آپکے دوست لے گٸے تھیں۔
جبکہ زبیر بےہوش ہوتے ہوتے بچا ۔۔۔
(یا اللہ یہ کیا لڑکا ہے یہ تو اپنے باپ سے بھی اگے جاٸے گا)۔۔۔
بیٹا سپنا دیکھا ہو گا۔۔۔
میں سپنے نہیں دیکھتا ۔۔۔سر وہ مجھے نیند نہیں آرہی تو میں کھڑکی میں کھڑا تھا ۔۔۔جب آپ کو دیکھا ۔۔
اب کے بار ارتضی نے پوری بات بتا دی ۔۔۔
ارتضی بیٹا تم ابھی چھوٹے ہو نہیں سمجھو گے ۔۔۔ ان باتوں کو ۔۔۔۔
میں اتنا بھی چھوٹا نہیں ۔۔۔۔
بیٹا جی اپنا یہ ننھا ذہین ان باتوں میں مت الجھاٶ ۔۔۔۔ ابکے بار زبیر نے اسکی بات کاٹ کے کہا ۔۔۔۔
ارتضیٰ نے ترچھی نظروں سے دیکھا ۔۔۔
لیکن چپ رہا ۔۔۔
دیکھو ارتضیٰ بیٹا اس بات کو بھول جاٶ ۔۔بس سمجھو وہ ہمارے اس پاک وطن کے دشمنوں کے بیھجے ہوٸے تھے ۔۔۔
تو پھر آپ نے انہیں پہلے کیوں نہیں ۔پکڑا۔۔
وہ اسلٸے کہ تب وہ چھوٹے تھے ۔۔۔ اب وقت آگیاتھا ۔۔۔
اس سے پہلے ارتضی کچھ اور پوچھتا ۔۔زبیر نے اسے بھیج دیا ۔۔۔
اور سیل اٹھا کے ارمغان کو اس ننھے جاسوس کے کارنامے کا بتا یا ۔۔جسے سن کے وہ مسکرا دیا ۔۔۔۔
******** **********
بہت مشکلوں سے اس کو بچایا ہے ۔۔۔ مگر ابھی یہ کوما میں ہے ۔۔۔
بول نہیں سکتا مگر سن سکتا ہے ۔۔۔
پتہ نہیں ڈاکٹر صاحب یہ ہے کون ۔۔۔مجھے بے چارہ اس حالت میں ملا۔۔۔کوٸی آٸیڈنٹی ہی نہیں ملی مجھے ۔۔۔
چلیں ہم کوشش کرتے ہیں ۔۔۔ کے اسکے ورثإ کا پتہ چل سکیں ۔۔۔۔
ایسا کرتے ہیں نیوز پیپر میں دے دیتے ہیں ۔۔۔
نہٸں ڈاکٹر صاحب ۔نیوز پیپر سے تو اسکے دشمن بھی اسکے وارث بنا کے آجاٸے گے ۔۔۔
ہاں یہ بھی ہے ۔۔۔۔
پھر ۔۔۔ بس سب اللہ پہ چھوڑ دیتے ہیں ۔۔۔
اور تین سال بعد بالاآخر وہ کوما سے باہر آہی گیا ۔۔۔۔
مبارک ہو مسڑ تمہیں ۔۔۔۔کہ اللہ نے تمہیں زندہ کیا پھر سے زندگی دی ۔۔۔۔
اب بتاٶ کون ہو تم اور نام کیا ہے تمارا ۔۔۔
اس نے انہیں سب بتایا اور ساتھ میں ان سے مدد بھی مانگی۔

0 Comments: