Headlines
Loading...
باطن  تحریر فریال خان  مکمل ناول

باطن تحریر فریال خان مکمل ناول





ارمان اپنی فل سپیڈ سے بھاگتا ہوا کلاس روم کی جانب جارہا تھا۔اور مسلسل دل میں دعا کررہا تھا کہ کاش سر بہروز ابھی کلاس میں نا آئے ہوں۔ارمان بھاگتا ہوا کلاس کے باہر پہنچا۔اور دیوار کے ساتھ لگ کر ہلکے سے کلاس میں جھانکا۔اور اسکا دل دھک سے رہ گیا۔کیوں کہ سر بہروز اپنی ٹیبل پر کوئی رجسٹر کھولے بیٹھے تھے۔ارمان کو کلاس میں جھانکتے ہوئے آرزو نے دیکھ لیا تھا۔ارمان نے آنکھوں ہی آنکھوں میں آرزو سے مدد مانگی۔کہ تب ہی آرزو نے آنکھوں سے "اوکے" کا اشارہ کیا۔اور پوری قوت سے بہروز سر کی دائیں جانب دیکھ کر اشارہ کرتے ہوئے چیخ ماری۔سر کے ساتھ ساتھ پوری کلاس ہی ہل گئی۔اور آرزو کے ہاتھ کے تعقب میں دیکھنے لگی۔بس یہ چند سیکنڈز ہی ارمان کیلئے غنیمت تھے۔کیونکہ کلاس کا گیٹ سر بہروز کی بائیں جانب تھا۔اور اس وقت وہ آرزو کے چلانے کی وجہ سے دائیں جانب دیکھ رہے تھے۔ارمان چھلاوے کی طرح کلاس میں آیا۔اور فٹافٹ اپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔
"کیا ہوا ؟ کیوں چیخی آپ؟۔سر نے اس جانب کچھ نا پاکر آرزو سے پوچھا۔
"سر وہ دیکھیں ، چھپکلی کا بچہ"۔آرزو نے دوبارہ اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے بتایا۔
"وہاٹ نونسینس ! اب دوبارہ آپ نے ایسی حرکت کی ، تو آپ کو کلاس سے باہر نکال دیا جائے گا، انڈرسٹنڈ !۔سر بہروز نے سختی سے کہا۔
"یس سر"۔آرزو نے کہا۔سر بہروز نے دوبارہ رجسٹر کھول لیا۔آرزو نے اپنے برابر والی لائن میں بیٹھے ارمان کی جانب دیکھا۔جو اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ارمان نے اسے سینے پر ہاتھ رکھ کر
"تھینک یو" کہا۔جواب میں آرزو نے اسے گھور کا اشارے سے کہا کہ
"تو کینٹین میں مل ذرا"۔ارمان نے "اوکے" میں سر ہلادیا۔اور پھر دونوں سیریس ہوکر پڑھنے لگے۔
*******
"اوہ گاڈ ! تھینکس یار ، آج تو نے پھر بچالیا"۔ارمان نے برگر کی پلیٹ ٹیبل پر رکھتے ہوئے کرسی کھینچ کر بیٹھتے ہوئے کہا۔
"تو تم مرنے والے کام ہی کیوں کرتے ہو؟۔آرزو نے پلیٹ اپنی جانب کھینچتے ہوئے کہا۔
"ارے یار ، بائیک پنکچر ہوگئی تھی، اس لئے لیٹ ہوگیا"۔ارمان نے بتایا۔
"چل اب رہنے دے ، پتہ ہے مجھے سب ، رات بھر جاگ کر فیس بک یا واٹس ایپ پر لگا ہوا ہوگا ، اور صبح دیر سے اٹھا ہوگا، اور اب یہ بائیک کا بہانہ بنا رہا ہے"۔آرزو نے برگر کی بائیٹ لے کر کہا۔
"جی نہیں ، ہر کسی کو اپنی طرح سمجھا ہے کیا، سچ میں میری بائیک پنکچر ہوگئی تھی"۔ارمان نے کہا۔کہ تب ہی اسے ۔عظمی ٰ۔فاطمہ۔ مریم ۔نادیہ ۔عماد۔ صارم اور وقار بھی ان لوگوں کی جانب ہی آتے ہوئے دکھائی دیے۔
"اوہ ہو ! بھئی پارٹی وارٹی چل رہی ہے ، اور وہ بھی اکیلے اکیلے"۔وقار نے کرسی کھینچ کر بیٹھتے ہوئے کہا۔باقی سب بھی بیٹھ گئے۔
"لو آگئے بھیکاری"۔ارمان نے ان لوگوں کو دیکھ کر کہا۔
"اچھا ! ہم بھیکاری ہیں ، تو بڑی سلطنتوں کا شہنشا چل رہا ہے"۔عماد نے کہا۔
"بھئی ہم لوگ سچ میں بھیکاری ہی تو ہیں ، اللّه کے دربار میں ، بس اللّه پاک ہم بھیکاریوں کے کشکول میں اپنی رحمت کے خزانوں میں سے چند سکے ڈال دے ، ہمارے لئے یہی بہت ہے"۔فاطمہ نے کہا۔
"ایک تو یہ پھر شروع ہوگئی ، یار دیکھو اسکو آف کرنے کا بٹن کہاں ہے"۔صارم نے کہا۔
"یہ رہا ، مل گیا ، دبا دوں؟۔عظمیٰ نے فاطمہ کا گلا پکڑتے ہوئے بولا۔
"اوئے نہیں نہیں ، اسکا باجا بند ہوگیا ، تو میں اپنی برات کا بینڈ باجا کس کے گھر لے کر جاؤں گا!۔وقار نے مصنوئی پریشانی سے کہا۔فاطمہ نے اپنے ہاتھ میں پکڑا پین وقار کو کھینچ کر مارا۔جبکہ باقی سب نے "اوہ ہو" کرکے ہوٹنگ شروع کردی تھی۔سب ہی جانتے تھے کہ وقار فاطمہ میں دلچسپی لیتا ہے۔
"ویسے یار اچانک سے کیا چیخ ماری تھی تم نے آرزو ، کچھ دیر کیلئے تو ہم لوگ بھی حیران ہوگئے تھے"۔نادیہ نے کہا۔
"ہاں وہ تو جب ارمان پر نظر پڑی تو سارا معملا سمجھ میں آگیا"۔مریم نے مزید کہا۔
"آج پھر کیوں لیٹ ہوگئے تھے تم؟۔صارم نے پوچھا۔
"یار بائیک پنکچر ہوگئی تھی ، اس لئے"۔ارمان نے بتایا۔
"یار کتنی بری بات ہے"۔عظمیٰ نے اچانک کہا۔
"کیا ہوا ؟۔فاطمہ نے پوچھا۔

"ہم لوگ کینٹین میں بیٹھے ہوئے ہیں ، اور کچھ کھا بھی نہیں رہے ، باہوت نا انصافی ہے"۔عظمیٰ نے بتاتے ہوئے آخر میں گبر سنگھ کی نقل اتاری۔
"کھا تو رہے ہیں ، ایک دوسرے کا دماغ"۔نادیہ نے کہا۔
"واہ ! حیرت ہے ، ایک چیز نہیں ہے پھر بھی کھا رہے ہیں ، کتنے ٹیلینٹڈ ہیں ہم لوگ یار"۔آرزو نے کہا۔
"یار جاؤ ناں ، کوئی کچھ کھانے کیلئے لے کر آؤ"۔مریم نے کہا۔
"کیا کھائیں گی آپ ! بتائیں ، میں ابھی لاتا ہوں"۔عماد نے مریم کے قریب جھکتے ہوئے پوچھا۔وقار نے گلا کھنکھار کر دونوں کو چھیڑا۔
"جو بھی منگاؤ آٹھ منگانا"۔صارم نے کہا۔
"کیوں آٹھ کیوں ؟۔عماد نے پوچھا۔
"ایک تو تم مریم کے لئے لاؤ گے ہی ، باقی تمہیں ملا کر ہم آٹھ لوگ ہیں ناں، دیکھا تمہارا بھی خیال ہے مجھے ، ایسی بات نہیں ہے "۔صارم نے کیلکولیشن کرواتے ہوئے کہا۔
"یار تم لوگوں کی جب تک یہ بونگیاں ختم ہوں گی ناں ، اگلا پیریڈ شروع ہوجائے گا، اب جلدی کوئی چلے بھی جاؤ"۔ارمان نے کہا۔اور وقار اور عماد اٹھ کر سب کیلئے کچھ لینے چلے گئے۔
*******
یہ سب فائنل ایئر کے سٹوڈنٹس تھے۔اور جب سے ان لوگوں نے کالج جوائن کیا تھا تب سے سب ساتھ تھے۔اس لئے ان لوگوں میں بہت انڈرسٹنڈنگ تھی۔اور انکے گروپ کو پورا کالج جانتا تھا۔یہاں تک کہ ٹیچرز بھی۔ان کے گروپ کا نام "Cadena Group" تھا۔"Cadena" ایسپینیش زبان میں زنجیر کو کہتے ہیں۔اور یہ لوگ ایک زنجیر کی طرح ہی ساتھ ساتھ رہتے تھے۔اسی لئے ان لوگوں نے مل کر اپنے گروپ کا یہ نام رکھا تھا۔اور اگر کبھی کسی دوسرے نئے آنے والے سٹوڈنٹ کو پڑھائی میں کچھ ہیلپ کی ضرورت ہوتی تو ٹیچرز انکے گروپ کی ہی زمیداری لگاتے تھے۔اور یہ لوگ اسے باخوبی پورا بھی کرتے تھے۔کیونکہ یہ لوگ موج مستی کے ساتھ ساتھ سنجیدہ ہوکر پڑھتے بھی تھے۔اور ان سب میں بس وقار فاطمہ میں دلچسپی لیتا تھااور عماد مریم میں۔باقی کسی کا ایسا کوئی چکر نہیں تھا۔سب بہت اچھے دوست تھے۔اور اکثر ان لوگوں کا ایک دوسرے کے گھر آنا جانا بھی رہتا تھا۔یہ لوگ نا تو بہت ہائی کلاس سے تعلق رکھتے تھے۔اور نا ہی بہت لوئر کلاس۔یہ سب درمیانی طبقے کے یعنی مڈل کلاس لوگ تھے۔
*******
اگلے دن ارمان وقت پر کلاس میں سر بہروز سے پہلے موجود تھا۔اور اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے اس نے آدھا شہر فتح کرلیا ہو۔کیونکہ دنیا تو وہ خواب میں بھی فتح نہیں کرسکتا تھا۔
"اوئے ! یہ نیا پیس کون ہے؟۔عماد نے پیچھے سے ارمان کے کان میں سرگوشی کی۔
"کونسا پیس؟۔ارمان نے یہاں وہاں دیکھ کر پوچھا۔
"ابے وہ جو تیرے سامنے بیٹھا ہے ، پنک پینتھر"۔عماد نے ارمان کے سامنے پنک شرٹ میں بیٹھے ایک لڑکے کی جانب اشارہ کیا۔
"ہوگا کوئی نیا سٹوڈنٹ، ہمیں کیا"۔ارمان نے لاپرواہی سے کہا۔
"ابے پر سال کے بیچ میں نیا سٹوڈنٹ کیسے؟۔عماد نے کہا۔اس سے پہلے کہ ارمان اپنے اسکیل کا نشان عماد کے گال پر پرنٹ کرتا۔سر بہروز کلاس میں داخل ہوئے۔اور سب اپنی اپنی جگہ معصوم بن کر بیٹھ گئے۔کے ان کے آگے نومولود بچہ بھی کیا معصوم ہوگا۔سر نے اپنا رجسٹر ٹیبل پر رکھ اور اسی "پنک پینتھر" کو اشارہ کرکے اپنی جانب بلایا۔اور پیچھے والی لائن سے بھی ایک لڑکے کو اشارہ کرکے بلایا۔ وہ لڑکا اٹھ کر انکے بائیں جانب آکر کھڑا ہوگیا۔اور پنک پینتھر انکے دائیں جانب آکر کھڑاہوگیا۔
"اس نئے پیس کو نہیں دیکھا تھا تو نے؟۔ارمان نے مڑ کر عماد سے کہا۔اور عماد نے لاعلمی سے کاندھے اچکا دیے۔
"اٹینشن کلاس"۔سر بہروز نے پوری کلاس کو اپنی جانب متوجہ کیا۔
"ابے اٹینشن تو ہیں ، اب کیا جان لیں گے"۔صارم نے وقار کے کان میں سرگوشی کی۔اور وقار نے اسے کونی مار کر چپ رہنے کا کہا۔
"یہ ہیں ہماری کلاس کے نئے سٹوڈنٹ مسٹر جنید انصاری، یہ کچھ پرسنل ایشوز کی وجہ سے دوسرے کالج سے مائگریٹ کرکے یہاں آئے ہیں"۔بہروز سر نے پنک پینتھر کا تعارف کرایا۔
"اور یہ ہیں اسامہ نوید ، یہ بھی کچھ ذاتی معملات کی وجہ سے مائگریٹ کر کے یہاں آئے ہیں"۔بہروز سر نے دوسرے لڑکے کا تعارف کرایا۔
"کیونکہ آپ لوگوں کی پڑھائی شروع ہوکر اب کافی آگے بھی نکل گئی ہے ، اور یہ ابھی یہاں آئے ہیں ، اس لئے اب آپ لوگوں کی زمیداری ہے کہ ان کو پچھلی ساری پڑھائی کوور کرنے میں ہیلپ کریں ، اور خاص طور پر یہ زمیداری "Cadena Group" کی ہے، ٹھیک ہے!۔بہروز سر نے کہتے ہوئے آخر میں ان لوگوں سے تائید چاہی۔اور سب نے اثبات میں سر ہلادیا۔
"آپ لوگ جاکر واپس اپنی جگہ پر بیٹھ سکتے ہیں اب"۔بہروز سر نے کہا۔اور دونوں سرہلاتے ہوئے واپس اپنی جگہ پر آکر بیٹھ گئے۔اور پورا "Cadena Group" وقفے وقفے سے نظروں ہی نظروں میں انکا ایکسرے کرنے لگا۔
*******

"السلام و علیکم"۔جنید نے ان لوگوں کے قریب آتے ہوئے کہا۔یہ لوگ کینٹین میں اپنی مخصوص جگہ پر بیٹھے ہوئے تھے۔
"وعلیکم السلام"۔سب نے یک زبان جواب دیا۔
"اگر آپ لوگ برا نا مانیں ! تو کیا میں بھی آپ لوگوں کے ساتھ یہاں بیٹھ سکتا ہوں؟۔جنید نے پوچھا۔
"جی جی ضرور"۔صارم نے کہا۔اور جنید ایک کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔
"سر تو آپ لوگوں کو میرے بارے میں بتاہی چکے ہیں، تو بس اسی سلسلے میں کچھ مدد چاہیے مجھے آپ لوگوں سے"۔جنید نے کہا۔
"جی بتائیں ، کیا مدد کرسکتے ہیں ہم آپکی؟۔نادیہ نے پوچھا۔جنید بتانے لگا کہ اسے کس سبجیکٹ میں کیا مسلہ ہورہا ہے۔اور ارمان ، وقار اور عماد گہری نظروں سے اسکا جائزہ لینے لگے۔شکل سے تو ویسے یہ بہت سیدھا سادہ تھا۔اور باتوں سے بھی سلجھا ہوا ہی لگ رہا تھا۔پھر کافی دیر وہ ان لوگوں کے ساتھ بیٹھا رہا۔پھر ان لوگوں نے بھی اسے اپنے اپنے بارے میں بتایا۔
"ہیلو فرینڈز!۔اسامہ نے بھی ان لوگوں کے قریب آتے ہوئے کہا۔
"کیا میں بھی آپ لوگوں کو جوائن کرسکتا ہوں؟۔اسامہ نے پوچھا۔
"جی ضرور"۔عظمیٰ نے کہا۔اور اسامہ بھی ایک کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔
"میرے بارے میں تو آپ لوگوں کو پتہ ہے ، کچھ اپنے بارے میں بھی بتائیں آپ لوگ"۔اسامہ نے کہا۔سب لوگ اپنے اپنے بارے میں بتانے لگے۔اور ارمان ، عماد اور وقار اسکا بھی نظروں سے پوسٹ مارٹم کررہے تھے۔یہ لڑکا انہیں حلیے اور باتوں سے اتنا اچھا نہیں لگا۔اور لڑکیوں سے تو کچھ زیادہ ہی فری ہورہا تھا۔پھر تھوڑی دیر میں اگلا پیریڈ شروع ہونے پر سب کلاس کی جانب چل دیے۔
*******

رات کے دس بج رہے تھے۔اور وقار ، صارم اور عماد کچھ نوٹس ڈسکس کرنے کیلئے ارمان کے گھر آئے ہوئے تھے۔اور اس وقت اسکے کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے۔
"یار میں نے محسوس کیا ہے ، کہ ایک ہفتہ ہوگیا ہے اسامہ کو ہمارا گروپ جوائن کئے ہوئے ، پر تم لوگ اسامہ کے ساتھ کچھ اچھا برتاؤ نہیں کرتے"۔صارم نے کہا۔
"کیا مطلب ؟۔وقار نے پوچھا۔
"مطلب جیسے ہم لوگ باتیں کرتے ہیں ، ایسے ہی اس سے بھی بات کیا کرو یار"۔صارم نے کہا۔
"ہم لوگ اس سے بھی ایسے ہی بات کرتے ہیں ، اب کیا گودوں میں کھیلائیں اسے؟۔ارمان نے تپ کر کہا۔
"نہیں یار ، میرا مطلب تھوڑا مسکرا کر بات کرلیا کرو یار"۔صارم نے کہا۔
"تو اتنی وکالت کیوں کررہا ہے اس "جانی براوو" کی؟۔عماد نے پوچھا۔عماد نے پہلے دن سے ہی اسامہ کا نام تھوڑی فلرڑی طبیعت کی وجہ سے کارٹون نیٹ ورک کے مہشور کارٹون کیرکٹر "Johnny Bravo" کے نام پر رکھ دیا تھا۔
"وکالت نہیں کررہا ، ایک بات کہہ رہا ہوں ، وہ کتنے اچھے سے ملتا ہے ہم سب سے ، اور تم لوگ ہو کہ اتنا ٹکہ سا جواب دیتے ہو اسکی ہر بات کا"۔صارم نے کہا۔
"ہاں ، اور لڑکیوں سے تو کچھ زیادہ ہی اچھے سے ملتا ہے"۔وقار نے طنز مارا۔
"یار جنید بھی تو اسامہ کے ساتھ ہی آیا ہے ہمارے گروپ میں ، اس سے تو تم لوگوں کا رویہ ٹھیک ہے"۔صارم نے کہا۔
"ابے اس "جانی براوو" اور "پنک پنتھر" میں بہت فرق ہے، وہ پنک پنتھر تو بہت سیدھا سادہ بچہ ہے"۔عماد نے کہا۔عماد نے جنید کا نام پہلے ہی دن سے پنک شرٹ کی وجہ سے پنک پینتھر رکھ دیا تھا۔اور جنید زیادہ تر پنک شرٹ ہی پہنتا تھا۔

"اب یار ہر کسی کا اپنا اپنا نیچر ہوتا ہے ، پر ہمیں سب کے ساتھ برابر کا سلوک کرنا چاہئے"۔صارم نے کہا۔
"لگتا ہے اس نے فاطمہ کا جھوٹا پی لیا ہے ، تب ہی اسکے جیسی "نصیحت آمیز" باتیں کررہا ہے"۔عماد نے مذاق اڑایا۔
"ابے یار ، تم لوگ یہاں نوٹس ڈسکس کرنے آئے تھے ، یا عورتوں کی طرح اِسکی اُسکی برائی کرنے؟۔ارمان نے کہا۔
"ابے یار نوٹس ہی ڈسکس کرنے آئے تھے ، وہ تو یہ مولوی صاحب نے بیچ میں تبلیغ شروع کردی تھی"۔عماد نے صارم کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔پھر چاروں نے سیریس ہوکر تھوڑی دیر پڑھائی کے معملات ڈسکس کئے۔اور تھوڑی دیر میں اپنے اپنے گھر چلے گئے۔
************
"ہائے گرلز"۔اسامہ نے قریب آتے ہوئے کہا۔"Cadena Group" کی پانچوں لڑکیاں اس وقت لائبریری میں بیٹھی ہوئی تھیں۔کہ تب ہی اسامہ بھی ان کے ساتھ آکر بیٹھ گیا۔
"کیا کررہی ہو تم لوگ؟۔اسامہ نے پوچھا۔
"مچھلیاں پکڑ رہے ہیں ، آپ بھی پکڑیں گے؟۔نادیہ نے اپنی ناگواری چھپاتے ہوئے کہا۔نادیہ کو بھی یہ ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا۔
"ہاہاہا...گڈ جوک"۔اسامہ پر نادیہ کے طنز کا کوئی اثر نہیں ہوا۔
"ویسے آپ یہاں کیا کرنے آئے تھے؟۔مریم نے پوچھا۔
"جی آیا تو میں یہاں گھوڑ سواری کرنے تھا، پر کچھ لوگوں کو مچھلیاں پکڑتے ہوئے دیکھا تو ان کے پاس آگیا"۔اسامہ نے نادیہ کی جانب دیکھتے ہوئے مریم کو جواب دیا۔نادیہ سمجھ گئی کہ یہ اسی پر طنز مار رہا ہے۔
"ارے ہمارا مطلب کہ آپ بھی یہاں کچھ پڑھنے آئے تھے یا کسی کو ڈھونڈ رہے تھے؟۔آرزو نے وضاحت کی۔
"بس تم لوگوں کو ہی ڈھونڈ رہا تھا"۔اسامہ نے بتایا۔
"کیوں ! خیریت؟۔فاطمہ نے پوچھا۔
"ایسے ہی ، ضروری ہے کہ کوئی کام ہو تو ہم تب ہی ملیں ، خیر باقی بوائز کہاں ہیں؟۔اسامہ نے کہتے ہوئے پوچھا۔
"وہ لوگ بھی یہاں ہی کہیں ہوں گے"۔مریم نے کہا۔
"آپ باہر جاکر دیکھ لیں ، کیا پتہ وہ لوگ گرونڈ میں بیٹھیں ہوں"۔نادیہ نے کہا۔
"پہلی بات تو یہ کہ تم مجھے آپ نہیں بولا کرو ، ہم لوگ دوست ہیں ، تو دوستوں کی طرح تم ہی بولا کرو ، اور دوسری بات کہ تمہیں مجھے یہاں سے بھگانے کی اتنی جلدی کیوں ہے؟۔اسامہ نے کہا۔نادیہ نے کوئی جواب نہیں دیا۔اور واپس کتاب پر جھک گئی۔
"ایسا کرتے ہیں ہم سب ہی باہر چلتے ہیں ، ابھی اگر لائبریلین نے ہمیں باتیں کرتے ہوئے دیکھ لیا تو ڈانٹ پڑے گی"۔آرزو نے کہا۔اور سب ہی اثبات میں سر ہلاکر باہر جانے کیلئے کھڑے ہوگئے۔
آرزو ، نادیہ اور فاطمہ تینوں شاپنگ پر آئی ہوئی تھیں۔اور اس وقت ایک ریسٹرونٹ میں بیٹھی ہوئی تھیں۔فاطمہ کو اپنے کزن کی برتھڈے پر جانے کیلئے کچھ شاپنگ کرنی تھی۔اور تینوں کا گھر چند گلیاں چھوڑ کر ہی تھا۔اس لئے فاطمہ آرزو اور نادیہ کو بھی ساتھ لے آئی تھیں۔
"یار نادی ، تم اسامہ سے اتنا تلخ برتاؤ کیوں کرتی ہو؟۔آرزو نے کہا۔
"اور تمہیں اسکا چھچھورپن نظر نہیں آتا!۔نادیہ نے کہا۔
"یار پھر بھی تم کچھ زیادہ ہی تلخ ہوجاتی ہو"۔آرزو نے کہا۔
"یار ویسے یہ اسامہ مجھے بھی اتنا اچھا نہیں لگتا"۔فاطمہ نے کہا۔

"بندہ تو جنید ہے ، کتنی ریسپیکٹ کرتا ہے ہم سب کی ، اور خاص طور پر لڑکیوں کی ، سہی سے نظر اٹھا کر دیکھتا بھی نہیں ہے کسی لڑکی کو"۔فاطمہ نے مزید کہا۔
"ہممم! سہی بول رہی ہے یہ ، سچ میں جنید جیسا شریف لڑکا میں نے پہلی بار دیکھا ہے"۔نادیہ نے بھی فاطمہ کی تائید کی۔
"ہممم! خیر چلو اب جاکر کچھ کھانے کیلئے لے کر آؤ میڈیم ، کب سے ہمیں گھوما گھوما کر تھکا دیا ہے"۔آرزو نے فاطمہ سے کہا۔
"ہممم ! ابھی لائی"۔فاطمہ نے کہا۔اور کاؤنٹر کی جانب چلی گئی۔کاؤنٹر پر تھوڑا رش تھا۔فاطمہ اپنی باری کا انتظار کرنے لگی۔کہ تب ہی اسے پیچھے سے دھکا لگا۔فاطمہ نے یکدم پلٹ کر دیکھا۔تو اسکے پیچھے ایک لڑکا کھڑا تھا۔فاطمہ کے گھومنے پر لڑکے نے مسکرا کر "سوری" کہا۔فاطمہ واپس سیدھی ہوگئی۔پھر فاطمہ کو اپنی کمر پر کچھ محسوس ہوا۔وہ پھر پلٹی۔پر لڑکا کہیں اور دیکھ رہا تھا۔فاطمہ تھوڑا آگے ہوکر کھڑی ہوگئی۔اور اب کی بار تو فاطمہ نے باقاعدہ طور پر بہت واضح اپنی کمر پر اسکا ہاتھ محسوس کیا۔اس سے پہلے کے فاطمہ کچھ بولتی۔لڑکے کو کسی نے پکڑ کر اپنی جانب کھنچا اور ایک زوردار تھپڑ مارا۔آس پاس کے سب لوگ یہاں متوجہ ہوگئے۔
"میں کب سے تجھے دیکھ رہی تھی ، شرم نہیں آتی یہ سب کرتے ہوئے"۔آرزو نے کہا۔آرزو نے ہی اس لڑکے کو تھپڑ مارا تھا۔
"کیا ہوگیا میڈیم ! کیا کیا ہے میں نے؟۔لڑکے نے انجان بنتے ہوئے پوچھا۔
"ابھی اسکے ساتھ کیا کررہا تھا تو؟۔آرزو نے فاطمہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
"وہ تو غلطی سے انکو ٹچ ہوگیا تھا"۔لڑکے نے کہا۔
"غلطی ایک بار ہوتی ہے ، دوسری بار ارادہ ہوتا ہے ، اور اگر اتنا ہی شوق ہے ناں یہ سب کرنے کا ، تو یہاں پبلک پلیس پر اتنی محنت کرنے کی کیا ضرورت ہے ! تمہارے گھر میں بھی تو ماں بہن ہوں گی ناں ، انکے جسم کی بناؤٹ بھی ایسی ہی ہوگی ، ان کے ساتھ کرلیا کرو ناں یہ سب بے فکر ہوکے"۔آرزو نے کہا۔
"زبان سمبھال ک......!
"چٹاخ"۔لڑکے نے غصے سے بولتے ہوئے آرزو کو مارنے کیلئے ہاتھ اٹھایا۔پر اس سے پہلے ہی کسی نے پھر بہت زوردار تھپڑ اسے مارا۔اور اسکی بات ادھوری رہ گئی۔
"تمیز نہیں ہے لڑکیوں سے بات کرنے کی؟۔جنید نے کہا۔جنید نے ہی اسے تھپڑ مارا تھا۔ پورا ریسٹرونٹ ہی ان لوگوں کی جانب متوجہ تھا۔اور ان کے آس پاس کافی لوگ جمع ہوگئے تھے۔
"یہ لڑکی میری ماں بہن کو کیوں بیچ میں لارہی ہے؟۔لڑکے نے غصے سے کہا۔
"اور جو تو دن دھاڑے سب کے سامنے کسی کی بہن بیٹی کو بے عزت کررہا ہے اسکے بارے میں کیا خیال ہے تیرا؟۔جنید نے اس لڑکے کا گریبان پکڑتے ہوئے کہا۔لڑکے نے کوئی جواب نہیں دیا۔
"تیرے جیسے لوگوں کو تو پھانسی پر لٹکا دینا چاہئے"۔جنید نے غصے سے اس لڑکے کا گلا پکڑ لیا۔
"چھوڑو جنید ، صرف اسکو مارنے سے کیا ہوگا ، اس جیسے ہزاروں لوگ ہمارے معاشرے میں بھرے پڑے ہیں"۔آرزو نے جنید کو پیچھے ہٹاتے ہوئے کہا۔
"سدھار تو تب آئے گا جب انکی کمینگی کا نشانہ بننے والی لڑکی خود انکو جواب دے"۔آرزو نے کہا۔اتنے میں ریسٹرونٹ کا منیجر بھی کچھ اور لوگ کے ساتھ بیچ میں آگیا۔اور اس لڑکے کو اپنے ساتھ لے گیا۔اور سب لوگوں کو واپس اپنی جگہ پر جانے کا کہا۔اور تھوڑی دیر میں ہی رش چھٹ گیا۔ان لوگوں کا بھی اب کچھ کھانے کا موڈ نہیں رہا تو یہ لوگ بھی باہر آگئے۔جنید بھی ان لوگوں کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔
"آپ نے مجھے روک لیا آرزو جی ، ورنہ آج تو یہ لڑکا میرے ہاتھوں مرتا"۔جنید نے کہا۔چاروں بس اسٹاپ کی جانب جارہے تھے۔
"اپکا غصہ جائز تھا ، پر میں نے کہا ناں کہ ایسے لوگوں کو انہی لڑکیوں کو جواب دینا چاہئے ، جو انکی اس طرح کی گری ہوئی حرکتوں کا نشانہ بنتی ہیں"۔آرزو نے کہا۔
"ہاں ، اور سب کے سامنے اپنا تماشا بنالیں ، تا کہ جس کو نہیں بھی پتہ ہوگا کہ ہمارے ساتھ کیا ہورہا ہے ، اسکو بھی پتہ چل جائے ، اور ہم سب کے سامنے شرمندہ ہوجائیں"۔فاطمہ نے کہا۔
"تم کیوں شرمندہ ہوگی ، غلط کام تو وہ کررہا ہے ناں ! اور تم جیسی لڑکیوں کی اسی سوچ کی وجہ سے ایسے لوگوں کو حوصلہ ملتا ہے ، کہ ہم کچھ بھی کرلیں ، لڑکی آگے سے اس لئے کچھ نہیں بولے گی کہ کہیں اسکا تماشا نا بن جائے ، جبکہ یہ غلط ہے ، میں تو کہتی ہوں کہ جہاں کوئی لڑکا کسی لڑکی کے ساتھ ایسی حرکت کرتے ہوئے پائے ، وہیں رکھ کے ایک زوردار تھپڑ لگائے"۔آرزو نے کہا۔
"بالکل ٹھیک کہہ رہی ہیں آرزو جی"۔جنید نے بھی تائید کی۔
"ویسے ان سب تماشے میں ہم یہ تو پوچھنا بھول ہی گئے کہ آپ یہاں کب آئے تھے ؟۔نادیہ نے پوچھا۔
"وہ میں ایک دوست سے ملنے آیا ہوا تھا، واپس جاہی رہا تھا کہ تب ہی آرزو جی نے اس لڑکے کو تھپڑ مار دیا، اور پھر سب آپکے سامنے ہے"۔جنید نے کہا۔
"اچھا ، چلیں اب ہم چلتے ہیں ، مدد کیلئے شکریہ ، پھر کل کالج میں ملاقات ہوگی"۔آرزو نے کہا۔
"نہیں میں کل کالج نہیں آؤں گا"۔جنید نے کہا۔
"کیوں ؟۔تینوں نے یک زبان پوچھا۔

"وہ دراصل میری خالہ کی طبیعت خراب ہے ، اور وہ حیدرآباد میں رہتی ہیں ، آج مغرب کے بعد میں امی کو لے کر انکے گھر جارہا ہوں ، عیادت کیلئے ، تو پھر کل شام تک ہی واپسی ہوگی"۔جنید نے بتایا۔
"اوہ اچھا ! اللّه پاک انکو صحت دے ، تو پھر پرسوں ملاقات ہوگی کالج میں"۔آرزو نے کہا۔
"جی ان شاء،اللّه، اچھا اب میں چلتا ہوں، اللّه حافظ"۔جنید نے کہا۔تینوں اپنے راستے چلی گئیں۔اور جنید اپنے راستے۔
*******
"یار نادی تجھے خدا کا واسطہ ، خدا کا واسطہ اب بس کردے ، چپ ہوجا ، صبح سے یہی باتیں کر کرکے پکا دیا ہے تو نے"۔صارم نے نادیہ کے آگے باقاعدہ ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔پورا "Cadena Group" اس وقت کینٹین میں اپنی مخصوص جگہ پر بیٹھا ہوا تھا۔اور نادیہ اور فاطمہ صبح سے ہی ان لوگوں کو کل والے واقعے کے بارے میں بتاتے ہوئے جنید کی تعریفوں میں لگی ہوئی تھیں۔اور صبح سے ہی ان لوگوں کو یہ بات بار بار بتا کر پکا دیا تھا۔اور اب صارم کی برداشت جواب دے گئی تھی۔
"کیا ہوگیا ، اب جب ایک بندہ تعریف کے قابل ہے تو اسکی تعریف کیوں نا کروں!۔نادیہ نے تنک کر کہا۔
"یار تعریف کرنا الگ بات ہے ، اور ایک ہی بات کرکے پکانا الگ بات ہے"۔صارم نے کہا۔
"ہممم! اور تم لوگ جو جنید کی اتنی تعریفیں کررہے ہو ، کیا پتہ جنید نے اس لڑکے کو نا حق مارا ہو ، سچ میں اس لڑکے کا ہاتھ غلطی سے ٹچ ہوا ہو"۔اسامہ نے اس لڑکے کی حمایت کی۔
"دیکھا ! کیسے اپنی برادری کے لوگوں کی حمایت کررہا ہے"۔عماد نے صارم کے کان میں کہا۔کسی کو بھی اسامہ کی بات پسند نہیں آئی تھی۔
"غلطی ایک بار ہوتی ہے اسامہ ، اور وہ بار بار ایسا کررہا تھا ، ہے ناں فاطمہ!۔آرزو نے کہتے ہوئے آخر میں فاطمہ سے تائید چاہی۔فاطمہ نے اثبات میں سر ہلادیا۔
"یار تم لوگوں کی باتیں سن سن کر مجھے اتنا افسوس ہورہا ، قسم سے اتنا اچھا ڈرامہ مس کردیا میں نے ، کاش کل میں بھی وہاں ہوتی ، اور جنید کو اس لڑکے کو مارتے ہوئے دیکھتی"۔عظمیٰ نے حسرت سے کہا۔
"اوہ میڈیم اس نے بس ایک تھپڑ مارا تھا ، اور اس طرح کے تماشے بھی بھلا کوئی دیکھنے کی چیز ہوتے ہیں"۔آرزو نے کہا۔
"نیکسٹ پیریڈ کا ٹائم ہوگیا ہے"۔ارمان نے کہا۔اور سب سر ہلاتے ہوئے اٹھ گئے۔
*******
"آرزو ! تمہاری اور ارمان کی لڑائی ہوئی ہے کیا، تم دونوں کھنچے کھنچے سے لگ رہے تھے آج؟۔نادیہ نے پوچھا۔دونوں اس وقت اسٹاپ سے اپنے گھر کی جانب جارہی تھیں۔کیونکہ فاطمہ کو تو اسکے ابو لینے آتے تھے۔
"پتہ نہیں"۔آرزو نے کہا۔
"مطلب ہوئی ہے ، کس بات پر؟۔نادیہ نے کہا۔
"ابے یار کوئی بات نہیں تھی ، بس یہ ارمان کو ہی شوق ہے بات بڑھانے کا"۔آرزو نے کہا۔
"ہاں تو کیا بول دیا اس نے؟۔نادیہ نے پوچھا۔
"کل میں نے فیس بک پر ایک پوسٹ شیئر کی ، تو اس پر تم سب نے ہی کوممنٹ کیا تھا ، اس میں اسامہ کا بھی کوممنٹ تھا ، تو میں نے جواب میں سب کے کوممنٹ میں لو والا ری ایکٹ کردیا ، تم تو جانتی ہی ہو کہ میں ایسا ہی کرتی ہوں ، بس اس پر رات میں وہ مجھے میسیج کرکے بول رہا تھا کہ میں نے اسامہ کے کوممنٹ پے لو والا ری ایکٹ کیوں کیا؟ بس اسی بات پر ضد بحث ہوگئی"۔آرزو نے بتایا۔اور نادیہ کی ہنسی چھوٹ گئی۔اور رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔
"اب اس میں ہنسنے والی کون سی بات ہے!۔آرزو نے پوچھا۔
"یار یہ بھی کوئی لڑنے والی بات تھی"۔نادیہ نے ہنوز ہنستے ہوئے کہا۔تب تک نادیہ کے گھر کی گلی آچکی تھی۔
"اچھا یار میں چلتی ہوں ، اور تم ایک کام کرو اپنا لو والا ری ایکٹ واپس لے لو ، صلح ہوجائے گی"۔نادیہ نے ہنستے ہوئے مشورہ دیا۔اور اپنے گھر چلی گئی۔آرزو بھی آگے بڑھ گئی۔کیونکہ اس کا گھر بھی اگلی گلی میں ہی تھا۔
*****
وقت گزرتا گیا۔جنید اور اسامہ کو انکا گروپ جوائن کئے ہوئے دو ماہ ہوگئے تھے۔اور اب وہ لوگ پچھلی پڑھائی بھی پوری کرچکے تھے۔سب کچھ ویسے ہی اپنی روٹین پر چل رہا تھا۔اسامہ سے سب ویسے ہی چڑتے تھے۔اور جنید کے گن گاتے تھے۔اور اب تو جنید بھی ارمان وغیرہ کے گھر آنے جانے لگا تھا۔اور ایک دفعہ جنید نے بھی پورے گروپ کو اپنے گھر بلایا تھا۔اور اپنی امی سے بھی ملوایا تھا۔اور سب کو ہی جنید کی امی بھی بہت اچھی لگیں تھیں۔
*******
"آرزو !۔اسامہ نے پکارا۔آرزو رک گئی۔آرزو کلاس کے بعد کینٹین کی جانب جارہی تھی۔جہاں باقی گروپ تھا۔کہ تب ہی اسامہ نے اسے پیچھے سے پکارا۔
"ہاں بولو"۔آرزو نے پوچھا۔
"وہ کل میں کالج نہیں آیا تھا ، تو مجھے نوٹس چاہیے"۔اسامہ نے بتایا۔دونوں ساتھ ساتھ چلنے لگے۔
"ہاں ضرور ، جاتے ہوئے لے لینا"۔آرزو نے کہا۔
"اوہ تھینکس"۔اسامہ نے کہا۔
"ارے ابھی میں نے نوٹس دیے نہیں ہیں ، جب دوں گی تب بولنا تھینکس"۔آرزو نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"تب دوبارہ بول دونگا"۔اسامہ نے بھی مسکراتے ہوئے کہا۔
"ویسے تم کل رات میں ہی ارمان یا وقار وغیرہ کے گھر جاکر ان سے نوٹس لے سکتے تھے، اب تک تو تم اپنے نوٹس بنا چکے ہوتے"۔آرزو نے کہا۔
"میں نے محسوس کیا ہے کہ وہ لوگ مجھے اتنا پسند نہیں کرتے"۔اسامہ نے کہا۔
"ارے نہیں ، تم ابھی نئے ہو ناں ، اس لئے ایسا محسوس کررہے ہو ، دیکھنا آہستہ آہستہ کتنی گہری دوسری ہوجائے گی تم سب میں"۔آرزو نے مسکراتے ہوئے کہا۔اسامہ نے بھی مسکرا کر سر ہلادیا۔اور لوگ کینٹین میں آچکے تھے۔اور دونوں کو یوں مسکرا کر باتیں کرتے ہوئے دیکھ کر ارمان کے ماتھے پر بل پڑگئے تھے۔
********

اگلا پیریڈ شروع ہوچکا تھا۔سب لوگ کلاس میں تھے۔اور بہروز سر بورڈ پر کچھ لکھنے کے ساتھ ساتھ لیکچر بھی دے رہے تھے۔جسے سب جلدی جلدی نوٹ کررہے تھے۔
"ارمان ! بورڈ پر "The" کے برابر میں کیا لکھا ہوا ہے ؟ مجھے سمجھ نہیں آرہا"۔آرزو نے اپنے برابر میں بیٹھے ارمان سے کہا۔ارمان نے کوئی جواب نہیں دیا۔اور ہنوز اپنی نوٹ بک پر لکھتا رہا۔
"ارمان میں تم سے کچھ پوچھ رہی ہوں"۔آرزو نے دوبارہ کہا۔
"ان سے ہی پوچھ لو جن سے آج کل تمہاری کچھ زیادہ ہی دوستیاں چل رہی ہیں"۔ارمان نے ہنوز لکھتے ہوئے ہی سپاٹ لہجے میں کہا۔آرزو ارمان کے اس انداز پر دنگ رہ گئی۔کیونکہ آج سے قبل ارمان نے آرزو سے کبھی اس طرح بات نہیں کی تھی۔
"کس کی بات کررہے ہو تم؟۔آرزو نے ناسمجھی سے پوچھا۔
"اسامہ اور جنید کی"۔ارمان نے آرزو کی جانب دیکھ کر کہا۔
"تم پاگل ہوگئے ہو ارمان"۔آرزو نے حیرت و صدمے سے کہا۔سر کی موجودگی کی وجہ سے دونوں سرگوشیوں میں بات کررہے تھے۔ارمان نے آرزو کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔اور واپس اپنی نوٹ بک پر جھک گیا۔
******
"کلاس میں کیا بکواس کررہے تھے تم؟۔آرزو نے اپنا رجسٹر تقریباً ارمان کے سامنے میز پر پٹختے ہوئے کہا۔ارمان نے ایک نظر سر اٹھا کر آرزو کو دیکھا۔پھر دوبارہ اپنے فون میں مگن ہوگیا۔ارمان اس وقت کینٹین میں بیٹھا ہوا تھا۔اور باقی کا "Cadena Group" لائبریری میں کچھ نوٹس بنا رہا تھا۔ان لوگوں نے ارمان کو بھی ساتھ چلنے کا کہا۔پر وہ سر درد کا بہانہ بنا کر یہاں آگیا۔اور موقع دیکھ کر آرزو بھی یہاں ارمان کے پاس آگئی۔
"میں تم سے بات کررہی ہوں ارمان"۔آرزو نے جواب نا پاکر دوبارہ کہا۔
"تم آج کل ان دونوں سے کچھ زیادہ ہی بات چیت کرنے لگی ہو"۔ارمان نے آرزو کی جانب دیکھ کر کہا۔
"کیا مطلب؟۔آرزو نے ناسمجھی سے پوچھا۔وہ بھی اب کرسی کھینچ کر بیٹھ چکی تھی۔
"مطلب کہ جب سے ان دونوں نے ہمارا گروپ جوائن کیا ہے ، تب سے تمہیں ان لوگوں کے علاوہ کوئی اور نظر ہی نہیں آتا ہے"۔ارمان نے کہا۔
"تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے ! ان دونوں کے ساتھ بھی میں ویسے ہی برتاؤ کرتی ہوں جیسے باقی سب کے ساتھ ، اور ان دونوں کے آنے سے قبل وقار ، عماد اور صارم سے بھی میں ایسے ہی بات کرتی تھی ، تب تو تمہیں کوئی مسلہ نہیں تھا"۔آرزو نے کہا۔
"ہاں ، کیونکہ وہ لوگ ہمارے دوست ہیں"۔ارمان نے کہا۔
"ہاں تو وہ دونوں بھی تو ہمارے دوست ہیں"۔آرزو نے کہا۔
"تم سمجھتی کیوں نہیں ہو ، کہ دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا"۔ارمان نے کہا۔
"ارمان تم پاگل ہوگئے ہو ، بس الٹی سیدھی باتیں کرتے رہتے ہو ، آخر تم چاہتے کیا ہو؟"۔آرزو نے کہا۔
"میں بس یہ چاہتا ہوں کہ تم ان دونوں سے دور رہا کرو"۔ارمان نے کہا۔
"کیوں دور رہا کروں؟۔آرزو نے پوچھا۔
"کیونکہ مجھے اچھا نہیں لگتا"۔ارمان نے کہا۔
"واہ! اور تمہیں اچھا کیوں نہیں لگتا؟۔آرزو نے پوچھا۔
"کیونکہ میں........!۔ارمان بولتے بولتے رک گیا۔
"کیا کیونکہ ! بتاؤ !۔آرزو نے کہا۔
"کیونکہ میں.......
"ارے یار آرزو تم یہاں کیوں آگئی؟۔عظمیٰ نے قریب آتے ہوئے کہا۔پورا گروپ بھی کرسیاں کھینچ کر بیٹھ چکا تھا۔ اور دونوں کی بات بیچ میں ہی رہ گئی۔
********
اگلے دن پھر کلاس کے بعد پورا گروپ کینٹین میں جمع تھا۔آرزو اور جنید ابھی تک نہیں آئے تھے۔دونوں کو لائبریری سے کچھ بکس لینی تھیں۔ارمان کینٹین میں بیٹھا ہوا باہر کی جانب ہی دیکھ رہا تھا۔جہاں سے گرونڈ صاف نظر آرہا تھا۔کہ تب ہی جنید اور آرزو باتیں کرتے ہوئے کینٹین کی جانب آتے ہوئے نظر آئے۔سب نے ہی انھیں دیکھ لیا تھا۔اور ارمان کے ماتھے پر حسب معمول بل پڑگئے تھے۔جسے عماد نے نوٹ کرلیا۔
"یار میرا ناں اس وقت شدت سے ایک گانا گنگنانے کا دل چاہ رہا ہے"۔عماد نے کہا۔
"ارشاد ارشاد"۔صارم نے کہا۔
"نہیں ارشاد آج کالج نہیں آیا"۔عماد نے کہا۔
"ارے بھئی سناؤ تم"۔عظمیٰ نے کہا۔
"ہاں تو بات کچھ یوں ہے کہ شاعر نے اپنی محبوبہ کو کسی اور کے ساتھ دیکھ کر عرض کیا کہ.....
"تمہیں کوئی اور دیکھے ، تو جلتا ہے دل"
"بڑی مشکلوں سے پھر ، سمبھلتا ہے دل"
"کیا کیا جتن کرتے ہیں ، تمہیں کیا پتہ"
"یہ دل بےقرار کتنا ، یہ ہم نہیں جانتے"
"مگر جی نہیں سکتے ، تمہارے بنا"
"ہمیں تم سے پیار کتنا ، یہ ہم نہیں جانتے"
"مگر جی نہیں سکتے ، تمہارے بنا"
"ہمیں تم سے پیار"

عماد نے پورے سروں کے ساتھ ارمان کو دیکھتے ہوئے گانا گیا۔آرزو اور جنید بھی ان لوگوں کے قریب آچکے تھے۔اور عماد کو سن چکے تھے۔سب نے ہی عماد کو داد دی۔اور عماد معنی خیزی سے ارمان کو دیکھنے لگا۔
"خریت یہ اچانک یہاں پر پاکستان آئڈیل کیوں شروع ہوگیا!۔جنید نے کرسی کھینچ کر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
"بس ایسے ہی ، سچویشن ہی کچھ ایسی ہوگئی تھی کہ بے ساختہ یہ گانا یاد آگیا"۔عماد نے کہا۔
"کیا ! اس طرح کی سچویشن یہاں کب ہوئی؟۔نادیہ نے حیرانگی سے پوچھا۔
"تو رہنے دے بہن، اپنے ننھے سے دماغ پر زور مت ڈال"۔عماد نے کہا۔پھر تھوڑی دیر سب وہاں بیٹھے ہنسی مذاق کرتے رہے۔اور پھر اگلے پیریڈ کا ٹائم ہوتے ہی سب کلاس کی جانب چلے گئے۔
********
کچھ دنوں سے جنید کالج نہیں آرہا تھا۔وقار اور صارم نے جنید کے گھر جاکر معلوم کیا تو پتہ چلا کہ جنید کی طبیعت خراب ہے۔اور وہ مزید کچھ دن کالج نہیں آئے گا۔سب کو ہی افسوس ہوا۔سوائے ارمان کے۔پھر سب نے پلان بنایا کہ کیوں ناں سب مل کر جنید کے گھر چلیں۔اسکی طبیعت پوچھنے۔وہ خوش ہوجائے گا۔پھر اسی تجویز پر عمل کرتے ہوئے۔اگلے دن مغرب کے بعد پورا گروپ جنید کے گھر گیا۔سوائے ارمان کے۔
*******
"تم سب مجھ سے ملنے آئے، مجھے بہت خوشی ہوئی"۔جنید نے کہا۔جنید اپنے بیڈ پر لیٹا ہوا تھا۔اور باقی سب اسکے آس پاس ہی کچھ بیڈ پر تو کچھ صوفے پر بیٹھے ہوئے تھے۔
"ہممم! اور ہمیں بھی بہت خوشی ہوگی جب تم ٹھیک ہوکر دوبارہ کالج جوائن کروگے"۔صارم نے کہا۔
"ہممم! ان شاءاللّه بہت جلد ، اچھا ارمان نہیں آیا تم لوگوں کے ساتھ!۔جنید نے پوچھا۔
"ہاں وہ بھی آرہا تھا، پر اسکو کچھ کام پڑگیا تو وہ آنہیں سکا ، ارمان کہہ رہا تھا کہ تم سے ملنے آئے گا"۔وقار نے جھوٹ بولا۔کیونکہ ارمان پہلے ہی صاف صاف منع کرچکا تھا کہ وہ جنید سے ملنے نہیں جائے گا۔
"مجھے بہت شرمندگی ہورہی ہے ، تم سب میرے گھر آئے ہوئے ہو ، اور میں تم لوگوں کی مہمان نوازی بھی نہیں کرپارہا"۔جنید نے کہا۔
"ارے کوئی بات نہیں یار ، دوستوں میں بھلا کیسا تکلف"۔صارم نے کہا۔پھر کافی دیر تک وہ لوگ وہاں بیٹھے رہے۔اور قریب نوں بجے تک واپس آگئے۔
*******
آج اتوار تھا۔اور آج آرزو اپنی نیند پوری کرکے آرام سے اٹھی تھی۔آرزو جیسے ہی فریش ہوکر کمرے سے باہر جانے لگی۔تو اسکا فون بجا۔
"ہاں جنید بولو"۔آرزو نے فون کان سے لگا کر کہا۔
"ہاں آرزو ، وہ میں نے تمہیں یہ بتانے کیلئے فون کیا ہے کہ آج پورا گروپ پھر سے میرے گھر جمع ہورہا ہے ، اور تمہیں پتہ ہے کیوں؟۔جنید نے کہا۔
"کیوں ! ابھی دو دن پہلے ہی تو ہم تمہارے گھر آئے تھے"۔آرزو نے تعجب سے کہا۔
"کیونکہ دو دن بعد تمہاری سالگرہ ہے ناں ، اس لئے سب نے تمہیں سرپرائز دینے کا پلان بنایا ہے ، ان لوگوں کا پلان ہے کہ وہ تمہیں اچانک سے فون کریں گے کہ جنید کی طبیعت خراب ہوگئی ہے ، تم جلدی اسکے گھر آؤ ، اور پھر جب تم یہاں پہنچو گی تو تمہیں سرپرائز دیں گے"۔جنید نے بتایا۔
"کیا ! میری سالگرہ تو دو دن بعد ہے ، ابھی سے سرپرائز ، اور وہ بھی ایسا ، ویسے تم مجھے یہ سب کیوں بتا رہے ہو؟۔آرزو نے حیرت سے کہا۔
"ان لوگوں سے بدلہ لینے کیلئے ، کیونکہ ان لوگوں نے مجھے غیروں کی طرح بس صبح عین وقت میں فون کرکے سب بتایا ، اس لئے میں تمہیں یہاں پہلے سے بلا کر ان لوگوں کو سرپرائز دینا چاہتا ہوں"۔جنید نے بتایا۔
"ہاہاہاہا اچھا مقابلہ ، چلو ٹھیک ہے ، میں تھوڑی دیر میں تمہارے گھر آتی ہوں ، اور ان لوگوں کا سرپرائز انہی کو دیتے ہیں"۔آرزو نے ہنستے ہوئے کہا۔اور فون رکھ دیا۔
*******
"ہیلو ارمان!۔صارم نے کہا۔
"ہاں بولو"۔ارمان نے چاۓ پیتے ہوئے کہا۔
"میں نے یہ پوچھنے کیلئے فون کیا ہے کہ تم نے کیا سوچا ہے پھر آج جنید کے گھر جانے کے بارے میں؟۔صارم نے پوچھا۔
"یار میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ میں وہاں نہیں جاؤں گا"۔ارمان نے چڑ کر کہا۔
"یار ارمان بری بات ، ایسے کسی کیلئے اپنے دل میں بغض نہیں رکھتے ، آخر تم اتنا چڑتے کیوں ہو جنید سے؟۔صارم نے کہا۔
"بس ایسے ہی ، مجھے لگتا ہے کہ وہ کچھ زیادہ ہی اچھا بننے کی ایکٹنگ کرتا ہے ہم سب کے سامنے، اور مجھے اسکے اس دکھاوے سے سخت چڑ ہوتی ہے"۔ارمان نے کہا۔
"یہ سب تمہارا وہم ہے ، اور اب یہ بیکار کی ضد چھوڑو ، اور اس سے ملو جاکر"۔صارم نے کہا۔
"اچھا جی ، اور کوئی حکم!۔ارمان نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"نہیں ، ابھی تو فلحال یہی حکم ہے ، باقی بعد میں اگر کچھ یاد آیا تو بتا دوں گا"۔صارم نے بھی مصنوئی اکڑ سے کہا۔
"ٹھیک ہے"۔ارمان نے کہا۔
"اب چلے جانا ہاں"۔صارم نے پھر تاکید کی۔
"ارے ہاں ہاں"۔ارمان نے کہا۔اور فون رکھ دیا۔
آرزو جنید کے گھر پہنچ چکی تھی۔گھر پر آرزو یہی بول کر آئی تھی کہ اپنی دوست کے گھر جارہی ہے۔آرزو نے ڈور بیل بجائی۔تھوڑی دیر میں ہی جنید نے دروازہ کھولا۔
"آؤ اندر"۔جنید نے راستہ دیتے ہوئے کہا۔آرزو اندر آگئی۔جنید بھی دروازہ بند کرکے اندر آگیا۔
"کب تک آنے کا پلان تھا ان لوگوں کا؟۔آرزو نے پوچھا۔
"ابھی بارہ بج رہے ہیں، ایک بجے تک آنے کا پلان تھا ان لوگوں کا"۔جنید نے بتایا۔
"ہممم! اور تمہاری امی کہاں ہیں؟۔آرزو نے پوچھا۔
"اندر ہیں کمرے میں ، چلو مل لو چاہو تو"۔جنید نے کہا۔

"ہاں ضرور ، کہاں ہیں؟۔آرزو نے پوچھا۔اور جنید اندر کی جانب بڑھا۔آرزو بھی اسکے پیچھے پیچھے چلنے لگی۔جنید ایک کمرے میں داخل ہوا۔اور آرزو بھی اسکے پیچھے ہی کمرے میں آگئی۔آرزو نے اندر آکر دیکھا تو کمرے میں کوئی نہیں تھا۔آرزو حیران ہوگئی۔اس سے پہلے کہ آرزو کچھ بولتی پیچھے سے دروازہ بند ہونے کی آواز آئی۔آرزو نے پلٹ کر دیکھا تو جنید نے دروازہ بند کردیا تھا۔
"یہ کیا کررہے ہو جنید ! دروازہ کیوں بند کردیا؟۔آرزو نے پوچھا۔
"تا کہ تم باہر نا جاسکو"۔جنید نے آہستہ آہستہ قریب آتے ہوئے کہا۔
"یہ کیا مذاق ہے جنید ، دروازہ کھولو ، مجھے ایسا مذاق بالکل پسند نہیں ہے، اور تمہاری امی کہاں ہیں!"۔آرزو نے کہا۔
"یہ مذاق نہیں ہے جانِ من ، یہ بالکل حقیقت ہے ، بلکہ اسی لئے تو میں نے تمہیں یہاں بلایا ہے، اور میری امی کی تم فکر مت کرو ، وہ تو حیدرآباد گئی ہوئی ہیں ، اپنی بہن کے گھر"۔جنید اب آرزو کے بہت قریب آچکا تھا۔
"ہٹو ، جارہی ہوں میں"۔آرزو نے کہا۔اور جانے کی کوشش کرنے لگی۔پر جنید نے اسے بازو سے پکڑ کر پھر وہیں کھڑا کردیا۔
"چلی جانا اتنی بھی کیا جلدی ہے ، پر پہلے میری بات تو سن لو"۔جنید نے آرزو کو بازؤں سے پکڑ کر قریب کرتے ہوئے کہا۔
"چٹاخ"۔آرزو نے پوری قوت سے جنید کو تھپڑ مارا۔
"یہ کیا گھٹیا حرکت ہے ! میں تمہیں کتنا شریف سمجھتی تھی ، اور تم اندر سے کیا نکلے"۔آرزو نے کہا۔
"ہاں تو اگر میں یہ شرافت کا ڈھونگ نہیں کرتا تو تم یہاں تک کیسے آتی! اور آج بھی میں نے تمہیں جھوٹ بول کر ہی یہاں بلایا ہے"۔جنید نے اپنے گال پر ہاتھ رکھ کر کہا۔آرزو ان سب پر دنگ ہوگئی تھی۔آرزو نے جنید کو دھکا دے کر دروازے کی جانب جانے کی کوشش کی۔پر جنید نے آرزو کو بازو سے پکڑ کر واپس کھینچ لیا۔اور زور سے بیڈ پر تقریباً پھینکا۔اور خود بھی اس کے اوپر جھک گیا۔اس زور زبردستی میں آرزو کا فون بھی گر کر ٹوٹ گیا تھا۔آرزو نے آس پاس ہاتھ مارا تو اسکا ہاتھ سائیڈ ٹیبل پر رکھے گلدان سے ٹکرایا۔آرزو نے ایک سیکنڈ بھی ضائع کئے بغیر گلدان پوری قوت سے جنید کے سر پر مارا۔جنید اس اچانک حملے کیلئے تیار نہیں تھا۔اس لئے سر پکڑ کر بیڈ پر گر گیا۔آرزو جلدی سے دروازے کی جانب بھاگی۔اس سے پہلے کے وہ لاک کھول کر باہر نکلتی۔جنید نے پھر اسے پکڑ لیا۔اور واپس کمرے میں لے آیا۔جنید کے سر سے خون نکل رہا تھا۔پر وہ کسی بھی قیمت پر آرزو کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتا تھا۔
"تم یہ ٹھیک نہیں کررہے ہو ، میں تمہارے بارے میں سب کو بتا دوں گی"۔آرزو نے چیختے ہوئے کہا۔
"بتاؤ گی تو تب ناں ، جب تم یہاں سے زندہ واپس جاؤگی، ایسی جگہ تمہاری لاش ٹھکانے لگاؤں گا کہ کوئی ڈھونڈ بھی نہیں پاۓ گا"۔جنید نے کہا۔آرزو کو جنید سے بہت خوف آرہا تھا۔اور اسکی آنکھوں سے آنسو نکلنا شروع ہوگئے تھے۔اور اس وقت بس اللّه کے حکم سے کوئی فرشتہ ہی آکر اسے بچا سکتا تھا۔اس سے پہلے کے جنید کچھ اور کرتا اچانک ڈور بیل بجی۔ڈور بیل کی آواز سن کر جنید کو تعجب ہوا اور آرزو کو ایک امید ملی۔
"بچا........!۔آرزو پوری قوت سے چلانے والی تھی کہ جنید نے اسکے منہ پر کس کر ہاتھ رکھ دیا۔ڈور بیل مسلسل بج رہی تھی۔جنید کچھ دیر خاموشی سے ایسے ہی آرزو کے منہ پر ہاتھ رکھے کھڑا رہا۔جنید نے ایک ہاتھ آرزو کے منہ پر رکھا ہوا تھا۔اور دوسرے ہاتھ سے اسکے دونوں ہاتھ پکڑے ہوئے تھے۔نازک سی آرزو کو قابو کرنا لمبے چوڑے جنید کیلئے زیادہ مشکل نہیں تھا۔آرزو مسلسل روئے جارہی تھی۔تھوڑی دیر ڈور بیل بجتی رہی۔پھر بند ہوگئی۔دروازے پر جو بھی تھا وہ جاچکا تھا۔جنید نے اپنی گرفت آرزو پر تھوڑی ڈھیلی کردی۔اور ہاتھ اب منہ کے بجائے گردن کے گرد لپیٹ دیا۔کہ تب ہی آرزو نے پوری قوت سے اپنی دانت اسکے ہاتھ پر گاڑ دیئے۔اور جنید درد سے چلا اٹھا۔آرزو پھر باہر بھاگی۔پر کمرے سے باہر نکل نہیں پائی۔جنید نے پھر اسے پکڑ لیا۔اور بیڈ پر پٹخ دیا۔اور پھر اس پر جھک گیا۔آرزو نے اپنے ہونٹ اور آنکھیں بند کرکے کس کے سے میچھ لی۔اس سے پہلے کے جنید اپنے ارادوں میں کامیاب ہوتا۔زوردار آواز کے ساتھ کھڑکی کا شیشہ ٹوٹا۔اور ارمان فرش پر آکر گرا۔دونوں نے ہی اسکی جانب دیکھا۔ارمان ایک جھٹکے سے اٹھا اور جنید کو گریبان سے پکڑ کر آرزو کے اوپر سے ہٹایا۔اور اس پر لاتوں اور گھونسوں کی بارش کردی۔جواب میں جنید بھی اسے مارنے لگا۔آرزو جلدی سے بیڈ سے اٹھ کر ایک سائیڈ پر کھڑی ہوگئی۔اس زور زبردستی میں آرزو کا دوپٹہ بھی کہیں گر گیا تھا۔آرزو نے جلدی سے فرش پر سے اپنا دوپٹہ اٹھا کر اوڑھا۔ارمان اور جنید بری طرح ایک دوسرے کو مار رہے تھے۔آرزو کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے ! کیسے یہ سب روکے! کہ تب ہی آرزو اچانک سے کمرے سے باہر بھاگی۔اور لاؤنچ میں رکھے پی۔ٹی۔سی۔ایل کی جانب آئی۔اور پولیس کو فون کرنے لگی۔پولیس کو فون کرکے آرزو جلدی سے باہر کی جانب بھاگی۔پر میں گیٹ پر تالا لگا ہوا تھا۔جو یقیناً جنید نے ہی لگایا تھا۔آرزو پھر واپس اندر آئی۔جہاں جنید اور ارمان لڑ رہے تھے۔دونوں بہت بری طرح زخمی ہوچکے تھے۔پر ایک دوسرے کو چھوڑنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔اچانک سے جنید نے ارمان کو ایک جانب پھینکا۔اور سائیڈ ٹیبل کی جانب آیا۔آرزو نے جلدی سے بھاگ کر ارمان کو سہارا دے کر اٹھایا۔تب تک جنید دراز سے ایک تیز دھار چاکو نکال چکا تھا۔اور ان دونوں کے قریب آیا۔ارمان نے آرزو کو اپنی آڑ میں کر لیا۔اور خود اسکے آگے کھڑا ہوگیا۔
"تیرے بارے میں میرا اندازہ بالکل ٹھیک تھا، تو انہی لوگوں میں سے ہے جن کا ظاہر کچھ اور ہوتا ہے اور باطن کچھ اور"۔ارمان نے کہا۔
"پر اب تمہارے اس اندازے کا کوئی فائدہ نہیں ہے"۔جنید نے دونوں کی جانب بڑھتے ہوئے کہا۔
"تو نے یہاں آکر اچھا نہیں کیا ، پر کوئی بات نہیں ، پہلے میں صرف ایک قتل کرتا ، پر اب مجھے دو قتل کرنے پڑیں گے، پر میں کسی بھی قیمت پر آرزو کو یہاں سے جانے نہیں دوں گا، اور نا ہی تو واپس جائے گا"۔جنید نے کہا۔اور ارمان پر حملہ کردیا۔ارمان نے بچنے کی کوشش کی پر پھر بھی چاکو اسکا بازو زخمی کرگیا۔دونوں میں پھر ہاتھا پائی شروع ہوگئی تھی۔اور جنید نے ارمان کو چاکو سے بہت زخمی کردیا تھا۔اور جگہ جگہ سے ارمان کے جسم سے خون نکل رہا تھا۔کہ تب ہی باہر سے بہت زوردار فائر کی آواز آئی۔تینوں ہی اس پر چونک گئے۔آرزو جلدی سے باہر آئی۔ایک پولیس والا دیوار کود کر اندر آیا تھا۔اور تالے پر فائر کرکے اسے توڑ کر دروازہ کھولا۔اور باقی کی ٹیم بھی اندر آگئی۔

"آپ نے ہمیں فون کیا تھا؟۔انسپکٹر نے پوچھا۔
"جی ، جلدی چلیں"۔آرزو نے کہا۔اور اندر کی جانب بھاگی۔پولیس نے کمرے میں پہنچ کر جنید کو حراست میں لے لیا۔جنید کے پاس اب فرار کا کوئی راستہ نہیں تھا۔جنید کو وہ لوگ پولیس اسٹیشن لے گئے۔اور آرزو اور ارمان کو ایک حوالدار کے ساتھ ہوسپٹل بھیج دیا۔کیونکہ ارمان بہت زخمی ہوگیا تھا۔
*******
جنید نے آرزو کو جھوٹ بول کر اپنے گھر بلایا تھا۔وہ تو آرزو کی قسمت اچھی تھی کہ ارمان بھی اسی وقت صارم کے بہت کہنے پر جنید سے ملنے آگیا تھا۔پر جب کافی دیر تک کسی نے دروازہ نہیں کھولا۔تو ارمان کو تشویش ہوئی۔اور وہ گھوم کر گھر کی پچھلی سائیڈ پر آگیا۔اور کھڑکی سے اندر دیکھنے لگا۔اتفاق سے جنید اور آرزو اسی کمرے میں تھے۔ارمان کو کھڑکی سے یہ تو نظر نہیں آیا تھا کہ وہ لڑکی آرزو ہے۔پر اس نے یہ دیکھ لیا تھا کہ جنید کسی لڑکی سے زبردستی کرنے کی کوشش کررہا ہے۔اور ارمان فوراً کھڑکی توڑتے ہوئے اندر آگیا۔اور تب اسے پتہ چلا کہ وہ لڑکی آرزو تھی۔جنید کو پولیس نے گرفتار کرلیا تھا۔اور اب وہ اتنی آسانی سے رہا ہونے والا نہیں تھا۔آرزو اور ارمان ہوسپٹل آگئے تھے۔
آرزو نے وقار کو فون کرکے سب بتا دیاتھا۔اور وقار نے پورے گروپ کے ساتھ ساتھ آرزو اور ارمان کے گھر والوں کو بھی اطلاع کردی تھی۔اور وہ لوگ بس کسی بھی وقت وہاں آنے والے تھے۔ڈاکٹر نے ارمان کی پٹی وغیرہ کرکے اسے انجکشن دے دیا تھا۔ارمان اس وقت ہوسپٹل کے ایک روم میں بیڈ پر سرہانے سے ٹیک لگا کر بیٹھا ہوا تھا۔اور آرزو ابھی ابھی فون کرنے کے بعد کمرے میں داخل ہوئی تھی۔آرزو آہستہ سے چلتے ہوئے بیڈ کے پیرہانے پر بیٹھ گئی۔
"میں نے وقار کو فون کردیا ہے ، سب لوگ بس کچھ دیر میں آنے والے ہوں گے"۔آرزو نے ناخن سے کھیلتے ہوئے بتایا۔
"تم اکیلے وہاں کیا کرنے گئی تھی؟۔ارمان نے پوچھا۔پھر آرزو نے اسے ساری بات بتائی کہ کیسے جنید نے اسے جھوٹ بول کر وہاں بلایا تھا۔
"میں جب کہتا تھا کہ اس سے دور رہو ، تو تم الٹا مجھ سے لڑتی تھی"۔ارمان نے کہا۔
"مجھے لگا کہ تمہیں جنید کے بارے میں غلط فہمی ہے ، کیوں بظاہر تو وہ........!
"ضروری نہیں ہے کہ جو انسان ظاہری طور پر جیسا ہو باطنی طور پر بھی ویسا ہی ہو ، اب جیسے اسامہ ہے ، ٹھیک ہے میں اسے بھی اتنا پسند نہیں کرتا ، پر وہ جیسا اندر سے ہے ، ویسا ہی باہر سے ہے ، اور جنید جیسے لوگ ، جو باہر سے کچھ اور ، اندر سے کچھ اور ہوتے ہیں ، وہ بہت خطرناک ہوتے ہیں ، اور خاص طور پر لڑکیوں کو چاہیے کہ بہت احتیاط برتیں ، کیونکہ تمہیں تو خوش قسمتی سے میں نے بچالیا ، پر ضروری نہیں ہے کہ ہر لڑکی کو عین وقت پر کوئی ارمان بچانے آجائے"۔ارمان نے آرزو کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔آرزو نے کچھ نہیں کہا۔بس نظریں جھکائے بیٹھی رہی۔
ارمان نے بھی آرزو کی شرمندگی کو نوٹ کرتے ہوئے اس بارے میں اور بات نہیں کی۔
"تمہیں پتہ ہے مجھے تمہارا جنید سے بات چیت کرنا اور بھی اچھا کیوں نہیں لگتا تھا!۔ارمان نے پوچھا۔
"کیوں ؟۔آرزو نے ارمان کی جانب دیکھ کر پوچھا۔
"کیونکہ میں......!
"یار یہ سب کیا ہوگیا؟۔اس سے پہلے کے ارمان اپنی بات مکمل کرتا۔عماد بولتا ہوا کمرے میں داخل ہوا۔اور اس کے پیچھے باقی کا گروپ بھی آگیا۔اور ارمان کی بات ایک بار پھر ادھوری رہ گئی۔پر کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں۔جو لفظوں کی محتاج نہیں ہوتی۔بس ان کو سمجھنے کیلئے سمجھنے والی نظر چاہیے ہوتی ہے۔اور آرزو بھی ارمان کے بولے بنا ہی سمجھ چکی تھی۔
ختم شد

0 Comments: